ابنِ عباس
معاون قلم کار
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ: أَقْبَلَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَقَالَ: «يَا مَعْشَرَ الْمُهَاجِرِينَ خَمْسٌ إِذَا ابْتُلِيتُمْ بِهِنَّ وَأَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ تُدْرِكُوهُنَّ: لَمْ تَظْهَرِ الْفَاحِشَةُ فِي قَوْمٍ قَطُّ، حَتَّى يُعْلِنُوا بِهَا، إِلَّا فَشَا فِيهِمُ الطَّاعُونُ، وَالْأَوْجَاعُ الَّتِي لَمْ تَكُنْ مَضَتْ فِي أَسْلَافِهِمُ الَّذِينَ مَضَوْا، وَلَمْ يَنْقُصُوا الْمِكْيَالَ وَالْمِيزَانَ، إِلَّا أُخِذُوا بِالسِّنِينَ، وَشِدَّةِ الْمَئُونَةِ، وَجَوْرِ السُّلْطَانِ عَلَيْهِمْ، وَلَمْ يَمْنَعُوا زَكَاةَ أَمْوَالِهِمْ، إِلَّا مُنِعُوا الْقَطْرَ مِنَ السَّمَاءِ، وَلَوْلَا الْبَهَائِمُ لَمْ يُمْطَرُوا، وَلَمْ يَنْقُضُوا عَهْدَ اللَّهِ، وَعَهْدَ رَسُولِهِ، إِلَّا سَلَّطَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ عَدُوًّا مِنْ غَيْرِهِمْ، فَأَخَذُوا بَعْضَ مَا فِي أَيْدِيهِمْ، وَمَا لَمْ تَحْكُمْ أَئِمَّتُهُمْ بِكِتَابِ اللَّهِ، وَيَتَخَيَّرُوا مِمَّا أَنْزَلَ اللَّهُ، إِلَّا جَعَلَ اللَّهُ بَأْسَهُمْ بَيْنَهُمْ»(سنن ابنِ ماجہ )
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا: ’’اے گروہ ِمہاجرین! پانچ برائیاں ایسی ہیں کہ اگر تم میں آ گئیں تو تمھیں ابتلاؤں کا سامنا کرنا پڑے گا اور میں اللہ سے پناہ مانگتا ہوں کہ تم ان میں مبتلا ہو جاؤ، جس قوم میں فحاشی پھیل جائے اور اس کا ارتکاب اعلانیہ کرنے لگیں تو اس قوم میں طاعون اور ایسی بیماریاں پھیل جاتی ہیں جو ان کے آباو اجداد میں کبھی نہیں پائی گئیں۔ اور جب لوگ ناپ تول میں کمی کرنے لگیں تو انھیں خشک سالی اور ضروریاتِ زندگی کی تنگی اور حکومتوں کی سختی سے پالا پڑے گا اور اگر لوگ مالوں کی زکاۃ ادا نہ کریں تو ان سے بارشیں روک لی جاتی ہیں اور اگر جانور نہ ہوتے تو بارش بالکل ہی نہ دی جاتی اور کوئی بھی قوم اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے عہد کو نہیں توڑتی مگراللہ اس پر بیرونی دشمن مسلط کر دیتا ہے پس وہ ان کی بعض چیزوں کو چھین لیتے ہیں اور کسی قوم کے حاکم کتاب اللہ کے مطابق فیصلے نہ کریں اور اللہ کی نازل کردہ شریعت میں تبدیلیاں کریں تو اللہ ان کے درمیان لڑائی ڈال دیتا ہے۔
تشریح
حدیثِ مبارکہ میں اگرچہ اولین اور براہِ راست خطاب جماعتِ مجاہدین سے ہے لیکن حدیث کی ہدایت عام ہے اور تمام ہی مسلمان اس کے مخاطبین میں شامل ہیں۔
پہلی برائی: حدیث میں سب سے پہلے جس خصلتِ بد کا ذکر کیا گیا وہ زنا ہے۔ اس کی سزا مختلف بیماریوں کا ظہور ہے خاص طور پر ایڈز نامی بیماری زیادہ تر اسی برائی کا شاخسانہ ہے۔
دوسری برائی: ناپ تول میں کمی کرنا ہےاس جرم کی پاداش میں تین سزائیں بیان ہوئی ہیں پہلی یہ کہ انھیں خشک سالی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ بارشیں صحیح وقت پر نہیں ہوتیں اور بجائے نفعے کے ضرر رساں بن جاتی ہیں۔ دوسری سزا ضروریاتِ زندگی کی ناپیدی ہے یہ غلہ اور پیداوار کی کمی اور مہنگائی کے سبب ہو گا اور تیسری سزا بادشاہوں کا ظلم و ستم ہے۔ اس کی عام صورت تو یہ ہے کہ ملک میں اشیا کی قلت کے باوجود اپنے شاہانہ اخراجات کو جاری رکھتے ہیں اور اس کی خاص صورتیں بھی ہیں کہ ظالمانہ ٹیکس لگانا، اصلاح کی آواز بلند کرنے والوں پر تازیانے برسانا اور ظالمانہ سزاؤں کا نفاذ کرنا۔
تیسری برائی: زکاۃ نہ ادا کرنا ہے یہ برائی بھی عام ہے۔ زکاۃ ادا نہ کرنے والوں کے لیے آخرت میں بھی عذابِ الیم ہے لیکن اس کی دنیاوی سزا میں آسمان سےبارشیں روک دی جاتی ہیں۔ اللہ کی طرف سے رحمت اور برکت کی علامت بارش کو روکنا اللہ تعالیٰ کے غضب کی نشانی ہے۔ تھوڑی بہت بارشوں کا نزول بے زبان جانوروں کے لیے ہوتا ہے جس کے وسیلے سے ہم انسانوں کو بھی کچھ حصہ مل جاتا ہے۔ اس سے یہ بھی اشارہ نکلا کہ اللہ کی نافرمانی کا ارتکاب کر کے انسان جانوروں سے بھی پرلے درجے میں جا پڑتا ہے۔ چوتھی برائی: اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے عہد سے مراد عہدِ شریعت ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے احکام اور رسول اللہ ﷺ کی سنت پر عمل پیرا ہونے کا عہد کرنا ہے۔ یہ عہد کلمہ پڑھتے ہی انسان پر لاگو ہو جاتا ہے۔ اس میں وہ وعدے بھی شامل ہیں جو انسان اللہ تعالیٰ سے کرتا ہے یا اللہ تعالیٰ کے نام پر انسانوں سے کرتا ہے۔ تو اللہ ان لوگوں پر باہر سے دشمن مسلط کرتے ہیں۔ دشمن کا یہ تسلط کبھی تو براہِ راست ہوتا ہے جیسا کہ قیامِ پاکستان سے پہلے انگریز کی حکومت کی صورت میں تھا اور کبھی یہ تسلط معنوی ہوتا ہے جس کے نتیجے میں لوگ غیر ملکی قوتوں کی کاسہ لیسی اور ان کی پالیسیوں پر عمل در آمد کرتے ہیں جس کے نتیجے میں اس نافرمان ملک کے اموال و اثاثہ جات بیرونی قوتوں کی تحویل میں چلے جاتے ہیں۔ پانچویں برائی: حکمرانوں کا کتاب اللہ اور شریعت کے مطابق قانون سازی اور فیصلہ سازی نہ کرنا ہے یا پھر شریعت کے من پسند احکام پر عمل کر لیا جائے اور جو اپنے مفاد کے خلاف نظر آئیں ان پر عمل نہ کیا جائے۔
فائدہ: ملکِ پاکستان اس وقت معاشی و معاشرتی بدحالی سے دوچار ہے۔ مندرجہ بالا حدیثِ مبارکہ کا حاصل یہ ہے کہ یہ حالات ہمارے اعمال کے سبب ہیں پس اصلاحِ احوال کے لیے اصلاحِ اعمال ضروری ہے۔