لاگ ان

ہفتہ 21 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 23 نومبر 2024

لاگ ان

ہفتہ 21 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 23 نومبر 2024

لاگ ان / رجسٹر
ہفتہ 21 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 23 نومبر 2024

ہفتہ 21 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 23 نومبر 2024

مولانا غلام الله خان رحمہ اللہ
عظیم مفسرِ قرآن

دارالعلوم دیوبند کی خدمات

نوٹ: دارالعلوم دیوبند کے صدسالہ اجلاس کی عدیم النظیر تقریب میں حضرت شیخ القرآن مولانا غلام الله خان رحمہ اللہ کا تاریخی خطاب۔

بعد از خطبہ و تمہید

میں شرحِ صدر کے ساتھ کہہ سکتا ہوں، کہ اس برصغیر پاک و ہند میں، اللہ تعالی کے مقبول اور محبوب بندوں کی جماعت ہے، تو وہ اکابرین علماے دیوبند ہیں، جن میں حجۃ الاسلام مولانا محمدقاسم نانوتوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی حیثیت، سیدالطائفہ یا سرخیل کی سی ہے، شاید میرے اسی جذبۂ صادقہ کی وجہ سے خالقِ کائنات نے میری کم مائیگی اور بے بضاعتی کی لاج رکھ لی ہو کہ مجھے اس کے مقبول و محبوب بندوں سے والہانہ محبت ہے اور اسی محبت کو میں دنیا و عقبیٰ کی سرخ روئیوں کا پیش خیمہ سمجھتا ہوں۔

أُحِبُّ الصّالِحِینَ وَ لَسْتُ مِنهُم
لَعَلَّ اللهَ یَرزُقُني صَلاحاً

آج کی نام و نمود اور ریا و نمائش کی دنیا میں ہر طبقے کے لوگ اسی دھن میں سرگرداں ہیں کہ دنیا کی تاریخ میں ان کا نام بھی جلی سرخی سے آجائے اور وہ اس بے حقیقت ناموری اور شہرت کے لیے اپنے مال و زر حتیٰ کہ جان کی بازی بھی لگادیتے ہیں، لیکن اس دنیاے رنگ و بو میں ایسی نادرِ زمانہ اور نابغۂ روزگار ہس تیوں نے بھی جنم لیا ہے کہ تاریخ نے اپنے وجود کو قائم رکھنے کے لیے ان ہستیوں کی دہلیز پر جبہہ سائی کی اور ان کے تذکارِ شریفہ اور حالاتِ حمیدہ کو اپنے اندر سمیٹ کر اپنے دور کو محفوظ کرلیا گویا کہ یہ وہ ہستیاں ہیں جن کے پیچھے تاریخ کاسۂ گدائی لیے پھرتی ہے، کیونکہ وہ سمجھتی ہے کہ میرا وجود اور دم خم اگر باقی رہ سکتا ہے تو انھی نفوسِ قدسیہ کے وجودِ مسعود سے رہ سکتا ہے اور یہی وہ ہستیاں ہیں کہ جن کو دیکھنے کے لیے چشمِ فلک متجسس رہتی ہے اور یہ نعمت اس کو خال خال نصیب ہوتی ہے۔

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے

واہ میرے شیخ نانوتوی رحمہ اللہ

انھی عبقری صفت ہستیوں میں ایک ہستی کا نام ہے بانی دارالعلوم دیوبند، حجۃ الاسلام، قاسم العلومِ والخیرات، ح ضرت مولانا محمدقاسم نانوتوی صاحب رحمہ اللہ، جو اپنی جگہ مجسمۂ شرم و حیا، پیکرِ صدق و صفا، علم و عرفان کا چشمہ ٔصافی بلکہ بحرِ ذخّار اور جراَت و بَسالت اور ہمت و استقلال کے جبلِ غیرمتزلزِل تھے، ان کی زندگی کے اوصاف وکمالات کو، تقریر و تحریر میں اور قلیل در قلیل وقت میں سمیٹنا یا سمیٹنے کا دعویٰ کرنا ایسا ہے جیسا کہ ذرےکو اس بات کا مکلف ٹھہرایا جائے کہ وہ آفتاب کی پہنائیوں کو اپنے اندر سمیٹ لے، چہ جائیکہ مجھ جیسا اس معدنِ علم و عمل اور مخزنِ اسرار و رموز کا ادنی خوشہ چین یہ جسارت کرے کہ:

ز وَصفِ ناتمامِ ماجمالِ یار مستغیثت
بہ آب و رنگ و خال و خط چہ حاجت روے زیبا را

اور اردو کا بھی ایک مشہور محاورہ ہے کہ: ہونہار بِروا کے چکنے چکنے پات۔

حضرت نانوتوی رحمہ اللہ کا پہلا خواب

چنانچہ حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب نے فرمایا ہے کہ مولانا نانوتوی رحمہ اللہ نے ایامِ طالبِ علمی میں ایک خواب دیکھا تھا کہ میں کعبہ کی چھت پر ہوں اور مجھ سے بہت سی نہریں جاری ہو کر تمام اطراف کو جارہی ہیں۔

حضرت نانوتوی رحمہ اللہ کا دوسرا خواب

نیز آپ نے خواب میں دیکھا کہ میں کعبہ کی چھت پر ہوں اور میرا منہ کوفہ کی طرف ہے اور ادھر سے ایک نہر آتی ہے جو میرے پاؤں سے ٹکرا کر واپس جارہی ہے اگر ان خوابوں پر کوئی صاحبِ دانش و بیِنش ادنی سا غور کرے، تو حضرت نانوتوی رحمہ اللہ کے زندگی بھر کے ان علمی اور عملی کارناموں کی جیتی جاگتی تصویر و تعبیر سامنے آجاتی ہے جو انہوں نے عشق و محبت سے سرشار ہو کر بقاے دین اور تحفظِ دین کے لیے سرانجام دیے ہیں۔

اے سرزمینِ دیوبند

میرے محترم دوستو! دارالعلوم دیوبند کی بنیاد، اعدائے دین کے خلاف اسلام کی وکالت میں، مناظروں کی صورت میں، دلائل و براہین کی یلغار میں، اپنی تصانیف و تالیفات میں، متکلمانہ و منطقیانہ انداز میں اور فلسفیانہ ابحاث کا انبار لگانے میں، اپنے علمی و روحانی فرزندوں میں، مسلکِ حنفیت کی چار دانگِ عالم میں، عقلی و نقلی تحقیق و ریسرچ کا ایک بحرِ ذخّار ہونے میں، وقت کے نماردہ فراعنہ اور جبابرہ کے خلاف بھرپور جذبۂ جہاد میں، شہرت و للکار اور انھی خوابوں کے بہار کے خوشگوار جھونکوں کی صداے بازگشت ہے۔

صحنِ چمن کو اپنی بہاروں پہ ناز تھا
وہ آگئے تو ساری بہاروں پہ چھا گئے

دنیا کا وہ کونسا کونہ ہے جہاں حضرت نانوتوی رحمہ اللہ کے فرزندوں نے کفر و الحاد اور شرک و زَندقہ کے خلاف اسلام کی صداقت اور حقانیت و سطوت اور حشمت کے جھنڈے نہ گاڑے ہوں، میرے اس دعوے میں سرِ مُو مبالغے کی آمیزش نہیں اور نہ ہی اس دعوے کی تائید کے لیے کسی وزنی سے وزنی دلیل کی تلاش ہے، دنیاے عالم سے آنے والے مشائخِ عظام، علماے اسلام اور فضلاے کرام کا یہ جمِ غفیر اور ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر اور یہ ایک عظیم الشان اجتماع میرے اس دعوے کے لیے بیِّن ثبوت اور واضح دلیل ہے اور حضرت نانوتوی رحمہ اللہ کی جہدِ مسلسل اور عملِ پیہم کے یہ ثمرات دیکھ کر ایک شخص والہانہ اور بے ساختہ پکار اٹھتا ہے:

شاد باش و شاد زی اے سرزمینِ دیوبند
ہند میں تو نے کیا اسلام کا جھنڈا بلند

روشنی سے محروم ستارے

میرے دوستو! دنیا میں کئی یونیورسٹیاں معرضِ وجود میں آئیں بعض تو محض دنیا کے لیے اور بعض بظاہر اسلام کے لیے ان اداروں سے ہمیں کیا امید کی کرن نظر آسکتی ہے جن کی بنیاد ہی دنیا پر ہو اور ستم ظریفی کی بات تو یہ ہے کہ جو مراکز اسلام کی نمائندگی کے لیے تعمیر کیے گئے تھے ان میں سے بھی اس زمانے میں ایسے کَل پرزے منظرِ عام پر آئے کہ جن کا اسلام کی فیکٹری سے تیار کردہ کَل پر زوں سے دور کا بھی واسطہ نہ تھا اور ’’آنکس کہ خود گم است کرا رہبری کند‘‘ کا بعینہ مصداق تھے۔ ایک اور شاعر کی شاعری اس پر صادق آتی ہے کہ:

دکھا سکیں جو نہ راہِ منزل میں ان اشاروں کو کیا کروں گا
جو خود ہوں محروم روشنی سے میں ان ستاروں کو کیا کروں گا

لیکن دارالعلوم دیوبند سے جس کی بنیاد حضرت نانوتوی رحمہ اللہ نے رکھی، ایسے جواہرِ نایاب اس صفحۂ ہستی پر نمودار ہوئے کہ جن کی آب و تاب اور چمک دمک سے اہلِ جہاں کی آنکھیں خیرہ ہوگئیں اور وہ بہ زبانِ حال پکار اٹھیں:

اگر چہ میکدے سے اٹھ کے چل دیا ساقی
وہ مے وہ خم وہ صراحی وہ جام باقی ہے

میری امیدوں کا چمن

ان شاء اللہ العزیز حضرت نانوتوی رحمہ اللہ کی زندہ تابندہ اور درخشندہ یادگار، دارالعلوم دیوبند ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اور عالمِ انسانیت کے لیے چراغِ راہ اور مینارۂ نور ثابت ہوتی رہے گی اور یہ سب حضرت نانوتوی رحمہ اللہ کے خلوص و للہیت اور ایثار و قربانی کا فیض ہے کیونکہ اس چمنستانِ علم و عرفان اور اس کے سدابہار پودوں کو انھوں نے اپنے جگر کا خون دے کر سینچا تھا اور اللہ تعالیٰ نہایت قدردان ہے اپنے کسی مخلص بندے کی محنت کو ضائع نہیں فرماتا، چنانچہ ارشاد ہوتا ہے﴿إِنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ﴾ بیشک اللہ پاک کسی کے اجر کو ضائع نہیں کرتے۔حضرت نانوتوی رحمہ اللہ اقبالؒ کے الفاظ میں اس دعا اور خواہش کے ساتھ عالمِ آخرت کو سدھارے:

پھلا پھولا رہے یا رب چمن میری امیدوں کا
جگر کا خون دے دے کے یہ بوٹے میں نے پالے ہیں

اسلام فروش کون؟

شیطان نے اپنی فتنہ پردازی اور دسیسہ کاری کے گوناگوں اور بوقلَموں جال بچھائے اور اپنے مکر و فریب اور دجل و تلبیس کی تکمیل میں، مختلف اندازوں اور طریقوں سے فرقِ باطلہ کو جنم دیا، کہیں تو برٹش گورنمنٹ جیسی ظالم اور اسلام دشمن حکومت کو قادیانیت کی صورت میں بیساکھی فراہم کی، کہیں آقاے نامدار ﷺ کی تربیت یافتہ اور فیض یافتہ اسلام کی نمائندہ جماعت حضرات صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عدالت و ثقاہت کو ساقط کرنے کے لیے رفض و شیعیت اور تجدیدِ سبائیت کے فتنوں کو جنم دیا اور توحید و سنت کے انوار و تجلیلات سے مسلمانوں کو دور رکھنے کے لیے خوشامدی، کاسہ لیس، حاشیہ بردار، ٹوڈی قسم کے مولویوں، اور پیرانِ پارسا کی ایسی فوج انگریز لعین کی آغوش میں تیار کی کہ جنھوں نے شرک و بدعت کی نجاست و غلاظت سے عوام الناس کے قلوب و اذہان کو ملوث کردیا اور اپنے انگریز آقا کو خوش کرنے کے لیے داعیانِ توحید و سنت کے خلاف ایک طوفانِ بدتمیزی برپا کردیا۔

سرفروشانِ اسلام

آقاے نامدار، فخرِ موجودات، سرورِ کائنات، حضرت محمد ﷺ کے اقوال و ارشادات سے اعتماد اٹھانے کے لیے فتنۂ انکارِ حدیث کی آبیاری کی۔ دہریت، عیسائیت اور آریہ و غیرہ کے فتن اس سے مستزاد تھے لیکن فتنہ و فساد اور الحاد و زَندقہ کی ان آندھیوں اور طوفانوں میں حضرت نانوتوی رحمہ اللہ اور فرزندانِ نانوتوی رحمہ اللہ نے احقاقِ حق اور ابطالِ باطل کے چراغ روشن کیے ہیں، اور ایسے مردانہ وار ان فتنوں کا مقابلہ کیا کہ ہر فتنے کی سرکوبی اور بیخ کنی کے لیے سردھڑ کی بازی سے بھی دریغ نہیں کیا اور اس طرح فرزندانِ نانوتوی رحمہ اللہ کے حق کے مسلسل ہتھوڑوں سے ہر فتنہ کا سر پاش پاش ہوگیا:

آئینِ جواں مرداں حق گوئی و بے باکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی

حضرت نانوتوی رحمہ اللہ کے مناظروں کی تحریری دستاویزات اور بیش بہا تصانیف و تالیفات اور ان کے روحانی فرزندوں کی علمی اور قلمی خدمات اس قدر ہیں کہ علومِ اسلامیہ کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جہاں ان ہستیوں نے خامہ فرسائی کی ہو اور اسلام کی قابلِ قدر خدمت کی جھلک نہ دکھائی ہو، تراجمِ قرآنِ مجید ہوں، تفاسیرِ قرآنِ مجید ہوں، صرف اور نحو کے علوم ہوں، منطق اور فلسفے کے علوم ہوں، ذخیرۂ احادیث کی شروح ہوں، فقہ اور اصولِ فقہ کے علوم ہوں، غرض یہ کہ علمی تحقیق کے ہر میدان میں اپنی مہارت و حذاقت کے پرچم لہرائے ہیں بلکہ ان کتابوں پر شروح و حواشی لکھ کر ہر اشکال اور ابہام و اغلاق کو دور کر کے تمام اہلِ علم اور اصحابِ تحقیق پر احسان کیا چنانچہ حضرت نانوتوی رحمہ اللہ اور فرزندانِ نانوتوی رحمہ اللہ کے علمی کارنامے دیکھ کر ہر مسلمان کا سر فخر و مباہات سے اونچا ہو جاتا ہے اور دارالعلوم دیوبند کا ہر عقیدت مند غیر کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر اس کو للکار سکتا ہے کہ:

أُوْلٓئِکَ أٓبائي فَجِئْني بِمِثْلِهِمْ
إِذَا جَمَعَتْنا یا جَرِیْرُ المَجَامِعُ

ہمارا درسِ نظامی

میرے دوستو! ہمارے درسِ نظامی میں دو قسم کے علوم و فنون کی تعلیم و تعلم کا سلسلہ جاری ہے: مبادیات کے درجے میں اور مقاصد کے درجے میں۔مقاصد کے درجے میں تو ظاہر ہے کہ قرآن و حدیث اور فقہِ اسلامی کی تعلیم ہے اور مبادیات میں پھر دو قسم کے علوم ہیں: صرف اور نحو، ادب اور معانی۔یہ مبادیات ہیں جو إیصال إلی المطلوب و المقصود میں سنگِِ میل کی حیثیت رکھتے ہیں اور علمِ منطق و فلسفہ وہ مبادیات ہیں جو یا تو تشحیذ اذہان کے لیے پڑھائے جاتے ہیں یا ان علوم کی راہ سے جو غیراسلامی نظریات ہمارے علومِ اسلامیہ میں بھی سرایت کر گئے تھے، تو ان علوم کا دفعیہ اور ازالہ انھی علوم کے قواعد و ضوابط کی رو سے کرنا مقصود تھا۔ لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ بعض نام نہاد اسلامی درس گاہوں میں اسی منطق و فلسفہ کی تعلیم کی اشاعت و اذاعت کو ہی اسلام کی خدمت سمجھ لیا گیا تھا اور سارا زور مقصود سے بے گانہ ان علوم پر لگایا جاتا تھا اور ان درسگاہوں میں قرآن و حدیث و فقہِ اسلامی کی تعلیم آٹے میں نمک کی نسبت بھی نہ رکھتی تھی۔

بحرالعلوم حضرت نانوتوی رحمہ اللہ

حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی صاحب رحمہ اللہ صرف ان علوم کے ماہر و حاذق ہی نہیں تھے بلکہ وہ ان علوم کے بہترین نقاد ہونے کے باوجود ان کی کمزوریوں اور کثافتوں کے عظیم تریاق بھی تھے بلکہ میں اگر یوں کہہ دوں تو بے جا نہ ہوگا کہ اگر بوعلی سینا بھی حضرت نانوتوی رحمہ اللہ کی منطق کو دیکھتا تو سر دھنے بغیر نہ رہ سکتا، ان کے سامنے ارسطو و افلاطون کی ذہانت بھی ہیچ نظر آتی ہے۔ بعض مناطقہ و فلاسفہ کے غلو سے جو غیراسلامی نظریات مسلمانوں میں رواج پکڑ رہے تھے، حضرت نانوتوی رحمہ اللہ نے ہر باطل اور غیراسلامی نظریے کو عقلی و نقلی دلائل و براہین میں لا کر اور منطقیانہ و فلسفیانہ بحث و تمحیص سے انھیں بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکا ہے چنانچہ فلاسفہ کے ان خیالات ِضعیفہ و سخیفہ پر حضرت نانوتوی رحمہ اللہ نے جو علمی وار کیے ہیں، وہ ان کا ہی حصہ ہے، وہ نظریاتِ واہیہ یہ ہیں: ہیولیٰ، صورتِ جسمیہ اور صورتِ نوعیہ، یہ سب قدیم ہیں:

أن الفَلَکَ لاَ یُقبَلُ الخَرقُ و الالتیام
الواحد لا یُصدِر عنه إلا الواحد

باقیاتِ صالحاتِ شیخ نانوتوی رحمہ اللہ

عقولِ عشرہ اور عقلِ فعال کی اصطلاح میں صفاتِ باری تعالیٰ قدیم ہیں اورلاعینَ ولاغیرَ جیسے ادق سے ادق مسائل کو مثالوں سے واضح فرمایا ہے کہ ایک نظری چیز کو بھی بدیہی بنادیا ہے،اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ حضرت نانوتوی رحمہ اللہ اپنی اس دقت نگاہی کے وارث بھی چھوڑ گئے، چنانچہ شیخ الاسلام مولانا شبیراحمد عثمانی رحمہ اللہ کی تصنیفات اور حکیم الاسلام مولانا قاری محمدطیب رحمہ اللہ کے علمی نوادرات و تحریرات اسی نانوتوی مزاج و مزاق کے مظہرِ اتم ہیں:

ایں سعادت بزورِ بازو نیست
تا نہ بخشد خداے بخشندہ را

عربی کا مشہور جملہ ہے الوَلَدُ سِرٌّ لأبیه اگر حضرت نانوتوی رحمہ اللہ کے تبحُرِ علمی کی جھلک دیکھنی ہو تو ان کے روحانی فرزند خاتم المحدثین علامۃ العصر مولانا محمدانور شاہ صاحب کشمیری رحمہ اللہ کا علو مقام ملحوظِ خاطر رکھیے۔

خاتم المحدثین شیخ کشمیری رحمہ اللہ

حضرت مولانا سراج احمد صاحب فرمایا کرتے تھے کہ مولانا محمد انور شاہ صاحب کشمیری رحمہ اللہ کے کیا کہنے کہ یہ تو بخاری اور دوسری کتبِ احادیث کے تدریسی فن میں اس طرز کے موجد ہیں اور ان کا منفرد اور یگانہ انداز آپ کو کہیں بھی نہیں ملے گا۔ حضرت الاستاذ حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ صرف منقولات میں ہی اپنی مثال آپ نہیں تھے بلکہ میدانِ علم کے ہر شعبے میں وہ ایک ماہر اور کامل شیخ و استاد کی حیثیت رکھتے تھے۔

علمِ نحو کا ایک مشکل مقام

چنانچہ مفعول معہ کے بارے میں متن متین اور رضی و غیرہ جیسے بڑے بڑے مشاہیرِ نحاۃ یہ لکھ چکے ہیں کہ مفعول معہ کا ان کو ثبوت نہیں ملتا لیکن حضرت الاستاد مولانا محمدانور شاہ کشمیری رحمہ اللہ نے اٹھ کر واؤ عاطفہ اور واؤ مفعول معہ کا واضح فرق پیش کر کے تمام دنیاے نحو کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا اور آپ نے اس آیت میں ﴿قُلْ فَمَن يَمْلِكُ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا إِنْ أَرَادَ أَن يُهْلِكَ الْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَأُمَّهُ وَمَن فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ﴾ (سورۃ المائدہ: ۱۷) مفعول معہ کے وجود و ثبوت کو ایسا نکھار کے بتادیا کہ کوئی شخص داد دیے بغیر نہ رہ سکا، اگر وقت ہوتا تو تفصیل عرض کرتا۔

میدانِ جنگ میں

چنانچہ حضرت نانوتوی رحمہ اللہ ایک درس گاہ کے محض بانی اور معلم و مدرس ہی نہ تھے، بلکہ آپ امام المجاہدین حضرت شاہ اسماعیل شہید رحمہ اللہ کی ڈگر پر چلنے والے ایک مجاہد بھی تھے، چنانچہ شاملی کا میدان ان کے عملی جہاد پر شاہدِ عدل ہے، انگریزی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے اور وطنِ عزیز کو ان سامراجیوں سے پاک کرنے کے لیے میدانِ کار زار میں مجاہدین کا جو ہر اول دستہ نظر آتا ہے، وہ فرزندانِ نانوتوی پر مشتمل ہے، اور وہ کونسی اذیت اور مصیبت ہے، جوان مجاہدین نے آزادی کی خاطر انگریزوں کے ہاتھوں نہیں اٹھائی اور برصغیر کے قیدخانے ان مجاہدین کے صبر و استقلال کے گواہ ہیں۔مالٹا کا قیدخانہ حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ اور شیخ العرب و العجم حضرت مولانا سیدحسین احمد مدنی رحمہ اللہ اور مولانا محمد عزیز گل کے دورِ اسارت کی زندہ یادگار ہے:

بنا کردند خوش رسمے بخاک و خون غلطیدن
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را

خلاصہ

آخر میں اپنی علمی بے بضاعتی اور کم مائیگی کا دوبارہ اعتراف کرتے ہوئے بطورِ اعتذار اس شعر پر حضرت نانوتوی رحمہ اللہ کے ذکرِ خیر کو ختم کرتا ہوں:

دامانِ نگہ تنگ و گل حسن تو بسیار
گل چین بہارِ تو ز دامان گلہ دارد

(خطبات شیخ القرآن، جلد اول؛ بخاری اکیڈمی، فیصل آباد)

لرننگ پورٹل