اداریہ
مدیر ماہنامہ مفاہیم، کراچی
برکت، رحمت اور مغفرت کا مہینا رمضان چلا گیا ، روزے ختم ہوئے عید الفطر آ گئی یعنی ہمارا اِفطار (روزے نہ رکھنا) شروع ہوا۔ لیکن ہمیں کہنے دیں کہ ’’رمضان گیا ہے روزہ نہیں‘‘ یعنی ہم اب بھی روزے سے ہیں ہاں روزے کی قِسم بدل گئی۔ روزے کی جاری قِسم دنیا کا روزہ ہے جس کا افطار، رب کائنات سے ملاقات پر ہی ہو گا۔ بعض اکابر کا قول ہے الدنيا يومٌ ولنا فيهِ صومٌ ولا يَكُوْنُ إِفْطارُه إِلّا على مشاهدة الجمال (تفسیر حقی) ’’دنیا ایک دن کی طرح ہے اور ہم اس میں روزے سے ہیں اور اس روزے سے افطار نہیں ہو گا مگر محبوبِ حقیقی کے دیدار پر‘‘ یہ وہ صومِ مسلسل ہے جس کا خاتمہ افطارِ وصال پر ہی ہو گا۔ تو چاہیے کہ جس طرح ہم نے صومِ رمضانی میں محنت کی تو اب صوم ِ زمانی میں بھی محبوب کو راضی کرنے کی محنت میں لگے رہیں۔ مسجدوں سے بے وفائی نہ کریں۔ مصحف کو پیٹھ نہ دکھائیں۔ کاروبارِ زندگی میں بے پروائی نہ برتیں بلکہ اسی تقوی و احتیاط کی روش پر گامزن رہیں جس کا اہتمام ہم نے رمضان میں کیے رکھا ہے۔ ’’اللہ کے بندے بنو، مزدور مت بنو‘‘ یہ حضرت شیخ الحدیث مولانا اسفند یار صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا جملہ ہے جو وہ اکثر ارشاد فرمایا کرتے تھے تو ہم اللہ کے مزدور نہیں ہیں کہ ماہِ رمضان میں نیکی کی بھاری مزدوری دیکھ کر کام میں لگ گئے تھے بلکہ ہم تومحبت سے اللہ کو پوجنے والے ہیں ہماری پوجا موسم و ماہ کی پابند تھوڑی ہے کہیں محبت کے پاؤں میں بیڑیاں ڈالی جا سکی ہیں ؟ تو ہم ’’رَمَضانی‘‘ نہیں بلکہ ہم ’’رَبّانی‘‘ ہیں۔ بِشْر الحافی رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا کچھ لوگ ہیں جو رمضان میں عبادت و ریاضت کرتے ہیں لیکن بعد میں ترک کر دیتے ہیں تو انھوں نے فرمایا: ’’یہ تو برے لوگ ہیں جو اللہ کے حقوق محض رمضان ہی میں پہچانتے ہیں، نیک تو وہ ہے جو سال کے بارہ مہینے اللہ کی عبادت میں محنت کرے‘‘ ۔ (لطائف المعارف لابن رجب الحنبلی)حضرت شبلی رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ عبادات کے اعتبار سے رجب افضل ہے یا شعبان تو انھوں نے جواب دیا: كن ربانيًّا، ولا تكن شعبانيًّا ’’تم ربّا نی بنو نہ کہ شَعبانی‘‘ ۔(لطائف المعارف) نیکیوں کے یہ موسم، یہ شعبان و رمضان تو عبادت و ریاضت کا ذائقہ چکھانے کے لیے ہیں باقی عبادت تو عمر بھر جاری رکھنا ہے: ﴿وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّى يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ﴾ (الحجر: 99) ’’اپنے رب کی عبادت کرتے رہو یہاں تک کہ تم پر یقینی چیز(موت) آ جائے‘‘ ۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب اللہ تعالیٰ کسی شخص سے خیر کا ارادہ کرتا ہے تو اسے استعمال کر لیتا ہے‘‘ ۔ پوچھا گیا: یا رسول اللہ! کیسے استعمال کرتا ہے؟ فرمایا: «يُوَفِّقُهُ لِعَمَلٍ صالِحٍ قَبْلَ المَوْتِ ثُمَّ يَقْبِضُهُ عَلَيْهِ» ’’موت سے پہلے اسے عملِ صالح کی توفیق دیتا ہے اور پھر اسی نیک عملی پر اسے موت بھی دیتا ہے‘‘ ۔ (الجامع الصغیر) تو ہمیں چاہیے کہ رمضانی عبادات کو مرتے دم تک جاری رکھنے کا عہد و کوشش کریں۔یقینا ہم میں سے بہت ساروں نے بہت عبادات کی ہوں گی لیکن فرشتوں کے اعتراف کے مطابق ہم یہی کہہ سکتے ہیں: مَا عَبَدْنَاكَ حَقَّ عِبَادَتِكَ (مجمع الزوائد) ’’اے رب! ہم نے تیری عبادت کا حق ادا نہیں کیا‘‘ ۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: «لَوْ أَنَّ رَجُلاً يُجَرُّ عَلَى وَجْهِهِ مِنْ يَوْمِ وُلِدَ إِلَى يَوْمِ يَمُوتُ هَرَماً فِي مَرْضَاةِ الله تَعَالَى لَحَقَرَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ» (مسند احمد) ’’اگر کوئی آدمی اپنی پیدائش کے دن سے بڑھاپے کی موت تک اللہ کی رضا پانے کے لیے سجدے میں پڑا رہے تو قیامت والے دن اپنے اس عمل کو حقیر سمجھے گا‘‘ ۔ تو ہماری رمضانی ریاضتیں، اس قابل نہیں ہیں کہ ان پر تکیہ کر کے بیٹھ رہیں اور مزید کی جستجو نہ کریں۔ پتا نہیں ہماری عبادات میں کتنی خامیاں رہی ہوں۔ ہمیں اپنی سی عبادت کر نے کے بعد بھی ان سچے اہلِ ایمان کی طرح ڈرتے رہنا چاہیے جن کا ذکر قرآن مجید میں کیا گیا: ﴿وَالَّذِينَ يُؤْتُونَ مَا آتَوا وَّقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ﴾ ’’وہ لوگ دیتے ہیں جو دیتے ہیں اور ان کے دل ڈر رہے ہوتے ہیں‘‘ ۔ سیدہ عائشہ رضی الله عنہا نے پوچھا: يا رسول الله! کیا یہ وہ لوگ ہیں جو چوری، بدکاری اور شراب نوشی کرتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اے بنتِ صديق! نہیں، بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو نمازیں پڑھتے، روزے رکھتے اور صدقہ و خیرات کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود ڈرتے ہیں کہ کہیں یہ عمل اللہ کی نگاہ میں ناقابلِ قبول ٹھہریں‘‘ ۔ (سننِ ترمذی)
اپنی عبادت کے مقبول ہونے اور اس کی بنیاد پر خود کو اخروی اجر و ثواب کا حتمی طور پہر مستحق سمجھنے سے سستی اور کوتاہی پیدا ہوتی ہے جب کہ اپنے اعمال کے معیار و قبولیت کے بارے میں ڈرتے رہنے سے مزید محنت و مسابقت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔آیتِ مبارکہ ﴿وَالَّذِينَ يُؤْتُونَ مَا آتَوا وَّقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ﴾ ’’وہ لوگ دیتے ہیں جو دیتے ہیں اور ان کے دل ڈر رہے ہوتے ہیں‘‘ کے بعد والی آیت پڑھیے تو بالکل مسابقت الی الخیرات کی طرف راہنمائی کرتی معلوم ہوتی ہے: ﴿أُولَئِكَ يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَهُمْ لَهَا سَابِقُونَ﴾ (المؤمنون:61) ’’یہی لوگ ہیں جو نیکیاں کرنے میں جلدی کرتے ہیں اور نیکیوں کے لیے سبقت لے جانے والے ہوتے ہیں‘‘ ۔ تو جو لوگ اپنی عبادت پر گھمنڈ نہیں کرتے بلکہ ہمیشہ اس کے کم ہونے اور اس کے ناقابل قبول ہونے کے خوف میں مبتلا رہتے ہیں وہ نیکیوں کے سلسلے کو منقطع نہیں کرتے۔ حدیث پاک میں آتا ہے: «لَا يَشْبَعُ الْمُؤْمِنُ خَيْرًا حَتَّى يَكُونَ مُنْتَهَاهُ الْجَنَّةُ» (صحیح ابنِ حبان) ’’نیکیوں سے مومن کا جی کبھی نہیں بھرتا یہاں تک کہ جنت اس کی منزل بن جاتی ہے‘‘ ۔علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے سعید ابن جبیر رحمہ اللہ کا قول مجموع الفتاوی میں نقل کیا ہے: ثَوَابُ الْحَسَنَةِ الْحَسَنَةُ بَعْدَهَا ’’نیکی کا ثواب اس کے بعد کی نیکی ہے‘‘۔
مداومتِ عمل
اعمال میں مداومت ایک پسندیدہ صفت ہے۔ بقول ملا علی القاری اعمال میں تاثیر اسی سے پیدا ہوتی ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ سے آپ ﷺ کے اعمال کے بارے میں پو چھا گیا تو آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: كَانَ عَمَلُهُ دِيمَةً ’’آپ ﷺ کا عمل دائمی تھا‘‘ ۔ایک بار نبی کریم ﷺ کو سائلین نے نمازِ ظہر کے بعد کی سنتوں سےمشغول کر دیا تو نمازِ عصر کے بعد حجرہ عائشہ میں یہ دو رکعت ادا فرمائیں۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے معمول بنا لیا کہ جب عصر پڑھ کر گھر میں داخل ہوتے تو دو رکعت نماز ادا کرتے اور فرماتے: «كَرِهْتُ أَنْ أَدَعَهُمَا» ’’مجھے اچھا نہیں لگتا کہ ان رکعتوں کو ترک کر دوں‘‘ (مسندِ احمد)۔نبی کریم ﷺ کے اس عمل اور آپ کی تربیت کا اثر تھا کہ آپﷺ کے گھر والوں کا عام مزاج یہ بن گیا تھا کہ جو عمل کرتے اس پر مداومت کی کوشش کرتے: «وَكَانَ آلُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا عَمِلُوا عَمَلًا أَثْبَتُوهُ» (صحیح مسلم) ’’آلِ محمدﷺ جب کوئی عمل کرتے تو اس پر اثبات کرتے‘‘ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم رمضان کی طرح تیس روزے ہر ماہ رکھنا شروع کر دیں۔ بیس تراویح کو نمازِ عشا کا مستقل حصہ بنا ڈالیں؟ تو ظاہر ہے کہ مداومت سے مراد روزے یا صلاۃ اللیل کی اصل کو باقی رکھنا ہے نہ کہ اس کی مقدار کو، شریعت کی دوسری تعلیمات کے علاوہ حدیث درج ذیل میں اس طرف اشارہ پایا جاتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا: ’’اللہ کے ہاں محبوب عمل کون سا ہے؟‘‘ فرمایا: «أَدْوَمُهَا وإنْ قَلَّ» ’’عمل چاہے تھوڑا ہی سہی لیکن دائمی ہونا چاہیے‘‘ ۔(صحیح بخاری) تو اس حدیث کی روشنی میں رمضان کی مقدارِ عبادت میں کمی کرتے ہوئے، اقسام عبادت کو غیر رمضان میں جاری رکھنا ہی عبادات پر مداومت کہلائے گا۔
آخری بات یہ ہے کہ خیر کے کام بہت سے ہیں۔ ان کا احاطہ ہمارے پیشِ نظر نہیں ہے۔ نمازِ باجماعت،دعا و مناجات، ذکر و اذکار اور صدقہ و خیرات سمیت جتنی بھی نیکیاں کرنے کی اللہ نے ہمیں رمضان میں توفیق دیے رکھی، ان میں سے کسی کو بالکلیہ ترک کرنے سے بچنا چاہیے۔ اور چاہے تھوڑا ہی سہی لیکن ان کا اہتمام کرنا چاہیے۔ اس سے امید ہے ہم تقرب الٰہی میں ترقی حاصل کریں گے۔