سلیم احمد (۱۹۲۷۔۱۹۸۳ء)
معروف نقاد
معاف کیجیے میں اس بحث کو لمبا نہ کھینچتا، اگر اس کا میر ے موضوع سے گہرا تعلق نہ ہوتا۔ مجھے یقین ہے کہ ایک دینی ریاست میں ادیب کا کردار، ایک نظریاتی ریاست میں ادیب کے کردار سے مختلف ہوتا ہے۔ اس بات کو واضح کرنے کے لیے ہمیں پہلے اپنے اردگرد دیکھنا پڑےگا۔ ہمیں معلوم ہے کہ ادب کو ریاست کے مقاصد کے لیے استعمال کرنا اشتراکی ریاستوں کا ایک ایسا امتیاز ہے جس پر بورژوا ریاستوں میں شدید ردِعمل پایا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اشتراکی ریاستوں نے ادیب کی آزادی کو ختم کرکے رکھ دیا ہے اور نتیجے کے طور پر وہاں آزادی کے ساتھ ادب کا بھی خاتمہ ہو گیا ہے۔ یہ صورتِ حال اتنی واضح ہے کہ پاکستان میں جب بھی نظریاتی ریاست کا مسئلہ زیرِ بحث آتا ہے اور اس کے حوالے سے ادب پر گفتگو ہوتی ہے تو ہمیشہ اس خطرے کا اظہار کیا جاتا ہے کہ آیا پاکستان میں بھی ادب پر وہی کچھ گزرے گی جو اشتراکی ریاستوں میں گزرتی ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے ہاں اشتراکی ریاستوں سے بھی زیادہ خراب حالات کا سامنا ہے۔ اشتراکی ریاستیں ادیب سے جو کام لیتی ہیں اس کے صلے میں ادیب کو طوقِ زرّیں بھی پہناتی ہیں۔ لیکن ہمارے یہاں یہ توقع کی جاتی ہے کہ ادیب مشقت تو کرےگا مگر طوقِ زرّیں کے لیے ادیب کی گردن کبھی منتخب نہیں کی جاتی۔ عام طور پر ریاست کو اس بات سے مطلق کوئی غرض نہیں ہے کہ یہاں ادیب نام کی کوئی چیز موجود ہے یانہیں۔ لیکن وقتاً فوقتاً آوازیں بھی اٹھتی رہتی ہیں کہ ادیبوں کو ریاست کے لیے کام کرنا چاہیے۔ گویا ریاست کو ادیب صرف اس وقت یاد آتے ہیں جب اسے اپنا مطلب یاد آتا ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ ادیب ریاست کے متعلق اپنے فرائض ادا کریں۔ لیکن یہ سیدھی بات بھی بھول جاتی ہے کہ حقوق کے بغیر فرائض کا کوئی تصور نہیں کیا جا سکتا۔ اشتراکی ریاستیں ادیبوں کو ان کا حق دیتی ہیں۔
آنجہانی اسٹالن نے ایک مرتبہ ادیبوں کو روحوں کا انجینیر کہا تھا۔ اشتراکی ریاستیں تسلیم کرتی ہیں کہ روحانی تعمیر میں حصہ لینے کی وجہ سے ادیب اہمیت اور عزت کے مستحق ہیں۔ وہاں ادب کا جو حال بھی ہوا ہو لیکن ادیب ریاست کے خوش حال اور باعزت ترین طبقوں میں سے ایک ہیں۔ ہمارے ہاں صورتِ حال اس کے برعکس یہ ہے کہ ادیب بہ حیثیت ادیب کے معاشرے کے سب سے پسماندہ طبقوں میں شمار ہوتے ہیں۔ اشتراکی ریاستوں میں ادب کا چاہے خاتمہ ہو گیا ہو لیکن ادیب زندہ ہیں۔ ہمارے یہاں ادب کے ساتھ ادیبوں کا خاتمہ بھی ہو رہا ہے اور کوئی دن جاتا ہے کہ دونوں ٹھکانے لگ جائیں گے۔ بہرحال مجھے اس بات کی کوئی توقع نہیں ہے کہ کل کی سنہری صبح کے ساتھ ریاست ہماے ادیبوں کو سونے کا نوالہ کھلانے لگےگی۔ اس لیے میں اپنے سوال کی طرف لوٹتا ہوں۔
اشتراکی ریاستیں ادیب سے کام لیتی ہیں، اس کے نمونے ہمارے سامنے ہیں۔ ادیب یا تو اپنے نظریے کی برتری ثابت کرتے ہیں یا پھر یہ دکھاتے ہیں کہ ریاست نظریے کے تحت جو کچھ کر رہی ہے وہ اچھا ہی اچھا ہے۔ اسٹالن کے دور میں روسی افسانوں میں اسٹالن کو فوق الفطرت قوت کے مالک کے طور پر پیش کیا جاتا تھا اور ملک الشعراء کا خطاب ایسے شاعروں کو ملتا تھا جو ثابت کر سکیں کہ اشتراکی ریاست میں نلوں کے سلنڈر بورژوا معشوقوں کی پنڈلیوں سے زیادہ حسین ہوتے ہیں۔ اشتراکی ریاستوں میں ادب کا خاتمہ یا زوال ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ آیا ادب ریاست کی ضرورتوں کو پورا کرکے ادب رہ سکتا ہے یا نہیں؟ ضروری ہے کہ ہم ریاست کے مقاصدکو بیان کریں اور پھر ان کی روشنی میں دیکھیں کہ ادب سے ان کا کوئی تعلق بنتا ہے یا نہیں۔
ریاست کے مقاصد میں امْنِ عامّہ کا قیام، معاشی منصوبہ بندی، ریاست کے مختلف طبقات میں ہم آہنگی، پیداوار میں اضافہ اور وہ چیزیں شامل ہیں جو ریاست کے شہریوں کی جان ومال، عزت و آبرو اور پرامن بقا کے لیے ضروری ہیں۔ ادب کا ان چیزوں سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں ہے لیکن ریاست کے یہ مقاصد جب شہریوں کی زندگی پراثر انداز ہوتے ہیں اور ان کا ردِعمل شہریوں میں اطمینان، مسرت، سکون یا اس کے برعکس جذبات اور کیفیات پیدا کرتا ہے توادب سے اس کا تعلق ہو سکتا ہے۔ اشتراکی ریاستوں کی غلطی یہ ہے کہ انھوں نے ادب کو اپنے مقاصد کا براہِ راست آلۂ کار بنانے کی کوشش کی۔ مثال کے طور پر ریاست نے معاشی منصوبے بنائے تو ادیبوں کا فریضہ قرار دیا گیا کہ وہ ان معاشی منصوبے کے بارے میں لکھیں یا حکومت نے عوام کو محنت پر اکسانا چاہا تو ادیبوں سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ عوام کو ’’کام کرو کام‘‘ کے نغمے سنائیں۔
اس کے علاوہ اشتراکی ریاستوں میں ایک اور بنیادی خرابی ہے۔ اشتراکی نظریے میں انسانوں کی باطنی زندگی کی تہذیب وترتیب کا کوئی اصول موجود نہیں ہے۔ یہ نظریہ انسانوں کی باطنی زندگی کے بجائے خارجی حالات ہی کوسب کچھ سمجھتا ہے۔ ادب کے تعلق سے اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ادب انسانوں کی باطنی تربیت، گہرے روحانی تجربات کے انکشاف اور زندگی کی حقیقی معنویت سے الگ ہوکر خارجی واقعات کی کھتونی یا ماحول کے عمل اور ردِعمل کا اظہار بن کر رہ جاتا ہے۔ ابھی کچھ دیر پہلے میں نے کہا تھا کہ دینی ریاست میں ادیب کا کردار ایک نظریاتی ریاست میں ادیب کے کردار سے مختلف ہوتا ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ اس کی وضاحت کر دی جائے۔
نظریے کے برخلاف دین میں باطنی تربیت ہی سب کچھ ہے۔ اشتراکی ریاست، ہرریاست کی طرح اپنے شہریوں کے اعمال کو دیکھتی ہے۔ جب تک اعمال اس کے مطابق ہیں، اسے اس کیفیتِ قلب سے کوئی سروکار نہیں ہوتا جسے ایمان کہتے ہیں۔ یہ وہ داخلی معاملہ ہے جس کا ریاست کے حدود و اختیار سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جب کہ دین میں ایمان ہی اصل چیز ہے۔ اگر کسی شخص کا اسلام کے عقائد پر ایمان نہ ہو تو خواہ اس کے اعمال ظاہری طور پر سب اسلامی ہوں وہ مسلمان نہیں کہلائےگا۔ یہاں داخلی پہلو ہی سب سے اہم ہے۔ یہ ایک بنیادی بات ہے جس کے مضمرات پر ابھی کچھ اورعرض کرنے کی کوشش کروں گا۔
ریاست کا تعلق اگر ظاہری اعمال سے ہے تو اس کامطلب یہ ہے کہ اس کے پاس باطنی کیفیت یعنی ایمان کو پرکھنے کا کوئی ذریعہ نہیں۔ وہ مجبور ہے کہ اپنی نظر صرف خارجی اعمال پر رکھے۔ لیکن ایک دینی ریاست میں خارجی اعمال کا کوئی اعتبار نہیں، اگروہ اخلاص اور ایمان سے وابستہ نہ ہوں۔ اس لیے ایک دینی ریاست کا لازمی فریضہ ہے کہ وہ خارجی اعمال کے ساتھ باطنی کیفیت کو بھی جاننے اور پرکھنے کا ذریعہ پیدا کرے۔ اب مجھے کہنے دیجیے کہ یہ ذریعہ ادب اور صرف ادب ہے۔ ادب باطنی زندگی کا مقیاس الحرارت ہے اور یہ صرف ادب ہی کے ذریعے ریاست جان سکتی ہے کہ اس کے شہریوں کے نفسِ باطن اور اعمالِ قلب میں دین کتنی گہرائی تک موجود ہے۔
آپ مجھے مبالغہ آرائی کا مجرم قرارنہ دیں، تو میں کہوں گا کہ صرف ایک دینی ریاست ہی میں ادب کو وہ حیثیت مل سکتی ہے جس کا وہ مستحق ہے۔ اشتراکی ریاستوں میں وہ ریاست کا آلۂ کار بن کر موت کا شکار ہو جاتا ہے جب کہ دینی ریاست میں ادیب، دین کے تابع ہے اور ریاست سے اس کی وفاداری کی بنیاد یہ ہے کہ ریاست بھی دین کی تابع ہے یعنی دونوں کے مقاصد دین کی مشترک بنیاد پر مشترک ہیں۔ لیکن اس سے دونوں کے حدودِکار کا تعین بھی ہوتا ہے۔ ریاست کاکام دین کی ظاہری شکل کو برقرار رکھنا اور زندگی کے نت نئے تقاضوں سے اسے ہم آہنگ کرنا ہے، جب کہ ادیب کا کام باطن میں دین کی بنیادوں کو استوار کرنا اور ایمان واخلاص کی اس کیفیت کو پیدا کرنا ہے جو خارجی شکل میں معنی پیدا کرتی ہے۔
جب ہم ادب اور سیاست کے حدودِکار کو واضح طور پر سمجھ لیں تو ہمارے لیے یہ کہنا ممکن ہو جاتا ہے کہ ایک دینی ریاست میں اپنے مشترک مقصد کی بنیاد پر ادیب اور ریاست کا کردار ایک دوسرے کے ہم پلہ ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ہم قائدِ اعظم کو ریاست کے نمائندے کے طور پر لیں اور اقبال کو ادیب کی جگہ رکھیں تو ہم کہہ سکیں گے کہ قائدِ اعظم اور اقبال کا کام مل کر ہی اپنے مشترک مقصد کو پورا کرتا ہے۔ قائدِ اعظم نے ریاست کے ظاہری وجود کو جنم دیا جبکہ اقبال نے اسلام کی نَشْأۃُ الثانیہ کے تصور کو اپنے جذبِ باطن سے اس طرح زندہ کر دیا کہ وہ اجتماعی تجربے کی آرزو بن گیا۔
اب ہم ایک اورنقطۂ نظر سے اس بات کو آگے بڑھائیں گے۔ ریاست کا ایک اصول عدل ہوتا ہے۔ جس طرح ریاست عدل کے اصول سے منحرف ہوکر فساد کا شکار ہو جاتی ہے، اسی طرح ادب صداقت سے محروم ہوکر غیرادب میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اس اصول کو اچھی طرح سمجھ لینا ضروری ہے۔ صداقت کی تعریف یہ کی جاتی ہے کہ بیان کو امرِ واقعہ کے مطابق ہونا چاہیے، مثلاً اگر میں لکڑی کی بنی ہوئی ایک چیز کو میز کہوں اور وہ میز ہو تو یہ بات صداقت کے مطابق ہوگی۔ لیکن امرِ واقعہ کی دو صورتیں ہیں۔ ایک خارجی، ایک داخلی۔ خارجی کی مثال میں نے پیش کر دی۔ باطنی صداقت کے معنی یہ ہیں کہ بیان داخلی کیفیت کے مطابق ہو توصداقت کہلائےگا۔ ادب کے لیے یہی داخلی صداقت سب سے اہم ہوتی ہے۔ اب دینی ریاست میں ادیب کا کام دین کے عناصرِ چہارگانہ یاان میں سے کسی ایک یا زیادہ کو اپنی باطنی صداقت کے ساتھ پیش کرنا ہے۔
مثال کے طور پر ان میں سے ایک عنصر اخلاقیات کا تعلق انسانوں کے باہمی رشتے سے ہے۔ ہمارے دین نے ان رشتوں کی ساری شکلیں متعین کی ہیں اور انسانوں کے باہمی حقوق وفرائض کا تعین کیا ہے۔ ا س سے اخلاقی اقدار پیدا ہوتی ہیں، مثلاً محبت، وفاداری، ہمدردی، رواداری، ایثار، قربانی، شجاعت وغیرہ۔ اب جو ادب ان اخلاقی اقدار کو باطنی صداقت کے ساتھ پیش کرےگا وہ دین کی ضرورت کو پورا کرےگا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ادیب کو ان اقدار کو پہلے اپنے تجربے میں صادق بنانا ہوگا۔ اب ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایک دینی ریاست میں ادیب کو پہلے اپنے دین میں صادق ہونا اور پھر اپنی صداقت کو اپنے ادب میں تخلیق کرنا ہوگا۔
اب باطنی صداقت کی بات چلی ہے تو ایک ضروری بات کرتا چلوں۔ اپنے وجود میں کسی صداقت کو حاصل کرنا دشوار ترین کام ہے۔ اتنا دشوار کہ ایک ادیب کے بقول لوگ اس سے بچنے کے لیے قومی جنگوں میں شریک ہوکر جان دے دیتے ہیں۔ ادیب معاشرے کے ہر طبقے سے زیادہ اس دشوار کام کا بیڑا اٹھاتا ہے۔ ہمیں دیکھنا چاہیے کہ یہ باطنی صداقت کس طرح حاصل ہوتی ہے۔ اپنی بات کہنے میں، میں اپنی مدد کے لیے ایک بارپھر اقبال کو آواز دیتا ہوں۔ اقبال اسلام کے کتنے بڑے داعی تھے، یہ آپ سب کو معلوم ہے اور ہم ادیبوں کے لیے تو بڑوں کے بھی بڑوں میں شامل ہیں۔ انھوں نے اپنے بارے میں مختلف اوقات میں کچھ باتیں کہی ہیں۔ ان میں سے تین میں آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں:
اقبال بڑا اپدیشک ہے من باتوں میں موہ لیتا ہے |
گفتار کا وہ غازی تو بنا کردار کا غازی بن نہ سکا |
توا ے مولاے یثرب آپ میری چارہ سازی کر |
مری دانش ہے افرنگی، مرا ایماں ہے زناری |
مرا دل مری رزم گاہِ حیات |
گمانوں کے لشکر یقیں کا ثبات |
ان تینوں اشعار میں جو تین باتیں کہی گئی ہیں، وہ آپ کے سامنے ہیں۔ ان سے ایک پوری صورتِ حال سامنے آتی ہے۔ اقبال کو احساس ہے کہ کچھ معاملات میں ان کا کردار ان کی گفتار کا ساتھ نہیں دیتا۔ انھیں یہ بھی احساس ہے کہ ان کی دانش اور ایمان پر کچھ ایسے اثرات پڑے ہیں جو مطلوب نہیں ہیں اور تیسری بات یہ ہے کہ بہت سے معاملات میں ان کے ذہن میں تشکیک اور یقین کے درمیان کشمکش موجود ہے۔ ان میں سے ایک بات کا تعلق اخلاقیات سے ہے اور باقی دو باتوں کا عقائد اور دیگر فکری اور ایمانی مسائل سے۔ سوال یہ ہے کہ ایک شخص جس کی ا خلاقی صداقت پوری اخلاقی صداقت نہ ہو اور جو یقین اور گمان کی کشمکش میں مبتلا ہو، اسے کیا کرنا چاہیے؟ اس سوال کا صرف ایک جوا ب ہے۔ اسے اپنی باطنی صداقت کا اظہار کرنا چاہیے۔ کیونکہ باطنی صداقت حاصل کرنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے۔۔۔ اپنے تجربے کی حقیقت کو تسلیم کرنا۔ یہ سچے ادب اور سچی دینی زندگی دونوں کے لیے لازمی ہے۔ اس کامطلب یہ ہوا کہ ہماری دینی ریاست میں سچے ادب کو یہ آزادی حاصل ہوگی۔
(بشکریہ: ماہ نامہ نئی نسلیں، کراچی، جون ۱۹۷۹ء)