مولانا نایاب حسن قاسمی
رکن شیخ الہند اکیڈمی، دارالعلوم دیوبند
مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ کی تصانیف کا ایک جامع تعارف
مودودی دستور اور عقائد کی حقیقت
یہ کتاب دراصل ایک مکتوب ہے، جو آپ نے دارالعلوم دیوبند کے ایک ایسے فاضل کو لکھا تھا، جو جماعتِ اسلامی سے وابستہ ہوگئے تھے اور ان کا گمان یہ تھا کہ جمہورِ امت اور جماعتِ اسلامی کا اختلاف محض فروعی ہے، اصولی نہیں ہے، اس مکتوب کو مکتبہٴ دارالعلوم نے خوبصورت کتابت کے ساتھ شائع کیاہے، اس کے شروع میں حکیمُ الاسلام مولانا قاری محمد طیب رحمۃ اللہ علیہ سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند کا بصیرت افروز اور فصیح وبلیغ مقدمہ ہے، جس میں آپ نے مشہور حدیث شریف «لَتَفْتَرِقُ أُمَّتِيْ عَلٰی ثَلٰثٍ وَّسَبْعِیْنَ فِرْقَةً» الخ کی روشنی میں صحابہ رضی اللہ عنہم کے معیارِ حق ہونے پر انتہائی وقیع گفتگو کی ہے، آپ نے قرآن وحدیث کے استشہادات کی روشنی میں صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم کی عدالت، معیاریت اور بالاتَر از تنقید ہونے کو ثابت کیا ہے، اس کے بعد ۴۴ صفحے میں حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ کی تحریر ہے، جس میں آپ نے انتہائی سلجھے ہوئے اور سنجیدہ اسلوب میں جماعتِ اسلامی کے دستور کی دفعہ نمبر ۶: ” رسولِ خدا کے سوا کسی انسان کو معیارِ حق نہ بنائے، کسی کو تنقید سے بالاتر نہ سمجھے، کسی کی ذہنی غلامی میں نہ مبتلاہو، ہر ایک کو خدا کے بنائے ہوئے اس معیارِ کامل پر جانچے اور پرکھے اورجو اس معیار کے لحاظ سے جس درجے میں ہو، اس کو اسی درجے میں رکھے“ کا علمی، منطقی وتحقیقی تجزیہ کرتے ہوئے اس کو ماننے کی صورت میں اس پر مرتب ہونے والے خطرناک عواقب ونتائج پر سیر حاصل بحث کی ہے، آپ نے اعاظمِ رجالِ حدیث اور امام ابوزرعہ رازی، حافظ ابنِ عبدالبر، حافظ ابنِ حجر عسقلانی، علامہ ابنِ ہُمام اورملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہم کے حوالے سے صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم کے تئیں اہلُ السنۃ والجماعۃ کے متفق علیہ ومعتبر عقیدے کو واضح کیا ہے اور اس ذیل میں آپ نے مولانا مودودی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی ان فکری لغزیدہ پائیوں کی طرف بھی اشارے کیے ہیں، جو ان سے ان کی مشہور کتاب ”تفہیمات“ میں سرزد ہوئی ہیں، اس کے بعد قرآنِ کریم کی ایسی نوآیتوں کو بطورِ استشہاد پیش کیاہے، جن میں صراحتاً تمام صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم کی تعدیل، توثیق اور ان کے فضائلِ عالیہ کا ذکر ہے، پھر بارہ ایسی صریح حدیثیں بیان کی ہیں، جن میں آپ نے انفراداً یا اجتماعاً صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم کی ستائش کی ہے، اپنے بعد انھیں واجب الاتباع بتلایا ہے اور ان نقوشِ پا کو مشعلِ راہ بنانے کی تلقین کی ہے… بلاشبہہ یہ کتاب صحابہ رضی اللہ عنہم کے حوالے سے مبنی برحق عقیدہ رکھنے والوں کے اطمینانِ قلب کا ذریعہ اور انصاف پسند نفوس کی آنکھیں کھول دینے کا وسیلہ ہے۔
ایمان وعمل مع اعتراضات وجوابات
یہ اصل میں بیس صفحات کا ایک رسالہ تھا، جس میں حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ نے مولانا ابوالاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ کی تحریروں کی روشنی میں یہ ثابت کیا تھا کہ وہ فرض عبادات کے تارک اور گناہِ کبیرہ کے مرتکب کو قطعاً مسلمان نہیں سمجھتے اور اسے خارج از ایمان گردانتے ہیں، پھر آپ نے جمہورِ امت اور ائمۂ سلف کے اقوال وتحریرات کی روشنی میں مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کی تحریروں کا جائزہ لے کر ان کی متشددانہ قلم رانیوں سے مسلمانوں کو باخبر کیا تھا، کسی صاحب نے وہ تحریر مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ تک پہنچادی اور انھوں نے اپنے رسالہ ”ترجمان القرآن“ کے مارچ ۱۹۵۳ء کے شمارے میں مولانا مدنی رحمۃ اللہ علیہ پر یہ الزامات لگائے کہ انھوں نے میری تحریروں کے سیاق وسباق پر غور وتأمل اور انصاف پسندانہ نظر ڈالے بغیر میرے بارے میں وہ رائے ظاہر کی ہے، جو انھیں نہیں کرنی چاہیے تھی، وہ تحریر آپ کی نظر سے گزری، تو آپ نے پھر مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کی تحریروں کا محاسبہ کرتے ہوئے خالص علمی وتحقیقی پیرائے میں اس عقیدے کو مبرہن ومدلل فرمایا کہ مرتکبِ کبیرہ اور تارکِ فرائضِ شرعیہ ایمان سے خارج نہیں ہے اور یہی تمام اہلُ السنۃ والجماعۃ کا عقیدہ ہے، جب کہ مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کی تحریریں مرتکبِ کبیرہ اور تارکِ فرائضِ شرعیہ کو ایمان سے خارج کرتی ہیں، جیساکہ خوارج اور معتزلہ وغیرہ کا عقیدہ ہے… یہ رسالہ اس کے باوجود کہ ایک عظیم الشان اختلافی موضوع پر لکھا گیا ہے(اور اسی وجہ سے اس میں جابہ جا قرآن وحدیث اور کبار مفسرین ومحدثین کے اقوال سے استدلال کیاگیا ہے) مولانا(مدنی) کا اسلوب انتہائی سنجیدہ، ناصحانہ اور بے پناہ کشش رکھنے والا ہے۔
مکتوبِ ہدایت
یہ بھی مکتبہٴ دارالعلوم سے شائع شدہ ہے، یہ تحریک جماعتِ اسلامی کے کسی بڑے عالم کو لکھا گیا ایک جوابی خط ہے، اس میں آپ نے مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کی تمام تر تحریروں کی روشنی میں ان کے فکری انحرافات، جمہورِ امت سے ان کے سوے ظن، کج رو فِرَقِ اسلامیہ سے ان کے خیالات کے قرب، اسلام کے معتمد علیہ لٹریچر کے ایک بڑے حصے سے ان کی بدگمانی اور قرنِ اول سے لے کر بعد تک کے بہت سے محسنینِ امت پر ان کی چھینٹا کشی کی نشان دہی کی ہے، اس میں دو دیگر فتاویٰ بھی شامل ہیں، جن میں یہی باتیں مزید تفصیل کے ساتھ لکھی گئی ہیں، ایک مفتی مہدی حسن صاحب شاہ جہاں پوری رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ بہ عنوان ”آئینہٴ تحریکِ مودودیت“ اور دوسرا مولانا مفتی سعیداحمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ(مفتی مظاہرِ علوم، سہارن پور) بہ عنوان ”کشفِ حقیقت“ ہے، ان دونوں میں مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کی تحریروں کے اقتباسات کی روشنی میں ان کی تحریک کی کج ادائی کو واضح کیاگیاہے، اس مسئلہٴ متعلقہ پر ایک مختصر فتویٰ مفتیِ اعظم حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا بھی ہے۔
الشہابُ الثاقب علی المسترق الکاذب
اس کتاب میں حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ نے مسلکِ بریلویت کے بانی مولانا احمد رضا خاں رحمۃ اللہ علیہ کی ان تَلبیسات کا جائزہ لیا ہے، جو انھوں نے سرکردہ علماے دیوبند کے خلاف پھیلائیں اور ہندی مسلمانوں کو ان سے بیزار کرنا چاہا تھا، اس کا اِجمال یہ ہے کہ ۱۳۲۴ھ (۱۹۰۶ء) میں انھوں نے ان علماے دیوبند کی طرف خالص کفریہ عقائد منسوب کرکے ایک تحریر تیار کی اوراس کی روشنی میں حرمین شریفین کے علما و فقہا سے فتاویٰ حاصل کرنے کی غرض سے انھوں نے حجاز کا سفر کیا، وہاں کے اکثر علما نے تو نہ صرف اس کی تصدیق کرنے سے صاف انکار کردیا؛ بلکہ ان کے فسادِ نیت اور کج فہمی وعلمی نارسائی پر ان کی خوب خبر بھی لی؛ مگر بعض سادہ لوح علما نے ان کی تصدیق بھی کردی؛ چناں چہ واپسی کے بعد خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے دورسالے ”تمہیدِ شیطانی“ اور ”حسامُ الحرمین“ کے نام سے شائع کیے اورپورے ہندوستان میں یہ ڈھنڈورا پیٹنے لگے کہ علماے حرمین نے ان دیوبندی علما کی تکفیر کی ہے اور ان کے عقائد سے براء ت کا اظہار کیا ہے، یہ محض اتفاق تھا کہ فراغت کے بعد سے حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ اپنے اہل وعیال کے ساتھ مدینہ منورہ ہی میں قیام پذیر تھے اور انھیں معلوم بھی ہوگیاتھا کہ مولانا احمد رضا خاں رحمۃ اللہ علیہ یہاں آئے تھے اور ان کا مقصد کیاتھا؛ چناں چہ جب وہ ہندوستان پہنچے اور دیکھاکہ خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ کیا گل کھلا رہے ہیں، تو ان کے دجل وفریب کی قلعی کھولنے اور علماے دیوبند پر لگائے گئے ان کے بے سروپا الزامات کی تردید کے لیے آپ نے رسالہ لکھا، اس رسالے کے دوباب ہیں: پہلے باب میں علماے حرمین سے فتویٰ لینے میں خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے مکر وفریب کی تفصیلات دی گئی ہیں، جب کہ دوسرا باب نو فصلوں پر مشتمل ہے، جن میں علماے دیوبند پر لگائے گئے الزامات وافتراء ات پر گفتگو کی گئی ہے، پہلی فصل حضرت نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ پر لگائے گئے اتہامات کے تفصیلی تذکرے کو محیط ہے، دوسری فصل میں عقیدۂ ختمِ نبوت پر کلام کیاگیا ہے، تیسری فصل میں حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ پر لگائے گئے الزامات کا بیان ہے، چوتھی فصل میں مسئلہٴ امکان وامتناع کی تنقیح کی گئی ہے، پانچویں فصل میں مولانا خلیل احمد سہارن پوری رحمۃ اللہ علیہ پر خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تہمتوں کا بیان ہے، چھٹی فصل میں مولانا سہارن پوری رحمۃ اللہ علیہ کی تصنیف ”براہینِ قاطعہ“ کی متعلقہ عبارت کے صحیح مفہوم کی نشان دہی ہے، ساتویں فصل میں مولانا سہارن پوری رحمۃ اللہ علیہ پر لگائی گئی دوسری تہمت کا تذکرہ ہے، آٹھویں فصل میں حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے تعلق سے خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی یاوہ گوئیوں کا محاسبہ ہے اور آخری فصل میں حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی تصنیف ”حفظ الایمان“ کی اس عبارت کی توضیح ہے، جس کو بنیاد بنا کر خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ان کے خلاف زبان و قلم کا بے محابا استعمال کیا تھا، پوری کتاب انتہائی محقَق ہے اور اس کا لفظ لفظ حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ کے بے پناہ علم اور سِعت نگاہی کی منھ بولتی تصویر ہے۔
سلاسلِ طیبہ
علماے دیوبند شروع ہی سے نہ صرف علم وفضل کے اعتبار سے مقامِ ممتاز کے حامل رہے ہیں؛ بلکہ وہ تصوف وسلوک کے بھی امام رہے ہیں، بانیانِ دارالعلوم سے لے کر اس کے فضلا میں سے بیشتر نے اپنے اپنے وقت میں اس میدان میں بھی اپنی خاص شناخت بنائی اور جاہلانہ طریقت اور رسمی ولایت کا پرچار کرنے کی بہ جاے اس طریقت وولایت کی نمائندگی کی ہے، جس کا سرا نبی پاکﷺتک پہنچتا ہے، حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ بھی اپنے وقت کے باکمال صوفی اور ولیٔ کامل تھے، آپ کے مریدوں کی تعداد لاکھوں میں تھی، آپ کو بیعت وخلافت حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ سے حاصل تھی، ”سلاسلِ طیبہ“ میں آپ نے صوفیا کے چاروں طریقوں(قادری، چشتی، سہروردی، نقشبندی) کے اوراد واَشغال اور ان کے منظوم شجروں کو طالبین وسالکین کی آسانی و رہ نمائی کے لیے یک جا کردیا ہے۔
حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک انتہائی تحقیقی مقالہ انگریزوں کی آمد سے پہلے اور ان کی آمد کے بعد ہندوستان کی تعلیمی حالت پر ہے، اس میں محقَق ومستند اعداد وشمار کی روشنی میں یہ ثابت کیاگیا ہے کہ انگریزوں کی آمد سے پہلے اور مغلیہ دورِ حکومت میں ہندوستان کی تعلیمی حالت انتہائی بہتر؛ بلکہ دنیا کے دوسرے ممالک کے لیے باعثِ رشک تھی، یہاں تعلیم گاہوں کی کثرت، حُصولِ علم کے دیگر وسائل و ذرائع کی بہتات اور علم وعلما کا دور دورہ تھا، خواہ دینی ومذہبی علوم ہوں یا عصری وپیشہ ورانہ علوم، ہر ایک میں یہاں کے باشندے یَکہ تاز ہوا کرتے تھے؛ لیکن جب انگریزوں کے ناپاک قدم اس ملک پر پڑے، تو جہاں انھوں نے سیاسی ومعاشی اعتبار سے اس کی بنیادیں کھوکھلی کرنے کی شیطانی تدبیریں کیں، وہیں یہاں کے باشندوں کو فکری وعلمی طور پر اپاہج بنادینے میں بھی اس عیار ومکار قوم نے کوئی کسر نہیں چھوڑی، ہوسکتا تھا کہ یہ بات بہت سے ”اسکالروں“ اور ”دانش وروں“ کو اوپری معلوم ہو؛ اس لیے آپ نے اپنی بات کو خود انگریزی مصنّفین کی تحریروں سے مدلل کیا ہے اور ان کے بیانات کی روشنی میں یہ بتایا ہے کہ انگریزی سامراج نے کس طرح اس ملک کا علمی وفکری استحصال کرنے کی سازشیں رچائیں؛ تاکہ ہندی قوم ذہنی وفکری اعتبار سے مفلوج ہوجائے اور ذلت واستعباد کی زندگی پر راضی ہوکر حصولِ آزادی کے شعور سے بیزار ہوجائے، یہ مقالہ حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ نے ۱۹۴۳ء میں تحریر کیا تھا، جب کہ جدوجہدِ آزادی پورے شباب پر تھی، اسی زمانے میں اسے ایک رسالے کی شکل میں مجلس قاسم المعارف دیوبند نے چھاپا تھا، پھر یہ نایاب ہوگیا تھا، اتفاق سے اس کا ایک نسخہ کہیں سے معروف عربی واردو ادیب وصحافی مولانا نورعالم خلیل امینی مُدظلہ العالی کو ہاتھ لگ گیا، انھوں نے اس کی غیرمعمولی اہمیت و وقعت کو محسوس کیا اور اس کو عربی کے قالب میں ڈھال کر اولاً دارالعلوم دیوبند کے عربی مجلہ ماہ نامہ ”الداعی“ میں قسط وار شائع کیا، پھر ان کی تحریک و ترغیب پر شیخ الہند اکیڈمی نے اسے ”الحالة التعلیمیة في الهند قبلَ الاستعمار الانجلیزي وفیما بعده“ کے نام سے بہترین کتابت وطباعت کے ساتھ چھاپا ہے اور یہ مکتبہ دارالعلوم دیوبند میں دست یاب ہے۔ حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ کے مختلف بکھرے ہوئے مقالات اور چند ایک تقریروں کا بھی مولانا امینی مدظلہ العالی نے ”بحوث في الدعوة والفکر الإسلامي“ کے نام سے عربی ترجمہ کیاہے اور وہ بھی اکیڈمی سے طبع شدہ ہے۔