لاگ ان

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

لاگ ان

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

لاگ ان / رجسٹر
جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

مولانا محمد اقبال
رکن شعبۂٔ تحقیق و تصنیف

ماہِ صیام اور قرآن

سورۂ بقرہ آیت:۱۸۵

﴿شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ، فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ، وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ، يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ، وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ﴾

’’رمضان کامہینا وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کےلیے سراپا ہدایت اور ایسی روشن نشانیوں کا حامل ہے جو صحیح راستہ دکھاتی اور حق وباطل کے درمیان دوٹوک فیصلہ کر دیتی ہیں ۔ لہٰذا تم میں سے جو شخص بھی یہ مہینا پائے وہ اس میں ضرور روزہ رکھے۔ اور اگر کوئی شخص بیمار ہو یا سفر پر ہوتو وہ دوسرے دنوں میں اتنی ہی تعدا د پوری کر لے ۔ اﷲ تمہارے ساتھ آسانی کا معاملہ کرنا چاہتا ہے اور تمہارے لیے مشکل پیدا کرنا نہیں چاہتا ،تاکہ (تم روزوں کی) گنتی پوری کر لو اور اﷲ نے تمھیں جو راہ دکھائی اس پر اﷲ کی تکبیر کہواور تاکہ تم شکر گزار بنو‘‘۔

تفسیر

دینِ اسلام کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ انسان کو محض اس بات کا پابند نہیں کیا گیا کہ وہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اور صرف ایک مافوق الفطرت ہستی کے وجود کا اعتراف کرکے اس پر اکتفا کرے ۔بلکہ یہاں معاملہ یہ ہے کہ عملی طور پر انسان کو یہ دکھانا ضروری ہے کہ جس پروردگار کے خالق و مالک ہونے پر اسے یقین ہے اس کے سامنے اپنی بندگی کا ثبوت بھی فراہم کرے۔ اس مقصد کے لیے اللہ تعالیٰ نے عبادات کا ایک ایسا نظام دیا ہے کہ اس سے قول اور فعل میں یکسانیت پیدا ہو اور بندگی کا دعویٰ محض دعویٰ نہ رہے۔ عبادات کے اس نظام کا ایک اہم رکن ماہِ صیام کے روزے بھی ہیں ۔اگر غور کیا جائے تو باقی عبادات کی بنسبت روزہ ہی ایک ایسا عمل ہے جو صرف اللہ تعا لیٰ ہی کے لیے ہے اور اس میں دکھاوے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حدیث میں آتا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:الصَّوْمُ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ۔(صحيح ابنِ خزیمۃ) ’’روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا‘‘۔ یعنی باقی عبادات میں ریا اور سمعہ (دکھاوے) کا امکان موجود ہے ، ہو سکتا ہے کوئی شخص نمازِ باجماعت کا اہتمام اس لیے کرتا ہو کہ خدانخواستہ اسے عبادت گزار سمجھ لیا جائے اور اسی طرح دوسری تمام عبادات میں سوائے روزے کے دکھاوے کا امکان موجود رہتا ہے ۔جبکہ روزے میں یہ ممکن ہی نہیں ہے اس لیے لوگوں کی نظروں سے چھپ کر کسی گوشے میں کھانا پینا کوئی مشکل نہیں، مگر پھر بھی روزہ برقرار رکھنا اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ محض اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لیے ہے۔لہذا عبادات میں ماہِ صیام کے روزے فرض قرار دیے گئے ہیں تاکہ انسان کے اندر تقویٰ پیدہو اور وہ خواہشاتِ نفس کو قابو میں رکھنے کی صلاحیت سے متصف ہو جائے۔آیتِ مبارکہ میں فرما یا گیا کہ تم میں سے جو شخص یعنی ہر بالغ مسلمان یہ مہینا پائے تو وہ اس میں ضرور روزہ رکھے۔ اور اگر کوئی شخص بیمار ہو یا سفر پر ہوتو وہ دوسرے دنوں میں اتنی ہی تعدا د پوری کر لے ۔

ماہِ صیام خیر و صلاح اور نیکیوں کا گویا موسمِ بہار ہے، اس مبارک مہینے کے آتے ہی اسلامی معاشرے میں خیر کے کاموں میں بیش بہا ترقی دیکھنے میں آتی ہے ۔چنانچہ اس مہینے کی بڑی برکتیں اور بڑے فضائل احادیثِ مبارکہ میں موجودہیں۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کا ایک ارشاد نقل کرتےہیں:قَالَ رَسُولُ اللَّهِﷺ: «إِذَا كَانَ أَوَّلُ لَيْلَةٍ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ صُفِّدَتِ الشَّيَاطِينُ، وَمَرَدَةُ الجِنِّ، وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ النَّارِ فَلَمْ یُفْتَحْ مِنْهَا بَابٌ، وَفُتِّحَتْ أَبْوَابُ الجَنَّةِ فَلَمْ يُغْلَقْ مِنْهَا بَابٌ، وَيُنَادِي مُنَادٍ: يَا بَاغِيَ الخَيْرِ أَقْبِلْ! وَيَا بَاغِيَ الشَّرِّ أَقْصِرْ! وَلِلَّهِ عُتَقَاءُ مِنَ النَّارِ، وَذَلكَ كُلُّ لَيْلَةٍ»(سنن الترمذي)’’حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’جب ماہِ رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو شیاطین اور سرکش جنوں کو بیڑیاں پہنا دی جاتی ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور ان میں سے کوئی دروازہ کھولا نہیں جاتا۔ جنت کے سارے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، پس ان میں سے کوئی دروازہ بند نہیں کیا جاتا۔ اورایک ندا دینے والا پکارتا ہے: اے طالب خیر ! آگے آ اور اے شر کے متلاشی! رک جا! اللہ تعالیٰ کے حکم سے لوگوں کو جہنم سے آزادی کا پروانہ مل جاتا ہے اور ماہِ رمضان کی ہر رات یہی سلسلہ جاری رہتا ہے‘‘۔

رمضان اور قرآن

اس آیتِ مبارکہ میں فرمایا گیا ہے کہ: ﴿شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ﴾ ’’رمضان کامہینا وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کےلیے سراپا ہدایت اور ایسی روشن نشانیوں کا حامل ہے جو صحیح راستہ دکھاتی اور حق وباطل کے درمیان دوٹوک فیصلہ کر دیتی ہیں‘‘ ۔ یعنی قرآن کے نزول کا مہینا یہی مبارک مہینا ہے ۔حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:’’قرآن کریم لوحِ محفوظ سے شبِ قدر ماہِ صیام میں بیت العزّۃ سے آسمانِ دنیا کی طرف یک بارگی نازل کیا گیا ، پھر جبریلِ امین علیہ السلام تئیس سال کی مدت میں رسول اللہ ﷺ پر اتارتے رہے‘‘۔ (معالم التنزيل في تفسير القرآن، تفسير البغوي)

لہذا قرآن کریم کا اس مہینے کے ساتھ ایک خاص تعلق ہے، اس لیے فرمایا: ﴿وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ﴾ ’’اور اﷲ نے تمھیں جو راہ دکھائی اس پر اﷲ کی تکبیر کہواور تاکہ تم شکر گزار بنو‘‘۔ یعنی وہ نعمت ِعظمیٰ اور راہِ ہدایت جو قرآنِ کریم کی شکل میں تمھیں دی گئی ہے تم اس پر شکر ادا کرو ۔ماہِ صیام کے دنوں میں روزہ رکھو اور اس کی راتوں کو تراویح میں کھڑے ہو جاؤ اور اللہ کا کلام سنو اور اس کی تلاوت کرو تاکہ تمھارے اندر ضبطِ نفس کی صلاحیت پیدا ہو اورتم اپنے اندر تقویٰ کا جوہر پیدا کر کے باطن کو روحانیت اور پاکیزہ گی سے متصف کرو۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ آنے والے ماہِ صیام میں ہمیں اپنی رضا کے مطابق اس کے تقاضوں کی تکمیل کی توفیق بخشیں اوراس مبارک مہینے کی روحانیت اور نورانیت سے ہمیں مالا مال فرمائیں۔آمین

لرننگ پورٹل