لاگ ان

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

لاگ ان

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

لاگ ان / رجسٹر
جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

فتاویٰ یسئلونک
دارالافتاء، فقہ اکیڈمی

سوال:بندۂ ناچیز نے عقیدہ حیات النبیﷺسے متعلق کچھ تحریری کام کیا ہوا ہے، جسے اب ایک کتابی شکل میں شائع کرنے کا ارادہ ہے، کتاب میں جو مسائل زیربحث آئے ہیں انھی کی ترتیب سے درج ذیل استفتا ہے، ا گر حل فرما دیں گے تو عنایت ہو گی۔جزاکم اللہ خیراً

۱۔اہل سنت والجماعت کے عقائد میں سے سماعِ صلاۃ وسلام(مراد: کیا روضۂ اطہر پر پڑھے جانے والا درود وسلام حضورﷺخود سنتے ہیں، اور دور سے پڑھنے جانے والا درود وسلام حضورﷺتک فرشتے پہنچاتے ہیں) کا کیا حکم ہے؟

۲۔ روضۂ رسولﷺپر حاضری کے وقت بارگاہِ رسالت میں شفاعت کا طلب کرنا کیسا ہے؟

۳۔حج اور عمرے کی ادائیگی کے لیے جانے والے حضرات کو یہ کہنا کہ روضۂ رسول پر حاضری کے وقت بارگاہِ رسالت میں میرا نام لے کرصلاۃ وسلام (مراد درود وسلام) عرض کرتے ہوئے میرے حق میں بھی شفاعت کی درخواست کرنا شرعاً ٹھیک ہے؟

جواب:1۔ نبی کریمﷺکی ذاتِ اقدس پر دور سے پڑھا جانے والا درود و سلام فرشتے خدمتِ عالی میں پیش کرتے ہیں اور جو درود و سلام روضۂ اقدس کے پاس کھڑے ہو کر پڑھا جاتا ہے وہ خود جنابِ رسول اللہﷺسنتے ہیں اور اس کا جواب بھی دیتے ہیں ۔

عَنِ النَّبِيِّﷺَ قالَ: «مَنْ صَلَّى عَلَيَّ عِنْدَ قَبْرِي سَمِعْتُهُ، وَمَنْ صَلَّى عَلَيَّ نَائِيًا أَبْلَغْتُهُ». (شعب الايمان، 3/ 141) ’’نبی کریمﷺسے روایت ہے جو شخص میری قبر کے پاس درود پڑھے تو اس کو میں سنتا ہوں اور جو دور سے درود پڑھے تو وہ پہنچایا جاتا ہے‘‘ ۔

عَنْ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِﷺ:«إِنَّ لِلَّهِ مَلَائِكَةً سَيَّاحِينَ، يُبَلِّغُونِي مِنْ أُمَّتِي السَّلَامَ». (السنن الكبرى للنسائی،10/ 426)’’حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا کہ بیشک اللہ تعالی کے کچھ فرشتے زمین میں چکر لگاتے رہتے ہیں اور مجھ تک میری امت کا سلام پہنچاتے ہیں‘‘۔

2۔ روضۂ اقدس پر پہنچ کر اپنے لیے شفاعت طلب کرنا جائز اور مستحسن عمل ہے ۔

3۔ نبی کریمﷺکے روضۂ اقدس کی زیارت کے لیے جانے والے سے اپنا سلام پیش کرنے کی درخواست کرنا جائز ہے ۔

ثم انهض متوجها إلى القبر الشريف فتقف بمقدار أربعة أذرع بعيدا عن المقصورة الشريفة بغاية الأدب مستدبرا القبلة محاذيا لرأس النبيﷺووجهه الأكرم ملاحظا نظره السعيد إليك وسماعه كلامك ورده عليك سلامك وتأمينه على دعائك وتقول: السلام عليك يا سيِدي يا رسولَ الله، السلام عليك يا نبيَ الله، السلام عليك يا حبيبَ الله، السلام عليك يا نبيَ الرحمة، السلام عليك يا شفيعَ الأمة ۔۔۔۔يا رسول الله نحن وفدُك وزوارُ حرمِك، تَشَرَّفنا بالحلول بين يديك، وقد جئناك من بلاد شاسعة وأمكنة بعيدة نقطع السهل والوعر بقصد زيارتك لنَفُوْزَ بشفاعتك والنظر إلى مآثرك ومعاهدك والقيام بقضاء بعض حقك والاستشفاع بك إلى ربنا فإن الخطايا قد قصمت ظهورَنا والأوزارُ قد أثقلت كواهلَنا وأنت الشافع المشفع الموعود بالشفاعة العظمى والمقام المحمود والوسيلة وقد قال الله تعالى: ﴿ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّاباً رَحِيماً ﴾ وقد جئناك ظالمين لأنفسنا مستغفرين لذنوبنا فاشفع لنا إلى ربك واسأله أن يُميتنا على سننك وأن يحشرنا في زمرتك وأن يوردنا حوضك وأن يسقينا بكأسك غير خزايا ولا ندامى الشفاعة الشفاعة الشفاعة يا رسول الله ۔۔۔۔ سلام من أوصاك به فتقول: السلام عليك يا رسولَ الله من فلانِ بن فلان يتشفع بك إلى ربك فاشفع له وللمسلمين۔ (حاشية الطحطاوي على مراقي الفلّاح، شرح نور الإيضاح (ص: 747)

لرننگ پورٹل