ابنِ عباس
معاون قلم کار
جہاں تحریکِ آزادی کے مجاہدین کی جاسوسی اور مسلمانوں سے غداری کے انعام کے طور پر فرنگی آقاؤں سے ملنے والی قابل ضبطی جاگیروں کی چاکری کرنے والے بہت ہیں وہیں شرعی کراء الارض اور غیر حاضر زمین داری کو مجمع علیہ حرام ِ مطلق قرار دینے والے بھی کافی سارے ہیں ۔ ان معترضین کا شکوہ یہ بھی ہے کہ ملوکیت نے آکر جاگیرداری کو جائز قرار دے دیا۔ حالانکہ روایات اس کے برعکس ہیں، ذیل میں وہ روایات پیش کی جارہی ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ دور خلافت راشدہ میں تو جاگیر داری آب و تاب کے ساتھ جاری رہی، ملاحظہ کیجیے :
عَنْ نَافِعٍ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ كَانَ يُكْرِي مَزَارِعَهُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِﷺوَفِي إِمَارَةِ أَبِي بَكْرٍ،وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ وَصَدْرًا مِنْ خِلَافَةِ مُعَاوِيَةَ حَتَّى بَلَغَهُ فِي آخِرِ خِلَافَةِ مُعَاوِيَةَ أَنَّ رَافِعَ بْنَ خَدِيجٍ يُحَدِّثُ فِيهَا بِنَهْيٍ عَنِ النَّبِيِّﷺفَدَخَلَ عَلَيْهِ وَأَنَا مَعَهُ فَسَأَلَهُ فَقَالَ:«كَانَ رَسُولُ اللهِﷺيَنْهَى عَنْ كِرَاءِ الْمَزَارِعِ»فَتَرَكَهَا ابْنُ عُمَرَ بَعْدُ وَكَانَ إِذَا سُئِلَ عَنْهَا بَعْدُ قَالَ:زَعَمَ رَافِعُ بْنُ خَدِيجٍ أَنَّ رَسُولَ اللهِﷺنَهَى عَنْهَا(صحیح مسلم) ’’حضرت نافع رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اپنی زرعی زمین کرائے پر دیا کرتے تھے۔یہ معاملہ رسول اللہ ﷺ کے دور میں جاری رہا، پھر دورِ صدیق رضی اللہ عنہ،دورِ فاروق رضی اللہ عنہ اور دورِ عثمان رضی اللہ عنہ میں بھی جاری رہا یہاں تک کہ دورِ معاویہ رضی اللہ عنہ کے ابتدائی حصے تک بھی۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور کے آخر میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو یہ بات پہنچی کہ رافع بن خَدِیج رضی اللہ عنہ اس بابت رسول اللہﷺ سے ممانعت بیان کرتے ہیں تو ابنِ عمر رضی اللہ عنہما ان کے پاس یہ بات پوچھنے گئے جب کہ میں ان کے ساتھ تھا۔حضرت رافع رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے زرعی زمین کا کرائے پر لینا منع فرمایا ہے تو اس پر ابنِ عمر نے یہ معاملہ چھوڑ دیا اور اس کے بعد جب ان سے پوچھا جاتا تو وہ فرماتے کہ رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سمجھتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے‘‘۔
غیر حاضر زمین داری کے ناقدین کا مقدمہ یہ ہے کہ رسالت مآب ﷺ کی طرف سےمزارعت کی حرمت آخری دور میں بیان کی گئی جس کی وجہ سے صحابہ کرام اس سے ناواقف رہے اور وہ ناواقفیت کی بنا پر مزارعت میں ملوث رہے لیکن جب انھیں علم ہوا تو انھوں نے مزارعت ترک کر دی۔ بطور مثال وہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی ترکِ مزارعت نقل کرتے ہیں۔ لیکن حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے موقف کی وضاحت ایک دوسری روایت سے ہوتی ہے جس کے مطابق جب آپ کو رافع بن خدیج کے حدیث بیان کرنے کا علم ہوا تو آپ رافع سے ملے اور پوچھا: اے رافع! آپ رسول اللہ ﷺ سے زمین کے کرائے کے بارے میں کیا بیان کرتے ہیں ۔رافع نے کہا: میرے دو چچا اصحابِ بدر میں سے تھے۔ میں نے سنا وہ اپنے گھر والوں سے بیان کر رہے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے زمین کے کرائے سے منع کیا ۔حضرت عبد اللہ بن عمر نے کہا: وَاللَّهِ لَقَدْ کُنْتُ أَعْلَمُ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِﷺأَنَّ الْأَرْضَ تُکْرَی خدا کی قسم میں دورِ نبی ﷺ کے بارے میں خوب جانتا ہوں کہ زمین کرائے پر دی جاتی تھی۔ حضرت سالم بیان کرتے ہیں: ’’پھر عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو خدشہ لاحق ہوا کہ شاید رسول اللہ ﷺ نے اس بابت کوئی بات ارشاد فرمائی ہو جو میرے علم میں نہ آ سکی ہو تو اس احتیاط کی بنیاد پر انھوں نے زمین کرائے پر دینا چھوڑ دیا‘‘۔(صحیح مسلم )
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کا مزارعت ترک کرنا ، احتیاط پر مبنی تھا جو آپ رضی اللہ عنہ کا مخصوص مزاج تھا ۔اس معاملے میں عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا فہم بھی قابلِ غور ہے آپ کے خیال میں نبی کریم ﷺ کا زرعی زمین کے کرائے سے روکنا ، قانونی انداز کی چیز نہیں تھی بلکہ آپ ﷺ ایک اخلاقی تعلیم بتا رہے تھے کہ کرائے پر زمین دے کر مادی فوائد سمیٹنے سے بہتر ہے کہ احسان کرتے ہوئے زمین اپنے مسلمان بھائی کو دے دو تاکہ اخروی اجر وثواب کے مستحق بن سکو۔ درج ذیل روایت اس بات کو بیان کرتی ہے:
عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ قَالَ سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ يَقُولُ كُنَّا نُخَابِرُ وَلَا نَرَى بِذَلِكَ بَأْسًا حَتَّى زَعَمَ رَافِعُ بْنُ خَدِيجٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِﷺنَهَى عَنْهُ ۔ قَالَ عَمْرٌو: ذَكَرْتُهُ لِطَاوُسٍ فَقَالَ طَاوُسٌ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: إِنَّمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِﷺ:يَمْنَحُ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ الْأَرْضَ خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَأْخُذَ لَهَا خَرَاجًا مَعْلُومًا(مسند احمد) ’’حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ہم بٹائی پر زمین دے دیا کرتے تھے اور اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے،بعد میں حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ نبی ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے،راوی کہتے ہیں کہ میں نے یہ بات طاؤس سے ذکر کی تو انھوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے حوالے سے نبی ﷺ کا یہ ارشاد نقل کیا کہ تم میں سے کسی شخص کا اپنی زمین اپنے بھائی کو بطورِ ہدیہ پیش کر دینا اس سے بہتر ہے کہ وہ اس سے اس پر کوئی معین کرایہ وصول کرے‘‘۔درج ذیل روایت میں یہ بات صراحت سے نقل ہوئی ہے کہ عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کے نزدیک رسول اللہ کی ممانعت مزارعت مبنی بر حرمت نہیں تھی:
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنه «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِﷺلَمْ يُحَرِّمِ المُزَارَعَةَ، وَلَكِنْ أَمَرَ أَنْ يَرْفُقَ بَعْضُهُمْ بِبَعْضٍ»(سنن ترمذی)’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مزارعت کو حرام نہیں کیا تھا بلکہ آپ نے یہ حکم دیا تھا کہ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ نرمی اور شفقت کا سلوک کریں(اور اپنی زمین دوسرے کو کاشت کے لیے مفت دے دیا کریں)‘‘۔