لاگ ان

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

لاگ ان

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

لاگ ان / رجسٹر
جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

مولانا نایاب حسن قاسمی‏
رکن شیخ الہند اکیڈمی، دارالعلوم دیوبند

انیسویں صدی کے نصفِ آخر اور بیسویں صدی کے وسط تک ہندوستان کے سیاسی، علمی، تہذیبی وفکری منظرنامے پر جن قدآور شخصیات نے اپنے فکرونظر، جہدِ مسلسل اور اخلاق وکردار کے تابناک نقوش مرتسم کیے اورہم عصر ہندوستان سے اپنی گونا گوں خوبیوں، امتیازات اور خصوصیات کا لوہا منوایا، ان میں ایک انتہائی باعظمت نام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ کا بھی ہے، جنھیں ان کے قدردانوں نے بجا طور پر ”شیخ الاسلام“ اور ”شیخ العرب والعجم“ جیسے وقیع القاب سے نوازا، کہ اسلامی علوم میں ان کی گہرائی وگیرائی، بہ طورِ خاص علومِ حدیث میں ان کی متخصصانہ شان اور اس حوالے سے عرب وعجم کے وسیع تر دائرے میں ان کی خدمت وشہرت، ملکی وعالمی سیاست وتاریخ کے مدوجزر سے ان کی بصیرت مندانہ واقفیت، اسرار ورموزِ دینی کے معاملے میں ان کی تہ رسی ودروں بینی، ہندوستان کی آزادی کی تحریک میں ان کی بے پناہ قربانیاں اوراس راہ میں ان کی ضرب المثل جاں فروشی، بے خوفی اور جُرْأت وبے باکی، کسرِ نفسی، خلوصِ کامل اور ایثار جیسے نبوی صفات میں ان کی یکتائی و انفرادیت اسی کی متقاضی تھیں۔

بلاشبہہ حضرت شیخ الاسلام رحمہ اللہ نہ صرف اپنی اُس عظیم الشان درس گاہ کے علمی فیضانات کے حسین پرتوتھے، جو اپنے قیام سے لے کر آج تک عالمِ اسلام میں دینی علوم کی ترویج واشاعت کے حوالے سے بین الاقوامی سطح پر ممتاز شناخت رکھتی ہے؛ بلکہ وہ اس تحریکِ جہدوجہاد کے بھی جاں سپار رکن تھے، جو حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور ان کی اولاد واحفاد سے شروع ہوئی اور سید الطائفہ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجرمکی رحمہ اللہ ، حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ ، فقیہ النفس حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ اور بلند فکر مردم ساز، عبقری شان کے مالک شیخ الہند مولانا محمودحسن دیوبندی رحمہ اللہ کے راستے ان تک پہنچی تھی، وہ اپنے وقت میں عظیم الشان عالمِ دین اور محرمِ اسرارِ نبوت بھی تھے، بے باک اور سربہ کف مجاہد بھی، تصوف وسلوک کے امام بھی اوراخلاق واقدارِ اسلامی کے عظیم ترین قدردان اور ان کا پیکرِ محسوس بھی۔

ان کی زندگی کا بیشتر حصہ یا تو ہندوستان کی آزادی کی تحریک کی سرگرمیوں میں گزرا یا دارالعلوم دیوبند کی مسندِتدریس سے تشنگانِ علومِ نبوت کو سیراب کرنے میں یا پھر اپنے منتسبین ومعتقدین کی روحانی واخلاقی تربیت میں؛ یہی وجہ ہے کہ بے پناہ صلاحیتوں کے باوصف ان کی تصنیفی خدمات بہت کم ہیں، ان کے قلم کو خاطر خواہ جولانیوں کا موقع ہی کب میسر آیا؟ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کے قلم سے جو بھی تحریریں معرضِ وجود میں آئیں، وہ نہ صرف علمی وتاریخی نکتہ طرازیوں کا اعلیٰ نمونہ ہیں؛ بلکہ وہ ادبی ولسانی خوبیوں کے حسین شہ پارے بھی ہیں۔

مولانا کے رشحاتِ قلم میں خود نوشت سوانح ”نقشِ حیات“ کے علاوہ ”اسیرِ مالٹا“، ”متحدہ قومیت اوراسلام“، ”مکتوباتِ شیخ الاسلام“، ”مودودی دستور وعقائد کی حقیقت“، ”ایمان وعمل“ اور ”سلاسلِ طیبہ“ ہیں؛ جب کہ جمعیت علماے ہند کے مختلف اجلاس میں پیش کیے گئے صدارتی خطبات کا مجموعہ ”خطباتِ صدارت“نہایت اہم ہیں۔

(۱) نقشِ حیات

یہ کتاب پہلی دفعہ ۱۹۵۳ء/ ۱۳۷۲ھ میں دو جلدوں میں شائع ہوئی تھی، پھر اسے یکجا کردیاگیا اور اب یہ ایک ہی جلد میں دستیاب ہے، اس وقت سے لے کر اب تک اس کے بے شمار ایڈیشن ہندوپاک کے مختلف مکتبوں سے چھپ چکے ہیں، یہ کتاب اپنے آپ میں غیرمعمولی اہمیت رکھتی ہے، یہ صرف مولانا کی سوانح ہی نہیں؛ بلکہ اس وقت کی عالمی سیاست میں برپا ہونے والے ہیجانات کا علمی، منطقی وتاریخی تجزیہ بھی ہے، اس کو لکھنے کی وجہ آپ کے شاگردوں اورنیازمندوں کا غیرمعمولی اصرار ہے، جو چاہتے تھے کہ خود آپ کے قلم سے آپ کے حالاتِ زندگی مرتب ہوکر آجائیں؛ تاکہ بعد والوں تک آپ کی زندگی کا صحیح ترین نقشہ پہنچ جائے اور وہ ان حالات سے بھی بہ خوبی واقف ہوجائیں، جن سے آپ، آپ کے استاذِ گرامی (حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ ) اور بیسویں صدی کے مسلمان گزرے اور ان کے سامنے ان قربانیوں کی سچی جھلکیاں بھی آجائیں، جو اسلامیانِ ہند نے آزادیِ وطن کی خاطر پیش کیں اور کسی بھی قسم کی بزدلی، کم ہمتی کو آڑے نہ آنے دیا، مجاہدِ ملت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی رحمہ اللہ اس کتاب کے ”تعارف اور وجہِ تالیف“ کے تحت لکھتے ہیں: ”۱۹۴۲ء میں جب آپ نینی تال جیل میں قید وبند کی زندگی بسر کررہے تھے، تو بعض خدام اور بے تکلف احباب نے آپ سے سوانحِ حیات قلم بند کرنے کی درخواست کی؛ تاکہ اس طرح اکابرِ امتِ مرحومہ کے اس اسوہ کا بھی اتباعِ کامل ہوجائے، جس کو امامِ اعظم ابوحنیفہ ، امام احمد بن حنبل اور دوسرے مقدس اساطین رحمہم اللہ نے اپنے اخلاف کے لیے یادگار چھوڑا ہے، اوّل اوّل آپ نے انکار کیا؛ لیکن جب عرض وگزارش نے اصرارِ پیہم کی شکل اختیار کرلی، تب مجبور ہوکر قلم اٹھایا اور اپنی زندگی سے متعلق چند صفحات لکھ دیے؛ مگر جنبشِ قلم جب اس موڑ پر پہنچی، جہاں سے وہ اپنے مقدس استاذ شیخ الطریقت حضرت مولانا محمودحسن قدس اللہ سرہ العزیز کا رفیق بن کر میدانِ سیاست میں گام زن ہوے تھے، تو اس کے سامنے سب سے اہم اور وقیع مسئلہ یہ پیش آیا کہ آخر شیخ الہند رحمہ اللہ اور ان کے رفقاے کار نے یورپین اقوام خصوصاً انگریزی اقتدار کی مخالفت میں سیاست کی پُرشور اور ہنگامہ آرا زندگی کیوں اختیار کی؟․․․ چناں چہ حضرت مصنف کے سامنے یہ سوال سب سے زیادہ اہمیت کے ساتھ آیا، یہ پوری جلد، جو آپ کے سامنے ہے، اس کا بیش تر حصہ اسی سوال کا مدلل جواب ہے، دوسری جلد میں قطب العالم، شیخ الہند مولانا محمودحسن صاحب رحمہ اللہ کی سیاسی تحریک کے وہ گوشے، جو اب تک پردۂ خفا میں تھے اور رولٹ کمیٹی کی تحقیقاتی رپورٹ بھی جن کو بے نقاب نہیں کرسکی تھی، ان کی نقاب کشائی کی گئی ہے“۔(۱) اور خود صاحبِ سوانح رقم طراز ہیں: ”عرصہٴ دراز سے احباب مجھ سے میری سوانح عمری کی مختلف باتیں دریافت فرماتے رہتے تھے، حسبِ موقع جواب دیتا رہتا تھا، بعض احباب نے مختلف اخباروں اور رسائل میں ان کو شائع بھی کردیا؛ مگر افراط وتفریط اور زیادتی وکمی سے وہ مضامین خالی نہیں رہے اور بعض چیزیں غلط بھی شائع ہوئیں، جن کے تذکرے پر اصرار کیاگیا کہ صحیح واقعات قلم بند کردیے جائیں؛ بالآخر ۱۹۴۲ء میں نظربندی کی نوبت آئی اورجب کہ میں نینی تال جیل، الٰہ آباد میں تھا، تو اس کی پرزور تحریک ہوئی اور کہا گیا کہ اس وقت تو تجھ کو بہت سی مصروفیات سے نجات حاصل ہے، اس کو غنیمت جان کر اس مہم کو پورا کردینا چاہیے؛ کیوں کہ اس میں علاوہ تاریخی واقعات کے تذکرے کے آنے والے لوگوں کے لیے ہدایت اور مشعلیتِ راہ بھی ہے اور نعماے الٰہیہ کی تحدیث کی عمدہ صورت بھی“۔(۲)

کتاب کے شروع میں آپ نے اپنے خاندان کے حالات بیان کیے ہیں، جن میں آپ کے خاندان اور سلسلہٴ نسب کا بھی مفصل اور سیرحاصل تذکرہ ہے، پھر اپنی ابتدائی تعلیم کے واقعات، اس کے بعد دارالعلوم دیوبند میں حصولِ تعلیم کی تفصیلات اور اساتذہ کا ذکرِ خیر ہے، اس ذیل میں آپ نے ان تمام شخصیات کا ذکر کیا ہے، جنھوں نے کسی نہ کسی عنوان سے آپ کو متاثر کیا ۔

مولانا نے اس کتاب میں اپنے فن کی خاص رعایت کی ہے، اپنے تعلق سے لکھتے وقت ان نکات واحوال کو خصوصی طور پر مدنظر رکھا ہے، جو قاری کی نگاہ میں غیرمعمولی اہمیت رکھتے ہیں، سوانح نگاری اور بالخصوص خود نوشت سوانح نگاری ادب کی انتہائی نازک صنف مانی جاتی ہے، خود نوشت سوانح نگارکا فریضہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو ماڈل بناکر پیش نہ کرے، کہ اس کی تحریر خودستائی وخودنمائی کا مرقع بن کر رہ جائے؛ بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے ساتھ بیتے ہوئے حادثات و واقعات کو بغیر کسی تحفظ کے جوں کا توں بیان کرے؛ تاکہ اس کی شخصیت کا واقعی سراپا قاری کے سامنے کھل کر سامنے آجائے، اگر وہ ایسا نہیں کرتا ہے، تو نہ صرف یہ کہ اس فن کی روح کے مجروح ہونے کا خطرہ ہے؛ بلکہ اس قسم کی سوانحِ حیات کسی اعتنا کے قابل نہیں سمجھی جاتی، مولانا کو اس حقیقت کا کامل ادراک تھا؛ اس لیے آپ کے قلم کی روش پوری طرح فن کی مقتضیات کو پورا کرتی ہے، آپ کہیں بھی یہ ایہام نہ ہونے دیتے کہ سوانح نگار اپنے وقت کا ایک زبردست عالم، محدث، مرشد اور مجاہد ہے؛ بلکہ آپ اپنے کو ایک عام آدمی کی طرح پیش کرتے ہیں، جس کی زندگی کا آغاز ایسے ہی ہوا، جیسے کہ دیگر لوگوں کی زندگی کی شروعات ہوتی ہے، اس کا اندازہ آپ کے بچپن کے اس واقعے سے بہ خوبی ہوتا ہے، لکھتے ہیں: ”مجھ کو ہوش وحواس جب آئے، تو میں نے اپنے آپ کو ٹانڈہ میں پایا، بانگرمئو (جہاں آپ کی پیدایش ہوئی تھی) بالکل یاد نہیں، والدین مرحومین کو اولاد کی تعلیم وتربیت کا غیرمعمولی اور بہت زیادہ خیال تھا اوراس کے لیے والد مرحوم بہت زیادہ سختی کرتے تھے؛ اس لیے مجھ کو کھیلنے کا موقع آزادی کے ساتھ صرف چار برس کی عمر تک ملا ہے، جب اس عمر کو پہنچا، تو گھر میں والدہ مرحومہ کے پاس قاعدہ بغدادی، اس کے بعد سپارہ پڑھنا پڑتا تھا، صبح ساڑھے نوبجے تک تو یہ قید اور پڑھائی گھر میں ہوتی تھی اور ساڑھے نوبجے کھانا کھاکر والدمرحوم کے ساتھ اسکول جانا پڑتا تھا، اسکول الٰہ داد پور سے تقریباً ایک میل یا اس سے کچھ زائد دوری پر ہے، اسکول کی تعلیم میں بھی مدرسین اس زمانے میں خوب مارپیٹ کرتے تھے“۔(۳)

اس اقتباس سے حضرت کے گھرکے علمی ماحول اور والدین کی اولاد کی بہترین علمی واخلاقی تربیت سے غیرمعمولی دل چسپی کا احساس ہوتا ہے، ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مولانا اس حقیقت سے اچھی طرح واقف تھے کہ شخصیت کی تعمیرو تشکیل میں ماحول اور وراثت دونوں اثر انداز ہوتے ہیں؛ اس لیے اپنی سوانح اس انداز سے پیش کی کہ قاری کو معلوم ہوجائے کہ سوانح نگار کس حد تک وراثت کا مِنَّتْ کَشْ ہے اور اس کی نشوونما میں کس حد تک ماحول اور گردوپیش کی کارفرمائی ہے، یہ ذہن میں رہے کہ ماحول اور وراثت دونوں ایک حد تک ہم آہنگ بھی ہیں اور بہت حد تک ان میں ایک دوسرے سے بے گانگی بھی ہے، سوانح نگاروں کا ایک حلقہ وراثت کی زیادتی تاثیر پر زور دیتا ہے، جب کہ دوسرا حلقہ ماحول کو شخصیت کی تعمیر میں زیادہ اثر انداز مانتا ہے، اگرچہ دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ وراثت اور ماحول دونوں تعمیر وتشکیلِ شخصیت کے جوہری عناصر کی حیثیت رکھتے ہیں؛ لیکن ان دونوں کے ساتھ خود شخصیت کے اندر بھی ایک خاص عنصر ہوتا ہے، جو خالص مذاقی یا انفرادی نوعیت کا اور جس کے بغیرکسی بھی ذات کی تعمیر نقطۂ کمال کو نہیں پہنچ سکتی، یہی وہ مقام ہے جس سے اگر صاحبِ سوانح صحیح طور سے عہدہ برآ نہ ہوسکے، تو وہ اپنے راستے سے بھٹک جاتا ہے اور پھر اس کا قلم مختلف وادیوں میں قلابازیاں کھاتا اور اس کی تحریریں افراط وتفریط کی تنگنائیوں میں الجھ کر رہ جاتی ہیں، مولانا نے اس مقام پر بھی فنی نزاکتوں کو مکمل طور پر محسوس کیا اور کہیں بھی اس فن کو مجروح نہیں ہونے دیا ہے اور اپنے مخصوص اندازِ بیان میں اس منزل کو اس خوبی سے سرکیا ہے کہ یہ تحریریں پڑھنے والے کی دلچسپیوں کا باعث بن گئی ہیں۔

شروع میں یہ عرض کیاگیاکہ ”نقشِ حیات“ صرف مولانا کے احوالِ زندگی کی دستاویز ہی نہیں؛ بلکہ یہ اس دور کی سیاسیات ومعاشرت کی مشاہداتی، تجرباتی ومطالعاتی تاریخ بھی ہے؛ اس لیے جب ہم اس کتاب کے اس حصے کا مطالعہ کرتے ہیں، جس میں انھوں نے حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ کی مجاہدانہ سرگرمیوں کا تذکرہ کیا ہے، تو ہمارے سامنے اس وقت کے سیاسی اتار چڑھاؤ کا مکمل نقشہ سامنے آجاتا ہے اور ان پر آپ کی گہری نظر کا بھی مکمل احساس ہوتا ہے۔ سوانح نگار اگر چاہے، تو کسی معمولی سے واقعے کو پھیلاکر اسے ایک مکمل کتابی شکل میں پیش کرسکتا ہے؛ لیکن یہ وصف کوئی پسندیدہ نہیں کہا جاسکتا، ضرورت سے زیادہ تحریر کے پھیلاؤ سے پڑھنے والا اُکتاجاتا ہے اور پھر اس کے لیے اس کتاب کو از ابتدا تا انتہا پڑھ ڈالنا بہت ہی دشوار ہوتا ہے اور اگر اسے ختم کربھی لیا جائے، تو قاری کے پلے کچھ بھی نہیں پڑتا اور اس کا دماغ جوں کا توں خالی رہ جاتا ہے؛ لیکن ”نقشِ حیات“ میں یہ نقص کہیں بھی نہیں پایا جاتا، اس کے مطالعے سے قاری کے احساس وشعور میں یہ خیال ابھرتا ہے کہ صاحبِ سوانح نے بڑے بڑے اور اپنے پہلو میں تاریخ کی تہ بہ تہ پرتیں رکھنے والے واقعات کو بھی انتہائی اختصار اور جامعیت کے ساتھ بیان کیا ہے اور اس احتیاط کے ساتھ کہ کہیں بھی کتاب کے مرکزی خیال سے انحراف کا شائبہ بھی نہیں پایا جاتا، کتاب کے بعض حصوں میں ایسے تاریخی واقعات بھی آگئے ہیں، جو اپنے دامن میں دراز نفسی لیے ہوئے ہیں؛ مگر ان کو اس خوش سلیقگی کے ساتھ بیان کیا ہے کہ وہ طوالت بھی ان کے قلم کی ایک خوبی اور بیان پر ان کی مہارت کی واضح دلیل بن گئی ہے۔ ”نقشِ حیات“ میں کہیں بھی کسی قسم کی پیچیدگی، اٹکاؤ اور الجھاؤ نہیں ہے، مولانا اپنی عملی زندگی میں خواہ شخصی ہو یا معاشرتی، جس طرح اجلے کیریکٹر اور شفاف وواضح کردار کے انسان تھے، ان کی زندگی کا ہرگوشہ ہر زاویے سے کھلی کتاب کی مانند تھا، جسے ہر شخص بہ آسانی محسوس کرسکتا تھا، اسی طرح ان کی تحریریں بھی اپنے مظاہر اور معنویت کے اعتبار سے بالکل واضح ہیں، انھوں نے جس مسئلے پر بھی قلم اٹھایا ہے، پوری باریک بینی، ژرف نگاہی کے ساتھ اٹھایا ہے؛ یہی وجہ ہے کہ ان کے عمل وکردار کی طرح ان کی نگارشات میں بھی بھرپور سادگی اور وضاحت ہے، محشراعظمی نے اپنے مضمون میں لکھا ہے: ”نقشِ حیات میں کسی جگہ الجھاؤ نہیں ملتا، مولانا نے عملی زندگی میں جس طرح ایک واضح، صاف اور متعین راہ اختیار کی تھی، ان کی تحریروں میں بھی وہی بات ملتی ہے، شروع سے آخر تک ایک ہی رنگ اور ایک ہی شان نظر آتی ہے اور کہیں بھی کوئی ایسا موڑ نہیں ملتا، جہاں قلم نے اپنے حدود سے تجاوز کیا ہو اور ادائیگیِ مطلب کے لیے جن الفاظ کی ضرورت محسوس کی گئی ہے، وہی الفاظ استعمال کیے گئے ہیں، مولانا جو کچھ لکھنا چاہتے تھے اور جس مقصد کے لیے انھوں نے قلم کو جنبش دی، قاری اسے بہ خوبی سمجھ لیتا ہے، نہ کہیں کوئی گوشہ تشنہٴ تکمیل ہے، نہ کہیں شک کی کوئی گنجایش موجود ہے“۔(۴)

”نقشِ حیات“ مولانا کی ایسی تصنیف ہے، جس میں ان کا اسلوبِ نگارش ایک خاص انداز میں جلوہ گر ہے، جو بہت ہی سنجیدہ اور جامع ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس میں ایک طرح کی پاکیزگی کا حساس ہوتا ہے، ذاتی تفصیلات وجزئیات عام طور پر ایسی ہوتی ہیں، جن سے بعض اوقات قاری اکتاہٹ کا شکار ہوجاتا ہے؛ اس لیے اپنی باتوں کو پیش کرنے میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے، اگر بات اختصار طلب ہے، تو اس کو طول دینے سے گریز کرنا چاہیے اور اگر وہ تفصیل چاہتی ہے تو اسے پھیلاکر لکھنا چاہیے، مولانا کے زورِ قلم کا یہ اعجاز ہے کہ وہ خالص ذاتی معاملات کی جزئیات میں قاری کو زیادہ دیر نہیں الجھاتے؛ بلکہ ”نقشِ حیات“ میں پیش کیاگیا ان کی زندگی کا ایک ایک واقعہ کسی نہ کسی خاص پَسْ منظر کا حوالہ ہے، مثلاً جہاں پر انھوں نے اپنی زندگی پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے، وہ حصہ ان کی زندگی کے آئینے میں ہندوستان بھر کی سیاسی واجتماعی حالات کی عکاسی کرنے والا ہے، انھیں اس بات پر کمال حاصل ہے کہ وہ اپنے مطلب کو اس واضح انداز میں سمجھادیتے ہیں کہ قاری کے ذہن ودماغ میں یقین کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے اوراس کے احساس ووجدان میں تحریک کی شمع روشن ہونے لگتی ہے۔

”نقش حیات“ کا ایک اوراہم گوشہ یہ ہے کہ مولانا نے اس میں پیش کیے گئے ہر واقعے کو دلائل، شواہد اور مستند اعداد وشمار سے مبرہن کیا ہے؛ چناں چہ جہاں آپ نے انگریزوں کی لوٹ کھسوٹ اور ان کے ہاتھوں ہندوستان کی تجارت ومعیشت ومعاشرت کی تاراجی کو بیان کیاہے، تو اسے مدلل کرنے کے لیے خود انگریز موٴرخین کی تصانیف سے حوالے پیش کیے ہیں، اس حصے کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ احساس قلب ودماغ پر چھاجاتاہے کہ صاحبِ کتاب کو تاریخ اور اس کے مآخذ سے حیرت ناک حد تک آگاہی ہے، مولانا جہاں مذہبی اور علمی معاملات میں جابہ جا قرآنی آیات اور حدیثی استدلالات کا مضبوط سہارا پکڑتے ہیں اور ان کے ارشادات کی روشنی میں اپنے موقف اور نظریے کی قوت و وقعت پر برہان قائم کرتے ہیں، وہیں تاریخی واقعات کے تذکرے اور تجزیے کے وقت اس فن کی امہاتِ کتب کے حوالے سے اپنا نقطۂ نظر پیش کرتے ہیں اور ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ قاری کسی بھی اعتبار سے شک وشبہے میں مبتلا نہ ہو؛ بلکہ اس کا ذہن یقین کی سروربخشیوں سے سرشار ہوجائے، بہ قول محشر اعظمی: ”نقشِ حیات میں زیادہ تر انگریزی تصنیفات اور تحریروں کا حوالہ دیاگیا ہے، جن لوگوں نے ہندوستان پر ظلم کیا، اس کی دولت لوٹی اور پھر اپنے احسانات بھی جتائے اور ہر طرح اپنے عیب وجرم کو چھپانے کی کوشش کی، مولانا نے خود انھی کی تحریروں سے انھیں بے نقاب کردیا اور ان کی پوری قلعی کھول کر رکھ دی اور یہ ثابت کردیا کہ انگریز ظالم تھے، انھوں نے ہندوستان کا خون چوسنے میں اپنی خوں خواری کا پورا ثبوت دیا“۔(۵)

خلاصہ یہ ہے کہ نقشِ حیات اپنے وقت کے ایک عظیم عالم ومحدث، تحریک آزادی کے کفن بردوش مجاہد اور شب زندہ دار زاہد کی سیرحاصل داستانِ حیات بھی ہے، جو انتہائی سادگی کے ساتھ بیان کی گئی ہے اور ساتھ ہی بیسویں صدی کے ہندوستان کے سیاسی ومعاشرتی نشیب وفراز کی سچی اورحقیقت نما تصویر بھی۔

(۲) اسیرِ مالٹا

یہ آپ کی اس وقت کی تصنیف ہے، جب آپ کا قلم جوان تھا، اس کے شروع کے صفحات میں حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ کے امتیازی اوصاف وشمائل کو بہت ہی دل آویز اسلوب، انتہائی پرکشش طرز اور ایسے شیریں وسحر انگیز الفاظ میں بیان کیاہے کہ قاری ان میں جذب ہوکر رہ جاتا ہے، مثلاً شروع کے یہ چند جملے:

”اس نے بحرِامدادی سے فیوضات حاصل کیے؛ مگر ڈکارنہ لی، اس نے قاسمی نہریں پی ڈالیں؛ مگر ہضم کرگیا، اس نے رشیدی گھٹاؤں اور دھواں دھار بادلوں کو چوس لیا؛مگر کبھی بے اختیار نہ ہوا، دعویٰ نہ کیا، شطحیات نہ سنائیں، استقامت سے نہ ہٹا، شریعت کو نہ چھوڑا، عشق میں گھل کر لکڑی ہوگیا؛ مگر دم نہ مارا․․․“۔(۶)

چند صفحات تک تو یہی سحرانگیز اسلوب ہے؛ مگر کتاب کے بقیہ حصے میں تحریر کا یہ رنگ نہیں ہے، اس کتاب میں مولانانے حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ کی تحریکِ آزادی کے نقطۂ آغاز سے لے کر مکہ معظمہ کے سفر، وہاں تک پہنچنے اور پہنچنے کے بعد کی روداد، شریفِ مکہ کی آپ کے تئیں بدگمانی، مکے میں محبوسی، وہاں سے مصر (جیزہ) کو روانگی اور مصر کی ایک ماہ کی اِسارت کے بعد ۱۵/فروری ۱۹۱۷ء/۲۳/ربیع الثانی ۱۳۳۵ھ کو مالٹا کی روانگی، سفر کے احوال، مالٹا کی مدتِ محبوسیت میں شب وروز کی سرگرمیوں، حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ کے سلسلہٴ تدریس وترجمہ قرآنِ پاک کے معمولات، حضرت کے دیگر رفقا مولانا حکیم نصرت حسین، مولانا عزیرگل، مولانا وحیداحمد اور حضرت مدنی رحمہم اللہ کے شبانہ روز کے اشتغالات، مولانا حکیم نصرت حسین رحمہ اللہ کے سانحہٴ ارتحال کی روداد، پھر تین سال کی اسارت کے بعد رہائی اور وہاں سے دیوبند تک آمد کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں، تتمہ کے تحت کرنل اشرف بیگ، جو حکومت ترکی کے سربرآوردہ لوگوں میں سے تھے اور ان کی اپنی ایک علیحدہ فوج تھی، جو خلافتِ عثمانیہ کے لیے کام کرتی تھی، صنعاے یمن کے امام یحییٰ نے گورنر انور پاشا کو خط لکھاتھا کہ تم اشرف بیگ کو اپنی فوج کے ساتھ بھیج دو، میں اپنی اوران کی فوج کے ساتھ مل کر شریف حسین (جس نے خلافتِ عثمانیہ سے بغاوت کی اور پورے حجاز میں ترکی حکومت کے خلاف احتجاج کا طوفان برپا کرکے وہاں سے اس کا خاتمہ کروادیا) پر چڑھائی کروں؛ تاکہ اس سے اس کی اسلام دشمنی وانگریز وفاداری کا بدلہ لیا جائے؛ چناں چہ انور پاشا نے کرنل اشرف کو بھیج دیا؛ لیکن مدینے میں ہی انھیں اور ان کی فوج کو شریف حسین کے گرگوں نے دھرلیا، دونوں کے درمیان زبردست معرکہ آرائی ہوئی؛ بالآخرکرنل اشرف کی فوج پسپا ہوگئی اور انھیں گرفتار کرکے اسی جماعت کے ساتھ، جس میں حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ اور آپ کے رفقا تھے، مالٹا بھیج دیاگیا، مولانا مدنی رحمہ اللہ نے ان کا، ان کے خاندان کا اورمالٹا کے قیام کے دوران ان کے شریفانہ اخلاق ومعاملات اور حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ کے تئیں ان کے غیرمعمولی جذبہٴ احترام وتکریم کا تفصیلی تذکرہ کیا ہے، کتاب کے اخیر میں تقریباً سات صفحات میں حضرت شیخ الاسلام رحمہ اللہ کا بھی اجمالی تذکرہ شامل ہے، تذکرہ نویس محمد مبین خطیب ہیں۔

جاری ہے

حواشی:
(۱) ص:۴-۵، مطبوعہ: مکتبہ دینیہ، دیوبند۔
(۲) ص:۷۔
(۳) ص:۴۲۔
(۴) روزنامہ الجمعیۃ، ”شیخ الاسلام نمبر“ ص:۱۷۲۔
(۵) ایضاً، ص:۱۷۳۔
(۶) ص:۸، مطبوعہ: مکتبہ الفضل، دیوبند۔

لرننگ پورٹل