لاگ ان

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

لاگ ان

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

لاگ ان / رجسٹر
جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

سانحۂ سیالکوٹ سے بڑا سانحہ

تھوڑے پرانے وقتوں میں کہا جاتا تھا’’کیا بات ہوئی کس طور ہوئی اخبار سے لوگوں نے جانا‘‘ لیکن پریانتھاکمارا کے قتل کی خبر’’سماجی ربط گاہوں‘‘(سوشل میڈیا) پر،گردش کرنے والی ویڈیوز سے پھیلی۔یہ ۳ دسمبر۲۰۲۱ء کا واقعہ ہے جس کے فوری بعد اس ظالمانہ فعل کی جاہلانہ ویڈیوز پھیلائی جانے لگیں۔آنجہانی پریانتھاکمارا،سری لنکن شہری اور راجکو انڈسٹریز سیالکوٹ کےمحنتی اور سخت گیر پروڈکشن منیجر تھے۔پولیس تحقیق کے مطابق ان کی پیشہ ورانہ ڈانٹ ڈپٹ کا انتقام لینے کے لیے فیکٹری کے ایک سپروائزر نے ان پر توہینِ مذہب یا توہینِ رسالت کا جھوٹا الزام لگا کر دوسرے کارکنوں کے جذبات کو بھڑکایا۔مشتعل کارکنوں نے لاتوں،مکوں اور ڈنڈوں سے انھیں پیٹا اور پسِ انتقال ان کی لاش سڑک پر پھینک کر آگ لگا دی۔اس واقعہ کو سانحہ کا نام بجا طور پر دیا گیا۔سپہ سالاروں اور حکمرانوں سمیت تمام طبقات نے اس حادثے پر رنج و غم کا اظہار کیا۔جید علماےکرام،مثلاً مولانا فضل الرحمن صاحب،مولانا مفتی منیب الرحمن صاحب،مولانا محمد تقی عثمانی صاحب،مولانا قاری حنیف جالندھری صاحب،پروفیسر ساجد میر صاحب،مولانا ابو الخیر زبیر صاحب،مولانا طارق جمیل صاحب اور تحریک لبیک پاکستان کے ترجمان نے واشگاف الفاظ میں اس کی مذمت کی۔ ان حضرات کے فرامین کا خلاصہ یہ ہے کہ توہینِ ناموسِ رسالت عظیم جرم ہے لیکن توہینِ ناموسِ رسالت کا غلط الزام بھی سنگین جرم ہے جس کی قرار واقعی سزا دینی چاہیے۔البتہ اس واقعے کی آڑ میں توہینِ ناموسِ رسالت و توہینِ مذہب کے قوانین کو نشانہ بنانا بھی قابلِ مذمت ہے اس لیے کہ قانونِ توہینِ ناموسِ رسالت و توہینِ مذہب انسانی جانوں کے تحفظ اور ملک میں امن و استحکام کا ذریعہ ہے۔اس میں کوئی شک نہیں بعض مذہبی طبقات میں متشدد عناصر پائے جاتے ہیں اور جدید تعلیم یافتہ،سیکولر اور لبرل طبقات اگر مذہبی طبقے کو شدت پسندی کے خاتمے کا وعظ و نصیحت کریں تو یہ بھی امر جائز ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ان کا وعظ،طعن کی حد تک جا پہنچا ہے ایسے میں ہم یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتے کہ ان روشن خیالوں کا حال’’چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر‘‘سے بھی برا ہے؎

چراغ سامنے والے مکان میں بھی نہ تھا
یہ سانحہ مرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا

ہم اس کی کچھ مثالیں پیش کرنا چاہتے ہیں اگرچہ ان سیاسی مثالوں میں کسی کی جان نہیں لی جا رہی جیسا کہ سانحہ سیالکوٹ میں ہوا لیکن دونوں کی اصل ایک ہے اور وہ ہے عدم ِبرداشت:

۱۵ جون ۲۰۲۱ء کو قومی اسمبلی میں ہنگامہ آرائی ہوئی۔پی ٹی آئی اور مسلم لیگی اراکین باہم گتھم گتھا ہو گئے ایک دوسرے کو ننگی گالیاں دی گئیں اور بھاری بجٹ کی بھاری کاپیوں سے ایک دوسرے کے گال لال کیے گئے۔ایک خاتون رکن کی آنکھ زخمی ہو گئی۔ایک وزیر صاحب نے یہ فرمایا کہ ایسے جھگڑے کوئی بڑی بات نہیں ہماری اسمبلی میں تو ایک رکن کو جان سے بھی ماراجا چکا ہے۔ان کا اشارہ ڈپٹی سپیکر مسٹر شاہد علی خان کی طرف تھا جو ۱۹۵۸ء میں مشرقی پاکستان کی صوبائی اسمبلی میں جھگڑے کے دوران زخمی ہو کر چند روز بعد چل بسے تھے۔

جون ۲۰۲۱ء ہی میں پی ٹی آئی کی ایک طاقت ور،رکنِ اسمبلی اور پیپلز پارٹی کے رکنِ اسمبلی میں ٹی وی شو کے دوران نازیبا کلمات کا تبادلہ ہوا جس پر خاتون رکنِ اسمبلی نے دوسرے معزز رکنِ اسمبلی کو ایک زور دار چانٹا رسید کر دیا۔

فروری ۲۰۲۱ء میں بھی قومی اسمبلی میں دھکم پیل ہوئی سپیکر کا مائیک اتار لیا گیا اور بعض اراکین کو دھکے دے کر زمیں چاٹنے پر مجبور کر دیا گیا۔

۱۸ مئی ۲۰۱۸ء کو پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی اور مسلم لیگ نون کے اراکین کے درمیان جھگڑا ہوا اور باہم گتھم گھتا ہو گئے۔

مارچ۲۰۱۲ء،پنجاب اسمبلی میں خواتین کی طرف سے بعض اراکین پر جوتے اچھالے گئے۔ایک ممبر کے کپڑے پھاڑ دیے گئے۔

مارچ ۲۰۱۱ء میں پنجاب اسمبلی کی لابی میں پیپلز پارٹی کی دو خواتین رکن آپس میں لڑ پڑیں گالیوں،بال نوچنے،تھپڑ مارنے اور گملے اٹھا کر ما رنے کے دلدوز مناظر ناظرین کو دیکھنے کو ملے۔

اکتوبر ۲۰۱۱ء،قومی اسمبلی میں ایم کیو ایم اور مسلم لیگ کے اراکین دست و گریبان ہو گئے اور ایک دوسرے کو گالیوں اور دھکوں سے نوازا۔

اب ذرا،اسمبلیوں سے باہر کا حال دیکھیں تو:

۲۰۱۰ء میں سیالکوٹ کے ایک گاؤں میں دو حافظ ِقرآن بھائیوں پر ڈکیتی کا الزام لگا کر ایک ہجوم نے ڈنڈوں سے پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیا اور بعد میں ان کی نعشوں کو چوراہے پر لٹکا دیا گیا۔یا د رہے کہ یہ اندوہناک واقعہ ایک پولیس آفیسر اور آٹھ سپاہیوں کی موجودگی میں ہوا تھا۔

۲۰۱۷ء میں خان عبدالولی خان یونی ورسٹی کے طالبِ علم پر توہینِ مذہب کا جھوٹا الزام لگا کر قتل کر دیا گیا تھا۔اس قتل میں مقامی کونسلر بھی ملوث پائے گئے تھے۔

۲۰۱۵ء میں یوحنا آباد میں عیسائیوں کے ایک مشتعل ہجوم نے بابر نعمان اور حافظ نعیم کو تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد تیل چھڑک کر آگ لگا دی تھی۔

اب آخر میں مذہبِ اسلام کے نام پر ہونے والے دو واقعات پیش کرتے ہیں:

لاہور کے قریبی علاقے کوٹ رادھا کشن میں ایک جوان عیسائی جوڑے کو قرآنِ کریم کے اوراق جلانے کے جرم میں،ایک اینٹوں کے بھٹے میں پھینک کر زندہ جلا دیا گیا تھا۔یہ وہ واقعہ ہے جس کی پشت پر ایک مولوی صاحب کی طرف سے مساجد میں غیر ذمےدارانہ اعلانات شامل ہیں۔

پنجاب کی صوبائی وزیر،ظل ہما عثمان کو ۲۰۰۷ء کو گجرانوالہ میں محمد سرور نامی شخص کی طرف سے قتل کر دیا گیا۔ قاتل کا کہنا تھا کہ سیاست میں حصہ لے کر ظل ہما نے اللہ تعالیٰ کے احکام کی خلاف ورزی کی ہے جس کی سزا اسے دے دی گئی ہے۔پولیس کا یہ بھی ماننا تھا کہ اس شخص کا کسی مذہبی تحریک یا جماعت سے کوئی تعلق ثابت نہیں ہو سکا۔

یہ درست ہے کہ ان پر تشدد واقعات کی پشت پر کوئی مسلک و مذہب یا علماے کرام کا کوئی گروپ یا کوئی غیر سرکاری تنظیم نہیں ہے۔ہم کہہ سکتے ہیں کہ﴿فَعَلَ السُّفَهَاءُ مِنَّا﴾’’ہمارے بے وقوف لوگوں نے یہ کام کیا ہے‘‘ لیکن اپنے بے وقوفوں کو روکنا بھی تو ہمارا ہی کام ہے:﴿وَلَا تُؤْتُوا السُّفَهَاءَ﴾’’مت دو بے وقوفوں کو۔۔۔‘‘۔ہمیں بے وقوف لوگوں کے اسراف اور ظلم و زیادتی کو روکنے کا حکم بھی تو دیا گیا ہے:«تَأْخُذُوا عَلَى يَدِ الظَّالِمِ»’’ظالم کا ہاتھ روک دیا کرو‘‘۔(سنن ترمذی )تو ہم بہ حیثیتِ قوم و ریاست اس فریضے کی ادائیگی میں ناکام رہے ہیں۔نہی عن المنکر دین کا ایک مستقل موضوع ہے لیکن اب اس کا حوصلہ عوام چھوڑ خواص میں بھی نہیں رہا۔اس میں جتنا دخل ہمارے زوالِ دین داری کو ہے اس سے زیادہ کھلا قصور ہماری حکومتوں کا ہے ۔جب سے جنرل مشرف نے میراتھن ریس پر اعتراض کرنے والوں کو آنکھیں بند کر نے کا مشورہ دیا تب سے حکومت اور انتظامیہ کی طرف سے اسی رویے کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے کہ ’’ تجھے پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تُو‘‘تو جب ملک کا نظام ایسا ہو کہ کسی ظالم کسی مافیا اور کسی ہائی پروفائل کے خلاف گواہی دینے یا اس کے خلاف تفتیشی افسر بننے یا اس کے خلاف وکیل بننے پر نہ صرف جان و خاندان کے نقصان کی دھمکیاں دی جائیں بلکہ انھیں عملی جامہ بھی پہنایا جائے تو کس میں نہی عن المنکر بالید کرنے کا حوصلہ رہے گا۔جو واقعات ہم نے پیش کیے ان کا حاصل یہ ہے کہ عدمِ برداشت و تحمل ہمارا ایک قومی مسئلہ بن چکا ہے جس میں ہر طرح کے لوگ ملوث پائے جاتے ہیں ۔اس واقعے پر سامنے آنے والا ایک خاص ردِ عمل بھی دیکھ لیتے ہیں اسی کے ذیل میں اصلاح کے لائحہ عمل کی طرف اشارہ ہو جائے گا ۔سانحہ سیالکوٹ کی آڑ میں وطن ِعزیز کے غیر عزیز لبرل حضرات نے اسلامی نظریہ کے خلاف بھی کوشش شروع کر دی ۔ بی بی سی اردو کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ایک مضمون میں اس واقعے کو مارچ ۱۹۴۹ء میں دستور ساز اسمبلی سے منظور ہونے والی قرار دادِ مقاصد سے جوڑ دیا گیا کہ اس قرار داد نے پاکستان میں مذہبی حساسیت کی بنیاد رکھ دی۔(https://www.bbc.com/urdu/pakistan-59559233)انتہا پسندی کے لیے قرار دادِ مقاصد کو ذمہ دار ٹھیرانا تنگ نظر ذہن کی متعصبانہ سوچ ہے۔اس لیے کہ قرار دادِ مقاصد کے دوسرے پیرے میں مملکت ِپاکستان کے لیے ایک دستور کی ضرورت کا اظہار کیا گیا ہے اور اندازِ حکومت میں اسلامی تشریح کے مطابق جمہوریت ،آزادی، مساوات ،رواداری اور معاشرتی انصاف کو ملحوظ رکھنے کی تاکید کی گئی ہے۔ بات بالکل صاف ہے کہ ملک میں جاری متشدد رویے قراردادِ مقاصد کی خلاف وزی کی وجہ سے ہیں ۔اگر ملک میں دستور کو چلنے دیا جاتا اور بار بار اسے بھاری بوٹوں تلے نہ روندا جاتا ۔مساوات اور رواداری کی قدروں کو فروغ دیا جاتا تو آج ہمارے حالات مختلف ہوتے۔ قرار دادِ مقاصد میں آگے چل کر حکومت کی ایک ذمہ داری کے طور پر بیان کیا گیا کہ ’’ مسلمانوں کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ انفرادی و اجتماعی طور پر اپنی زندگی کو اسلامی تعلیمات و مقتضیات کےمطابق جو قرآن و سنت ِنبوی میں متعین ہیں ڈھال سکیں اور اس امر کا قرار واقعی انتظام کیا جائے کہ اقلیتیں آزادی کے ساتھ اپنے مذہب پر عقیدہ رکھ سکیں اور ان پر عمل کر سکیں اور اپنی ثقافتوں کو ترقی دے سکیں ‘‘۔اگر حکمرانوں نے اپنی ذ مہ داریاں ادا کرتے ہوئے قراردادِ مقاصد کی روح کے مطابق نظامِ تعلیم و تربیت تشکیل دے کر عوام و خواص کے کرداروں کی اسلامی تشکیل کی ہوتی تو آج ہمیں یہ دن نہ دیکھنا پڑتے اور نہ ہی ہمیں سری لنکا کے سامنے ’’ شرمندہ ‘‘ ہونا پڑتا ۔اصل میں ہمیں شرمندہ ہونے کی ضرورت ہے تو اپنے رب کے سامنے، کہ ہم اپنی کوتاہیوں پر انفرادی اور اجتماعی شرمندگی کا اظہار کر کے اصلاح کے لیے کوشاں ہو جائیں تو یہی سچی توبہ ہے:«النَّدَمُ تَوْبَةٌ» (ابن ماجہ)’’ شرمندگی ہی توبہ ہے‘‘۔

لرننگ پورٹل