سید احمد شاہ معروف بہ احمد فرازؔ(۱۹۳۱۔۲۰۰۸ء)
معروف شاعر
اے شعاعِ سحرِ تازہ نئے سال کی ضو |
میرے سینے میں بھڑکتی ہے ابھی درد کی لو |
میری آنکھوں میں شکستہ ہیں ابھی رات کے خواب |
میرے دل پر ہے ابھی شعلۂ غم کا پرتو |
جا بجا زخم تمنا کے مری خاک میں ہیں |
کیا ابھی اور بھی ناوَک کفِ افلاک میں ہیں |
ہر نئے سال کی آمد پہ یہ خوش فہم ترے |
پھر سے آراستہ کرتے ہیں در و بام اپنے |
پھر سے واماندہ ارادوں کو تسلی دینے |
ہم بُھلا دیتے ہیں کچھ دیر کو آلام اپنے |
گل شدہ شمعوں کو ہم پھر سے جلا دیتے ہیں |
پھر سے ویرانیٔ قسمت کو دعا دیتے ہیں |
یوں ہی ہر سال مرے دیس کی بے بس خلقت |
پھر سے ادوار کے انبار میں دب جاتی ہے |
خود فریبی کے تبسم کو سجا لینے سے |
شدتِ کرب بَھلا چہروں سے کب جاتی ہے |
منزلِ شوق کا اب کوئی بھی دلدادہ نہیں |
وہ تھکن ہے کہ مسافر سفر آمادہ نہیں |
اک نظر دیکھ یہ انبوہ در انبوہ غلام |
جو فقط شومیٔ تقدیر سے وابستہ ہیں |
ان کو کچھ بھی تو بجز وعدۂ فردا نہ ملا |
یہ جو خود ساختہ زنجیر سے پابستہ ہیں |
ان کا ایک ایک نفَس رہن ہے اغیار کے پاس |
اب تو غمخوار بھی آتے نہیں بیمار کے پاس |
اے نئے سال! کروں میں بھی سُواگت تیرا |
تُو اگر دل سے مرے چاک قبائی لے لے |
میں تو اُس صبحِ درخشاں کو تَوَنگر جانوں |
جو مرے ہاتھ سے کشکول گدائی لے لے |
جو مری خاک کو مستِ مئے پِندار کرے |
جو مرے دشتِ وفا کو گل و گلزار کرے |