لاگ ان

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

لاگ ان

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

لاگ ان / رجسٹر
جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

مدیر
ماہنامہ مفاہیم، کراچی

ایک منـثور مرثیہ
سانحۂ سقوطِ ڈھاکہ پر خصوصی اداریہ

دنیا کی رِیت چلی آتی ہے کہ سالگرہ کے ساتھ برسی بھی منائی جاتی ہے۔ وطن عزیز کی سالگرہ تو ہم مناتے ہی رہتے ہیں اب برسی کی طرف چلتے ہیں۔ کئی جوان ذہن پوچھیں گے ، کیا زندہ جاوید کی برسی مناؤ گے ؟ ہاں ’’ متحدہ پاکستان کی برسی‘‘!۔ اس متحدہ پاکستان کی برسی جو مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان (موجودہ پاکستان اور حالیہ بنگلہ دیش ) پر مبنی تھا۔اس متحدہ پاکستان کی برسی جسے ’’ ڈھاکہ ‘‘ میں قائم ہونے والی مسلم لیگ نے بنایا تھا۔ ہاں یہ مرثیہ ہے اس مُلکِ مرحوم کا جس کی قرارداد ، شیرِ بنگال مولوی فضل حق نے پیش کی تھی۔ یہ نوحہ ہے ہمارے ’’ متحدہ پاکستان ‘‘ کے اس مشرقی بازو کا جسے قیام پاکستان کے ۲۴ سال بعد ہی کاٹ دیا گیا۔ اس سانحے پر لہو کے آنسو بہائے جائیں تو بجا ہے۔ شیخ سعدی جب سقوطِ بغداد پر آسمان کو حق دیتے ہیں کہ وہ زمیں پر خون برسائے تو سقوط ڈھاکہ اس سے کم تو نہیں۔ یہ ہے بھی اسی سلطنت کے ایک صوبے کا نوحہ کہ جس کے ملک الشعرا ءنے کہا تھا ’’ روئیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں ستائے کیوں؟‘‘۔ تو مرثیے و نوحے کے لیے مرحوم کا کچھ تعارف ناگزیر ہے۔ہم سے الگ ہونے والا صوبہ وہی بنگال تھا جس میں ’’ انگریز چوروں کے ٹولے ‘‘ ایسٹ انڈیا کمپنی نے سب سے پہلے تجارتی کوٹھیاں بنائیں۔ یہ ہمارا وہی بازو تھا جس نے ۱۶۸۶ ء میں صوبے دار شائستہ خان کی سرکردگی میں انگریز کا بازو مروڑ کر ان کے سفیروں کو مغل دربار کی حقیقتاً خاک چاٹنے اور تاوان ادا کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔ یہ وہی سرزمین ِبنگال ہے جس کے بہادر سپوت نواب سراج الدولہ ، جب اپنے وفا شعاروں کے ساتھ شہر کلکتہ میں واقع فورٹ ولیم کی دیواریں توڑ کر اندر داخل ہوئے تو پتا چلا کہ کمپنی کے ارکان تو دریائے ہگلی کے راستے فرار ہو چکے ہیں جبکہ فوجیں ہتھیار ڈالنے کے لیے دست بدستہ کھڑی ہیں۔ ہاں۔۔۔ مگر ہاں یہ وہی بنگال ہے کہ جب اس نے وفا شعاری کو ترک کیا تو اس فتح کے اگلے ہی سال ۱۶۵۷ ء میں ،اسی کلکتے کے قریب پلاسی کے مقام پر انگریز سے شکست کھا ئی اور نواب سراج الدولہ پہلے تو سرنگوں کیے گئے اور پھر مرتبہ شہادت سے سرفراز کیے گئے۔ انگریز کو نکالنے کی اگلی کوشش کا شرف بھی اسی سرزمین کو حاصل ہوا ،جب غدار ملت میر جعفر ہی کے داماد میر قاسم نے ۱۷۶۴ ءمیں بکسر کے مقام پر انگریز کو گھیر لیا۔ جب ایک ہزار سے زائد سفید فاموں کی سرخی سے زمیں پرگلاب کِھل چکے تو وہی پلاسی والی کہانی دہرائی گئی اور میر قاسم کے حلیفوں کی نادانی سے فتح شکست میں بدل گئی۔

اب بنگال مکمل طور پر انگریزوں کی عملداری میں آ گیا۔انگریز کی آمد سے قبل کا بنگال مختلف صنعتوں اور پیداواروں سے مالا مال تھا۔میجرایم باسو نے لکھا کہ یہاں کے سیٹھوں کا سرمایہ بینک آف انگلینڈ کے برابر تھا۔ رہی ایسٹ انڈیا کپمنی تو اس کا سرمایہ تو صرف ایک ہی تاجر عبد الغفور کے سرمائے کو پہنچ پاتا تھا۔سٹوری آف سوی لائزیشن کے مصنف کے مطابق سفید فاموں کی آمد سے پہلے یہاں اَسی ہزار اسکول تھے جن کے اساتذہ کو تنخواہ حکومت کی طرف سے ملا کرتی تھی۔وحشی انگریزوں نے اس سرزمین کو اس طرح لوٹا کھسوٹا کہ اگلے سو سال میں یہاں غربت کا راج ہو گیا یہاں تک کہ ۱۸۶۶ ء کے قحط میں لاکھوں بنگالی بھوک پیاس نے نگل ڈالے۔بہرحال سخت جان بنگال پھر بھی نہ صرف زندگی بلکہ آزادی کے تصور پربھی قائم رہا۔ انگریز سے خلاصی کی آخری کوشش جنگ آزادی ۱۸۵۷ ءجسے غدار ، غدر کہتے ہیں ، جس میں ناکامی نے ہندوستان کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی ،اس کی ابتدا کا شرف بھی بنگال کو حاصل ہوا۔ جب دمدم اور باراک کے دیسی فوجیوں نے مشتبہ کارتوس استعمال کرنے سے انکار پر سزاؤں کے خلاف آواز بلند کی۔ پہلے تو کلکتہ کو تاراج کیا اور آخر کار پایہ تخت دہلی تک پہنچ کر ، آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کو پرچم جہاد بلند کرنے کا حوصلہ دیا۔۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں ناکامی نے اہل ہندوستان کو علمی و سیاسی تحریکوں کی جانب متوجہ کیا۔ میدان جنگ میں ناکامی کے صرف نو سال بعد ۱۸۶۶ء میں ، دیوبند مدرسے کا قیام جہاد آزادی کے مجاہدین و غازیان کی طرف سے عمل میں لایا گیا جس کے مزید نو سال بعد ۱۸۷۵ ء میں علی گڑھ سکول کی طرح ، ناقد جہاد آزادی اور مصنف ’’ اسبابِ بغاوتِ ہند‘‘کی طرف سے ڈالی گئی۔ دس برس بعد ۱۸۸۵ ء میں ہندوستان کی پہلی سیاسی جماعت انڈین نیشنل کانگریس قائم ہوئی اور برصغیر کے دونوں بڑے گروہ ، ہندو اور مسلمان اسی پلیٹ فارم سے اپنے حقوق کے تحفظ اور آزادی کے حصول کے لیے کوشاں ہوئے۔ ان کوششوں میں سرگرمی بھی بنگال ہی کے طفیل پیدا ہوئی۔ ہوا یوں کہ ۱۹۰۵ ءمیں لارڈ کرزن نے انتظامی سہولت کی خاطر بنگال کو مشرق و مغرب میں تقسیم کیا تو مشرقی بنگال کی مسلمان اکثریت کو بہت سارے فائدے حاصل ہوئے جو مغربی بنگال کے ہندو باسیوں کو راس نہ آئے۔ انھوں نے تقسیم کے خاتمے کی تحریک چلائی جو اگرچہ کامیاب تو چھے سال بعد ہوئی لیکن اس کے ردعمل میں ۱۹۰۶ ء ہی میں مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا تو اس نئی جماعت کی جنم بھومی بننے کا شرف بھی بنگال ہی کے شہر ڈھاکہ کو حاصل ہوا۔ ۱۹۳۰ ء میں مسلم لیگ کے اکیسویں سالانہ اجلاس میں علامہ اقبال نے مشہور زمانہ خطبہ الہ باد پیش کیا۔ اس خطبہ میں انھوں نے مسلمانوں کی خودمختیار ، ریاست کا مطالبہ کر کے مسلم لیگ میں ایک نئی جان ڈال دی۔ ۲۳ مارچ ۱۹۴۰ ء کو لاہور میں قرار دادِ پاکستان منظور کی گئی تو یہ قرارداد پیش کرنے کا سہرا ، شیر بنگال مولوی فضل حق کے سر رہا۔ ان کے علاوہ حسین شہید سہروردی اور خواجہ ناظم الدین بھی تحریکِ پاکستان کے اہم ’’ بنگالی لیڈر ‘‘تھے۔ مسلمانوں کی نئی ریاست ’’ پاکستان ‘‘ کا مطالبہ زور پکڑتا رہا اور منزل نزدیک آتے دیکھ کر ’’ ہندو ہم وطنوں ‘‘ کا پیمانہ صبر جب لبریز ہو گیا تو اگست ۱۹۴۶ ء میں تشدد کی پہلی لہر سہنے کا رتبہ بلند بھی بنگال کے مسلمانوں کو ملا۔ جب کلکتہ ، بہار اور نواکھلی میں ان کے خون کی ہولی کھیلی گئی اور لگ بھگ سات ہزارمسلمانوں کو جام شہادت نوش کرنے کا موقع ملا۔ تو ہم دیکھتے ہیں کہ بنگال نے آزادی کے تمام مراحل دوسرے مسلمانوں کے شانہ بہ شانہ بلکہ بعض حالات میں تو قائدانہ طے کیے۔ خیر جب تقسیم ہند کا تاریخی وقت آیا تو بنگال کو پھر دو حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ مغربی بنگال حسب سابق ہندوؤں کو دیا گیا اور مشرقی بنگال مسلمانوں کے حصے میں آکر مغربی پاکستان کا مشرقی پاکستان کہلایا۔ حصول پاکستان کی فتح کے ساتھ ہی ہم سقوط ڈھاکہ کی شکست کی طرف رواں ہو گئے۔ پہلے تو کئی سال تک دستور سازی کے بغیر ہی کار سلطنت جاری رہا۔ ہر سو مناصب اور مراتب کی کشاکش کا بازار گرم ہو گیا۔ بیرونی دشمنوں کے سامنے یکجا و یکجان قوم قومیتوں میں بٹ گئی۔ یہ درست ہے کہ پاکستان کے پہلے آٹھ وزراے اعظم میں سے چار ’’ بنگالی ‘‘ تھے۔ لیکن یہ خبر بھی درست ہے کہ انھیں چلنے نہیں دیا گیا۔ خواجہ ناظم الدین اور محمد علی بوگرہ کو تو گورنر جنرل ملک غلام محمد نے چلتا کیا اور سہروردی کو اس طرح مجبور کیا گیا کہ انھوں نے دست بدست استعفی پیش کر کے خلاصی حاصل کی اور جہاں تک بیچارے نور الامین کی بات ہے تو ان کی وزارت عظمٰی اصل میں وزارت صغریٰ ہی کہلائی جا سکتی ہے کہ محض سترہ دن پر پھیلی ہوئی تھی۔مشرقی و مغربی پاکستان کے تَنازِعہ میں بنگلہ زبان کا مسئلہ بھی اہم ہے جو قائد اعظم کی زندگی میں ہی شروع ہو چکا تھا لیکن اس تیل پر جلتی کا کام اس پولیس گردی نے کیا جو ڈھاکہ میں طلبہ کے جلوس پر فائرنگ کی صورت میں ظاہر ہوئی تھی۔اگرچہ ۱۹۵۴ ء میں بنگالی وزیر اعظم محمد علی بوگرہ کے دور میں بنگالی کو پاکستان کی دوسری قومی زبان قرار دے دیا گیا لیکن تب تک باہمی اعتماد و اتفاق میں دراڑیں پڑ چکی تھیں۔ آئین کا نہ ہونا سیاسی خلفشار کی ایک بڑی وجہ تھی لیکن خود اس آئین کے نہ ہونے کی وجہ مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان کے درمیان شراکت ِ حکومت میں کسی تناسب پر اتفاق نہ ہونا تھا۔ پاکستان طے شدہ طور پر ایک جمہوری ملک تھا اور جمہوریت میں صحت کا اصول کثرت ہوتا ہے۔ زمینی حقیقت یہ تھی کہ مغربی پاکستان کے چار صوبے عددی اعتبار سے ، مشرقی پاکستان کے اکلوتے صوبے سے کم تھے۔بنگالی چاہتے تھے کہ ہمیں ہماری آبادی کے تناسب سے مرکز میں نمائندگی دی جائے اور مغربی صوبے یہ سمجھتے تھے کہ اکیلے صوبہ بنگال کو چار صوبوں پر ترجیح کیسے دے دی جائے۔ اس صورت حال میں بنیادی اصولوں کی کمیٹی کی پہلی دو سفارشات پر تو اتفاق نہ ہو سکا البتہ محمد علی بوگرہ اپنے دورحکومت میں ایک قابل عمل فارمولا سامنے لانے میں کامیا ب ہو گئے۔ اس میں دو ایوان تشکیل دیے جانے تھے۔آج کی اصطلاح میں ایک کو سینٹ (ہاؤس آف یونٹس ) جبکہ دوسرے کو قومی اسمبلی (ہاؤس آف پیپل ) کہا جا سکتا ہے۔ سینٹ میں پچاس نشتیں رکھی گئیں جن میں ہر صوبے کے لیے دس نشتیں خاص تھیں۔ گویا یہ ایوان برابری کے اصول پر تھا اور اس میں بنگال کو ان کی آبادی کے تناسب سے کم حصہ دیا گیا تھا۔البتہ دوسرے ایوان یعنی قومی اسمبلی میں تین سو سیٹیں رکھی گئیں۔ یہاں برابری کے بجائے آبادی کے تناسب کو زیادہ پیش نظر رکھا گیا چنانچہ صوبہ بنگال کے لیے قومی اسمبلی کی ۱۶۵ نشتیں خاص کی گئیں اور مغربی پاکستان کے صوبوں ( یا یونٹس ) کے لیے ۱۳۵ سیٹیں مختص کی گئیں۔ اس پر مشرقی اور مغربی دونوں پاکستان راضی ہوئے۔ آئین سازی شروع ہوئی۔ قوم کو یہ خوشخبری سنائی گئی کہ باباے قوم کی برسی (۲۵ دسمبر ۱۹۵۴ ء ) کے موقعے پر قوم کو دستور کا تحفہ دیا جائے گا۔دشمنِ آئین و انصاف ، گورنر جنرل ملک غلام محمد کو یہ صورت حال ایک آنکھ نہ بھائی ۲۴ ،اکتوبر ۱۹۵۴ ء کو اس نے دستور ساز اسمبلی کو منسوخ کر دیا۔ اکثر سیاست دان اور اراکین اسمبلی ، چپ سادھے رہے۔ یہاں تک کہ وزیر اعظم محمد علی بوگرہ نے دوبارہ وزیر اعظم بن کر نئی کابینہ کے ساتھ مل کر ’’ کام دکھانا ‘‘ منظور کیا۔ اس موقعے پر ، کمانڈر انچیف جنرل محمد ایوب خان کو بطور وزیر دفاع اور غدارِ ملت میر جعفر کے پڑپوتے میجر جنرل اسکندر مرزا کو وزیر داخلہ بنا کر کابینہ میں داخل کیا گیا۔دوسری طرف ’’ مرحومہ دستور ساز اسمبلی‘‘ کے زندہ سپیکر مولوی تمیز الدین خان نے بعض احباب کے تعاون سے سندھ ہائی کورٹ( چیف کورٹ ) میں گورنر جنرل کے اقدام کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا۔ یہاں کے چیف جسٹس جناب جارج کانسٹائین نے گورنر جنرل کے اقدام کو معطل قرار دے دیا۔ گورنر جنرل نے فیڈرل کورٹ میں اپیل کی یہاں ننگ ِ عدل و انصاف جسٹس منیر نے نظریہ ضرورت کے تحت گورنر جنرل کے اقدام کو درست اور سندھ کورٹ کے فیصلے کو معطل کر دیا۔ اب جب بوگرا دوسری دفعہ وزیر اعظم بنائے گئے تو اپنی پہلی آئینی تجاویز سے منحرف یا تائب ہو چکے تھے۔ انھوں نے ۲۲ نومبر ۱۹۵۴ , کو ’’نیا بوگرا فارمولا ‘‘ پیش کیا جس کی رو سے مغربی پاکستان کے صوبوں اور ، ریاستوں کو ضم کر کے ایک ہی صوبہ بنانا مقصود تھا۔ذہنی طور پر مریض ، گورنر جنرل ملک غلام محمد اب جسمانی طور بھی مفلوج ہو چکے تھے۔چنانچہ ۶ اگست ۱۹۵۵ ء میں وہ ، وزیر داخلہ میجر جنرل اسکندر مرزا کو قائم مقام گورنر جنرل مقرر کر کے دوماہ کی رخصت پر برطانیہ یاترا پر گئے۔اسکندر مرزا نے وزیر اعظم محمد علی بوگرا کو تُرت وزارت عظمٰی سے محروم کر کے خود کو غلام محمد کا حقیقی وارث ثابت کیا اور ۱۲ اگست ۱۹۵۵ ء کو چودھری محمد علی کو وزیر اعظم بنا دیا۔ بعد ازیں بوگرا صاحب کو امریکہ کے لیے سفیر بنا کر ارسال کر دیا گیا۔ ۷ ا، اکتوبر ۱۹۵۴ ء کو کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان نے ایک ’’ نیا محاذ ‘‘ فتح کرتے ہوئے گورنر جنرل ملک غلام محمد کو سہارا دے کر استعفے کے پرچے پر دستخط کرائے۔ یوں ’’ملکِ عاض‘‘ کی حکومت کا اختتام اورسکندر اعظم کی پادشاہی کا آغاز ہوتا ہے۔کچھ عرصے بعد بوگرا فارمولا کی غیر آئینی بوتل سے ’’ ون یونٹ ‘‘ کا جِن بر آمد کر لیا گیا۔ جس طرح مشرقی پاکستان ایک ہی صوبے پر مشتمل تھا اسی طرح مغربی پاکستان کے صوبوں اور ، ریاستوں کو ملا کر صوبہ مغربی پاکستان بنا ڈالا گیا۔ چھوٹے صوبے اور ریاستیں اس غیر منصفانہ اتحاد پر راضی نہ تھیں کہ اس سے ان کی سالمیت اور ثقافت کو خطرہ تھا۔ یہ منصوبہ قائد اعظم کے وعدوں اور سابقہ آئینی منصوبوں کے بھی خلاف تھا۔لیکن جوڑ توڑ ، دھونس ،دھاندلی اور لالچ سے سیاستدانوں کو رام کرتے ہوئے اولًاصوبائی اسمبلیوں اور پھر قومی اسمبلی سے اس بل کو اتحاد و اتفاق کی تقاریر کے سائے میں منظور کرا کر ۱۴ ، اکتوبر ۱۹۵۵ ء کو نافذ کر دیا گیا دھونس دھاندلی اور سیاسی رشوت کی مثالیں وزیر اعلی سندھ عبد الستار پیرزادہ کو برطرف کر کے ایوب کھوڑو کو ان کی جگہ مقرر کرنا اور مغربی صوبے کا وزیر اعلیٰ ،اُس ڈاکٹر عبد الجبار خان کو بنانا جو ۱۹۴۶ء کے الیکشن میں صوبہ سرحد میں کانگریس کے پلیٹ فارم سے مسلم لیگ کو شکست دے کر سرحد کا وزیر اعلیٰ بنا تھا اور جس نے ۱۹۴۷ ء میں وزارت چھوڑ دی لیکن پاکستان کے جھنڈے کو سلامی دینا گوارا نہ کیا۔ اتحاد و اتفاق قوم کے نام پر ہونے والی اس تقسیم نے قوم کو بری طرح تقسیم کیا۔ ون یونٹ سے بنگال نے بجا طور پر سمجھا کہ یہ سب کچھ ہماری اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔ نئی مجلس قانون ساز اسمبلی ، وزیر اعظم چودھری محمد علی کی قیادت اور گورنر جنرل ، میجر جنرل اسکندر مرزا کی ’’ سیادت ‘‘ میں متحرک تھی۔جس نے جنوری ۱۹۵۶ ء میں آئین کی تکمیل کر لی۔ ملک کے دو ہی صوبے تھے مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان ، جن کے اختیارات محدود تھے مرکز مضبوط تھا اب حکومت کا ایک ہی ایوان قومی اسمبلی تھا۔ صدر مملکت کو وسیع اختیارات سونپے گئے تھے۔ملک کے دونوں حصوں کو حکومت میں حصہ جمہوری اصول کے بجائے برابری کے اصول پر دیا گیا تھا۔ اگرچہ سرکردہ بنگالی راہنماؤں کو اس پر ’’ راضی ‘‘ کرا دیا گیا تھا حتی کہ عوامی لیگ کے حسین شہید سہروردی بھی راضی ہو چکے تھے۔ لیکن عوامی لیگ کی عوامی قیادت اس پر ناراض تھی۔فروری ۱۹۵۶ ء میں قومی اسمبلی نے نئے آئین کی منظوری دے دی۔نئے دستور میں گورنر جنرل کا عہدہ ختم کر دیا گیا اور اس کی جگہ صدر کا عہدہ ایجاد کیا گیا۔ ۲۳ مارچ ۱۹۵۶ ء سے دستور نافذ العمل ہو گیا اور اسی د ن میجر جنرل اسکندر مرزا نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے پہلے صدر کے طور پر ’’ ریاست و دستور کی پاسداری ‘‘ کا حلف اٹھا لیا۔ جس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس نے کسی وزیر اعظم کو ٹکنے نہیں دیا۔ ستمبر ۱۹۵۶ میں چوہدری محمد علی نے استعفیٰ دیا۔ ان کے بعد بنگالی سیاستدان اور تحریک پاکستان کے نامور راہنما حسین شہید سہروردی وزیر اعظم مقرر ہوئے جو۱۲ ستمبر ۱۹۵۶ سے لے کر ۱۷ اکتوبر ۱۹۵۷ تک وزیر اعظم رہنے کے بعد مستعفی ہو ئے۔ان کے بعد دو ماہ کے لیے ابراہیم اسماعیل چندریگر کو وزیر اعظم بنایا گیا جنھیں ۱۶ دسمبر ۱۹۵۷ کو مستعفی ہو نا پڑا۔اس کے بعد قرعہ فال پنجاب کے نام نکلا یہاں سے ملک فیروز خان نون ۱۶ دسمبر ۱۹۵۷ ء سے ۷ ، اکتوبر ۱۹۵۸ تک وزیر اعظم رہے۔۷ ا، اکتوبر ۱۹۵۸ ء وہ سیاہ دن ہے جب صدر مملکت میجر جنرل اسکندر مرزا ، اور کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان نے ساز باز کر کے پاکستان کا پہلا ہمہ گیر مارشل لا لگا یا۔ تمام اہم مقامات پر فوج نے قبضہ کر لیا۔ دونوں صوبوں اور مرکز کی اسمبلیاں اور کابینہ توڑ دی گئیں۔ نو سالہ محنت سے تیار ہو کر ۱۹۵۶ ء میں نافذ ہونے والے دستور کو معطل کر دیا گیا :

اسکندر و چنگیز کے ہاتھوں سے جہاں میں
سو بار ہوئی حضرت انسان کی قبا چاک

نظریہ ضرورت کے خالق جسٹس منیر نے ایک کیس کی سماعت کے دوران مارشل لا کو انقلاب کہتے ہوئے قرار دیا کہ کامیاب انقلاب خود ہی دستور و قانون ہوتا ہے۔ کمانڈر انچیف جنرل ایوب نے اس سنہری اصول کو پلے باندھ لیا اور ۲۷ اکتوبر۱۹۵۸ء کی آدھی رات کو صدر اسکندر مرزا کو گرفتار کر کے ایک نیا کامیاب انقلاب برپا کر دیا اور صدر مملکت کی کرسی پر بھی خود قابض ہو گئے۔ایوب خان کی مارشل لائی کابینہ میں ۴ جرنیلوں سمیت قائد و شہید ِ جمہوریت ذولفقار علی بھٹو بھی شامل تھے۔ صدر ایوب نے جون ۱۹۶۲ میں نیا آئین نافذ جس کے تحت وہ مارچ۱۹۶۵ء تک صدر نامزد ہو گئے۔تمام اختیارات صدر کی ذات میں جمع کر دیے گئے تھے صوبوں کے اختیارات بہت محدود کر دیے گئے۔ براہ راست انتخابات کے بجائے بنیادی جمہورریت کا فسلفہ تراشا گیا۔ اس نئے سیاسی نظام میں اپنی جگہ بنانے کے لیے کنونشل مسلم لیگ بنا کر اس کا صدر بن بیٹھے۔ اگرچہ ایوبی دور کے ابتدائی حصے میں کئی اچھے کام مثلا مہنگائی میں کمی اور صنعتوں کا قیام وغیرہ انجام دیے گئے لیکن جرنیلی جبر و استبداد نے ایوب خان کو ناپسندیدہ بنا دیا۔ایوب خان نے صحافت و سیاست کا گلا گھونٹ دیا۔ جماعتوں پر پابندی اور سیاست دانوں کو نا اہل یا پابند سلاسل کیا گیا۔ عدالتوں کو پابند کیا گیا کہ وہ مارشل لا حُکّام یا فوجی عدالتوں کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں دے سکتیں۔ ۱۹۶۴ ء صدارتی انتخابات اور صوبائی انتخابات میں دھاندلی اور معاہدہ تاشقند میں ناکامی کے الزام نے ان کی مقبولیت کو خاک میں ملا دیا۔ کرپشن میں اضافے، انتظامیہ میں فوجی عمل دخل اور فوجوں کی مراعات میں بے تحاشا اضافے اور مارشل لا کی طوالت نے عوام کو حکومت سے بیزار کر دیا۔ ملک کے طول و عرض میں متحدہ اپوزیشن نے احتجاجی تحریک شروع کر دی۔ ایوب خان نے اپنی ہی بنائے ہوئے آئین کو معطل کر کے ایمرجنسی نافذ کر دی۔فروری ۱۹۶۶ میں متحدہ اپوزیشن کا لاہور میں اجلاس ہوا۔ جس میں شیخ مجیب الرحمن نے اپنے مشہور چھے نکات پیش کیے۔ دوسری جماعتوں نے ان نکات سے اختلاف کرتے ہوئے علاحدگی کا منصوبہ قرار دے دیا۔حکومت نے تمام اپوزیشن لیڈروں کو گرفتار کر لیا گیا۔معاہدے تاشقند پر احتجاج کر کے استعفی دینے والے سابق وزیر خارجہ مسٹر ذو الفقار علی بھٹو پاکستان پیپلز پارٹی بنا کر ایوب مخالف تحریک میں شامل ہو گئے۔ان دنوں ایوب نے جنرل یحی خان کو کمانڈر انچیف بنا دیا۔ مجیب الرحمن اور دیگر پینتیس افراد کو ’’اگرتلہ سازش کیس‘‘ میں گرفتار کر لیا۔جب حکومت تحریک کو نہ دبا سکی تو ۱۹۶۸ کے آخر میں تمام سیاسی لیڈروں کو رہا کر کے انھیں گول میز کانفرنس کی دعوت دی گئی۔ جس کے نتیجے میں ایمرجنسی اٹھا دی گئی۔ ایوب خان ملک میں صدارتی کے بجائے پارلیمانی نظام اور بنیادی جمہوریت کے بجائے براہ راست بالغ رائے دہی کی بنیاد پر الیکشن اور آئندہ صدارتی انتخابات میں شرکت سے اجتناب پر راضی ہوئے۔ ۲۳ مارچ ۱۹۶۹ ء کو فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے اپنے عہدے سے الگ ہونے اور اقتدار کمانڈر انچیف جنرل آغامحمد یحیٰی خان کے سپرد کر دیا جو مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بن گئے۔ انھی کے دورِحکومت میں پاکستان ٹوٹنے کا سانحہ پیش آیا :

وہ زندگی سے کیا گیا ، دھواں اڑا کے رکھ دیا
مکاں کے اک ستون نے مکاں گرا کے رکھ دیا

یکم جنوری ۱۹۷۰ ء سے سیاسی سرگرمیوں پر سے پابندی اٹھا لی گئی جبکہ دسمبر میں الیکشن منعقد ہونے تھے۔ بنگال کے اکثر طبقات پاکستان سے ذہنی رشتہ توڑ چکے تھے پاکستان آرمی کے بنگالی جوان اور افسران ، مغربی پاکستان کےجوانوں اور افسروں سے روکا پھیکا رویہ رکھتے تھے شیخ مجیب اور اس کے چھ نکات سے ہمدری عام تھی۔ شیخ مجیب نے ۱۱ جنوری کو پلٹن گراؤنڈ میں عوامی لیگ کےعظیم الشان جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے ۱۹۵۶ کے آئین میں برابری کا اصول مان کر غلطی کی تھی۔اب ہم اس کی مزاحمت اور بنگالی حقوق کی حفاظت کریں گے۔ عوامی لیگ نے دوسری سیاسی جماعتوں کے جلسے جلوسوں میں گڑ بڑ پیدا کرنے کی کامیاب کوششیں کیں۔ اس طرح تمام جماعتوں کی انتخابی مہم ناکام ہوئی اور ہر طرف عوامی لیگ کا طوطی بولنے لگا۔ عوامی لیگ نے مختلف طبقات کو اپنے ساتھ ملا کر جلوس و ہڑتال اور پرتشدد کاروائیوں سے انتطامیہ کی ناک میں دم کر دیا۔فائرنگ اور بم دھماکوں سے ہر طرف خوف و ہراس کے سائے چھا گئے۔جون ۱۹۷۰ میں ون یونٹ توڑ کر صوبائی حکومتیں بحال کر دی گئیں البتہ ریاستوں کو مختلف صوبوں میں ضم کر دیا گیا۔ ان حالات میں دسمبر کا مہینہ آ گیا۔ ۷دسمبر ۱۹۷۰ کو پاکستان کی تاریخ کے پہلے عام انتخابات تھے۔ قومی اسمبلی کے ، ۳۰۰ اراکین میں سے ۱۶۲ مشرقی پاکستان جبکہ ۱۳۸ مغربی پاکستان میں سے منتخب ہونے تھے۔ پولنگ فوج کی نرم نگرانی میں ہوئی۔ مشرقی پاکستان کی کل ۱۶۲ میں سے ۱۶۰ سیٹیں عوامی لیگ نے جیت لیں۔مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی ۸۲ سیٹوں کے ساتھ سرِفہرست تھی لیکن دونوں اکثریتی پارٹیوں کو دوسرے بازو میں کوئی سیٹ نہ حاصل ہو سکی تھی۔اس صورت حال کے شراکت داروں کے ذہن دیکھیے: شیخ مجیب کا کہنا تھا کہ ہم چھ نکات کی بنیاد پر الیکشن جیتے ہیں اور ان کے مطابق آئین کی تشکیل ضروری ہے اور الیکشن کے نتائج کو سبوتاز کرنے والوں کو بنگالیوں کی لاٹھیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بھٹو کا کہنا تھا کہ ہمارے بغیر کوئی آئین سازی نہیں ہو سکتی اور ہم بنگالیوں کے علیحدگی کے منصوبے کی حمایت نہیں کر سکتے۔فوجی ذہن ایک فوجی آفیسر کے الفاظ سے یوں جھلکتا ہے ’’ ہم ان کالے حرامیوں کو اپنے اوپر ہر گز حکومت نہ کرنے دیں گے‘‘۔چاہیے تو یہ تھا کہ انتخابی نتائج کے بعد جلد قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا جاتا لیکن اس میں تاخیر ہوتی رہی۔ مجیب الرحمن نے اعلان کیا کہ زیادہ سے زیادہ ۱۴ فروی تک قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا جائے لیکن ذولفقار بھٹو اسمبلی سے باہر کوئی سمجھوتہ چاہتے تھے اس لیے وہ اسمبلی کے اجلاس کے انعقاد کے حق میں نہ تھے۔ جنوری ۱۹۷۱ ء سے مارچ تک ، یحی مجیب اور پھر بھٹو شیخ، غیر نتیجہ خیز مذاکرات ہوئے۔

فروری ۷۱ کے وسط میں حکومت نے اعلان کیا کہ اسمبلی کا اجلاس ۳ مارچ ۱۹۷۱ ء کو ڈھاکہ میں ہو گا۔ دو روز بعد ذوالفقار بھٹو نے اس اجلاس کا بائیکاٹ کرتے ہوئے اعلان کیا ’’ اگر پیپلز پارٹی کو نظر انداز کرنے کی کوشش کی گئی تو کراچی سے خیبر تک طوفان برپا کر دوں گا‘‘شیخ مجیب اور مغربی پاکستان کی انتظامیہ نے بار ہا درخواست کی کہ اگر ملتوی کرنا ہے تو ساتھ ہی نئی تاریخ مقرر کر دیں۔ لیکن حکومت نے اجلاس بغیر کسی نئی تاریخ کے ملتوی کر دیا جس پرعوامی لیگ کی طرف سے پر تشدد اور اشتعال انگیز احتجاج شروع ہوگیا۔ فوج کی فائرنگ سے کئی آدمی ہلاک ہو ئے تو تحریک میں تیزی آ گئی۔۲ اور ۳ مارچ کو ڈھاکہ اور پورے صوبے میں ہڑتال اور پھر چند روز کی مہلت دینے کے بعد عدم تعاون کی تحریک کا آغاز کر دیا۔ ۲۵ مارچ ۱۹۷۱ ء کی شب شیخ مجیب کو گرفتار کر کے ،سرچ لائٹ کے نام فوجی آپریشن شروع کیا گیا۔ ۲۶ مارچ ۱۹۷۱ ء کو پاکستانی فوج کے ایک باغی افسر میجر ضیا الرحمان نے آزاد مشرقی پاکستان کا اعلان چٹاگانگ میں کیا۔ دوسری طرف بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے باغیوں سے تعاون کا اعلان کر دیا اور کلکتہ میں بنگلہ دیش کی جلاوطن حکومت قائم کی گئی۔ایسٹ بنگال رجمنٹ اور ایسٹ پاکستان رائفلز نے بغاوت کر دی۔ انھیں پاکستان آرمی کے سابق کرنل عطا الغنی عثمانی نے مُکتی باہنی کی صورت منظم کیا۔ عوامی لیگ کے رضاکاروں ، یونیورسٹی کے طلبہ اور عام بنگالیوں کو مکتی باہنی میں شامل کر کے انھیں تربیت دی گئی۔ بھارتی افسران بھی اس میں شامل تھے۔ تاہم بندوقوں کی دونوں جانب بظاہر پاک فوج کے جوان و افسران تھے۔مارچ سے لے کر مئی تک یہ فوجی آپریشن چلتا رہا اور مختلف شہر باغیوں کے قبضے سے چھڑائے بھی گئے۔اس عرصے میں ہزاروں کی تعداد میں باغی جبکہ سیکنڑوں کی تعداد میں فوجی مارے گئے۔باغیوں نے غیر بنگالیوں کو بڑی بے دردی سے قتل کیا۔ مکتی باہنی مختلف تخریبی کاروائی کرتی رہی۔ کہیں بارودی سرنگ بچھا دیتے ، کبھی دستی بم ،اور کبھی ریموٹ کنٹرول بم دھماکہ کردیا ،ریل کی پٹڑیاں اکھاڑ دیں یا بجلی کی تنصیبات اڑا دیں۔اگست اور ستمبر سے انھوں نے فوجی قافلوں پر حملے اور اہم شخصیات کو قتل کرنا شروع کیا۔

مارچ میں فوجی آپریشن شروع ہوتےہی ہندوستان نے مشرقی پاکستان میں مداخلت کے لیے سفارتی اور جنگی دونوں محاذ وں پر تیاری شروع کر دی۔جون کے مہینے سے انڈیا نے سرحدوں پر بمباری کے علاوہ اس نے سرحدوں کے اندر جنگی اہمیت کے مقامات پر قبضہ اور مورچہ بندی شروع کر دی ہماری طرف سے واویلے علاوہ کوئی موثر کاروائی نہ کی گئی۔

بنگال میں پاک فوج کے صرف ۲ ڈویزن فوج موجود تھی نومبر کے وسط میں ایسٹرن کمانڈ نے مغربی پاکستان سے دو ڈوریزن فوج مزید طلب کی تو وہاں سے صرف آٹھ پلٹن بھیجنے کا وعدہ ہوا ہے۔ پانچ پلٹنیں نومبر کے آخر میں پہنچیں جبکہ تین پہنچ ہی نہ سکیں۔ جبکہ مقابلے میں آٹھ ڈویزن فوج موجود تھی۔ مکتی باہنی کی تعداد اس کے علاوہ تھی۔ محب وطن رضا کاروں کو جن میں اکثریت جماعت اسلامی کے کارکنان کی تھی الشمس اور البدر کے نام سے منظم کیا گیا انھوں بہت قربانیاں دیں۔

پاک آرمی کی ہائی کمان کی پیشہ ورانہ لیاقت کا حال یہ تھا کہ بار بار ایسٹرن کمان کو بنگالی رجمنٹوں اور یونٹوں کو ختم کر کے ان کی نفری کو دوسری یونٹوں میں ضم کرنے کی بروقت اجازت ، بار بار مانگنے کے باوجود نہیں دی گئی۔ اسی طرح آپریشن کے بعد باغیوں کے لیے عام معافی کی اجازت اپریل سے مانگی جاتی رہی لیکن اس کی اجازت کوئی چار ماہ بعد جا کر دی گئی جب باغی انڈیا میں پناہ حاصل کر کے مکتی باہنی میں شمال ہو چکے تھے۔

پاک فوج کی ہائی کمان کا اخلاقی حال یہ تھا کہ کمانڈر ایسٹرن کمانڈ ٹکا خان سے چارج لیتے وقت جنرل نیازی نے پوچھا ’’اپنی داشتاؤں کا چارج کب دو گے‘‘۔(میں نے ڈھاکہ ڈوبتےدیکھا)جون میں جب صدر یحی خان کو بار بار مشرقی پاکستان بلایا جا رہا تھا تو بہت دیر کر کے جب وہ کراچی پہنچے تو بقول ایک میجر جنرل کے ’’اس کتیا‘‘ کے چنگل میں ایسے پھنسے کہ ڈھاکہ جانا ہی بھول گئے۔سی ایم ایچ کی نرسوں نے جب متوقع شکست کے پیشِ نظر عرض کیا کہ ہمیں مکتی باہنی کے غنڈوں کے ہتھے چڑھنے سے پہلے مغربی پاکستان بھجوا دیں کیونکہ وہ عورتوں کے ساتھ بہت برا سلوک کرتے ہیں تو جنرل نیازی کا جواب یہ تھا۔ خدانخواسہ ہمیں شکست ہو گئی تو مکتی باہنی کے ہاتھ آنے سے پہلے ہم خود آپ کو ہلاک کر دیں گے۔۔( میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھاصفحہ:۱۱۶،۱۰۰ ، ۱۱۷ ،۲۰۲)

۳ دسمبر سے جب کھلی جنگ شروع ہوئی تو ابتدا ہی میں ڈھاکہ کا اکلوتا ہوائی اڈہ ناکارہ ہو گیا اور کوئی جہاز اڑان کے قابل نہ رہا۔ بحریہ میں چند کشتیاں تھیں۔برّی فوج کو تعداد اور ایمونیشن کی کمی لاحق تھی۔رسد کے راستے مسدود ہونے سے وہ راشن کی کمی کا بھی شکا ر ہو رہے تھے۔عوام الناس کی اکثریت مخالف تھی۔ لمبے عرصے کی انتظامی ڈیوٹی اور مارچ سے جاری فوجی آپریشن اور مقامی آبادی کی تخریبی کاروائیوں نے پہلے ہی پاک آرمی کو تھکا رکھا تھا۔جنگ کے بالکل ابتدائی دنوں ہی سے پاکستانی فوجوں نے پسپائی شروع کر دی تھی جنرل نیازی کی طرف سے ہر طرف سب ٹھیک ہے کی رپورٹ جا رہی تھی۔ ۷ دسمبر کو پہلی دفعہ انھوں گورنر ڈاکٹر مالک کے سامنے فوج کی پسائی کا اعتراف بچوں کی طرح آنسو بہا کر کیا۔ گورنر نے ۷ دسمبر کو صدر مملکت کو تار بھیجا کر خراب صورت حال سے آگاہ کیا اور درخواست کی کہ وہ جنگ بندی اور سیاسی تصفیے کی کوشش کریں۔کوئی جواب پا کر اگلے دن انھوں نے ایک اور تار بھیجا لیکن جواب ندارد۔!! ۹ دسمبر ۱۹۷۱ ء کو نیازی نے صدر کو نازک صورت حال سے آگاہ کیا۔اب صدر نے گورنر مالک کو کسی مناسب فیصلے کا اختیار دے دیا۔ اگلے دنوں میں ڈاکٹر مالک نے ڈھاکہ میں موجود اقوام متحدہ کے اسسٹنٹ سیکرٹری کو خط لکھا جس میں عوام کے منتخب نمائندوں کے حوالے اقتدار کرنے ، بھارتی فوجوں کی واپسی، پاکستانی فوجوں کی باعزت واپسی،جنگ بندی وغیرہ کی بات کی گئی۔ ذولفقار بھٹو نے اس خط پر بہت شور مچایا کہ میں تو چین اور امریکہ کو مداخلت پر آمادہ کر رہا تھا لیکن میری کوششیں ضائع ہو گئیں۔ اس پر مرکز نے جنگ بندی کی درخواست کی تردید کر دی تو معاملہ رک گیا۔ اس دوران مغربی پاکستان سے افواہ چلی کہ چین اور امریکہ ہماری مدد کو آ رہے ہیں۔ لیکن ان ان ملکوں کے نمائندوں نے ایسی کسی کاروائی سے لا علمی کا اظہار کیا۔ اس انتظار میں چند روز گزر گئے۔ڈھاکہ میں ایمونیشن اور راشن ایک ماہ کے لیے کافی تھا لیکن نفری نہ تھی ، فوج ، پولیس اور رضاکاروں کو ملا کر ساڑھے پانچ ہزار نفری تھی جو کم تھی۔

۱۲ دسمبر کو جنرل نیازی کی خواہش پر گورنر کی طرف سے صدر کا تار بھیجا گیا لیکن۱۴ دسمبر تک کوئی جواب نہ آیاتو گورنر ڈاکٹر مالک نے استعفی دے دیا۔اسی دن انڈیا کے جہازوں نے ڈھاکہ پر بمباری کی جس سے گورنر ہاؤس کے مرکزی ایوان کی چھت اڑ گئی۔ ڈاکٹر مالک ان کے وزرا اور اعلی سرکاری افسران نے ہوٹل انٹر کانٹی نینٹل سےر جوع کیا جسے ریڈ کراس نے غیر جانبدار علاقہ قرار دیا تھا۔ یہ تحریری اقرار کرنے پر کہ ہمارا دونوں ملکوں سے کوئی تعلق نہیں انھیں یہاں پناہ ملی۔

۱۴ دسمبر کوجنرل نیازی نے صدر کو جنگ بندی کے لیے درخواست کی۔ ، وہاں سے جواب آیا آپ جو مناسب کاروائی کریں آپ کو اجازت ہے۔ جنرل نیازی اور جنرل فرمان ، امریکی قونصلر سے ملے اور انڈین آرمی چیف جنرل مانک شاہ کے نام پیغام لکھا گیا جس میں بعض تحفظات مثلا بیماروں اور زخمیوں کی حفاظت ،پاکستانی مسلح افواج کا تحفظ اور مکتی باہنی سے عوام اور حکومت حمایتی لوگوں کے تحفظ وغیرہ پر ، جنگ بندی کی درخواست کی گئی۔

۱۵ دسمبر کو مانک شا کا مثبت جواب ملا جو راولپنڈی ارسال کیا گیا وہاں سے اسی دن منظوری ہو گئی چنانچہ دونوں کمانڈروں نے مزید تفصیلات طے کرنے کی غرض سے ، ۱۵ دسمبر شام پانچ بجے سے سہ پہر ۱۶ دسمبر تک جنگ بندی کی۔ البتہ اس دوران بھارتیوں کی پیش قدمی جاری رہی۔ ۱۶ دسمبر کی صبح ایک بھارتی دستہ ڈھاکہ کے باہر میر پور پل پر پہنچ گیا لیکن یہاں پاک فوج کی طرف سے مزاحمت پر کچھ نقصان اٹھا کر پسپا ہوا۔ اس کے پیچھے میجر جنرل ناگرا آ رہا تھا۔ اس نے یہاں پہنچ کر ، نیازی کو ایک مختصر خط لکھا ’’پیارے عبد اللہ ، میں میر پور پل پر ہوں اپنا نمائندہ بھیج دو‘‘۔ استقبال کو میجر جنرل جمشید کو بھیجا گیا۔ انھوں نے میجر سلامت کو فائر سے روک کر ’’سیز فائر‘‘ کے آداب کا خیال رکھنے کی تاکید کی۔ انگلی لبلبی سے ہٹ گئی اور جنرل ناگرا بغیر گولی چلائے ڈھاکہ میں داخل ہو گیا۔سہ پہر کو انڈین ایسٹرن کمانڈ کے چیف آف سٹاف جنرل جیکب ایر پورٹ پر اترے اور اپنے ساتھ دست آویزِ سقوط لے کر آئے تھے۔ تھوڑی دیر بعد ا نڈین ایسٹرن کمانڈر جنرل جنگجیت سنگھ اروڑا ایر پورٹ پر اترے جن کا استقبال جنرل نیازی نے کیا۔ جب وہ اپنی بیوی کے ہمراہ اترا تو بنگالی مردو عورتوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور پھولوں کے ہار پہنائے۔بنگالی چہروں پر انڈین کے لیے تشکر اور پاکستانیوں کے لیے نفرت کے جذبات عیاں تھے۔

فاتح و مفتوح جرنیل یہاں سے سیدھے رمنا ریس گراؤنڈ گئے۔ جہاں لاکھوں بنگالیوں کے سامنے نیازی نے ہتھیار پھینکنے تھے۔ ایک چھوٹی سے میز پر سقوط کی دستاویز پر دستخط ہوئے اور نیازی نے اپنا ریوالور خالی کر کے اروڑا کو پیش کیا۔ جس نے گارڈ آف آنر کا معائنہ بھی کیا۔ چونکہ ابھی انڈین آرمی کی تعداد پاکستانی فوجیوں کو’’ مکتی باہنی ‘‘کے آتش غضب سے بچانے کے لیے ناکافی تھی اس لیے چھوٹے ہتھیار رکھنے کی اجازت دی گئی ورنہ اصولی طور پر اب پاک فوجی قیدی تھے۔۱۹ دسمبر کو ڈھاکہ کے پاکستانی فوجیوں کو غیر مسلح کیا گیا اور ڈھاکہ چھاؤنی کے گولف گراونڈ میں پاک فوج کے افسروں سے ہتھیار ڈلوانے کی تقریب منعقد ہوئی۔ دوسرے مقامات پر بھی فوج نے ۱۶ سے ۲۰ دسمبر ۱۹۷۱ ء کے درمیان کے درمیان ہتھیار ڈالے۔ مکتی باہنی ، پنجابیوں ، پٹھانوں اور بہاریوں وغیرہ کے قتل و غارت میں جبکہ انڈین آرمی مال سمیٹنے میں مصروف تھی۔

غیر بنگالیوں کی لوٹ کھسوٹ اور قتل و غارت کا سلسلہ جاری تھا ، انڈین فوج کو مال غنیمت سمیٹنے سے فرصت نہ تھی جب یہاں سے فارغ ہوئے تو قیدیوں کو کلکتہ منتقل کرنا شروع کیا۔ آرمی کے افسران کو اسی فورٹ ولیم میں رکھا گیا جہاں کبھی سراج الدولہ نے انگریزوں کو شکست فاش دی تھی۔ سانحہ ڈھاکہ کے ۴۵ سال بعد ، ۱۶ دسمبر ۲۰۱۶ ء میں پشاور کے آرمی پبلک سکول پر دہشت گرد حملہ ہوا تھا۔یہ واقعہ شاہد ہے کہ ہم نے تاریخ کوئی سبق نہیں سیکھا کیوں کہ ہماری سیاسی پالیسی اور سیاسی قیادت اسی رخ پر چل رہی ہے جس کے نتیجے میں سقوط ڈھاکہ ہوا تھا۔

لرننگ پورٹل