ابنِ عباس
معاون قلم کار
عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِﷺقَالَ: «مَا تَوَادَّ اثْنَانِ فِي اللَّهِ جَلَّ وَعَزَّ أَوْ فِي الْإِسْلَامِ، فَيُفَرِّقُ بَيْنَهُمَا إِلَّا بِذَنْبٍ يُحْدِثُهُ أَحَدُهُمَا» (الأدب المفرد )
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا یا اسلام کے لیے باہم دو محبت کرنے والوں میں تفریق نہیں پڑتی مگر اس گناہ کے سبب جو ان میں سےکسی ایک نے کیا ہو‘‘۔
تشریح
انسانوں کی باہمی دوستی بہت سارے فوائد کا ذریعہ ہے۔ لیکن یہ دوستی جب ایمان و اسلام کی بنیاد پر اور للہ فی اللہ کی جائے تو اس کے فوائد و برکات بڑھ جاتے ہیں۔ دینی بھائی چارہ نہ صرف دنیوی فوائد کا ذریعہ ہے بلکہ آخرت کے انعام واکرام کا بھی ذریعہ ہے۔ دوسری طرف گناہ اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا موجب ہیں پس اگر انسان اللہ کی نافرمانی سے نہ بچے بلکہ گناہوں پر کمر کس لے تو ان گناہوں کی دنیاوی سزاؤں میں سے ایک سزا وہ ہے جو اس حدیث میں بیان ہوئی ہے کہ انسان اپنی سچی دوستیوں اور بھائی چارے سے محروم کر دیا جاتا ہے ۔ شیطان یہی چاہتا ہے کہ اللہ کے بندے باہم مربوط نہ ہو سکیں﴿إِنَّمَا يُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَنْ يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ﴾(المائدة:۹۱)’’شیطان یہی تو چاہتا ہے کہ تمھارے درمیان عداوت اور دشمنی ڈال دے شراب اور جوئے کے ذریعے‘‘۔سلف اس بات کو ایک اصول کے درجے میں دیکھتے تھے چنانچہ حضرت موسیٰ کاظم رحمہ اللہ فرماتے ہیں جب تمھارا دوست تم سے بدل جائے تو جان لو ایسا تمھارے کسی گناہ کی وجہ سے ہوا ہے پس اللہ کی جناب میں تمام گناہوں سے توبہ کرو تمھاری دوستی اور محبت مضبوط ہو جائے گی۔(التنویر شرح جامع الصغیر )جاننا چاہیے یہ اصول اگرچہ فرد کی سطح کا بیان ہوا ہے لیکن جماعت کی سطح پر بھی یہ اصول کارگر ہے ۔اگر ایک فرد گناہگاری اختیار کرے تو دوسرے فرد کی محبت و تعلق سے محروم ہو جائے گا ۔اسی طرح ملت اسلامیہ کے بڑے بڑے گروہ مثلاً مختلف قومیں یا قبیلے جو ایک دوسرے کی دوستی کا دم بھرتے ہوں اگر اللہ کی اطاعت ترک کر کے نافرمانی اور فسق و فجور اختیار کر لیں تو باہم تفرق و تشتت کا شکار ہوئے بغیر نہ رہ سکیں گے ۔