لاگ ان

منگل 02 جمادی الثانی 1446 بہ مطابق 03 دسمبر 2024

لاگ ان

منگل 02 جمادی الثانی 1446 بہ مطابق 03 دسمبر 2024

لاگ ان / رجسٹر
منگل 02 جمادی الثانی 1446 بہ مطابق 03 دسمبر 2024

منگل 02 جمادی الثانی 1446 بہ مطابق 03 دسمبر 2024

صوفی جمیل الرحمان عباسی
مدیر ماہنامہ مفاہیم


آپﷺ کے مستعمل پانی کی برکت

غزوۂ تبوک کے موقعے پر جب آپﷺ تبوک کے چشمے پر پہنچے تو دیکھا کہ اس میں پانی بہت ہی کم ہے۔ صحابی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اس سے ایک تسمے کے برابر پانی نکلتا تھا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے چُلو بنا کر کچھ پانی جمع کیا۔ نبی کریمﷺ نے اس چشمے کے پاس کھڑے ہو کر اپنے ہاتھ اور چہرہ اس طرح دھوئے کہ استعمال شدہ پانی دوبارہ چشمے ہی میں گر گیا۔آپ کے استعمال شدہ پانی کی برکت سے چشمے سے خوب پانی جاری ہو گیا۔صحابی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : ’’ چشمے سے مسلسل بہنے والا پانی پھوٹ نکلا‘‘۔(صحیح مسلم)حضرت ابوجحیفه رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:’’رسول اللہﷺ ظہر کے وقت ہماری طرف تشریف لائے۔ آپ کے پاس وضو کے لیے پانی لایا گیا۔ آپ نے وضو فرمایا اورلوگ آپ سے بچنے والے پانی کو لے کر اسے اپنے جسم پر ملنے لگے‘‘۔(صحیح بخاری)علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ’’صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی کریمﷺ کے وضو سے بچنے والے پانی کو تقسیم کرتے تھے اور اس کا بھی احتمال ہے کہ آپﷺ کے اعضاے شریفہ پر بہنے والے پانی کو ایک دوسرے سے لیا کرتےتھے‘‘۔عروة بن مسعود الثقفی رضی اللہ عنہصلحِ حدیبیہ کے متعلق بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’خدا کی قسم رسول اللہﷺ جب تھوک پھینکتے تو صحابہ میں سے کوئی نہ کوئی اسے اپنے ہاتھوں پہ لے کر اپنے چہرے اور جسم پر مل لیتا اور جب آپﷺ انھیں کوئی حکم دیتے تو ہر ایک تعمیلِ حکم میں دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتا اور جب آپﷺ وضو فرماتے تو وہ آپ کے مستعمل پانی پر باہم چھینا جھپٹی کر گزرتے‘‘۔ (صحیح بخاری)حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:’’میں کسی مرض میں مبتلا ہو گیا۔ رسول اللہﷺ اور حضرت ابو بکر صدیق میری عیادت کو پیدل چل کر تشریف لائے۔ انھوں نے مجھے بے ہوش پایا پس آپﷺ نے وضو کیا اور اس کا پانی مجھ پر چھڑکا تو میں ہوش میں آ گیا ‘‘۔(صحیح بخاری)امام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:’’اس کا احتمال ہے کہ پانی چھڑکنے سے مراد ہو کہ آپ نے وضو میں استعمال شدہ پانی چھڑکا ہو اور اس کا بھی احتمال ہے کہ آپﷺ نے وضو سے بچنے والا پانی اُن پر چھڑکا ہو اور پہلی بات ہی مرادہے۔ دوسری جگہ امام لکھتے ہیں:’’آپﷺ نے ان پر وہی پانی چھڑکا جس سے وضو کیا تھا۔(صحیح بخاری)

آپﷺ کے لباس سے تبرک

نبی اکرمﷺ کے پاس ایک طیالسی جبہ تھا جو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاکے پاس محفوظ رہا اور ان کےبعد سیدہ اسماءبنت ابی بکر رضی اللہ عنہاکے پاس آیا، آپ نےبعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو یہ جبہ دکھاتے ہوئے کہا :’’آپﷺ اسے پہنا کرتے تھے۔ پھرآپ کے بعد ہم اسے مریضوں کے لیے دھوتے ہیں اور اس پانی سےشفایابی کرتے ہیں‘‘۔(صحیح مسلم)

نبی کریمﷺ کے چلنے کی برکت

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کے والدِ محترم جب جنگِ بدر میں شہید ہو ئے تو ایک یہود ی کی تیس وسق کھجور ان کے ذمے تھی۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہﷺ سے عرض کی کہ آپ یہودی کے ہاں سفارش کر کے مجھے مہلت دلا دیں لیکن یہودی نہ مانا۔آپﷺ ان کے باغ میں تشریف لے گئے اور ادھر ادھر کچھ چہل قدمی کے بعد حکم دیا کہ یہودی کو بلا کر اس کی کھجوریں ادا کی جائیں۔ چنانچہ کھجوریں اترنا شروع ہوئیں اور تیس وسق ادا کر کے سترہ وسق کھجور بچ رہی۔ اس واقعے کے بارے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’یقینا میں وہ وقت جانتا ہوں جب رسول اللہﷺ اس باغ میں چل پھر رہے تھے تاکہ اس میں برکت دی جائے‘‘۔(صحیح بخاری)

اشیاے خورو نوش میں برکت

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میری والدہ امِّ سُلیم نے رسول اللہﷺ کی ایک شادی کے موقعے پر تھوڑا سا حلوہ تیار کیا اور مجھے دے کر آپﷺ کی خدمت میں ارسال کیا۔ میں نے والدہ کے حکم کے مطابق ان کا سلام عرض کر کے کہا: یا رسول اللہ! یہ تھوڑا سا حلوہ ہماری طرف سے قبول فرمالیں۔ آپﷺ نے فرمایا: اے انس! اس برتن کو وہاں رکھو اور جاؤ فلاں فلاں کو بلا لاؤ اور اس کے علاوہ جو بھی ملے اسے بھی بلا لاؤ۔ وہ تقریبا تین سو بندوں کو لے کر آ گئے یہاں تک کہ آپ کا حجرہ اور صفہ کا چبوترہ لوگوں سے بھر گیا۔ آپﷺ نے حکم دیا «لِيَتَحَلَّقْ عَشَرَةٌ عَشَرَةٌ وَلْيَأْكُلْ كُلُّ إِنْسَانٍ مِمَّا يَلِيهِ» دس دس لوگ حلقہ بنا لیں اور اپنے سامنے سے کھاتےجائیں۔ پھر ایک گروہ کھا کر نکلتا تو دوسرا کھانے کے لیے داخل ہوتا۔ اس طرح تمام لوگوں نے کھانا کھا لیا تو حضورﷺ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ برتن اٹھا لیں۔ وہ کہتے ہیں مجھے نہیں معلوم جب میں حلوہ لے کر آ یا تھا اس وقت زیادہ تھا یا اب زیادہ ہے۔ (صحیح مسلم)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بھوک سے بے حال راستے میں کھڑے تھے۔ رسول اللہﷺ نے دیکھا تو آپ کی حالت کو پہچان گئے۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’آپﷺ نے میرا دل اور دلی میلان پہچان لیا‘‘۔آپﷺ ان کو ساتھ اپنے گھر لے گئے۔ آپ کے گھر سے کھانے کے طور پر ایک پیالہ دودھ دستیاب ہوا۔ آپﷺ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ اصحابِ صفہ کو بلا لائیں۔حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ میں ان کو پلاتا رہا اور اس پیالے سے ستر اصحابِ صفہ نے سیر ہو کر پیا۔ آخر میں رسول اللہﷺ نے مجھے حکم دیا کہ میں پیوں۔ پس میں نے حضورﷺ کے فرمان کے مطابق پیٹ بھر کر دودھ پیا۔(صحیح بخاری مع فتح الباری)

آپﷺ کے پسینے سے تبرک

سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے نبی اکرمﷺ کا کچھ پسینہ ایک شیشی میں جمع کر لیا تو آپﷺ نے پوچھا: ’’اے ام! سلیم کیا کر رہی ہو؟‘‘۔آپ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا: ’’یا رسول اللہ! یہ آپ کا پسینہ ہے۔ ہم اسے اپنی خوشبو میں ملائیں گے، اس لیے کہ یہ ایک بہترین خوشبو ہے‘‘۔ ایک روایت میں آتا ہے: ’’ہم اپنے بچوں کے لیے اس پسینے کی برکت کی امید رکھتے ہیں‘‘۔(صحیح مسلم)

نبی کریمﷺ کے لعاب اور پھونک کی برکت

غزوۂ خیبر کے موقعے پر نبیﷺ نے فرمایا: ’’کل میں جھنڈا اسے دوں گا جس کے ہاتھ پر اللہ تعالیٰ فتح عطا فرمائیں گے‘‘۔اگلی صبح آپﷺ نے پوچھا:’’ علی کہاں ہیں؟‘‘۔ پتا چلا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی آنکھیں دکھ رہی ہیں۔آپﷺ نے انھیں بلا کر جھنڈا عطا کیا اور اپنے لعابِ دہن سے ان کا علاج کیا اور ان کی آنکھوں پر اپنا لعاب مبارک لگایا تو وہ اسی جگہ اس طرح ٹھیک ہو گئیں گویا کبھی ان میں کوئی بیماری تھی ہی نہیں۔ (صحیح بخاری) حضرت یزید بن عبید کہتے ہیں کہ میں نے حضرت سلمہ بناَکْوَعْرضی اللہ عنہ کی پنڈلی پر ایک زخم کا نشان دیکھا تو ان سے اس بابت دریافت کیا۔کہنے لگے: ’’ مجھے جنگِ خیبر میں زخم آیا۔ لوگ کہنے لگے سلمہ تو بچ نہیں پائے گا۔ میں رسول اللہﷺ کے پاس آیا۔ آپﷺ نے تین بار پھونک ماری تو میں ایسا ٹھیک ہوا کہ آج تک کبھی کوئی تکلیف نہیں ہوئی‘‘۔ (صحیح بخاری)

آپﷺ کی چادر اور لباس سے تبرک

حضرت سہل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک خاتون آپﷺ کی خدمت میں ایک چادر لائیں۔ آپ کو اس کی ضرورت بھی تھی۔ آپﷺ نے وہ اوڑھ لی۔ایک شخص نے اٹھ کر کہا: ’’یا رسول اللہ! یہ بہت اچھی ہے، آپ مجھے عطا کر دیں‘‘۔آپﷺ نے وہ چادر اسے دے دی۔لوگوں نے اسے ملامت کی کہ آپﷺ اس چادر کے ضرورت مند تھے پھر بھی تم نے مانگ لی۔اس نے کہا: ’’میں نے تو اس برکت کی وجہ سےمانگی جو آپﷺ کے پہننے سے اس میں آ گئی تھی،کیا پتا یہ چادر میرا کفن ہی بن جائے‘‘۔حضرت سہل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں واقعی وہی چادر اس کا کفن بنی تھی۔ (صحیح بخاری)آپﷺ کی ایک صاحبزادی کا انتقال ہوا۔ جب ان کی میت کو غسل دیا جا چکا تو آپﷺ نے اپنا ازار خواتین کو دے کر یہ حکم دیا«أَشْعِرْنَهَا إِيَّاهُ»’’اس کپڑے کو اس کے کفن کے اندر جسم کے ساتھ لگا دینا‘‘۔امام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ اس واقعے کے ذیل میں لکھتے ہیں:’’یہ واقعہ صالحین کے آثار و اشیا سے برکت لینے کی بنیاد ہے‘‘۔نبی کریمﷺ نے سیدہ فاطمہ بنت اسد رضی اللہ عنہا کے کفن کے لیے اپنی قمیض عطا کی اور تبرک کے لیے ان کی قبر میں لیٹے اور ان کے لیے دعاے خیر فرمائی۔(اُسد الغابہ)ایک اعرابی ایمان لائے۔ ایک جہاد میں آپﷺ نے انھیں کچھ سامان دیا۔ انھوں نے کہا: ’’میں نے آپ کا اتباع اس سامان کے لیے نہیں کیا بلکہ اس لیے کیا کہ میرے حلق میں تیر لگے (تاکہ میں شہید ہو جاؤں)‘‘۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’اگر تو سچا ہے تو ایسا ہی ہو گا‘‘۔ پھر وہ جہاد میں شہید ہوا تو آپﷺ نے فرمایا: ’’اس نے سچ کہا تھا اللہ نے سچ کر دکھایا‘‘۔ پھر آپﷺ نے اسے اپنے ایک جبے میں کفن دیا اور اس کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔(سنن نسائی)

رسول اللہﷺ کے لمس کی برکت

بنو الْبَكَّاءکے وفد میں شامل سو سالہ حضرت معاویہ بن ثور رضی اللہ عنہ نےحضورﷺ سے عرض کیا: ’’میں آپ کو چھو کر تبرک حاصل کروں گا۔ میں بوڑھا ہوں اور میرا یہ بیٹا میرے ساتھ حسنِ سلوک کرتا ہے،آپ اس کے چہرے پر ہاتھ پھیر دیں‘‘۔حضورﷺ نے ایسا کیا اور ان کو دعا دی اور کچھ تحفہ دیا۔راوی کہتے ہیں کہ کبھی ہمارے قبیلے میں قحط بھی پڑتا تو یہ باپ بیٹا محفوظ رہتے۔(طبقات ابنِ سعد)

زلفِ رسولﷺ سے تبرک

سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس آپﷺ کےکچھ رنگے ہوئے بال محفوظ تھے۔ جس کسی کو نظرِ بد یا کوئی اور بیماری لاحق ہوتی وہ اک پیالے میں پانی ڈال کرآپ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیجتا۔ آپ اس پیالے میں بال مبارک کو غسل دے کر واپس کرتیں اور بیمار اسے پی کر اس کی برکت سے شفایاب ہوتا۔ (صحیح بخاری) حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ حج کے موقعے پر مِنی میں تشریف لائے اور رَمی فرمائی۔ اس کے بعد حجام کو بلا کر پہلے دائیں طرف اور پھر بائیں طرف کے بال کٹوائے اور پاس موجود لوگوں کے درمیان ایک ایک اور دو دو بال تقسیم کیے۔ پھر باقی بال حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ کو دے کر حکم دیا:«اقْسِمْهُ بَيْنَ النَّاسِ»’’اسےلوگوں میں تقسیم کر دو‘‘۔ (صحیح مسلم)معروف تابعی حضرت ثابت البنانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’اپنی زندگی کے آخری لمحات میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے مجھ سے فرمایا: ’’یہ رسول اللہﷺ کے بالوں میں سے کچھ بال ہیں، انھیں میری زبان کے نیچے رکھ دو‘‘۔ پس میں نے وہ بال ان کی زبان کے نیچے رکھ دیے(اسی حال میں انھوں نے انتقال کیا) اور جب انھیں دفن کیا گیا تو وہ بال آپ کی زبان کے نیچے ہی تھے‘‘۔ (الاصابہ فی تمییز الصحابہ) جنگِ یرموک میں حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا کلاہ گر گیا۔ آپ نے حکم دیا کہ اسے ڈھونڈا جائے۔جب اسے ڈھونڈ لیا گیا تو وہ ا یک پرانی سی ٹوپی تھی۔ اس پر حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے تفصیل بتاتےہوئے فرمایا:’’رسول اللہﷺ نے عمرہ کیا اور اپنا سر منڈوایا، لوگ آپ کے بال جمع کرنے کےلیےلپکنے لگے، میں نے جلدی سےآپ کی پیشانی مبارک کے بال اٹھا لیے اور انھیں اپنی اس ٹوپی میں لگا لیا، پس میں نے جس لڑائی میں شرکت کی اور یہ بال میرے پاس ہوئے تو مجھے اللہ کی طرف سے مدد دی گئی‘‘۔ (مستدرکِ حاکم، مجمع الزوائد)

آپﷺ کی استعمالی چیزوں سے تبرک

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس رسول اللہﷺ کے زیرِ استعمال رہنے والی ایک چھوٹی سی چھڑی تھی،جب وہ قریب المرگ تھے تو انھوں نےاس چھڑی کو اپنے ساتھ دفنانے کا حکم دیا۔ پس وہ چھڑی اس طرح دفن کی گئی کہ وہ آپ رضی اللہ عنہ کے جسم اور کفن کےدرمیان تھی۔ (اُسد الغابہ)ابراہیم بن عبد الرحمن بیان کرتے ہیں کہ میں نےحضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا کہ وہ منبر پر آپﷺ کے بیٹھنے کی جگہ پہ ہاتھ پھیرتے اور پھر اپنے ہاتھ کو اپنے چہرے سے لگاتے۔ (طبقاتِ ابنِ سعد) حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے رسول اللہﷺ کے بغیر بالوں کے چمڑے کے جوتے سنبھال رکھے تھے جن کے دو تسمے تھے۔ راوی کہتے ہیں کہ ہمیں حضرت انس کے شاگردِ رشید ثابت البنانی نے یہ جوتے دکھائے اور بتایا کہ یہ رسول اللہﷺ کے نعلین مبارک ہیں۔ (صحیح بخاری)ایک باررسول اللہﷺ نے حضرت سہل بن سعد رضی للہ عنہ سے پانی طلب کیا۔ انھوں نے ایک پیالے میں پانی پیش کیا۔ جب آپﷺ نے اس پیالے میں پانی پی لیا تو حضرت سہل نے اس پیالے کو سنبھال کر رکھا۔ راوی کہتے ہیں حضرت سہل نے ہمیں وہ پیالہ دکھایا اور ہم نے اس میں پانی پیا۔پھر حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے آپ رضی اللہ عنہسے وہ پیالہ مانگا تو آپ نے ان کو دے دیا‘‘۔(صحیح بخاری) رسول اللہﷺ جب ہجرت کر کے مدینہ میں تشریف لائے تو کچھ عرصہ سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے مہمان بنے۔ ان کا مکان دو منزلہ تھا۔ انھوں نے رسول اللہﷺ کی سہولت کی خاطر آپﷺ کو زمینی منزل پر ٹھہرایا اور خود اوپر کی منزل پر منتقل ہو گئے۔ ایک رات انھیں خیال آیا کہ ہم رسول اللہﷺ کے اوپر چلتے پھرتے ہیں۔ اس خیال نے انھیں اتنا پریشان کیا کہ کمرے کے ایک کونے میں سمٹ کر رات بسر کی۔اگلے دن سارا ماجرا رسول اللہﷺ کی خدمت میں عرض کیا اور درخواست کی کہ آپﷺ اوپر کی منزل میں منتقل ہو جائیں۔حضور کریمﷺ نے فرمایا: «السُّفْلُ أَرْفَقُ» ’’نچلی منزل ہمارے لیے آسان ہے‘‘۔ لیکن حضرت ابو ایوب نہیں مانے۔ چنانچہ رسول اللہﷺ اوپر منتقل ہوئے اور آپﷺ کا کھانا اوپر ہی پہنچایا جانے لگا۔ حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ برتن واپس لے جانے والے شخص سے برتن لے کر آپﷺ کی انگلیوں کے نشانات پر انگلیاں پھیرتے۔ (صحیح مسلم)

جانوروں پر آپﷺ کی برکت کے آثار

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں عُقبہ بن ابی مُعیط کی بکریاں چراتا تھا۔ تو میرے پاس سے رسول اللہﷺ اور ابو بکر صدیق گزرے۔ رسول اللہﷺ نے کہا: ’’اے لڑکے! کیا تیرے پاس ہمارے پینے کے لیے دودھ ہے؟‘‘۔ میں نے کہا: جی ہاں! ہے تو سہی لیکن میرے پاس امانت ہے ۔آپﷺ نے فرمایا: ’’اچھا کیا تیرے پاس کوئی ایسی بکری ہے جس نے ابھی تک بچہ نہ دیا ہو؟‘‘۔ میں ایک بکری آپ کے پاس لے آیا۔آپﷺ نے اس کے تھنوں پر ہاتھ پھیرا تو اس کے دودھ اتر آیا۔ آپﷺ نے بکری کا دودھ نکالا اور خود نوش فرمایا اور پھر ابو بکر صدیق نے بھی پیا۔ پھر آپﷺ نے تھنوں کو مخاطَب کر کے فرمایا: ’’سکڑ جاؤ‘‘۔ پس بکری کے تھن سکڑ گئے۔(مسند احمد)

ایک رات مدینہ میں خوفناک قسم کی آواز سنائی دی۔ آپﷺ حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ کے گھوڑے پر سوارہو کرآواز کی سمت تنہا چلے گئے۔یہ گھوڑا اپنی سُست رفتاری میں مشہور تھا۔ جب آپﷺ واپس آئے تو آپﷺ نے فرمایا:«لَمْ تُرَاعُوا، إِنَّهُ لَبَحْرٌ»’’ڈرو مت اور یہ گھوڑا تو پانی کی طرح تیز ہے‘‘۔آپﷺ کی برکت سے یہ سست گھوڑا تیز ہو گیا۔ راوی کہتے ہیں: اس دن کے بعد اس گھوڑے سے کوئی دوسرا گھوڑا آگے نہ نکل سکا۔ (صحیح بخاری)حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار میں رسول اللہﷺ کے ساتھ ایک جہاد پر تھا۔ میں ایک لاغر سے اونٹ پرسوار تھا جس سے چلا بھی نہیں جا رہا تھا۔ آپﷺ نے پوچھا:’’ تمہارے اونٹ کو کیا ہوا ہے؟‘‘۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ کمزور ہے۔ آپﷺ نے اونٹ کو ہنکارا اور اس کے لیے دعا کی۔اس کے بعد وہ اونٹ تیز چلنے لگا۔ رسول اللہﷺ نے کچھ دیر بعد حضرت جابر سے پوچھا: ’’اے جابر اپنے اونٹ کو کیسا پاتے ہو؟‘‘۔ میں نے عرض کیا:اسے آپ کی طرف سے برکت پہنچی تو وہ بہترین ہو گیا۔(صحیح بخاری)یہ اونٹ دورِ فاروقی تک حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے پاس رہا۔ جب یہ کمزور ہو گیا تو ایک دن حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے جناب فاروق سے عرض کیا کہ میرے پاس ایک ایسا اونٹ ہے جو جنگِ بدر اور صلحِ حدیبیہ کے مواقع پر موجود تھا اور انھوں نے وہ واقعہ بھی بیان کیا۔ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ اس اونٹ کو بیت المال میں داخل کر دیا جائے اور سرکاری چراگاہ میں اچھی جگہ سے چرایا جائے اور اچھا پانی پلایا جائے۔ جب یہ فوت ہو جائے تو اسے گڑھا کھود کر دفن کر دیا جائے۔(فتح الباری ، تاریخِ دمشق)

لرننگ پورٹل