نصیرؔ ترابی (۱۹۴۵۔۲۰۲۱ء)<br/ >معروف شاعر
<br/ >
وہ ہم سفر تھا، مگر اُس سے ہم نوائی نہ تھی |
کہ دھوپ چھاؤں کا عالم رہا، جدائی نہ تھی |
نہ اپنا رنج، نہ اوروں کا دکھ، نہ تیرا ملال |
شبِ فراق کبھی ہم نے یوں گنوائی نہ تھی |
محبتوں کا سفر اس طرَح بھی گزرا تھا |
شکستہ دل تھے مسافر، شکستہ پائی نہ تھی |
عداوتیں تھیں، تغافل تھا، رنجشیں تھیں بہت |
بچھڑنے والے میں سب کچھ تھا، بے وفائی نہ تھی |
بچھڑتے وقت اُن آنکھوں میں تھی ہماری غزل |
غزل بھی وہ جو کسی کو ابھی سنائی نہ تھی |
کسے پکار رہا تھا وہ ڈوبتا ہوا دن |
صدا تو آئی تھی لیکن کوئی دُہائی نہ تھی |
کبھی یہ حال کہ دونوں میں یک دلی تھی بہت |
کبھی یہ مرحلہ جیسے کہ آشنائی نہ تھی |
عجیب ہوتی ہے راہِ سخن بھی دیکھ نصیرؔ |
وہاں بھی آ گئے آخر، جہاں رسائی نہ تھی |