لاگ ان

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

لاگ ان

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

لاگ ان / رجسٹر
جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

صوفی جمیل الرحمان عباسی
مدیر ماہنامہ مفاہیم

فتحِ قَیساریّہ

اسی سال حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ قیساریہ کو فتح کرنے کی کوشش کریں۔ حضرت معاویہ ایک لشکر لے کر وہاں پہنچے اور شہر کا محاصرہ کر لیا۔ یہاں رومیوں نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ اچانک باہر نکل کر مسلمانوں پر حملہ آور ہوتے جس کے کے نتیجے میں کئی ایک لڑائیاں ہوئیں جن میں مسلمانوں کا پلڑا بھاری رہا۔ آخر کار انھوں نے اپنے پورے لشکر سے حملہ کیا جس میں رومیوں کو شکست ہوئی۔ان معرکوں میں ہزاروں رومی مارے گئے۔ مسلمانوں کو کثیر مالِ غنیمت حاصل ہوا۔ یہ روایت بھی ہے کہ قیساریہ کی فتح؛ بیت المقدس کے محاصرے کے دوران ہوئی۔

معرکٔہ اجنادِین

حضرت عَمْرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے ایلیا یعنی بیت المقدس کی طرف پیش قدمی فرمائی۔ جب آپ رملہ پہنچے تو انھوں نے اردن سےحضرت شرحبیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ کو بھی بلا لیا اور وہاں پر ابو الاعور السلمی کو والی مقرر کر دیا۔ انھوں نے رملہ میں ارطبون نامی جرنیل کے ماتحت ایک عظیم لشکرپایا۔ ارطبون روم کا بہت عقل مند اور ماہرِ سیاست جرنیل تھا۔ انھیں خبر ملی کہ اسی طرح کا ایک عظیم لشکر بیت المقدس میں بھی مسلمانوں کا منتظرہے۔ سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے خلیفۃ المسلمین کی طرف قاصد روانہ کیا۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کا خط ملا تو انھوں نے فرمایا:قَدْ رَمَيْنَا أَرْطَبُونَ الرُّومِ بِأَرْطَبُونِ الْعَرَبِ، فَانْظُرُوا عَمَّا تَنْفَرِجُ’’ہم نے ارطبونِ روم سے ارطبونِ عرب کو ٹکرا دیا، پس دیکھو اب کیا نتیجہ نکلتا ہے‘‘۔حضرت عمرو خود رملہ کے علاقے اجنادین میں رکے رہے۔ آپ نے علقمہ بن حکیم الفراسی اور مسروق العکی کو ایلیا کی طرف روانہ کیا اور ابو ایوب المالکی کو رملہ کی طرف روانہ کیا۔حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ رومیوں کی توجہ اپنی طرف سے ہٹانا چاہتے تھے۔ دارالخلافہ کی طرف سے جب بھی کوئی کمک پہنچتی تو اس کا ایک حصہ آپ رملہ کی طرف روانہ کرتے اور ایک حصہ ایلیا پرحملہ کرنے والی فوج کی طرف۔ ایک دن حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ قاصد کے روپ میں ارطبون کے پاس پہنچ گئے۔ اپنی بات سنائی اور اس کی بات سنی، پھر آپ وہیں بیٹھ کر اس بات پر غورو فکر کرنے لگے۔ وہ ارطبون ان کے اندازِ کلام سے سمجھ گیا کہ یا تو آپ ہی عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ ہیں یا عمرو کا کوئی خاص آدمی ہے۔اس نے اپنے محافظوں کو خفیہ پیغام بھیجا کہ ان صاحب کا پیچھا کرو اور چپکے سے انھیں قتل کر دو۔حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو شک گزرا۔ انھوں نے ارطبون سے کہا: اے سالار! میں نے آپ کی بات سن کر سمجھ لی۔ میں ان دس میں سے ایک ہوں جنھیں خلیفہ نے سپہ سالارکی معاونت و مشاورت کے لیے بھیجا ہے۔ مجھے اجازت دیں کہ میں باقی دس کو بھی آپ کے پاس لے آؤں تاکہ وہ آپ کی بات کو سمجھ سکیں۔ ارطبون اس پر خوش ہوا۔ اس نے اپنے محافظوں کو پیغام بھیج کر قتل والے منصوبے کو روک دیا۔ حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ عافیت کے ساتھ وہاں سے واپس آئے اور بعد میں ارطبون کو پتا چلا کہ یہی عمرو بن عاص تھے۔ اس نے کہا: خدا کی قسم یہی عرب کا عقل مند ترین شخص ہے جس نے مجھے دھوکا دیا۔بہر حال دونوں لشکروں کا اجنادین کے مقام پر سخت مقابلہ ہوا اور ارطبون شکست کھا کر بیت المقدس کی طرف پسپا ہوا تو مسلمانوں نے اس کا راستہ نہ روکنے کا فیصلہ کیا بلکہ اسے بیت المقدس میں داخل ہونے دیا۔ ارطبون کے بیت المقدس میں ’’پناہ گزین‘‘ ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نےغزہ (ایک روایت کے مطابق غزہ پہلے فتح ہو چکا تھا) سبسطيہ، نابلس، لد، اور عمواس وغیرہ فتح کرلیے۔

فتحِ بیتُ المقدس

جب ارطبون بیت المقدس میں مقیم تھا، حضرت عمروبن عاص رضی اللہ عنہ کے ساتھ اس کی خط کتابت جاری تھی۔ارطبون نے اپنے مصاحبین کے سامنے اس بات کا اظہار کیا کہ عمرو بن عاص بیت المقدس فتح نہیں کر سکے گا۔ انھوں نے سوال کیا کہ آپ اتنے یقین کے ساتھ کیسے کہہ سکتے ہیں؟ تو اس نے جواب دیا کہ میرے علم کے مطابق اس شہر کا فاتح وہ ہے جس کے نام کے تین حروف ہیں۔اس کے بعد اس نے کچھ اور صفات بھی بتائیں۔جن سے حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے اندازہ لگا لیا کہ وہ شخصیت خلیفۃ المسلمین حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ ہی ہیں۔لہذا انھوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی جناب میں عرض کی کہ اگر آپ بیت المقدس تشریف لے آئیں تو بیت المقدس بغیر خون خرابے کے فتح ہو سکتاہے۔ ساتھ ہی آپ نے بیت المقدس کی طرف پیش قدمی شروع کر دی۔دوسری طرف حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ دمشق اور حِمص کی فتح سے فارغ ہونے کے بعد بیت المقدس کی طرف متوجہ ہوئے۔انھوں نے بیت المقدس کے والی کو خط ارسال کیا جس میں انھیں اسلام، جزیہ اور قتال میں سے کسی ایک کے انتخاب کی دعوت دی گئی تھی۔ بعض روایتوں میں آتا ہے کہ انھوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خط لکھا کہ دمشق اور دوسرے علاقے فتح ہو چکے ہیں،اب کیا کیا جائے۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مشاورت کے بعد بیت المقدس فتح کرنے کی اجازت دی۔ بہرحال اس کے بعد حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ اپنی فوج کولے کر بیت المقدس پہنچ آئے۔ انھوں نے ارد گرد کی مسلمان افواج کو بھی بیت المقدس میں بلا لیا اور حضرت عمروبن العاص رضی اللہ عنہ کے ساتھ مل کر بیت المقدس کا محاصرہ کر لیا۔ (تاریخ ابنِ کثیر، الکامل)جس صبح مسلمانوں نے بیت المقدس پر حملہ آور ہونا تھا۔وہ رات مسلمانوں نے بیت المقدس کی خوشی میں جاگتے ہوئے گزاری۔ ہر گروہ چاہتا تھا کہ بیت المقدس اس کے ہاتھوں فتح ہو تاکہ وہ (سب سے پہلے) اور دوسرے مسلمان مسجد الاقصیٰ میں نماز پڑھ سکیں اور انبیاے کرام علیہم السلام کے آثار و مقامات کی زیارت سے بہرہ ور ہو سکیں۔نمازِ فجر میں حضرت یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما نے سورۃ المائدہ کی جن آیات کی قراءت کی اس میں آیتِ مبارکہ﴿يَا قَوْمِ ادْخُلُوا الْأَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِي كَتَبَ اللَّهُ لَكُمْ وَلا تَرْتَدُّوا﴾ بھی تھی۔ یہ بھی کہا گیا کہ اللہ تعالی ٰ کی طرف سے تمام امراے جیوش کی زبانوں پر قراءتِ نماز میں یہی آیات جاری ہوئیں۔مسلمانوں کی راتوں کا حال یوں بیان کیا گیا :قَوْمٌ يُصَلّونَ وقومٌ يَقْرَأُونَ وقومٌ يَتَضَرَّعُوْنَ وقومٌ نَائِمُونَ’’کچھ لوگ نماز پڑھتے رہتے کچھ تلاوت کرتے رہتے کچھ لوگ آہ وزاری میں مصروف رہتے جبکہ کچھ لوگ آرام کیا کرتے‘‘۔ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے مختلف کمانڈروں کے تحت افواج متعین کیں اور انھیں روانہ کرتے وقت یوں نصیحت فرمائی: فَارْفَعُوا أَصْواتَكُمْ بِالتَّهْليلِ وَالتَّكْبيرِ وَاسْأَلُوا اللهَ بِجَاهِ نَبِيِّهِ وَمَنْ سَكَنَهَا مِنَ الْأَنْبِيَاءِ وَالصّالِحينَ أَن يَّسْهَلَ فَتْحَها عَلَى أَيْدِي الْمُسْلِمِينَ’’کلمۂ طیبہ اور اللہ اکبر کی صدائیں بلند کیے رکھو اور نبی کریم ﷺ اور بیت المقدس میں رہ چکنے والے انبیاے کرام اور صالحین کے وسیلے سے اللہ تعالی سے دعا کرو کہ وہ مسلمانوں کے لیے اس شہر کی فتح کو آسان کر دے‘‘۔خیر، مسلمان افواج نے بیت المقدس کو گھیرے میں لے لیا۔ یہ سردیوں کا موسم تھا او ر مسلمان سخت مشقت میں تھے لیکن انھوں نے کمال صبر سے چار ماہ تک بیت المقدس کا سخت محاصرہ کیے رکھا۔رومی جرنیل ارطبون چپکے سے مصر کی طرف نکل گیا۔ جب شہرکے لوگ تنگ آ گئے تو انھوں نے اپنے لاٹ پادری سے کہا: اے ہمارے باپ! ہم سوچتے تھے کہ یہ مسلمان محاصرہ نہ کر سکیں گے اور ہمیں قیصر کی طرف سے کمک ملے گی لیکن ہمارا بادشاہ اپنی فوج کے شکست کھانے کی وجہ سے ہماری مدد کو نہ آ سکا۔ آپ ہماری طرف سے ان مسلمانوں سے بات کریں۔ اگر صلح کی کوئی صورت بنتی ہے تو ٹھیک ورنہ ہم باہر نکل کر لڑائی کریں یا تو ہم مسلمانوں کو شکست دے دیں یا ہمارا آخری آدمی بھی قتل ہو جائے۔ اہلِ شہر کی طرف سے پیغام بھیجا گیا کہ اپنے امیر کو نزدیک لائیں ہم اس سے بات کرنا چاہتے ہیں۔حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ دیوار کے پاس آ گئے۔ پادری اپنے ساتھ دوسرے احبار و رہبان کو لے کر دیوار پر نمودار ہوا۔ ان لوگوں نے انجیلِ مقدس ہاتھوں میں بلند کی ہوئی تھی۔ پادری نے حضرت ابو عبیدہ سے پہلا سوال ہی یہ کیا: کیا تمھیں اس شہر کی عظمت و حرمت کا اندازہ نہیں کہ تم یہاں حملہ کر کے اللہ کا غضب مول لے رہے ہو؟حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ نے جواب میں فرمایا:نَعَمْ إِنَّها شَرِيفْةٌ ومِنْها أَسْرَى بِنَبِيِّنا إِلَى السَّمَاءِ ودَنا مِنْ رَّبِّهِ كَقَابِ قَوْسَيْنِ أو أَدْنَى وإِنَّها مَعْدِنُ الأنبياءِ وقُبُورِهُمْ فيها ونَحْنُ أَحَقُّ مِنْكُمْ بِها ولا نَزالُ عليها أو يُمْلِكُنا اللهُ إيّاها كَما مَلَكْنَا غَيْرَها’’ہاں ہم جانتے ہیں کہ یہ عزت والا شہر ہے۔اسی شہر سے ہمارے نبی ﷺ کا آسمان کی طرف سفر معراج شروع ہوا جس میں وہ اپنے رب کے نزدیک ہوئے قابَ قوسین کی حد تک یا اس سے بھی کم۔ یہ نبیوں کی سرزمین ہے اور ان کی قبریں یہیں پائی جاتی ہیں۔البتہ بات یہ ہے کہ ہم تم سے زیادہ اس شہر کی تولیت کے حق دار ہیں۔ ہمارا واپسی کا کوئی ارادہ نہیں ہے یہاں تک کہ اللہ دوسرے شہروں کی طرح یہاں بھی ہمیں غلبہ دے دے‘‘۔ پادری نےپوچھا: اچھا مزید کیا صورت ہو سکتی ہے؟ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا پہلی بات تو یہ ہے کہ تم اسلام قبول کر لو۔ یہ نہیں تو دوسری بات یہ ہے کہ جزیہ ادا کر کے شہر ہمارے حوالے کرو اور آخری صورت یہی ہے کہ ہم تم سے جنگ جاری رکھیں۔پادری نے کہا کہ ہم اپنا دین تو چھوڑ نہیں سکتے۔ جزیہ ایک ذلت ہے ہم اسے برداشت نہیں کر سکتے۔ رہی بات تمھارے دوسرے شہروں کو فتح کرنے کی تو ان پر مسیح علیہ السلام کا غضب تھا۔ اس لیے وہ تمھاری غلامی میں دے دیے گئے۔ جبکہ ہمارا شہر مقدس ہے اور ہم جب’خداوند مسیح‘سے مدد کی درخواست کریں گےتو وہ ہماری مدد کریں گے۔ پادری نے مزید کہا کہ یقینی طور پر تم لوگ یہ شہر نہیں فتح کر سکتے کیوں کہاس کا فتح کرنے والا کوئی اور ہے۔پھر اس نے شہر بیت المقدس کو فتح کرنے والے کی نشانیان بتائیں تو ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ ہنسے اور اللہ اکبر کا نعرہ بلند کرے فرمایا: ’’ربِ کعبہ کی قسم شہر فتح ہو گیا‘‘۔ پادری نے پوچھا: کیا تم ان صاحب کو جانتے ہو؟ انھوں نے جواب دیا: میں انھیں کیسے نہ پہچانوں گا کہ مدتوں ان کے ساتھ رہا ہوں یہ ہمارے نبی کے ساتھی اور ہمارے خلیفہ حضرت عمر فاروق ہیں۔ پادری نے کہا کہ اگر ایسا ہے تو ہمیں لوگوں کا خون بہانے سے بچنا چاہیے۔تم لوگ انھیں بلا لو اگر ہم نے ان میں نشانیاں پائیں تو ہم شہر تمھارے حوالے کر دیں گے۔ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں کے سامنے ساری با ت رکھی۔ انھوں نے باواز بلند لاإله إلاالله والله أکبرپکارا اور کہنے لگے: اے امیر! خلیفہ کی خدمت میں جلد خط روانہ کریں۔ حضرت شرحبیل رضی اللہ عنہ نے رائے دی کہ حضرت خالد بن ولید کا حلیہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ملتاہے تو کیوں نہ پادری کو آزمایا جائے۔ اس پر اتفاق ہوا تو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو دیوار کے نزدیک لایا گیا اور قلعے والوں سے کہا گیا: تمھارا مطلو ب آ گیا لہذا اپنے پادری کو بلالو۔پادری نے غور سے حضرت خالد کو دیکھا اور پھر کہنے لگا: ’’یہ لگتا تو اسی کے جیسا ہے لیکن یہ وہ ہے نہیں۔ بعض علامات اس میں نہیں پائی جاتیں‘‘۔اب مسلمانوں نے خلیفۃ المسلمین کی خدمت میں خط روانہ کیا اور پوری تفصیل لکھ کر انھیں تشریف آوری کی دعوت دی۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے اصحاب سے مشاورت کی تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی رائے سامنے آئی کہ جب ہم نے اتنے شہر فتح کر لیے اور دشمن کمزور ہو چکا ہے تو اس کی طرف خلیفہ کو بھیج کر اسے عزت نہ دی جائے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی رائے یہ سامنے آئی کہ محاصرہ بہت طویل ہو چکا ہے۔ مسلمان موسم کی سختی کا مقابلہ کررہے ہیں۔اس لیے ان کی تالیف اورسہولت کا خیال کرتے ہوئے خلیفہ کو بیت المقدس کا سفر کرنا چاہیے کہ انھیں اس سفرکا ڈھیروں اجر بھی ملنے والا ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دشمن کو کہیں سے مدد مل جائے تو فتح مزید دور چلی جائے‘‘۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دونوں کی تحسین کی اور فرمایا عثمان نے جنگی چال اور حکمت کی بات کی جبکہ علی نے مسلمانوں پر شفقت و رحمت والی بات کی اورہم علی کی رائے کو اختیار کرتے ہیں‘‘۔ آپ نے اسی وقت سفر کی تیاری کا حکم دیا۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب معسکر میں پہنچے تو فجر کا وقت تھا۔آپ نے لوگوں کو نماز پڑھائی اور اس کے بعد آپ نے وعظ و نصیحت پر مبنی خطاب فرمایا۔اس کے بعد حضرت ابو عبیدہ آپ کو مختلف محاذات کے احوال بتانے لگے۔ حضرت عمر کبھی اظہار اطمینان کرتے اور کبھی رونے لگتے۔ ظہر تک یہی سلسلہ چلتا رہا۔ ظہر کی اذان کا وقت آیا تو بعض اصحاب نے فرمائش کی کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے اذان کہلوائی جائے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت بلال سے کہا: ’’اے بلال! تمھارے ساتھی چاہتے ہیں کہ تم ان کے لیے اذان دو اور انھیں رسول اللہ ﷺ کے ایام کی یاد تازہ کراؤ‘‘۔ حضرت بلال نے اذان دی تو دِ لوں کے پنچھی یوں پھڑ پھرانے لگے گویا سینوں کے پنجرے توڑ جانا چاہتے ہوں۔ ہر طرف گریہ اور آہ و زاری جاری تھی۔ جب کچھ تسکین ہوئی تو نمازِ ظہر ادا کی گئی۔ اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مساکین اور ضرورت مند حضرات کے لیے وظائف مقرر کیے اور فرمایا کہ لوگوں کو گندم، جو، شہد اور تیل وغیرہ فراہم کیا جائے۔ پھر آپ نے فوجوں سے کہا کہ اگر کسی کو اپنے امیر سے شکایت ہو یا جو حصے ہمارے طرف سے ان کے مقرر کیے گئے وہ نہ ملتے ہوں تو مجھے آگاہ کریں۔ اس کے بعد آپ اونٹ پر سوار ہو ئے تاکہ شہر پناہ کی طرف جا سکیں۔لوگوں نے درخواست کی آپ اونٹ کے بجائے گھوڑے پر سوار ہو جائیں اور اپنا مُرَقّع(وہ لباس جس میں بہت سارے پیوند لگے ہوں) اتار کر اچھے کپڑے پہن لیں۔ خیر آپ نے ساتھیوں کی درخواست پر اچھے کپڑے پہنے اور گھوڑے پر سوار ہوئے، وہ گھوڑا کچھ شوخ سا تھا اچھل کود کرنے لگا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خیال آیا کہ یہ لباس اور گھوڑا ’’تواضعِ شاہانہ‘‘ کے خلاف ہے تو آپ گھوڑے سے اتر پڑے اور کہنے لگے: ’’تم جانتے ہو جس کے دل میں رائی کے دانے جتنا تکبر ہو گا وہ جنت میں داخل نہ ہو گا‘‘۔ پھر آپ نے اپنا مرقع منگوا کر پہنا۔اس کے آپ اونٹ پر سوار ہو کر اگلے مورچوں کی طرف چلے۔ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ آپ کے ساتھ تھے۔ مورچوں میں ایک جگہ آپ کے لیے خیمہ لگایا گیا تھا آپ نےوہاں نماز ادا کی۔ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے شہرپناہ کے پہرے داروں سے کہا کہ لاٹ پادری کو اطلاع دی جائے کہ امیر المومنین تشریف لے آئے ہیں۔ پادری صفرونیوس دیوار پر آیا اور اس نے کہا کہ ان صاحب کو دیوارکے نزدیک لے آؤ تاکہ ہم دیکھ سکیں کہ وہی ہیں یا کوئی اور ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے اونٹ کو دیوار کے نزدیک لے چلے تو لوگوں نے اعتراض کیا کہ کہیں آپ کے خلاف کوئی ناشائستہ حرکت نہ کی جائے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آیت مبارکہ﴿قُلْ لَنْ يُصِيبَنَا إِلَّا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَنَا هُوَ مَوْلانَا وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ﴾پڑھی اور حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ دیوار کے نزدیک آ گئے۔ پادری صفرونیوس آپ کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ وہ زور سے چلا اٹھا: یہ محمدکے وہی ساتھی ہیں جن کی نعت و صفات ہماری کتابوں میں پائی جاتی ہیں۔ یہی قدس کے فاتح ہیں۔اے لوگو! اترو اور ان سے اَمْن طلَب کرو۔ شہر پناہ کے دروازے کھول دیے گئےاور لوگ جوق در جوق حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہونے لگے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے کہا: واپس جاؤ،تم ہمارے ذمے میں ہو، تمھیں امان دی جاتی ہے۔ جاؤاپنے شہر میں چلے جاؤ۔ آپ رضی اللہ عنہ معسکر میں آگئے اور رات بسر کرنے کے بعد اگلے دن شہر میں داخل ہوئے جب کہ پیر کا دن تھا۔(فتوح الشام) آپ رضی اللہ عنہ مسجد اقصی میں اسی دروازے سے داخل ہوئے جہاں سے رسول اللہﷺداخل ہوئے تھے۔آپ نے مسجد میں دو رکعت نماز ادا کی۔آپ نے مسجدِ اقصیٰ میں فجر کی نماز پڑھائی جس میں آپ نے سورۂ بنی اسرائیل اور سورۂ ص کی قراءت کی۔ پھر آپ اس چٹان (صخرہ) کی طرف آئے جہاں سے رسول کریمﷺکا معراج شروع ہوا تھا۔آپ نے کعب الاحبار سے پوچھا کہ میں نماز کہاں ادا کروں تو انھوں نے کہا کہ صخرہ کے پیچھے ادا کریں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا یہ تو یہود کا طریقہ ہے۔ میں وہاں نماز ادا کروں گا جہاں حضور کریمﷺنے نماز ادا کی تھی پھر وہ قبلے کی طرف آگے بڑھے کہ صخرہ آپ کے پیچھے تھی۔ یہاں آپ نے نماز پڑھی اور اس جگہ کو مسجد قرار دیا (یہ مسجد جامع قبلی یا مسجد عمر یا جامع عمر کہلاتی ہے)۔آپ نے اہلِ بیت المقدس پر جزیہ عائد کیا، ان کو امان دی اورایک معاہدہ تحریر کیا۔(تاریخ ابنِ کثیر) اس معاہدے کی رو سے اہلِ قدس پر جزیہ عائد کیا گیا۔جس کے بدلے میں ان کی جان و مال اور عبادت گاہوں کے تحفظ اور مذہبی آزادی کی ضمانت دی گئی۔ دین کے معاملے میں ان پر کوئی جبر و اکراہ نہیں کیا جائے گا۔اگر ان میں سےکوئی اپنی مرضی سے نکل کر کہیں جانا چاہے تو اس پر کوئی دار وگیر نہیں ہوگی۔ اس معاہدے میں عیسائیوں کی خواہش کے مطابق یہودیوں کو بیت المقدس میں رہائش کی ممانعت کی گئی۔ اہلِ قدس کو اس کا پابند بنایا گیا کہ وہ رومیوں کو یہاں سے نکالیں گے اور جو بھی رومی یہاں سے نکلے گا اسے جان ومال کی امان دی جائے گی یہاں تک کہ وہ اپنے مقام پر پہنچ جائے۔ اس معاہدے پر حضرت خالد بن ولید، عمرو بن عاص، عبدالرحمن بن عوف اور معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہم اجمعین گواہ ٹھہرائے گئے۔(تاریخِ طبری) معاہدے کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے شام کا کچھ بندو بست کیا اور پھر مدینہ تشریف لے آئے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے عمر و بن عاص رضی اللہ عنہ کو مصر کی طرف روانہ کیا۔ حضرت یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کو شام کے ایک حصے کا والی بنایا۔ جبکہ دوسرے حصے پر آپ نے حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو حکمران بنایا۔ جنھوں نے کچھ عرصے میں باقی ماندہ شہر مثلا حلب وغیرہ فتح کر لیے۔ (فتوح الشام للواقدی) شام کی فتوحات ۱۳ ہجری سے شروع ہو کر ۱۶ ہجری میں مکمل ہوئیں۔ بعض معرکوں اور فتوحات کی تا ریخوں میں اختلاف پایا جاتا ہے اسی طرح شہروں کی ترتیبِ فتح میں بھی بعض جگہ اختلاف پایا جاتا ہے۔ ہم نے اس اختلاف سے صرفِ نظر کرتے ہوئے مختصر انداز میں فتوحات کو بیان کر دیا۔تفصیل چاہنے والوں کو علامہ واقدی کی فتوح الشام، اور ابن کثیر، ابن الاثیر وغیرہ کی تاریخوں سے رجوع کرنا چاہیے۔

جاری ہے

لرننگ پورٹل