مدیر
ماہنامہ مفاہیم، کراچی
گذشتہ ماہ ربیع الاول میں ہمارے ماہنامے کا اجرا ہوا تھا۔ اول شمارے اور ماہِ مبارک کی نسبت سے پہلے اداریے میں ہم نے رسول اللہﷺ کی شانِ اولیت کو بیان کر کے تبرک لینے کا ارادہ کیا تھا۔محبوب کی یاد، اپنے وجود میں کسی موسم کی محتاج ہو یا نہ ہو، اپنے وفور میں اوقات کی محتاج ضرور ہوتی ہے کہ بعض مواقیت؛ مواجیدِ عشق میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔آج ہم پھر ربیع الاول میں ہیں اور موضوع ذات ِرسولﷺ کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے۔چنانچہ اس شمارے میں رسول اللہﷺ کے حوالے سے دو مضمون شامل کیے جا رہے ہیں۔خورشیدِ نبوتِ کاملہ و خاتمہ کا اس عالمِ رنگ وبو میں ظہور، ۱۲ ربیع الاول بروز پیر ہوا۔ یہ جمہورِ اہلِ اسلام کی رائے ہے جس کے برعکس بعض لوگوں نے یا تو تاریخ پیدائش ۱۲ ربیع الاول کے بجائے کوئی دوسری قرار دینے کی کوشش کی ہے یا بعض نے ’’بارہ میلاد‘‘ کو ’’بارہ وفات‘‘ بنا کر پیش کیا ہے۔ اس بحث میں عامیانہ رنگ تب آیا کہ جب مروجہ ’’جشنِ میلادِ نبی‘‘ کی نفی تاریخ و ایام کے التباس سے کرنے کی کوشش کی گئی۔ چنانچہ اس حوالے سے ایک مختصر مگر جامع مضمون شامل اشاعت کیا جا رہا ہے۔
نبی کریمﷺ کی پیدائش بارہ ربیع الاول کو بروز پیر ہوئی۔ علماے کرام نے اس حسنِ انتخاب کی حکمتیں بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ تخلیقِ کائنات کے عظیم منصوبے میں پیر کا دن وہ تھا کہ جس میں روے ارضی پر درخت اور سبزے اگائے گئے جن پرحیاتِ ظاہری کا دارومدار ہے۔ اسی پیر کے دن رسول ِمقبولﷺ کی پیدائش عمل میں لائی گئی کہ جن پر لوگوں کی روحانی و قلبی زندگی کا دارومدار تھا۔ ربیع بہار کو کہتے ہیں جس کی آب و ہوا معتدل ہوتی ہے اوراس میں اشجار و نبات میں روئیدگی اور نشونما ظہور کرتی ہے اور لوگ مادی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ پس ربیع الاول میں آپﷺ کی پیدائش گویا اس طرف اشارہ ہے کہ آپ لوگوں کے لیے اعتدال و توسط کی فراخی اور مادی و معنوی بہار لے کر آ رہے ہیں۔ موسمِ ربیع و بہار قدرت کے احسانات، نعمتوں کی وسعت و بہتات اور ان چیزوں میں برکت و نشونماکا مظہر ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کی بعثت کو ایک احسان و امتنان کے طور پر ذکر کیا:﴿لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْ أَنْفُسِهِمْ﴾(آل عمران :۱۶۴)’’یقینا اللہ نے احسان کیا اہلِ ایمان پر جب انھی میں سے ایک رسول ان کی جانب مبعوث فرمائے‘‘۔
جس طرح بہار کا موسم پز مردگی کا مانع ہے اسی طرح رسول کریمﷺ کی ذات کو کفر سے ایک مانع کے طور پر ذکر کیا گیا:﴿وَكَيْفَ تَكْفُرُونَ وَأَنْتُمْ تُتْلى عَلَيْكُمْ آياتُ اللَّهِ وَفِيكُمْ رَسُولُهُ﴾(آلعمران:۱۰۱)’’تم کیونکر کفر کرتے ہو کہ جب کہ تم پر اللہ کی آیات تلاوت کی جاتی ہیں اور تم میں اللہ کے رسول موجود ہیں‘‘ ۔ امام رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: یہاں کَیْفَ تعجب کے طور پر استعمال ہوا ہےکہ اللہ کی آیات کے بعد رسول کریمﷺ کی موجودگی، کفر سے ایک قوی مانع اور شبہات کے دور کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ رسول اللہﷺ کی موجودگی کے بعد بھی کوئی کفر کرے تو بڑی حیرانی کی بات ہے‘‘۔ایک بار نبی کریمﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا :«وَمَا لَكُمْ لَا تُؤْمِنُونَ وَأَنَا بَيْنَ أَظْهُرِكُمْ»’’تم کیسے ایمان نہ لاتے کہ میں تمھارے درمیان موجود ہوں‘‘۔(الجامع الصحیح)
جس طرح موسمِ بہار؛ پت جھڑ اور سرما کی سختیوں کا خاتمہ بن کر آتا ہے اسی طرح ذات ِ رسولﷺ کو عذاب ِالہی کے موانع میں ذکر کیا گیا فرمایا : ﴿وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنْتَ فِيهِمْ وَمَا كَانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ﴾(الانفال : ۳۳)’’اور اللہ ان کو عذاب نہیں دے گا اے نبی جب تک آپ ان کے درمیان موجود ہیں۔ اور اللہ ان کو عذاب نہ دے گا جب تک وہ استغفار کرتے ہوں‘‘۔ آپﷺ کی ہدایت یقیناً بابرکت ہے لیکن آپ کی برکت ہدایت ہی میں منحصر نہیں ہے بلکہ آپﷺ کی ذاتِ شریف بھی برکت کا ایک منبع ہے۔اس بات کی وضاحت فرمانِ رسولﷺ سے ہوتی ہے۔ جب حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ کو اپنی ذات پر نفاق کا اندیشہ محسوس ہوا جس کی علامت انھوں نے یہ بتائی کہ آپﷺ کی مجلس میں جو حضوری کی کیفیت ہوتی ہے وہ مال و عیال کے اشتغال میں جاتی رہتی ہے تو رسول اللہﷺ نے انھیں تسلی دیتے ہوئے فرمایا:«وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنْ لَوْ تَدُومُونَ عَلَى مَا تَكُونُونَ عِنْدِي، وَفِي الذِّكْرِ، لَصَافَحَتْكُمُ الْمَلَائِكَةُ عَلَى فُرُشِكُمْ وَفِي طُرُقِكُمْ وَلَكِنْ يَا حَنْظَلَةُ سَاعَةً وَسَاعَةً»’’مجھے اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے اگر تم دائمی طور پر اس طرح ہو جاؤ جیسے میرے پاس ہوتے ہو اور جیسا کہ تم ذکر کی کیفیت میں ہوتے ہو تو فرشتے تمھارے بستروں اور راستوں میں تم سے مصافحہ کریں، لیکن اے حنظلہ! یہ تو وقت وقت کی بات ہوتی ہے۔(صحیح مسلم) تو رسول اللہﷺ نے حضوری کی کیفیت میں معاون دو چیزوں کا ذکر کیا: ایک تو اپنی صحبت و محفل «مَا تَكُونُونَ عِنْدِي»اور دوسرے آپﷺ کا ذکر و تلقین«وَفِي الذِّكْرِ»!!اسی کی تفصیل سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے اس تبصرے میں ملتی ہے فرماتےہیں:لَمَّا كَانَ الْيَوْمُ الَّذِي دَخَلَ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِﷺ الْمَدِينَةَ أَضَاءَ مِنْهَا كُلُّ شَيْءٍ۔ فَلَمَّا كَانَ الْيَوْمُ الَّذِي مَاتَ فِيهِ أَظْلَمَ مِنْهَا كُلُّ شَيْءٍ وَمَا نَفَضْنَا أَيْدِيَنَا عَنِ التُّرَابِ وَإِنَّا لَفِي دَفْنِهِ حَتَّى أَنْكَرْنَا قُلُوبنَا’’جس دن رسول اللہﷺ مدینہ میں داخل ہوئے اس دن مدینہ کی ہر چیز روشن ہو گئی اور جس دن آپﷺ کا انتقال ہوا، ہر چیز پر اندھیرا چھا گیا اور ہم نے آپﷺ کو دفن کر کے اپنے ہاتھ تک نہیں جھاڑے تھے اور آپ کے دفن میں مشغول تھے کہ ہمارے دلوں میں تغیر پیدا ہو گیا‘‘۔صاحبِ مرقاۃ اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: لِانْقِطَاعِ مَادَّةِ الْوَحْيِ وَفُقْدَانِ بَرْكَةِ صُحْبَتِهِ وَأَثَرِ إِكْسِيرِ حُضُورِ حَضْرَتِهِ’’کیفیتوں میں یہ فرق وحی کے انقطاع اور آپﷺ کی صحبتِ بابرکت اور آپ کی اکسیر اثر موجودگی کے فقدان کی وجہ سےآیا تھا‘‘۔اس میں کیا شک کہ رسول اللہﷺ کی برکتوں کو بچشم سر دیکھنے کا موقع صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہی کو ملا۔اسی دیکھنے کی عظمت کی وجہ سے صحابہ کرام فضیلتوں کے حامل بنے۔جس کی طرف اشارہ کیا گیا ان الفاظ میں:«طُوبَى لِمَنْ رَآنِي وَمَنْ رَأَى مَنْ رَآنِي وَمَنْ رَأَى مَنْ رَأَى مَنْ رَآنِي»(المعجم الاوسط) ’’بشارت ہے اس کے لیے جس نے مجھے دیکھا اور اس کے لیے بھی کہ جس نے میرے دیکھنے والوں کو دیکھا اور اس کو بھی بشارت کہ جس نے میرے دیکھنے والوں کے دیکھنے والے کو دیکھا‘‘۔؎
خوش رہیں تیرے دیکھنے والے |
ورنہ کس نے خدا کو دیکھا ہے |
لیکن خداے رحیم اور نبی کریمﷺ نے بعد والوں کو بھی محروم نہیں رکھا ، ان کو بھی بشارتوں سے نوازا گیا۔ کہیں تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مخاطب کر کے بعد والوں کو اپنا بھائی قرار دیا گیا:«أَنْتُمْ أَصْحَابِي، وَإِخْوَانِي الَّذِينَ آمَنُوا بِي، وَلَمْ يَرَوْنِي»’’تم میرے صحابی ہو اور میرے بھائی وہ ہیں جو مجھ پر ایمان لائے لیکن انھوں نے مجھے دیکھا نہیں‘‘(المعجم الاوسط) اور کہیں ان کے ایمان کو خوبصورت ایمان قرار دیا گیا: «أَعْجَبَ النَّاسِ إِيمَانًا،قَوْمٌ يَجِيئُونَ مِنْ بَعْدِي، يُؤْمِنُونَ بِي وَلَمْ يَرَوْنِي»(المعجم الکبیر)’’لوگوں میں خوبصورت ترین ایمان والے وہ لوگ ہیں جو میرے بعد آئیں گے اور مجھے دیکھے بغیر مجھ پر ایمان لائیں گے‘‘۔اور حرفِ آخر آپﷺ کا یہ فرمان ہے: «حَيَاتِي خَيْرٌ لَكُمْ تُحَدِّثُونَ وَيُحَدَّثُ لَكُمْ، وَوَفَاتِي خَيْرٌ لَكُمْ يُعْرَضُ عَلَيَّ أَعْمَالُكُمْ، فَمَا رَأَيْتُ مِنْ خَيْرٍ حَمِدْتُ اللَّهَ عَلَيْهِ، وَمَا رَأَيْتُ مِنْ شَرٍّ اسْتَغْفَرْتُ اللَّهَ لَكُمْ»(کشف الأستار عن زوائد مسند البزار)’’میری زندگی تمھارے لیے بہتر ہے کہ تم مجھ سے (مشکلات و مسائل) بیان کرتے ہو اور (میری طرف سے) تمھارے لیے حل بیان کیے جاتے ہیں۔ اور میری وفات بھی تمھارے لیے بہتر ہے کہ تمھارے اعمال میرے سامنے پیش کیے جاتے ہیں۔ جو اچھے ہوتے ہیں ان پر میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں اور جو اعمال برے ہوں ان پر میں اللہ کی جناب میں تمھارے لیے استغفار کرتا ہوں‘‘۔ یہ آپﷺ کی برکتوں کا ایک مجمل بیان تھا۔ اسی کی قدرے تفصیل پر مبنی ایک مضمون شامل اشاعت کیا جا رہا ہے۔ دعا ہے کہ ہماری یہ سعی تعلق مع الرسول میں اضافے کا ذریعہ بنے۔آمین