صوفی جمیل الرحمان عباسی
مدیر ماہنامہ مفاہیم
خالد بن ولید رضی اللہ عنہ شام کی طرف
جب شام کے مجاہدین یرموک میں جمع ہو رہے تھے ان دنوں خالد بن ولید رضی اللہ عنہ عراق کےمحاذ پر مصروفِ پیکار تھے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے انھیں حکم دیا کہ آپ اپنے لشکر کا ایک حصہ لے کر یرموک پہنچیں۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے حضرت مُثَنّٰی بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو عراق کے محاذ کا امیر بنایا اور خود نو ہزار مجاہدین کو ساتھ لے کر شام کی طرف روانہ ہوئے۔ شام میں داخل ہو کر انھوں نے راستے کے چند چھوٹے چھوٹے شہر فتح کیے۔ یہاں تک کہ بُصری میں داخل ہوئے یہاں اول تو جنگ ہوئی لیکن کمزور پڑنے پر اہلِ شہر نے صلح کی درخواست کی جو حضرت خالد نے قبول کر لی۔حضرت خالد رضی اللہ عنہ جب یرموک پہنچے تو دونوں فوجیں آمنے سامنے تھیں۔آپ کے آنے سے مسلمانوں کے حوصلے بلند ہو گئے۔مسلمانوں کی تعداد کے بارے میں مختلف روایات ہیں: بعض کے مطابق وہ ۳۰ ہزار تھے جبکہ بعض روایات کے مطابق مسلمانوں کی تعداد ۳۶ ہزار یا ۴۰ ہزار تھی۔ مسلمانوں کے لشکر کے سپہ سالار سیدناخالد بن ولید رضی اللہ عنہ تھے جنھیں خصوصی طور پر عراق سے بلایا گیا تھا۔جبکہ چار ذیلی کماندار فوجوں کی کمان سنبھالے ہوئےتھے۔ جن میں حضرت ابو عبیدہ بن جراح،یزید بن ابی سفیان، شُرَحبَیل بن حسنہ، عمروبن عاص رضی اللہ عنہم اجمعین تھے۔اس کے علاوہ حضرت زبیر بن عوام، حضرت قعقاع بن عمرو التمیمی، ابو سفیان بن حرب،عکرمہ بن ابی جہل،مقداد بن اسود،معاذ بن جبل رضی اللہ عنہم اجمعین بھی شامل تھے۔ یہ جنگ چھے دن پر محیط تھی۔ان چھے دنوں میں مختلف واقعات پیش آئے۔ دونوں لشکروں میں مبارزت اور محدود جنگ کا سلسلہ چلتا رہا لیکن بڑی جنگ چھٹے دن ہی ہوئی جس میں مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی۔ اس دوران مختلف مواقع پر مختلف حضرات وعظ و نصیحت اور تحریض و تلقین کرتے رہے۔جنگ سے پہلے حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے وعظ فرمایا۔ ان کے بعد حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے خطاب کیا اور لوگوں کو آخرت کی یاد تازہ کرائی۔ حضرت عمر و بن عاص،ابو سفیان بن حرب اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہم نے بھی وعظ فرمایا۔ حضرت مقداد بن اسود نے سورۃ الانفال اور دیگرآیاتِ جہاد کی تلاوت فرمائی جبکہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اپنی فوج کے سامنے خطاب کیا جس میں فرمایا:إِنَّ هَذَا يَوْمٌ مِنْ أَيَّامِ اللَّهِ، لَا يَنْبَغِي فِيهِ الْفَخْرُ وَلَا الْبَغْيُ، أَخْلِصُوا جِهَادَكُمْ وَأَرِيدُوا اللَّهَ بِعَمَلِكُمْ’’یہ دن اللہ کے خاص دنوں میں سے ہے، اس میں باہم فخر یا کوئی شرارت کرنا جائز نہیں ہے۔ اپنے جہاد کو اللہ کے لیے خالص کرو اور اپنی محنت اور عمل سے اللہ کی رضا کا ارادہ کرو‘‘۔ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے وعظ فرمایا :عِبَادَ اللَّهِ انْصُرُوا اللَّهَ يَنْصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِينَ اصْبِرُوا فَإِنَّ الصَّبْرَ مَنْجَاةٌ مِنَ الْكُفْرِ وَمَرْضَاةٌ لِلرَّبِّ وَمَدْحَضَةٌ لِلْعَارِ۔۔۔’’اے اللہ کے بندو! اللہ کی مددکرو اللہ تمھاری مدد کرے گا اور تمھیں ثابت قدم رکھے گا۔ صبر کرو اس لیے کہ صبر کفر و ناشکری سے بچانے والا،رب کو راضی کرنے والا اور ذلت و عار کو دور کرنے والا ہے۔۔۔‘‘۔حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے اپنے وعظ میں فرمایا:يَا مَعَاشِرَ أَهْلِ الْإِسْلَامِ حَضَرَ مَا تَرَوْنَ فَهَذَا رسول الله وَالْجَنَّةُ أَمَامَكُمْ، وَالشَّيْطَانُ وَالنَّارُ خَلْفَكُمْ’’اے گروہِ اسلام! تمھیں اس صورتِ حال سے واسطہ پڑا ہے جو تمھارے سامنے ہے پس یہ اللہ کے رسول ﷺ ہیں اور یہ تمھارے سامنے جنت ہے اور شیطان اور دوزخ تمھارے پیچھے ہیں‘‘۔ حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ ہر دستے کے پاس جا کر اسے جہاد کی تحریض دلاتے اورفرماتے :اللَّهَ اللَّهَ إِنَّكُمْ دَارَةُ الْعَرَبِ وَأَنْصَارُ الْإِسْلَامِ وَإِنَّهُمْ دَارَةُ الرُّومِ وَأَنْصَارُ الشِّرْكِ’’اللہ اللہ کرو! تم عرب کےمحافظ اور اسلام کے مددگار ہو اور وہ روم کے محافظ اور کفر و شرک کے مددگار ہیں‘‘۔ کبھی آپ یوں دعا کرتے :اللَّهمّ إِنَّ هَذَا يَوْمٌ مِنْ أَيَّامِكَ، اللَّهمّ أَنْزِلْ نَصْرَكَ عَلَى عِبَادِكَ’’اے اللہ یہ دن آپ کے خاص دنوں میں سے ایک ہے۔ اے اللہ اپنے بندوں پراپنی مددو نصرت نازل کر‘‘۔حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ خواتین کے خیموں کی طرف گئے اور ان سے فرمایا کہ جو مرد لڑائی سے منھ موڑ کر پیچھے آئے تو اس پر پتھر پھینکو اور اسے میدانِ جنگ کی طرف واپس بھیجو۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بھی وعظ فرمایا، ان کے الفاظ یہ تھے:سَارِعُوا إِلَى الْحُورِ الْعِينِ وَجِوَارِ رَبِّكُمْ عَزَّ وَجَلَّ فِي جَنَّاتِ النَّعِيمِ مَا أَنْتُمْ إِلَى رَبِّكُمْ فِي موطن بأحب إِلَيْهِ مِنْكُمْ فِي مِثْلِ هَذَا الْمَوْطِنِ أَلَا وَإِنَّ لِلصَّابِرِينَ فَضْلَهُمْ’’لپکو حورِ عین اور اپنے رب کے پڑوس کی نعمتوں بھری جنت کی طرف جس مقام پر تم اس وقت کھڑے ہو اس سے زیادہ اللہ کو تمھارا کوئی مقام محبوب نہیں ہے اور جان لو کہ صبر کرنے والوں ہی کی فضیلت ہے‘‘۔حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے وعظ میں فرمایا :يَا أَهْلَ الْقُرْآنِ، وَمُسْتَحْفِظِي الْكِتَابِ، وَأَنْصَارَ الْهُدَى وَالْحَقِّ، إِنَّ رَحْمَةَ اللَّهِ لَا تُنَالُ، وَجَنَّتَهُ لَا تُدْخَلُ بِالْأَمَانِيِّ، وَلَا يُؤْتِي اللَّهُ الْمَغْفِرَةَ وَالرَّحْمَةَ الْوَاسِعَةَ إِلَّا للصادق الْمُصَدِّقَ، أَلَمْ تَسْمَعُوا لِقَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ﴿وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ﴾(النور :۵۵)’’اے اہلِ قرآن! اے کتاب اللہ کے حافظو اور محافظو!،اے حق و ہدایت کے مدگارو! جان لو کہ اللہ کی رحمت اور اس کی جنت میں داخلہ محض تمناؤں پر نہیں ملتا اور اللہ اپنی مغفرت اور رحمتِ واسعہ سے نہیں نوازتا مگر حق کی تصدیق (اور اس کے تقاضوں کی ادائی ) میں سچے شخص کو۔ کیا تم نے اللہ تعالی کا فرمان نہیں سنا کہ وہ فرماتا ہے: اللہ کا ایمان اور عمل صالح ادا کرنے والوں سے وعدہ ہے کہ وہ انھیں زمیں مین غلبہ دے گا جیسا کہ اس نے غالب کیا ان سے پہلو ں کو، اور ان کے لیے اپنے پسندیدہ دین کو تمکن دے گا اور ان کی حالتِ خوف کو امن سے بدل دے گا۔ وہ میری بندگی کرتے ہوں گے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گے۔ اور جو کوئی اس کے بعد بھی کفران کرے تو یہی لوگ تو فاسق ہیں‘‘۔
لڑائی شروع ہونے سے پہلے سیدناابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ نے رومیوں سے کہا کہ ہم تمھارے امیر سے بات کرنا چاہتے ہیں۔چنانچہ آپ حضرت يزيد بن ابی سفيان،ضرار بن ازور، حارث بن ہشام، ابو جندل بن سہيل رضی اللہ عنہم کو لے رومیوں کے سالارِ اعظم تذارق سے ملے اور اسے دین کی دعوت دی لیکن اس نے انکار کیا۔ جنگ سے پہلے رومی جرنیل ہامان ( ماہان ) صفوں سے نکل کر سامنے آیا اور حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے بات چیت کی اور کہا: ’’ہم جانتے ہیں کہ غربت اور بھوک نے تمھیں اپنے علاقوں سے نکلنے پر مجبور کر دیا۔ ہم تم میں سے ہر آدمی کو دس دینار،لباس اور سامانِ طعام دیں گے، تم واپس چلے جاؤ۔ اگلے سال ہم تمھیں اتنا ہی مال پھر بھجوا دیں گے۔ یہ ایک حقارت بھرا انداز تھا جس کا جواب حضرت خالد نے یوں دیا: ’’ہمیں بھوک نے نہیں نکالا،بات در اصل یہ ہے کہ ہم خون پینے والی قوم تھے، ہمیں پتا چلا کہ رومیوں کے خون سے بہترین خون کہیں نہیں ہے اس لیے ہم نے تمھارا رخ کیا‘‘۔
رومی اپنی صلیبیں اٹھائے ہوئے تھے اور ان کے پادری انجیل پڑھ رہے تھے اور انھیں جنگ پر ابھار رہے تھے۔رومیوں کا ایک اہم کمانڈر جَرجہ سامنے آیا اور اس نے پکار کر حضرت خالد بن ولید کو مخاطب کیا اور کہا کہ میں ان سے کچھ بات کرنا چاہتا ہوں۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اس کے سامنے دین کی دعوت رکھی اور وہ مسلمان ہو کر حضرت خالد کے ساتھ ہی آ گیا۔ غسلِ اسلام اور شہادتین کے بعد اس سے دو رکعت نماز پڑھوائی گئی اور مسلمانوں کی فوج میں شامل ہو گیا۔مسلمانوں کی طرف سے حضرت عکرمہ بن ابی جہل اور قعقاع بن عمرو التمیمی رضی اللہ عنہما نے سپہ سالار کے حکم پر جنگ کی ابتدا کی۔ شروع دن ہی سے مقابلہ زور دار تھا۔ بلکہ پہلے دن تو مسلمان خاصے دباؤ میں رہے۔ ایک موقعے پر رومیوں نے ایسا زور دار حملہ کیا کہ یک بارگی مسلمانوں کے قدم اکھڑ گئے۔کچھ لوگ میدان چھوڑ کر خواتین کے خیموں کی طرف چلے گئے جہاں خواتین نے ان پر پتھر پھینکے اور حضرت خولہ بنتِ ثعلبہ رضی اللہ عنہا نے مردوں کی غیرت کو ابھارنے اور للکارنے والے شعر پڑھے یہاں تک کہ وہ لوگ دوبارہ میدان میں کود پڑے۔ رومی فوجی مسلمانوں کے خیموں تک جاپہنچے۔اس وقت مسلمان عورتوں کو بھی اپنے دفاع کے لیے قتال کرنا پڑا۔ حضرت جویریہ بنت ابی سفیان رضی اللہ عنہا نے بہت بہادری سے مقابلہ کیا اور حضرت اسما بنتِ یزید انصاریہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے اس دن سات رومیوں کو قتل کیا۔(سنن سعید بن منصور)مسلمانوں کی اس کمزوری کے وقت حضرت عکرمہ بن ابی جہل رضی اللہ عنہ نے پکار کر کہا: مَنْ يُبَايِعُ عَلَى الْمَوْتِ؟’’کون ہے جو موت پر بیعت کرتا ہے؟‘‘ ان کے چچا حضرت حارث بن ہشام اور ضِرار بن ازور رضی اللہ عنہما سمیت تقریبا چار سو جاں نثاروں نے جواب دیا کہ ہم موت پر بیعت کرتے ہیں۔ان لوگوں نے ایسا مقابلہ کیا کہ رومی پسپائی پر مجبور ہو گئے۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ایک سو گھڑ سواروں کوسا تھ لے کر ان کے قلب پر حملہ آور ہوئے تو ایک ہی حملے میں چھے ہزار رومیوں کو قتل کر کے واپس لوٹے۔ حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کے ساتھی ان سے پیچھے رہ گئے اور آنجناب دشمن کے میسرہ کو چیرتے ہوئے میمنہ تک جا پہنچے اور زخموں سے نڈھال واپس اپنے لشکر میں پہنچ آئے۔ جَرجہ رحمۃ اللہ علیہ نے تلوار کے خوب جوہر دکھائے رومیوں کی صفیں الٹ دیں یہاں تک کہ ان کے قلب تک جا پہنچے۔ آخر کار رومی پسپا ہونا شروع ہوئے اور شام تک رومی میدان چھوڑ کر بھاگ رہے تھے اور مسلمان انھیں گاجر مولی کی طرح کاٹتے جا رہے تھے۔رومیوں کی ایک بڑی تعداد نے خود کو زنجیروں میں باندھ رکھا تھا تاکہ بھاگ نہ سکیں۔بغیر زنجیروں والے بھاگ نکلے اور زنجیروں والے مسلمانوں کی تلواروں کی پیاس بجھانے کے کام آئے۔ رات بھر مسلمان رومیوں کو قتل کرتے رہے۔ رومی مقتولین کی تعداد کے بارے میں روایتیں مختلف ہیں۔ایک لاکھ بیس ہزار کی روایت بھی ہے اور ستر ہزار کی بھی ہے لیکن اس سے کم کی کوئی روایت نہیں ہے۔ اگلے دن بھاری مال غنیمت جمع کیاگیا۔(تاریخِ ابنِ کثیر )
اس جنگ میں تین ہزار مسلمان شہید ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ پہلے شہید ہونے والے مسلما ن کے پاس جب حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ گئے تو اس نے کہا: میری تو جانے کی تیاری ہو چکی ہے، کیا آپ کو رسول اللہ ﷺسے کوئی کام ہے؟حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تُقْرِئُهٗعَنّي السّلامَ وتَقُوْلُ: يا رسولَ اللهِ إنّا قَدْ وَجَدْنا ما وَعَدَنا رَبُّنا حَقّا’’میری طرف سے آپ ﷺکی خدمت میں سلام پیش کرنا اور کہنا:یارسول اللہ!ہمارے رب نے ہم سے جو وعدے کیے تھے وہ ہم نے پا لیے‘‘۔(تاریخِ ابنِ کثیر ) عجیب بات ہے کہ فتحِ مکہ سے پہلے جن دو خاندانوں نے نبی کریم ﷺ کی زیادہ مخالفت کی انھوں نے اس جنگ میں اہم خدمات سرانجام دیں۔حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ کا واعظانہ و خطیبانہ کردار پہلے بیان ہو چکا۔ آپ نے خوب جم کر لڑائی کی اور آپ کی اس جنگ میں دوسری آنکھ بھی نکل گئی جبکہ ایک آنکھ وہ غزوۂ طائف میں گنوا چکے تھے ۔ آپ کے ایک بیٹے حضرت یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ اس جنگ میں اہم کمانڈر تھے۔حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ بھی اس جنگ میں شامل تھے۔ خاندان ِ ابو جہل میں سے، ابو جہل کے ماں شریک بھائی حضرت عیاش بن ابی ربیعہ، ابو جہل کے بیٹے عکرمہ بن ابی جہل ،اس کےپوتے عمر و بن عکرمہ اور اس کے سگے بھائی حارث بن ہشام اس جنگ میں شہید ہوئے۔ اس کے علاوہ شہدا میں نو مسلم جرجہ،سلمہ بن ہشام بن مغیرہ،عمرو بن سعيد بن عاص،ابان بن سعيد بن عاص،جندب بن عمرو، طفيل بن عمرو الدوسی،عبد اللہ بن زبیر بن عبد المطلب بھی شامل تھے۔ یہی وہ جنگ ہے جس میں ایک دوسرے کو پانی پلانے کی کوشش میں عیاش بن ابی ربیعہ، عکرمہ بن ابی جہل اور حارث بن ہشام نے پیاسے ہی جام شہادت نوش کیا۔ رضی اللہ عنہم اجمعین
جنگ کے آخری مراحل میں مدینے سے ایک قاصد حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی رحلت اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خلافت کی اطلاع لے کر پہنچا۔ وہ ایک خط بھی لے کر آیا جس میں دیگر اطلاعات کے ساتھ یہ حکم بھی تھا کہ خالد بن ولید کی جگہ ابو عبیدہ کو امیر ِلشکر بنایا گیا۔صورتِ حال کی نزاکت کے سبب حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے کسی کو آنے والی اطلاع کی خبر نہ ہونے دی۔ فتح کے بعد انھوں نے لوگوں کو خلیفۂ اول کی وفات، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی تولیت کی اطلاع دی اور اپنی معزولی کی خبر سنائی اور کارِ سپا ہ امین الامت حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کو سونپ دیے۔
فتحِ دمشق
یرموک سے بھاگ نکلنے والی رومی افواج؛ دمشق، فحل اور حِمص وغیرہ میں جمع ہو رہی تھیں۔ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے خلیفۃالمسلمین حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے راہنمائی طلب کی تو انھوں نے کہا کہ پہلے دمشق کو فتح کریں، لیکن ایسا انتظام کریں کہ حمص اورفحل اہلِ دمشق کی مدد کو نہ پہنچ سکیں۔ اب مسلمانوں نے فحل اور حمص کی طرف دو فوجیں روانہ کیں جنھوں نے ان شہروں کے نزدیک ڈیرے ڈال دیے۔ مرکزی لشکر نے دمشق کا محاصرہ کر لیا۔ سات دن تک سخت محاصرہ جاری رہا۔ اہلِ دمشق کو کہیں سے کمک نہ مل سکی۔ انھی دنوں قلعے کے ایک بطریق کے ہاں پیدائش ہوئی جس کی خوشی میں اس نے تمام اہلِ قلعہ کو کھانے کی دعوت دی۔ دعوت کے انہماک میں قلعے کی دیواروں کے بعض پہرے دار غافل ہوگئے۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ساری صورتِ حال پر نظر رکھے ہوئے تھے۔آنکھ بچا کر قلعے کی دیوار تک جا پہنچے اور وہاں رسی سے بنی چند سیڑھیاں لٹکانے میں کامیاب ہو گئے۔ پھر رات کو آپ نے قعقاع بن عمرو التمیمی اور چند مجاہدین کو ساتھ لیا اور رسیوں کے ذریعے دیوار پر چڑھ گئے۔آپ نے کچھ دستے تیار کیے ہوئے تھے کہ جب قلعے کی دیواروں سے سے تکبیر کی آواز آئے تو وہ قلعے کے دروازے کی طرف دوڑیں۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں نے دیوار وں پر چڑھ کر تکبیر بلند کی اور پھر اندر داخل ہو کر پہرے داروں کو قتل کیا اس کے بعد انھوں نے دربانوں کی خبر لی اور دروازے کھول دیے دروازوں پر پہنچے ہوئے مجاہدینِ اسلام اندر داخل ہو گئے۔ اب قلعے والوں نےصلح کی درخواست کی جو قبول کرلی گئی اور شہر مسلمانوں کے قبضے میں آ گیا۔ دا ر الخلافہ کی طرف یہ خوشخبری بھیجی گئی تو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کچھ فوج عراق کی طرف بھیجنے کا حکم دیا۔ چنانچہ ہاشم بن عتبہ رضی اللہ عنہ کو عراق کی جانب بھیجا گیا۔
فحل کی فتح
حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے دمشق پر حضرت یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کو متعین کیا اور خود فوج لے کر فحل پر حملہ آور ہوئے۔ رومی لشکر اسی ہزار کی تعداد میں تھا۔ دونوں لشکروں میں گھمسان کا رن پڑا اور آخر کار مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی۔
ساحلی علاقوں کی فتح
حضرت یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ دمشق میں قیام پزیر تھے۔ وہ شام کے ساحلی علاقوں کی طرف متوجہ ہوئے اور کچھ عرصے میں انھوں نے عِرْقَہ، جُبَیل، بَيرُوت اور صَيدا کے علاقے فتح کر لیے۔ان فتوحات میں ان کے بھائی حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ بھی شریک تھے۔
فتحِ بيسان، طبریہ اور اردن
فحل کی فتح کے بعد حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے حِمص کا ارادہ کیا اور حضرت شرحبيل بن حسنہ رضی اللہ عنہ کو ایک لشکر دے کر بیسان کی طرف روانہ کیا۔ یہاں بھی اول تو لڑائی ہوئی لیکن جب رومی کمزور پڑے اور بھاری جانی نقصان اٹھا چکے تو انھوں نے صلح کی درخواست کی جو قبول کر لی گئی۔ حضرت شُرحبَیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ نے اردن کو فتح کیا۔ یہاں کا والی آپ ہی کوبنایا گیا ۔انھوں نے ابو اعور الاسلمی کو طبریہ کی طرف بھیجا گیا گیا جنھوں نے جا کر محاصرہ کیا اور ان لوگوں نے بھی دمشق کی طرح جزیہ دے کر صلح کر لی۔(الکامل )
معرکۂ مضافاتِ دمشق
فحل کی فتح کے بعد حضرت ابو عبیدہ اور حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہما حِمص کی طرف روانہ ہوئے۔جب وہ ذی الکلاع نامی علاقے میں پہنچے تو دو رومی جرنیل تُوذرا اور شَنَس بھی اس علاقے میں داخل ہوئے۔ توذرا آ گے بڑھ کر دمشق کے نواح میں خیمہ زن ہوا ۔ وہ موقع پاکر دمشق پر حملہ آور ہونا چاہتا تھا۔ والیٔ دمشق حضرت یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے دمشق سے باہر نکل کر دشمن کا مقابلہ کرنے کا ارادہ کیا ۔ چنانچہ دونوں لشکروں میں خوفناک لڑائی شروع ہوئی۔دوسری طرف حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے جب دمشق کو خطرے میں دیکھا تو حمص کی طرف بڑھنے کے بجائے دمشق کی جانب روانہ ہوئے اور جب وہ یہاں پہنچے تو دونوں لشکروں کو لڑتا ہوا پایا۔ وہ عقب سے رومیوں پر پل پڑے۔ رومی لشکر دو طرفہ قتال کی تاب نہ لا سکا اور تتر بتر ہو گیا۔ مسلمانوں نے بہت سارے رومیوں کو قتل کیا۔ میدانِ جنگ سے فرار ہونے والے کچھ لوگ ہی بچ پائے۔ ان کا کمانڈر تُوذرا سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں قتل ہوا۔ مسلمانوں کو کثیر مالِ غنیمت حاصل ہواجو دونوں لشکروں میں تقسیم کیا گیا۔اس جنگ کے بعد حضرت یزید رضی اللہ عنہ دمشق واپس ہوئے جب کہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کی طرف روانہ ہوئے۔ جب وہ یہاں پہنچے تو حضرت ابو عبیدہ کو شنس کی فوج سے معرکہ آرا پایا ۔حضرت خالد رضی اللہ عنہ اپنے لشکر کولے کر جنگ میں کود پڑے اور شنس کے لشکر کا بھی وہی انجام ہوا جو تُوذرا کا ہو چکا تھا۔ البتہ اب کے رومی کمانڈر کا سرحضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں قلم ہوا۔
حمص کامحاصرہ
رومی لشکر کے بھاگنے والے شکست خوردہ سپاہی حمص میں داخل ہوئے۔ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ ان کے تعاقب میں تھے۔آپ رضی اللہ عنہ نے حمص کا محاصرہ کر لیا۔ بعد میں حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ بھی اپنی فوج کو لیے آن پہنچے۔ یہ شدید سردی کے دن تھا۔اہلِ حمص کو یہ امید تھی کہ مسلمان سردی کی تاب نہ لا سکیں گے اور محاصرہ اٹھا لیں گے لیکن مسلمانوں نے کمالِ صبر کا مظاہرہ کیا۔ حمص کے عام لوگ چاہتے تھے کہ وہ مسلمانوں سے دمشق کی طرح کی صلح کر لیں۔لیکن شہر کے اُمَرا اِس کے لیے رضامند نہ تھے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ ایک دن صحابہ نے نعرۂ تکبیر بلند کیا جس سے شہر کے درو دیوار گونج اٹھے بلکہ ایک آدھ دیوار بھی گر گئی۔ جب مسلمانوں نے دوسرا نعرۂ تکبیر بلند کیا تو حمص کے بعض مکانات گر گئے۔صلح کے قائلین نے اب دوبارہ اصرار کیا۔ شہرکے امرا بھی مسلمانوں کی اس کرامت سے متاثر ہو چکے تھے چنانچہ انھوں نے دمشق کی طرح صلح کی درخواست دی جو جزیہ اور خراج کے ساتھ منظور کر لی گئی۔ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو خمس کے مال اور فتح کی خبر کے ساتھ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں روانہ کیا۔ (تاریخِ ابنِ کثیر )
فتح قِنَّسرين
حمص کی فتح کے بعدحضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو قِنّسرین کی طرف روانہ کیا۔ یہاں رومی جرنیل میناس موجود تھا۔ اس کے لشکر میں رومیوں کے علاوہ عرب کے عیسائی قبائل بھی تھے۔ یہاں بھی سخت لڑائی ہوئی اور رومی لشکر نے شکست کھائی۔میناس قتل ہوا۔ بچے کھچے رومی فرارہو گئے۔ عرب عیسائی قبائل کے لوگوں نے ہتھیار پھینک کر معذرت پیش کی کہ وہ رومیوں کے دباؤ پر جنگ کے میدان میں آ گئے تھے۔ ان کا عذر قبول کیا گیا۔ اگرچہ ان لوگوں نے بعد میں غدر کیا لیکن آسانی سے ان پر قابو پا لیا گیا ۔( تاریخ ابن کثیر )
قیصر کا الوداعی سلام
یہ ۱۶ ہجری کا واقعہ ہے اور یہی وہ موقع ہے جب قیصر شام کو چھوڑ کر قسطنطنیہ کی طرف روانہ ہوا۔ وہ جب بھی شام سے نکلا کرتا تو الوداعی سلام کرتا لیکن اس دفعہ اس نے یوں سلام کیا :عَلَيْكِ السَّلَامُ يَا سُورِيَّةُ سَلَامًا لَا اجْتِمَاعَ بَعْدَهُ إِلَّا أَنْ أُسَلِّمَ عَلَيْكِ تَسْلِيمَ الْمُفَارِقِ’’اے شام تجھے سلام،وہ سلام جس کے بعد ملاقات نہیں ہے، پس یہ ایک بچھڑنے والے کا الوداعی سلام ہے‘‘۔( تاریخ ابن کثیر )