ابنِ عباس
معاون قلم کار
عَنْ يَعْلَى بْنِ مُرَّةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّه ِ ﷺ ((حُسَيْنٌ مِنِّي وَأَنَا مِنْ حُسَيْنٍ أَحَبَّ اللَّهُ مَنْ أَحَبَّ حُسَيْنًا حُسَيْنٌ سِبَطٌ مِنَ الْأَسْبَاطِ)) (سنن ترمذي المستدرك على الصحيحين و صححه الحاکم و الترمذي) حضرت یعلی بن مرۃ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں۔ اللہ اُس سے محبت کرتا ہے جو حسین سے محبت کرتا ہے اور حسین قبیلوں میں سے ایک قبیلہ ہیں‘‘ ۔
تشریح
((حُسَيْنٌ مِنِّي وَأَنَا مِنْ حُسَيْنٍ))
’’حسین مجھ سے ہے اور میں حسین میں سے ہوں‘‘ :یہ اہلِ عرب کی ایک خاص اصطلاح اور ترکیب ہے جب کسی کے ساتھ اپنے نہ ختم ہونے والے اور دائمی تعلق کو بیان کرنا مقصود ہو تو اس کے لیے یہ الفاظ لاتے ہیں ۔ علامہ سندھی رحمۃ اللہ علیہ سننِ ابنِ ماجہ کے حاشیے پر ان الفاظ کی شرح میں لکھتے ہیں: ’’یعنی ہمارے درمیان ایسا اتحاد اور اتصال ہے کہ یہ کہنا بجا ہےکہ ہم دونوں ایک دوسرے سے ہیں‘‘ ۔ نبی کریم ﷺ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ میں اتصال و اتحاد کی جہات بہت ساری ہیں ۔ سب سے پہلے تو حسین رضی اللہ عنہ آپ کی نسل میں سے ہیں اور آپ کی اولاد میں سے ہیں اور آپ کے سلسلۂ نسل کو آگے چلانے کا ذریعہ بنے ہیں، گویا آپ دونوں میں اصل اور فرع کا تعلق ہے۔
آپ ﷺ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے اتحاد کا ایک مظہر یہ بھی تھا کہ آپ رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے مشابہہ تھے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت کے الفاظ ہیں: كَانَ مِنْ أَشْبَهِهِمْ بِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ (سننِ ترمذی) ’’وہ رسول اللہ ﷺ کے بہت زیادہ مشابہ تھے‘‘ ۔ جسمانی مشابہت کے علاوہ آپ رضی اللہ عنہ اخلاق و اوصاف میں بھی اپنے جدِ کریم ﷺ سے مشابہت رکھتے تھے ۔ آپ رضی اللہ عنہ عبادات میں رسول اللہ ﷺ کا کامل اتباع کرتے تھے۔ آپ ﷺ کی طرح سخاوت کرنے والے تھے ۔ قرآنِ پاک کی تلاوت کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کی طرح رویا کرتے تھے۔ دینِ حق کے لیے قربانی ، صبر و مصابرت اور توکل و اعتماد میں بھی آپ اپنے نانا محترم علیہ الصلاۃ السلام کے متبع تھے۔ اس کا ایک نمونہ ہمیں واقعۂ کربلا میں ملتا ہے۔ آپ رسول اللہ ﷺ کی طرح لوگوں کی آخرت کی فکر کرنے والے تھے۔ میدانِ کربلا میں آپ کے وعظ اس کی روشن مثالیں ہیں۔
(أَحَبَّ اللَّهُ مَنْ أَحَبَّ حُسَيْنًا)
’’اللہ اس سے محبت کرتا ہے جو حسین سےمحبت کرے ‘‘ ۔ یہ محبت کا اصول ہےکہ محب اپنے محبوب کی پسند کو بھی پسند کرتا ہے ۔ بہت سارے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ایسے اقوال ملتے ہیں جس میں وہ کسی چیز کا نام لے کر بتاتے ہیں کہ چونکہ رسول اللہ ﷺ کو پسند ہے لہذا میں بھی اسے پسندکرتا ہوں ۔ یاد رہنا چاہیے کہ یہ اصول جس طرح محبت میں کام کرتا ہے اسی طرح نفرت و عداوت میں بھی کام کرتا ہے،یعنی محبوب کو جو شے ناپسند ہو وہ محب کو بھی ناپسند ہو جاتی ہے ۔ یہ اصولی رہنمائی اللہ کے نبی ﷺ نے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں دی ہے : ((فَمَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّي أَحَبَّهُمْ وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِي أَبْغَضَهُمْ)) (سننِ ترمذی) ’’جو اِن سے محبت کرتا ہے پس وہ میری محبت کے سبب اِن سے محبت کرتا ہے اور جو اِن سے عداوت رکھتا ہے وہ میری دشمنی میں اِن سے عداوت رکھتا ہے‘‘ ۔ لہذا نواسۂ رسول ﷺ سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی محبت رسول اللہ ﷺ کی محبت کا ذریعہ ہے اور رسول اللہ ﷺ کی محبت اللہ تعالی کی محبت کا ذریعہ ہے، تو اسی لیے فرمایا کہ جو حسین سے محبت کرے گا اللہ اس سے محبت کرے گا۔ قاضی عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اس حدیث میں بطورِ خاص سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی محبت کا ذکر اس لیے کیا کہ آپ ﷺ کو وحیِ الہی سے ان حادثات کا بتایا جا چکا تھا جو امام حسین کو پیش آنے والے تھے۔ اس لیے رسول اللہ ﷺ نے امام حسین رضی اللہ عنہ کی محبت کا خصوصی ذکر کیا تاکہ لوگوں پہ اچھی طرح واضح ہو جائے کہ محبت کے وجوب اور اختلاف و افتراق میں حسین میرا شریک ہے‘‘ ۔ قاضی عیاض رحمہ اللہ کے اندازِبیاں سے سمجھ لینا چاہیے کہ اگرچہ محبت کا خاص ذکر حسین رضی اللہ عنہ کے لیے کیا گیا لیکن عمومی طورپر تمام ہی اہل بیت اور اولاد ِ رسول کے لیے محبت رکھنا ضروری ہے ۔ اہل بیت کے بارے میں آپ ﷺ نے فرمایا : ((أَحِبُّوا أَهْلَ بَيْتِي لِحُبِّي)) (سننِ ترمذی) ’’میری محبت میں میرے اہلِ بیت سے بھی محبت کرو‘‘ ۔ ایک حدیث میں آپ ﷺ نےسیدنا حسن و حسین رضی اللہ عنہما دونوں کا نام لے کر فرمایا: ((مَنْ أَحَبَّ الْحَسَنَ وَالْحُسَيْنَ فَقَدْ أَحَبَّنِي وَمَنْ أَبْغَضَهُمَا فَقَدْ أَبْغَضَنِي)) (سننِ ابنِ ماجہ) ’’جس نے حسن اور حسین سے محبت کی، اسی نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان دونوں سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا‘‘ ۔
(حُسَيْنٌ سِبَطٌ مِنَ الْأَسْبَاطِ)
’’ حسین قبیلوں میں سے ایک قبیلہ ہیں‘‘ ۔ سِبط ‘ سَبط سے ماخوذ ہے جس کا معنی ہے ایسا درخت جس کی شاخیں بے شمارہوں۔ اس کا ایک معنی اولادہے۔ مراد یہ ہے کہ حسین میری اولاد میں سے ہیں، لیکن اللہ نے ان کو خاص رتبہ دیا۔ جب کسی شخص کی اولاد زیادہ پھیلتی ہے تو اس سے قبیلہ وجود میں آتا ہے تو سِبط کا ایک معنی قبیلہ بھی ہے، ان معنوں میں بھی سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو سبط کہا جا سکتا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ ﷺ کا سلسلۂ اولاد چلے گا ۔ آپ کی اولاد پھیلے گی اور کثرت سے پھیلے گی اور فی الواقع ہوا بھی ایسے ہی ہے۔ قبیلے کا لفظ ہم مشرب و ہم مقصد جماعت کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے جیسے قلمِ قبیلہ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے ۔ جس طرح سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ایک امت قراردیا گیا : ﴿إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةً﴾ موضح القرآن میں اس آیت میں امت کا ترجمہ راہ ڈالنے والا کیا گیا ہے، تو اسی طرح سے حضرت حسین رضی اللہ عنہ بھی اپنی ذات میں ایک قبیلہ، ایک امت اور ایک انجمن ہیں جنھوں نے باطل کے سامنے جھکنے کے بجائے سینہ سپر ہونے کی راہ ڈال دی یہاں تک کہ آپ رضی اللہ عنہ آزادی و حریت اور صداقت کا ایک عالمگیر استعارہ بن گئے۔