فتاویٰ یسئلونک
دارالافتاء، فقہ اکیڈمی
محرم کے تین روزے رکھنے کا استحباب مسند احمد كى روايت ميں ہے كہ ابن عباس رضى اللہ عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم ﷺنے فرمايا:((صوموا يوم عاشوراء، وخالفوا فيه اليهود، صوموا قبله يوماً أو بعده يوماً)) (مسند احمد)’’يوم عاشورا كا روزہ ركھو، اور اس ميں يہوديوں كى مخالفت كرتے ہوئے ايك دن قبل روزہ ركھو يا ايك دن بعد‘‘۔ اس حديث كو صحيح قرار دينے ميں علماے كرام كا اختلاف ہے، شيخ احمد شاكر (جو مسند احمد کے محققین میں سے ہیں) نے اسے حسن قرار ديا ہے، جب کہ مسند احمد كے دیگر محققين حضرات اسے ضعيف كہتے ہيں۔ امام ابن خزيمہ رحمۃ اللہ علیہ نے اسے ان الفاظ كے ساتھ روايت كيا ہے:((صُومُوا يَوْمَ عَاشُورَاءَ، وَخَالِفُوا الْيَهُودَ، صُومُوا قَبْلَهُ يَوْمًا، أَوْ بَعْدَهُ يَوْمًا)) علامہ البانى رحمہ اللہ كہتے ہيں:’’ابن ابى ليلى كے سوےحفظ كى بنا پر اس كى سند ضعيف ہے، اور عطاء وغيرہ نے اس كى مخالفت كى ہے، انھوں نے اسے ابن عباس سے موقوف روايت كيا ہے، اور اس كى سند امام طحاوى اور بیہقى كے ہاں صحيح ہے‘‘۔اس ليے اگر حديث کو حسن مانا جائے تو اس کی قبولیت میں کوئی اشکال نہیں، اور اگر ضعيف ہے تو اس طرح كے مسئلے ميں علماے كرام نرمی سے كام ليتے ہيں، كيونكہ اس حدیث كا ضعف بہت تھوڑا سا ہے، نہ تو يہ موضوع ہے اور نہ ہى مكذوب۔ اور اس ليے بھى كہ يہ حدیث فضائلِ اعمال کے حوالے سے ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے خاص كر محرم الحرام ميں روزے ركھنے كى ترغيب دى اور فرمايا:((أفضل الصيام بعد رمضان شهر الله المحرم ))(صحيح مسلم)’’رمضان المبارك كے بعد سب سے افضل روزے محرم الحرام كے ہيں‘‘۔
امام بیہقی اور امام ابن حجر رحمۃ اللہ علیہما سے بھی معمولی تفاوت کے ساتھ یہ روایت منقول ہے۔اس طرح يہ روايت نو، دس اور گيارہ تاريخ كےروزے كے استحباب پر دلالت كرتى ہے۔بعض علما نے گيارہ تاريخ كے روزے كے استحباب كا ايك اور سبب بيان كيا ہے يہ دس تاريخ كى احتياط ہے، كيونكہ بعض لوگ محرم كے چاند ميں غلطى كر سكتے ہيں، اس ليے يقينى طور پر معلوم نہيں كہ كون سا دن دس تاريخ كا تھا، اس ليے اگر كوئى مسلمان شخص نو اور دس اور گيارہ تاريخ كا روزہ ركھ ليتا ہے تو اس نے يوم عاشورا كا روزہ ركھ ليا۔امام ابن ابى شيبہ نے مصنف ابن ابى شيبہ ميں حضرت طاؤس رحمہ اللہ سے روايت كيا ہے كہ وہ دس محرم سے ايك دن قبل اور ايك دن بعد روزہ ركھا كرتے تھے، كہ كہيں دس محرم كا روزہ رہ نہ جائے۔
اس سے يہ واضح ہوا كہ تين روزوں كو بدعت كہنا صحيح نہيں ہے۔ ليكن اگر كوئى شخص نو محرم كا روزہ نہيں ركھ سكا تو وہ اكيلا دس محرم كا روزہ ركھ لے تو اس ميں كوئى حرج نہيں اور يہ مكروہ نہيں ہوگا، اور اگر وہ اس كے ساتھ گيارہ محرم كا روزہ ملا لے تو يہ افضل ہے۔