مشقت آسانی کو لاتی ہے، یعنی مشکلات سہولت کا سبب بن جاتی ہیں اور تنگی کے موقعے پر توسیع دی جاتی ہے۔ اس قاعدے پر بہت سے فقہی احکام مبنی ہیں۔ مثلاً قرض، حوالہ، حجر وغیرہ۔ فقہا نے مختلف احکامِ شرعیہ میں جو بھی رخصت یا تخفیف جائز قرار دی ہے ، وہ سب اسی قاعدے پر مبنی ہیں۔مشقت کا لغوی معنیٰ: جہد، مشقت اور ثقل ہے۔ شقّ یشقّ شقّا یہ اس وقت کہا جاتا ہے، جب کوئی کام کرنے والے پر بوجھ بن کر اس کو تھکادے۔ اور درج ذیل آیت کریمہ میں بھی یہی معنی مراد ہے: ﴿وَمَا أُرِيدُ أَنْ أَشُقَّ عَلَيْكَ﴾ (القصص:۳۷)’’میں تم پر مشقت نہیں ڈالنا چاہتا‘‘۔ اسی طرح اس حدیث شریف میں مذکور مشقت کا یہی معنی مراد ہے:((لَوْلَا أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمَّتِي لَأَمَرْتُهُمْ بِالسِّوَاكِ عِنْدَ كُلِّ صَلَاةٍ))(أخرجه البخاري في كتاب الجمعة، باب السواك يوم الجمعة)’’اگر مجھے اپنی امت پر مشقت کا خیال نہ ہوتا تو میں ہر نماز کے وقت ان کو مسواک کرنے کا حکم دیتا‘‘۔شق بفتح الشين الخرق الواقع في الشيء کسی بھی چیزمیں پڑنے والا شگاف : ﴿ثُمَّ شَقَقْنَا الأَرْضَ شَقًّا﴾ (عبس :۲۶) ’’پھرہم نے چیرا زمین کو پھاڑ کر ‘‘۔
شق بکسر الشين:(۱)الجزء : کسی چیز کا ٹکڑا :فرمان نبوی ہے: ((اتَّقُوا النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ)) ’’دوزخ سے بچنے کی کوشش کرو چاہے کھجور کا ٹکڑا ہی (صدقہ کر کے)(صحیح بخاری)
(۲) زحمت،تکلیف:ارشاد ربانی ہے: ﴿وَ تَحْمِلُ اَثْقَالَكُمْ اِلٰى بَلَدٍ لَّمْ تَكُوْنُوْا بٰلِغِيْهِ اِلَّا بِشِقِّ الْاَنْفُسِ﴾ (النحل:۷)’’وہ تمہارے بوجھ اٹھاکر لے جاتے ہیں(دور دراز)شہروں تک جہاں تم زحمت شاقہ کے بغیر نہیں پہنچ سکتے تھے‘‘۔
بضم الشین الشُّقَّةُ :وہ مقام جہاں تک پہنچنے میں مشقت لاحق ہو۔ارشادِ خداوندی ہے: ﴿وَلَكِنْ بَعُدَتْ عَلَيْهِمُ الشُّقَّةُ﴾ (التوبہ:۴۲) ’’لیکن مسافت ان کو دور دراز نظر آئی‘‘ اسی طرح وفد عبدالقیس کے مقولے میں ’’شُّقَّةُ‘‘ کا یہی معنیٰ مراد ہے: إِنَّا نَأْتِيكَ مِنْ شُقَّةٍ بَعِيدَةٍ(صحيح مسلم، كتاب الإيمان، باب الأمر بالإيمان بالله تعالى ورسوله) ہم آپ کے پاس دور دراز سے آئے۔
الشقاق والمشاقة: نزاع اور مخالفت کہ جس میں ہر فریق وہ دلائل پیش کرے، جو دوسرے کو مشقت میں ڈال دے۔(لسان العرب، كتاب القاف، فصل الشين، 10/183. المصباح المنير، كتاب الشين، ص192. المفردات، ص:459)
التیسیر: یہ یسّر کا مصدر ہے اور اس کا معنی سہولت ، آسانی اور نرمی ہے۔ ارشاد خداوندی ہے: ﴿وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ﴾ (القمر:۱۷) ’’اور ہم نے قرآن مجید کو نصیحت کے لیے آسان کردیا ہےتو کیا ہے کوئی جو نصیحت حاصل کرنے والا ہو‘‘۔
اسی طرح ارشاد نبویﷺ ہے: ((فَإِنَّمَا بُعِثْتُمْ مُيَسِّرِينَ وَلَمْ تُبْعَثُوا مُعَسِّرِينَ))(صحيح البخاري، كتاب الوضوء، باب صب الماء على البول في المسجد)’’تمھیں بھیجا گیا ہے در آنحالیکہ تم آسانیاں کرنے والے ہو اور تمھیں مشکل کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا ‘‘۔
(المشقة تجلب التيسير)کا معنی ومفہوم یہ ہے کہ تنگی سہولت کا سبب بنتی ہے اور تنگی کے وقت سہولت لازم ہو ہوتی ہے۔ جب مُكلَّف تنگی اور شدید مشقت کا سامنا کرے، بالفاظ دیگر وہ مُكلَّف بہ کے انجام دینے میں صعوبت اور غیر معتاد مشقت کا سامنا کرے تو یہ حالت ایسی سہولت کے لیے شرعی سبب بن جاتی ہے کہ جس میں اس کو مُكلَّف بہ کے انجام دینے میں کوئی تنگی محسوس نہیں ہوتی۔ مثلاً مریض اگر قیام کی حالت میں نماز پڑھنے کی استطاعت نہ رکھے تو یہی مرض تخفیف کا سبب بن جاتا ہے اور اس کو بجائے کھڑے ہوکر نماز پڑھنے کے بیٹھ کر پڑھنے کی اجازت مل جاتی ہے۔ اور اس طرح اس کا نماز پڑھنا اسی طرح صحیح اور جائز ہے، جس طرح دوران صحت کھڑے ہوکر اس کا نماز پڑھنا۔
مکلف جب بھی مشقت سے دوچار ہو تو آسانی آجاتی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی الله عنہ کا ارشاد ہے: والذي نفسي بيده لو كان العسر في جحر، لطلبه اليسر حتى يدخل عليه… (الجامع للأحكام القرآن، 20/105)’’اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، اگر تنگی کسی سوراخ میں گھس جائے تو آسانی اسے تلاش کرکے اس کے پاس پہنچ جائے گی‘‘۔
لیکن کیا ہر مشقت کا تیسیر میں اعتبار کیا جائے یا نہیں؟ علما نے اس کا جواب دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ مشقت کی دو قسمیں ہیں: (قواعد الأحكام، 2/13-16. الفروق، 1/281-285. الموافقات، 2/278)
القسم الأول:المشاق غير المعتبرة: یعنی وہ مشقتیں جن کومکلف برداشت اور ان پر مداومت کرسکتا ہے، ان کو مشتاق معتادہ کہا جاتا ہے۔ مثلاًتمام عبادات اور شرعی تکلیفات کی انجام دہی میں جو مشقت ہے، وہ قابلِ برداشت ہے۔ جیسے دورانِ جہاد اپنے نفس کو خطرات سے دوچار کرنا، ایام طویلہ میں روزہ رکھنا، طلب علم میں محنت ومشقت کرکے سفر کرنا، سردی میں وضو وغسل کی مشقت، حج کے لیے سفر کی مشقت، حدود اور رجم میں لاحق ہونے والی مشقت، مجرموں اور باغیوں کو قتل کرنے کی مشقت، وغیرہ۔المشقة تجلب التیسیر والا قاعدہ مذکورہ بالا مشقتوں کو شامل نہیں۔ یہ مشقتیں مقصود بالذات نہیں، بلکہ مصالح شرعیہ کے حصول کے لیے ہیں اور تکالیف شرعیہ مصالح کی قبیل سے ہیں، نہ کہ مفاسد کی قبیل سے۔ جبکہ تکلیف نام ہے اس طلب کا جس میں مشقت ہو۔ اس لیے وہ مشقت جو نفسانی خواہشات کے خلاف ہو، وہ مشاق معتبرہ کی قبیل سے نہیں۔
القسم الثاني:المشاق المعتبرة یعنی وہ مشقتیں جو شریعت کی نظر میں معتبر ہیں۔ یہ وہ مشقتیں ہیں، جن سے غالباً تکالیف شرعیہ خالی ہوتی ہیں۔ ان کی کئی اقسام ہیں:
قسم اول:وہ عظیم مشقتیں جو رسوا کرنے والی ہوں۔ مثلاً اپنی جان ضائع ہونے کا خوف یا جسم کے کسی حصے کے یا اس کے منافع کے ضائع ہونے کاخوف۔ یہ مشقتیں تخفیف اور رخصت کو واجب کرنے والی ہیں۔ کیوں کہ جان اور جسم کے کسی حصے کی حفاظت مصالح دارین کی حفاظت کے لیے اولیٰ ہے، بنسبت اس کے کہ ان کو عبادات میں ضائع کیا جائے۔ اس قسم کی مشقت جس میں انسانی جان یا اس کے کسی عضو کے تلف ہونے کا خطرہ ہو وہی ہے جس پر قاعدہ’’ المشقة تجلب التيسير ‘‘ کا اطلاق ہوتا ہے۔
قسمِ ثانی:مشقت خفیفہ ہے۔ مثلاً کسی کی انگلی یا جسم کے کسی اور حصے یا سر میں درد ہونا یا طبیعت کا خراب ہونا وغیرہ۔ ان مشقتوں کا اعتبار نہیں ہے۔ شریعت نے ان کو تخفیف اور ترخیص کا موجب نہیں قرار دیا ہے۔ اس لیے کہ تکالیف شرعیہ کی انجام دہی میں مصالح کا حصول اس قسم کی مشقتوں کو ہٹانے سے زیادہ اہم ہے۔ لہذا اس قسم کی مشقتوں کو مذکورہ بالا قاعدے میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔ بالفاظ دیگر قاعدہ مذکورہ ’’المشقة تجلب التيسير‘‘ میں مذکور مشقت اس مشقت خفیفہ کو شامل نہیں۔
قسمِ ثالث:وہ مشقتیں جو شدت اور خفت میں ان دونوں کے درمیان ہیں ۔ ان کے بارے میں متفقہ قاعدہ یہ ہے کہ جو ان میں سے قسمِ اول کے قریب ہیں، وہ موجبِ تخفیف اور جو قسمِ ثانی کے قریب ہیں وہ تخفیف اور رخصت کی موجب نہیں ہیں، سوائے اہل ظاہر کے مثلاً ہلکا بخاریا دانت کا معمولی درد وغیرہ۔ نوعِ اول اور نوعِ ثانی کے درمیان کی مشقتیں مختلف فیہ ہیں۔ بعض علما نے ان کو نوع اول کے ساتھ لاحق کیا ہے۔ اس طرح مذکورہ بالا قاعدہ’المشقة تجلب التيسير‘ان کا احاطہ کرےگا۔ جبکہ بعض علمانے ان کو نوع ثانی کے ساتھ لاحق کیا ہے اور مذکورہ بالا قاعدہ سے ان کو مستثنی کیا ہے۔ لیکن صحیح بات وہی ہے جو ہم نے سابق میں ذکر کردی کہ ان مشقتوں میں سے جو نوع اول کے قریب ہیں، وہ موجب تخفیف اور جو نوع ثانی کے قریب ہیں، وہ غیر موجب تخفیف ہیں۔ اور قاعدہ مذکورہ ان کو شامل نہیں ہے۔
قاعدہ مذکورہ’المشقة تجلب التيسير‘کی اصل
مذکورہ بالا قاعدے کا تعلق ان عظیم قواعد میں سے ہے، جو اسلام کے ایک عظیم اصل’’رفع حرج ومشقت‘‘ کو بیان کرتی ہے۔ اس کی پشت پر بہت سارے دلائل ہیں، جن میں سے کچھ کا ذکر ذیل میں کیاجاتاہے۔ ہم سب سے پہلے وہ قرآنی آیات ذکر کرتے ہیں، جن میں یہ قاعدہ بیان کیا گیا ہے:
(۱)امت پر سے حرج کو دور کرنے پر دلالت کرنے والی آیات بینات۔
(الف) ﴿وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ ﴾(الحج:۷۸)’’اللہ عزوجل نے دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی ہے‘‘۔
(ب) ﴿مَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُمْ مِنْ حَرَجٍ﴾ (المائدة:۶)’’اللہ عزوجل کا ارادہ تم پر تنگی کرنے کا نہیں ہے‘‘۔
(ج) ﴿يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ﴾ (البقرة:۱۸۵)’’اللہ تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے ، تنگی نہیں چاہتا‘‘۔
(د) ﴿يُرِيدُ اللَّهُ أَنْ يُخَفِّفَ عَنْكُمْ وَخُلِقَ الْإِنْسَانُ ضَعِيفًا﴾ (النساء:۲۸)’’اللہ تمہارے لیے تخفیف چاہتا ہے اور انسان خلقۃً کمزور ہے‘‘۔
(۲)وہ آیات بینات جو دین میں غلو کی نہی پر دلالت کرتی ہیں۔
(الف) ﴿يَاأَهْلَ الْكِتَابِ لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ وَلَا تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ إِلَّا الْحَقَّ﴾ (النساء:۱۷۱)’’اے اہل کتاب! مبالغہ نہ کرو اپنے دین کی بات میں اور نہ کہو اللہ کی شان میں مگر حق بات‘‘۔
(ب) ﴿قُلْ يَاأَهْلَ الْكِتَابِ لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ غَيْرَ الْحَقِّ﴾ (المائدة:۷۷)’’آپﷺ فرمادیجیے، اے اہل کتاب! غلو نہ کرو اپنے دین کی بات میں‘‘۔
(3)وہ آیات بینات جو مشقت، بوجھ اور قیود کی امت سے نفی پر دلالت کرتی ہیں۔
(ا) ﴿وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْيَتَامَى قُلْ إِصْلَاحٌ لَهُمْ خَيْرٌ وَإِنْ تُخَالِطُوهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَأَعْنَتَكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ﴾ (البقرة:۲۲۰)’’ اور لوگ آپ سے یتیموں کے بارے میں پوچھتے ہیں، آپ کہہ دیجیے کہ ان کی بھلائی چاہنا نیک کام ہے، اور اگر تم ان کے ساتھ مل جل کر رہو تو (کچھ حرج نہیں کیونکہ) وہ تمھارے بھائی ہی تو ہیں، اور اللہ خوب جانتا ہے کہ کون معاملات بگاڑنے والا ہے اور کون سنوارنے والا، اور اگر اللہ چاہتا تو تمھیں مشکل میں ڈال دیتا۔ یقینا اللہ کا اقتدار بھی کامل ہے، حکمت بھی کامل‘‘۔
(ب) ﴿الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ يَأْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ﴾ (الاعراف:۱۵۷) ’’ اس رسول یعنی نبی امی کے پیچھے چلیں جس کا ذکر وہ اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پائیں گے جو انھیں اچھی باتوں کا حکم دے گا، برائیوں سے روکے گا، اور ان کے لیے پاکیزہ چیزوں کو حلال اور گندی چیزوں کو حرام قرار دے گا، اور ان پر سے وہ بوجھ اور گلے کے وہ طوق اتار دے گا جو ان پر لدے ہوئے تھے ‘‘۔
(۴)وہ آیاتِ بینات جو طاقت سے باہر چیزوں کے عدمِ تکلیف پر دلالت کرتی ہیں۔
(الف) ﴿لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا﴾ (البقرة:۲۸۶)’’ اللہ تکلیف نہیں دیتا کسی کو مگر جس قدر اس کی گنجائش ہے‘‘۔
(ب) ﴿لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا مَا آتَاهَا سَيَجْعَلُ اللَّهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْرًا﴾ (الطلاق:۷) ترجمہ:’’اللہ کس پر تکلیف نہیں ڈالتا مگر اسی قدر جو اس کو دیا ہے، اب کردےگا اللہ سختی کے پیچھے کچھ آسانی‘‘۔
(۵)وہ آیات بینات جو ضرورت کے وقت محظورات کے مباح ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔
(الف) ﴿قُلْ لَا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَى طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلَّا أَنْ يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَمًا مَسْفُوحًا أَوْ لَحْمَ خِنْزِيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ أَوْ فِسْقًا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَإِنَّ رَبَّكَ غَفُورٌ رَحِيمٌ﴾ (الانعام:۱۴۵) ’’آپ فرمادیجیے کہ میں نہیں پاتا اس وحی میں جو مجھ پر وحی کی جاتی ہے کسی چیز کو حرام کھانے والے پر جو اس کو کھائے مگر یہ کہ وہ چیز مردار ہو یا بہتا ہوا خون یا سور کا گوشت کہ وہ ناپاک ہے یا ناجائز ذبیحہ، جس پر نام پکارا جائے اللہ کے سوا کسی اور کا،پھر جو کوئی بھوک سے بے اختیار ہوجائے نہ نافرمانی کرے نہ زیادتی کرے تو تیرا رب بڑا معاف کرنے والا ہے، نہایت مہربان ہے‘‘۔
اب ملاحظہ کیجیے وہ احادیث جو اسلام کے دین یسیر ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔
(ا) ((إِنَّ الدِّينَ يُسْرٌ، وَلَنْ يُشَادَّ الدِّينَ أَحَدٌ إِلَّا غَلَبَهُ، فَسَدِّدُوا وَقَارِبُوا، وَأَبْشِرُوا، وَاسْتَعِينُوا بِالْغَدْوَةِ وَالرَّوْحَةِ وَشَيْءٍ مِنَ الدُّلْجَةِ))(صحيح البخاري، كتاب الإيمان، باب الدين يسر)بے شك دین آسان ہے اور کوئی دینی کاموں میں عرق ریزی سے کام لے گا تو وہ عاجز اور دین اس پر غالب آجائے گا، تو تم اعمال میں توسط اختیار کرو اور اگر اکمل پر عمل نہ کرسکو تو جو اس کے قریب ہو، اس پر عمل کرو، عمل دائم پر ثواب کی بشارت حاصل کرو اور دین کے اول وآخر میں عبادت پر مداومت سے مدد حاصل کرو۔
(ب)((أَحَبُّ الدِّينِ إِلَى اللَّهِ الحَنِيفِيَّةُ السَّمْحَةُ)) (صحيح البخاري، كتاب الإيمان، باب الدين يسر) ’’اللہ کے نزدیک سب سے محبوب ترین دین آسان اور دین حنیف ملت ابراہیم ہے، نہ کہ یہودیت ونصرانیت‘‘۔
وہ احادیث جو تیسیر، تبشیر کے امر اور دونوں کی ضد سے نہی پر دلالت کرتی ہیں۔
(ا)قال النبي ﷺ:((يَسِّرُوا وَلاَ تُعَسِّرُوا ، وَبَشِّرُوا وَلاَ تُنَفِّرُوا))(صحيح البخاري، كتاب الأدب، باب قول النبيﷺ يسروا ولا تعسروا)’’رسول الله ﷺ نے فرمایا: آسانیاں پیدا کرو اور لوگوں کو تنگی میں نہ ڈالو، خوشخبریاں سناؤ اور متنفر نہ کرو‘‘۔
(ب)رسول اللہﷺ نے ابو موسی اشعری اور حضرت معاذ بن جبل رضی الله عنہما کو یمن کی طرف روانہ کرتے ہوئے فرمایا: ((يَسِّرَا وَلَا تُعَسِّرَا وَبَشِّرَا وَلَا تُنَفِّرَا… ))(صحيح البخاري، كتاب الأدب، باب قول النبيﷺ يسروا ولا تعسروا)’’تم دونوں آسانیاں پیدا کرو، تنگی نہ کرو، خوشخبریاں سناؤ لوگوں کو متنفر نہ کرو‘‘۔
(ج)حديث ابو ہریرہ رضی الله عنہ:(( مَا نَهَيْتُكُمْ عَنْهُ فَاجْتَنِبُوهُ وَمَا أَمَرْتُكُمْ بِهِ فَافْعَلُوا مِنْهُ مَا اسْتَطَعْتُمْ فَإِنَّمَا أَهْلَكَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ كَثْرَةُ مَسَائِلِهِمْ وَاخْتِلاَفُهُمْ عَلَى أَنْبِيَائِهِمْ )) (متفق عليه) ’’میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا، جس کام سے میں تم کو روک دوں، اس سے رک جاؤ، اور جن کاموں کا تمھیں حکم دوں، تو اس کو اپنی استطاعت بھر انجام دو۔ تم سے پہلے لوگوں کو ان کے کثرت سوالات اور انبیاے کرام سےاختلاف نے ہلاک کردیا۔
مندرجہ بالا آیات بینات اور احادیث مبارکہ سے واضح ہوا کہ شریعت کے پیشِ نظر انسانوں کے لیے آسانی اور سہولت پیدا کرنا ہے۔ پھر ہر قسم کی سہولتیں اور تخفیفیں جو شریعت کی طرف سے عطا کردہ ہیں، ان کی دو قسمیں ہیں۔
ایک قسم وہ ہیں جو محض آسانی کے لیے شریعت مطہرہ نے مقرر کی ہیں۔
دوسری قسم وہ ہیں جو عوارض کے عارض ہونے پر عذر تصور کرتے ہوئے جائز کی گئی ہیں۔ اس قسم کو شریعت مطہرہ میں رخصت کا نام دیا گیا ہے۔
جس مقام پر جہاں کسی تخفیفی صورت پر رخصت کے کلمےکا اطلاق کیا گیا ہوگا، اس سے اس امر پر تنبیہ کرنا مقصود ہوگا کہ یہاں دوسری قسم مراد ہے۔ مزید وضاحت کے لیے ہم یہاں کچھ ایسی مثالیں پیش کرتے ہیں، جن سے مذکورہ دونوں قسموں میں واضح طور پر فرق محسوس کیا جاسکے۔
(۱) رخصتِ شرعیہ: مثلاً قرض، حوالہ، حجر(تصرفات کی بندش)، وصیت، سلم، اقالہ، شرکت، صلح، عاریت، ودیعت، رہن، ضمان، ابراء، اجارہ، مزارعت، مساقات، مضاربت، وکالت، وغیرہ۔
قرض، اجارہ اور اعارہ یہ اس لیے مباح کیے گئے ہیں کہ لوگ غیر کی مملوکہ اشیا سے اپنی سہولت کے لیے فائدہ اٹھاسکیں۔اور وکالت،ودیعت، شرکت، مضاربت، مساقات، مزارعت کی اباحت سے یہ مقصود ہے کہ انسان خود عاجز ہو تو دوسرے فرد سے اپنے معاملات میں مدد حاصل کرسکے۔
حوالہ:تاکہ دائن اپنے مدیون سے اپنا دین بسہولت کسی دوسرے ذریعے سے بھی حاصل کرنے کی قدرت رکھے۔
رہن، کفالت بالمال اور کفالت بالنفس: تاکہ دائن اپنے حق کی وصولی میں اطمینان حاصل کرسکے۔
ابراء: (کسی فرد کی تہی دستی وغربت کے پیشِ نظر پورے دین کایا اس کے کچھ حصے کا معاف کردینا) تاکہ ایک نادار شخص کو سہولت حاصل ہو۔ یہی علت مشتری یا بائع کے بیع میں شرط خیار کے جواز کی ہے، تاکہ اس سے پیدا ہونے والی پشیمانی کا ازالہ ہوسکے۔ بیع سلم اور بیع الوفاء ایک مفلس شخص کے نقد رقم کی ادائیگی سے عجز کے پیشِ نظر سہولت کے لیے ہے۔ خلاصہ یہ کہ دیگر اکثر احکام کا طرز اسی غرض کے تحت ہے۔