’’یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے ہیں اور جن کے دل اللہ کے ذکر سے اطمینان حاصل کرتے ہیں۔ یا د رکھو کہ صرف اللہ کا ذکر ہی وہ چیز ہے جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے‘‘۔
آیتِ مبارکہ کی تفسیر
یاد الٰہی یعنی اللہ کی تسبیح ، تقدیس اور حمد ایک مستقل عبادت ہے،قرآن کریم اور احادیث رسول ﷺ میں اس کے بڑے فضائل بیان ہوئے ہیں۔ قرآ ن کریم کی یہ آیت مبارکہ مؤمنین کی صفات میں سے ایک یہ صفت بیان کرتی ہے کہ وہ یاد الٰہی سے اطمینان حاصل کرتے اور آرام پاتے ہیں۔چونکہ یاد الٰہی روح کی غذا ہے، اس لیے بندۂ مؤمن بے سکونی اور بے اطمینانی کا علاج یاد الٰہی سے کرتا ہے۔اس کے لیے ذکر اللہ سکون قلب کا باعث ہوتا ہے۔ کیونکہ یاد الٰہی دل کی نورانیت، سکون قلب اور ایمان میں اضافہ کرتی ہے۔اس کے ذریعے گناہوں کی بخشش ہوتی ہے۔انسان اس کی بدولت آخرت کی تیاری کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔جبکہ غفلت میں پڑے رہنے کی مذمت کی گئی ہے، سورۃ الحشر آیت ۱۸ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللَّهَ فَأَنسَاهُمْ أَنفُسَهُمْ أُولئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ﴾ ’’اور تم ان جیسے نہ ہوجانا جو اللہ کو بھول بیٹھے تھے، تو اللہ نے انھیں خود اپنے آپ سے غافل کردیا۔ یہ وہی لوگ ہیں جو نافرمان ہیں ‘‘۔تو جو لوگ اللہ کی یاد سے غافل اور بےپرواہ ہوگئے ہیں تو یہ درحقیقت اپنی ذات سے بے پرواہ ہوگئے ہیں۔ یہ بھول بیٹھے ہیں کہ خود ان کی جانوں کے لیے کونسی بات فائدے کی ہے اور کونسی نقصان کی ہے۔کیونکہ اللہ تعالیٰ کو ان کی یاد کی ضرورت نہیں ہے ،بلکہ خود ان کو اس کی ضرورت ہے۔اگر وہ غافل ہوتے ہیں تو اپنا نقصان کرتے ہیں۔ بخاری شریف کی ایک روایت میں آتاہے:((مَثَلُ الَّذِي يَذْكُرُ رَبَّهُ وَالَّذِي لَا يَذْكُرُ رَبَّهُ، مَثَلُ الْحَيِّ وَالْمَيِّتِ)) ’’اس شخص کی مثال جو اپنے پروردگار کو یاد کرتا ہے اور اس کی مثال جو اپنے پروردگار کی یاد سے غافل ہوتا ہے زندہ اور مردہ جیسی ہے‘‘۔ایک شخص نے بارگاہ رسالتﷺ میں عرض کیا: ’’یا رسول اللہ ! ((إِنَّ شَرَائِعَ الْإِسْلَامِ قَدْ كَثُرَتْ عَلَيَّ، فَأَخْبِرْنِي بِشَيْءٍ أَتَشَبَّثُ بِهِ)) ’’اسلام کے احکام و قوانین تو میرے لیے بہت ہیں، کچھ تھوڑی سی چیزیں مجھے ارشاد فرما ئیں تاکہ جن پر میں مضبوطی سے جما رہوں‘‘۔آپ ﷺنے فرمایا((لَا يَزَالُ لِسَانُكَ رَطْبًا مِنْ ذِكْرِ اللَّهِ))’’تمہاری زبان ہر وقت اللہ کی یاد اور ذکر سے تر رہے‘‘۔(ترمذی)
ذکراللہ کی مختلف اقسام
ذکر الٰہی کو مختلف اعتبارات سے تقسیم کیا گیا ہے۔ ایک ذکر لسانی ہے یعنی بندہ زبان سے اللہ تعالیٰ کا ذِکر کرے، اس میں تسبیح، تقدیس، ثنا، حمد،استغفاراور دعا وغیرہ داخل ہیں۔ ایک ذکر قلبی ہے یعنی قلب سے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا،کہ بندہ دل سےاللہ تعالیٰ کو یاد کرے، اس میں اللہ کی عظمت وکبریائی اور اس کے مظاہر قدرت میں غور کرنا،تدبر اور فکر کرنا، یہ سب ذکر قلبی یں داخل ہے ۔ ذکر کی ایک تقسیم ، ذکر ِ سری و ذکر جہری ہے جس کا تعلق آواز کی کمی و بیشی سے ہے۔ اسی طرح ذکر کی ایک تقسیم ذکر خفی و ذکر جلی بیان کی جاتی ہے جس کا تعلق خلوت و تنہائی اور جلوت و اجتماع سے ہے۔ چوں کہ ذکر سے مقصود روحانی زندگی اور بالیدگی ہے جس کا حاصل اللہ تعالٰی کی عبادت ہے اس لیے اس حاصل پر نظر کرتے ہوئے، بعض علمانے اطاعت و عبادت الٰہی کو بھی ذکر میں داخل کیا ہے۔ جیسے اللہ تعالی کا فرمان ہے: ﴿وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي﴾ ’’اور میری یاد کےلیے نماز قائم کرو‘‘۔(طہ:۱۴)آیتِ مبارکہ ﴿أَلَّذِينَ أٰمَنُوا،وَتَطمَئِنُّ قُلُوبُهُم بِذِکرِ اللّٰهِ،أَلَا بِذِکرِ اللّٰهِ تَطمَئِنُّ القُلُوبُ﴾ میں ’’یاد الہٰی‘‘ کا ذکرمطلق آیا ہے اور کسی قسم کی تخصیص نہیں کی گئی اس لیے اس میں ذکرکی تمام اقسام مثلا ذکر لسانی و قلبی ، ذکر خفی و جلی اور ذکر سری و جہری وغیرہ داخل ہیں ۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ذکر کی اہمیت کو پیش نظر رکھیں اور اپنے ظروف و احوال اور ذوق کے مطابق ذکر کے کسی بھی انداز کو اختیار کیے رکھیں تاکہ ہمارے ایمانی جذبات کو جلا حاصل ہو اور ہم عبادت الہی میں پختہ تر ہوتے جائیں ۔