مسلمانوں کے معاشرے میں پروان چڑھنے والا ہر شخص یہ بات جانتا ہے کہ قربانی کی عبادت اسلام کے عظیم ترین شعائر میں شمار ہوتی ہے۔ ہمارے علماء نے اس عبادت کو دو پیرایوں سے بیان فرمایا ہے۔ ایک پہلو اس کے فضائل و مسائل سے متعلق ہے۔ اس پہلو کو سمجھ لینا نہایت اہم ہے۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ دین میں اصل اہمیت اسی زاویے کو سمجھنے کی ہے۔ دوسرا پہلو اس کی حکمت و مقصد سے متعلق ہے۔ اس پیرائے کو سمجھنا فی نفسہ تو مقصودنہیں ہے،لیکن چونکہ انسان کی طبعی تخلیق اسی ساخت پر ہوئی ہے کہ جب وہ کسی کام کی حکمت کو سمجھ لیتا ہے تو مکمل انشراح اور آمادگی سے اسے سر انجام دیتا ہے ،چنانچہ اس زاویے کو سمجھنا بھی فائدے سے خالی نہیں ہے۔ ابتداءً مؤخر الذکر پہلو سے اس عظیم عبادت کی افہام و تفہیم کی کوشش کی جائے گی۔
علمِ اسرارِ شریعت
آغاز ہی میں یہ بات سمجھ لینا مفید ہے کہ دین میں اس حکمت کو سمجھنے سمجھانے کا کیا مقام ہے۔ جو حضرات بھی بر صغیر پاک و ہند میں علمِ دین کے پس منظر سے واقف ہیں وہ یہ بات جانتے ہیں کہ اس سر زمین پر ایک غیر معمولی شخصیت نے بہت سے کار ہاے نمایاں و کارہاے تجدید سر انجام دیے۔ اس شخصیت کو آج امام الہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمتہ اللہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ انھی کی کاوشوں کا نتیجہ تھا کہ بر صغیر ہند و پاک میں خصوصًا اور کل عالمِ اسلام میں عمومًا بعض ایسے گوشوں کی طرف توجہ کا ارتکاز ہوا جو پہلے شاید مرکوزِ توجہ نہ تھے۔ انھی میں سے ایک؛ حکمتوں اور مقاصد کا گوشہ ہے۔ علوم دینیہ کئی پہلوؤں پر منقسم ہیں جن میں سے ایک علم؛ فقہ کا ہے۔ اس میں بتایا جاتا ہے کہ کوئی شے کب صحیح ہوتی ہے اور کب فاسد۔ اور اگر فاسد ہوگئی تو اس کے ازالے کی کیا صورت ہے۔ یہ علم اپنی جگہ غیر معمولی اور کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ اسی طرح علمِ تفسیر ایک مکمل علم ہے جس میں قرآن مجید کی آیات کھولی جاتی ہیں اور اس کے معنی و مفاہیم بیان کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح علمِ حدیث میں نبی اکرم ﷺ کے اقوال و افعال و تقریرات سے بحث کی جاتی ہے۔ ان تمام علوم میں قدرِ مشترک یہ ہے کہ ان میں احکامِ شریعت کا بیان آتا ہے۔ لیکن اس سے آگے بڑھ کر ایک علم اور ہے جو زمانے کے اقتضا کے طور پر سامنے آتا ہے۔ خصوصًا سترھویں صدی کے بعد سے جب نوعِ انسانی نے سوچنے کے بعض ایسے زاویے دریافت کرلیے کہ جن میں محض اوامر و نواہی کفایت نہیں کرتے۔ ہوا یہ کہ انسان اب چیزوں کی مقصدیت کو زیادہ اہمیت دینے لگا۔ ’ایسا کیوں ہے‘؟ ’کیوں ایسا کیا جائے‘؟ اس قسم کے سوالات اب پُرزور انداز میں پروان چڑھنے لگے۔ انسان ان سوالات کے بارے میں بہت حساس ہونے لگا۔ نتیجتاً؛ اس دور کےعلماے کرام نے خصوصی توجہ اس بات کی جانب کی کہ احکام کے ساتھ ان کی حکمتوں کو بھی اہمیت کے ساتھ بیان کیا جائے۔ حضرت شاہ ولی اللہ رحمتہ اللہ اسی طبقۂ علماء کے سرخیل ہیں۔
حکمتِ دین اورحضرت شاہ ولی اللہ رحمتہ اللہ
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دینی پیرائے میں حکمت کس شے کو کہتے ہیں؟ تو امام راغب اصفہانی رحمتہ اللہ فرماتے ہیں: الحکمۃ:وضع الشیء فی محلہ۔ [1] ’’حکمت ہر شے کو اس کے صحیح مقام پر رکھنے سے تعبیر ہے‘‘ ۔ ایک تعریف یہ بھی بیان کی گئی کہ اجزا کے مابین تناسب کے جاننے کا نام حکمت ہے۔ کسی جزو کو جان لینا حکم کاجان لینا ہے ۔ لیکن تمام اجزا کا آپس میں بھی ایک ربط ہے اور کسی کل سے بھی ان کا کوئی تعلق ہے اس بات کو جان لینا بھی حکمت کہلاتا ہے۔ شاہ صاحب رحمتہ اللہ نے اس موضوع پر حجۃ اللہ البالغہ کے نام سے ایک مستقل کتاب تصنیف فرمائی اور حکمتِ دین کے اس پہلو سے لوگوں کو روشناس کرایا۔ آپ خود اپنے مکاشفات میں ایک مقام پر درج کرتے ہیں کہ مجھے غیب سے اس بات کا خاص حکم ہوا کہ ’اسرار ِشریعتِ ما را فاش کن‘ (جاؤ اور میرے شریعت کے جو راز ہیں انھیں کھول دو)۔ نیز فرماتے ہیں کہ اس کشف کے بعد ہی میں نے حجۃ اللہ البالغہ کی تصنیف کا آغاز کیا۔ یہ کتاب حضرت شاہ صاحب رحمتہ اللہ کا عظیم کارنامہ اور علمی دنیا کی ایک معرکہ آرا تصنیف ہے، تاہم اس کا مطالعہ کسی عالمِ ربانی کی نگرانی میں کرنا چاہیے ورنہ نقصان کا اندیشہ ہے۔ حضرت رحمتہ اللہ نے اس میں احکام کی حکمتیں، ان کا باہمی ربط،اور ان کے درجات کو بیان فرمایا ہے۔ البتہ یہ بات بھی اہم ہے کہ یہ حکمتیں اپنی طرف سے وضع کردہ نہیں ہیں بلکہ قرآن و سنت ہی سے مأخوذ ہیں۔ اس کی آسان مثال نماز کے ذیل میں دی جا سکتی ہے۔ قرآن مجید نے بارہا نماز کا حکم دیتے ہوئے فرمایا: ﴿وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ﴾ ترجمہ: ’’اور نماز قائم کرو‘‘ ۔ (البقرۃ:۴۳)لیکن ایک مقام پر حکم کے ساتھ حکمت کا ذکر بھی وارد ہوا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿اَ قِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِيْ﴾ترجمہ: ’’میری یاد کے لیے نماز کو قائم کرو‘‘ ۔ (طٰہٰ:۱۴)اسی کے مانند قرآنِ حکیم نے بارہا فرمایا: ﴿اٰتُوا الزَّكٰوةَ﴾ ترجمہ: ’’زکوٰۃ ادا کرو‘‘ ۔ (البقرۃ:۴۳) لیکن سورۂ توبہ میں اس کی حکمت کو بھی بایں الفاظ ذکر فرمایا: ﴿خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَـةً تُطَهِّرُھُمْ وَتُزَكِّيْهِمْ بِهَا﴾ ترجمہ: ’’(اے نبی ﷺ )ان کے مالوں میں سے صدقاتِ واجبہ (زکوۃ) لے لیجیےجس کے ذریعے سے آپ (ان کے اموال)پاک کر دیں گے اور ان کے دلوں سے دنیا کی محبت نکال دیں گے‘‘ ۔ (التوبہ:۱۰۳)مال پاک بھی ہو جائے گا اور اس کی محبت بھی دلوں سے نکل جائے گی، لہذا نفس کا تزکیہ بھی ہو سکے گا۔ اسی طرح شریعت میں اموال و غنائم اور وراثت وغیرہ کے تمام احکام جس حکمت کو حاصل کرتے ہیں اس کو قرآنِ مجید نے بایں الفاظ بیان فرمایا ہے: ﴿كَيْ لَا يَكُوْنَ دُوْلَةً بَيْنَ الْأَغْنِیَاءِ مِنْکُمْ﴾ ترجمہ: ’’تاکہ وہ مال صرف ان کے درمیان گردش نہ کرتا رہ جائے جو تم میں سے مال دار ہیں‘‘ ۔ (الحشر:۷)پھر روزوں کی اہم عبادت کا مقصد بھی سورۂ بقرۃ میں بایں الفاظ مذکور ہوا: ﴿لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ﴾ ترجمہ: ’’تاکہ تمہارے اندر تقویٰ پیدا ہو‘‘ ۔ (البقرۃ:۱۸۲) ان تمام احکام کو ان کی حکمت و مقصد کے ساتھ جوڑ کر سمجھنا ایک خاص علم و ذوق ہے جسے شاہ صاحب رحمتہ اللہ علمِ اسرارِ شریعت سے تعبیر فرماتے ہیں۔
اصلِ اسلام
یہاں ایک امر کی وضاحت کر دینا مفید ہوگا۔ عمومًا دیکھا جاتا ہے کہ بعض آزاد خیال حضرات اسی حکمت کے پہلو کو اجاگر کر کے بہت سے احکام کا ابطال کرتے ہیں۔ کیونکہ ان کے فہم کے مطابق بعض احکام حکمت کے بر خلاف نظر آتے ہیں۔ اسی لیے ہمارے علماے اصولیین نے یہ بات اول دور سے ہی واضح فرما دی تھی: الحکم یدور مع علتہ ولا بحکمتہ عدمًا و وجودًا۔ [2] ترجمہ: ’’حکم عدمًا و وجودًا اپنی علت پر دائر ہوتا ہے نہ کہ حکمت پر‘‘ ۔ اب علت و حکمت کی بحث ایک دقیق موضوع ہے لیکن یہاں اتنی بات سمجھ لینی چاہیے کہ بعض احکام کی حکمت خفی ہوتی ہے اور عقل اس کا ادراک نہیں کر سکتی۔ بندۂ مومن کا وصفِ خصوصی تو یہ ہے کہ ہر حکم کے سامنے گردن جھکادے۔ وہ عمل پر گامزن رہتا ہے اور اسی عمل کی برکت سے خود بخود بہت سی حکمتیں اس کے لیے کھل جایا کرتی ہیں ۔ البتہ اطمینانِ قلبی کی خاطر کسی شے کی حکمت کو جان لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ بلکہ اس سے ایک مزید پختہ یقین پیدا ہو جاتا ہے ۔ جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام بعثِ بعد الموت پر ایمان تو رکھتے ہی تھے لیکن اللہ سے یہ سوال کیا: ﴿رَبِّ اَرِنِيْ كَيْفَ تُـحْيِ الْمَوْتٰى﴾ترجمہ: ’’اے میرے پروردگار مجھے دکھائیے کہ آپ مردوں کو کیسے زندہ کرتے ہیں؟‘‘ اللہ نے پہلے اصول واضح کرنے کے لیے فرمایا ﴿اَوَلَمْ تُؤْمِنْ﴾ ترجمہ: ’’کیا تمھیں یقین نہیں‘‘ ،فرمایا: ﴿بَلٰي وَلٰكِنْ لِّيَطْمَىِٕنَّ قَلْبِىْ﴾ترجمہ: ’’یقین کیوں نہ ہو؟ (لیکن یہ خواہش اس لیے کی ہے) تاکہ میرے دل کو مزید اطمینان حاصل ہو جائے‘‘ ۔ (البقرۃ:۲۶۰) معلوم ہوا کہ انسان جتنی حکمتیں سیکھتا چلا جاتا ہے اتنا ہی اعمال میں بھی آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔ خصوصًا اس دور میں جبکہ جدید انسان کا ذہنی سانچہ ہی کچھ اس طرح بن چکا ہے کہ جب تک بات سمجھ میں نہ آئے تب تک دل میں نہیں اترا کرتی۔ یہ اس دور کا ایک المیہ ہے جسے احمد فراز نے یوں بیان کیا؎
ہر حسنِ سادہ لوح نہ دل میں اتر سکا |
کچھ تو مزاجِ یار میں گہرائیاں بھی ہوں |
جس حد تک قرآن و سنت نے ان حکمتو ں کو بیان کیا ہے اس میں رہتے ہوئے ان کا پڑھنا پڑھانا،سمجھنا سمجھانا اور ان کے ذریعے سےاطمینان حاصل کرنا مفید و مبارک ہے۔
حکمتِ قربانی
اس تحریر کے عنوان کی اہمیت کو سمجھ لینا بھی ضروری ہے۔ اس فعلِ قربانی کی حکمت کو سمجھنا صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا طریقۂ مبارکہ تھا۔ انھوں نے بھی ایک روز نبی ﷺ سے یہ سوال عرض کیا:((يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا هَذِهِ الْأَضَاحِيُّ ؟)) ترجمہ: ’’یا رسول اللہ یہ قربانیاں جو ہم پیش کرتے ہیں یہ کیا ہیں؟‘‘ یعنی ان کی حکمت کیا ہے۔ ذرا اسلوب پر غور کیا جائے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی عظمت منکشف ہوتی ہے۔ فرمایا کہ قربانیاں پیش تو کی ہی جا رہی ہیں اور حکم کی بجا آوری بھی اپنی جگہ پر لیکن اس کی حکمت جاننے کا بھی شوق ہے۔ یعنی ہمارے عمل کا عدم و وجود اس حکمت کو جاننے پر منحصرنہیں ہے، مگر اطمینانِ قلبی کے درجے میں اس کو جاننا چاہتے ہیں۔ نبی ﷺ نے بھی بڑی خوش دلی سے جواب دیا:((سُنَّةُ أَبِیْكُمْ إِبْرَاهِیْمَ))[3] ترجمہ: ’’یہ تمہارے جدِّ امجد ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے‘‘ ۔ ان شاء اللہ اس تحریر میں تفصیلًا یہ بات سمجھنے کی کوشش کی جائے گی کہ ’اسوۂِ ابراہیمی‘ سے کیا مراد ہے۔ اور کیا ابراہیم علیہ السلام نے صرف ایک مینڈھا ذبح کیا تھا جسے بعد والوں کے لیے ایک رسم بنا دیا گیا یا پھر یہ ایک عظیم قربانی کی علامت تھی جسے سال ہا سال اور نسلًا بعد نسل تازہ کیا جاتا ہے۔ قرآنِ حکیم میں اللہ تعالیٰ نے مختلف پہلؤں سے ابراہیم علیہ السلام کا ذکر فرمایا ہے۔ ایسے عظیم الشان واقعات کو بیان فرمایا ہے کہ جس کے بعد آپ علیہ السلام کو امام الناس بھی بنایا گیا اور ابو الانبیاء بھی۔ اسی اسوۂ ابراہیمی کو سمجھنے میں قربانی کی حکمت و مقصدیت بھی پنہاں ہے۔ اس امر کو بھی ان شاء اللہ آگے مزید وضاحت سے بیان کیا جائے گا۔
عبادات کے ما بین تناسب
اگر اس مقام پر کچھ توقف کرکے اس نسبت و تناسب والی بات کو ایک اور پیرائے سے سمجھ لیا جائے تو مفید ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے جو چار بنیادی عبادات ہم پر فرض کی ہیں انھیں ارکانِ اسلام میں شمار کیا جاتا ہے۔ ارشادِ نبوی علیہ السلام ہے: ((بُنِيَ الإِسْلاَمُ عَلَى خَمْسٍ: شَهَادَةِ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًارَسُولُ اللَّهِ، وَإِقَامِ الصَّلاَةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَالحَجِّ، وَصَوْمِ رَمَضَانَ)) [4] ترجمہ: ’’اسلام کی بنیاد پانچ باتوں پر ہے۔ کلمۂ شہادت، نماز، روزہ، زکوۃ و حج‘‘ ۔ ان پانچ میں سے ایک مبحث تو عقیدے کاہے اور بقیہ چار عبادات سے متعلق ہیں۔ انچار عبادات میں کئی پیرایوں سے نسبت پائی جاتی ہے۔ اگر ان کا تجزیہ کیا جائے تو علم و حکمت کے بہت سے موتی ہیں جو برآمد ہوتے ہیں۔ ان میں ایک پہلو تو بہت آسان فہم اور مشہور ہے۔ قرآنِ حکیم نے دو عبادات کو بارہا جوڑے کی صورت میں ذکر فرمایا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّكٰوةَ﴾ ترجمہ: ’’نماز قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو‘‘ ۔ (البقرۃ:۴۳) علماے کرام فرماتے ہیں کہ قرآن حکیم میں سات سو مرتبہ نماز کا حکم صراحتاً یا اشارتاًدیا گیا ہے۔ اسی طرح زکوۃ کا حکم بھی تقریبًا ستر(۷۰) مرتبہ وارد ہوا ہے۔ اب قاری کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ چار میں سے دو ارکان تو بڑے اہتمام اور جوڑے کی صورت میں ذکر کیے جا رہے ہیں البتہ بقیہ دوکا معاملہ بالکل مختلف ہے۔ نہ ان کا ذکر بارہا کیا جا رہا ہے اور نہ ہی اس طرح جوڑے کی صورت میں۔ تو آخر کار کیا حکمت ہے جو اس کے پیچھے کارفرما ہے۔ اصل میں اللہ تعالیٰ نے روزے اور حج کی تعظیم کے لیے ایک دوسرا انداز اختیار کیا ہے۔ ان دونوں کے اختتام پر دو عظیم تہوار واقع ہوتے ہیں۔ ایک تہوارعید الا ضحیٰ ہے جو کہ حج کے اختتام پر وقوع پذیر ہوتا ہے اور دوسرا عید الفطر ہے جو کہ رمضان کے روزوں کے اختتام کی علامت ہے۔ ہر قوم کا کوئی نہ کوئی تہوار ہوتا ہے جو اس کی تہذیب کی عکاسی کرتا ہے۔ مسلمانوں کے لیے یہ حیثیت عیدین کو حاصل ہے۔ ارشادِ نبوی علیہ السلام ہے: ((إِنَّ لِكُلِّ قَوْمٍ عِيدًا وَهَذَا عِيدُنَا))[5] ترجمہ:یقینًا ہر قوم کی کوئی عید ہوتی ہے اور یہ ہماری عید ہے۔ خلاصہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے عباداتِ اربعہ کی تعظیم بیان کرنے کے لیے دو الگ الگ طریقے اختیار فرمائے ہیں۔ نماز و زکوۃ کو بار ہا جوڑے کی صورت میں ذکر کیا گیا،جبکہ روزے اور حج کے اختتام پر دو عظیم تہوار رکھ دیے گئے۔ واللہ اعلم
نیز اس مقام پر ایک اور جوڑا بھی بنایا جا سکتا ہے۔ عید الفطر اور عید الاضحیٰ میں کوئی زیادہ فصل نہیں رکھا گیا۔ اور ان کے ما بین ایک دقیق نسبت بھی پائی جاتی ہے۔ اصل میں عید الفظر سے قبل رمضان المبارک کا مہینا ہے۔ یہ شہرِ عظیم اپنے ساتھ بہت سی عبادات لے کر آتا ہے اور غور طلب بات ہے کہ ان میں سے اکثر بدنی نوعیت کی عبادات ہیں۔ چاہے دن کا روزہ ہو یا رات کا قیام ان دونوں ہی کو ادا کرنے میں مُکَلَّف کو بدنی مشقت اٹھانی پڑتی ہے۔ البتہ اختتام پر تبعًا صدقۃ الفظر کی مالی عبادت بھی رکھ دی گئی۔ نیز مسلمانوں کی اکثریت اسی مبارک مہینے میں زکوۃ کی اہم عبادت بھی انجام دیتی ہے۔ تو معلوم ہوا کہ رمضان اصلًا بدنی عبادات کا مجموعہ ہے البتہ تبعاً اس کے ساتھ چند مالی عبادات بھی رکھ دی گئی ہیں۔ اس کے برعکس کیفیت ذوالحجہ کے مہینےمیں جھلکتی ہے۔ یہ مالی عبادات کا ایک مجموعہ ہے جو اس مقسوم بہ عشرے کے لیے مشروع ٹھہرایا گیا ہے۔ حج اور قربانی دونوں اسی قبیل میں واقع ہوئے ہیں۔ البتہ حج کے بارے میں فقہاے اسلام نے کثیر کلام فرمایا ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہی نکلتا ہے کہ چونکہ حج کا وجوب مال سے متعلق ہے اس لیے اسے مالی عبادات ہی کے زمرے میں شمار کیا جائے گا۔ اور اسی بنا پر حج میں نیابت بھی جائز ہے۔ اسی طرح فعلِ قربانی بھی اسی عشرے کا خاصہ ہے۔ یہ عبادت بھی صاحبِ وسعت پر واجب ہے،لہذا اسے بھی مالی عبادت کہا جائے گا۔ لیکن تبعًا ان ایام کی فضیلت سمیٹنے کے لیے روزے کی اہم عبادت ہے جسے مستحب ٹھہرایا گیا۔ خصوصًا یومِ عرفہ کا روزہ جس کے بارے میں نبی ﷺ نے فرمایا: ((صِيَامُ يَوْمِ عَرَفَةَ، أَحْتَسِبُ عَلَى اللهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ وَ السَّنَةَ الَّتِیْ بَعْدَهُ))[6] ترجمہ: ’’یومِ عرفہ کے بارے میں مجھے اللہ سے امید ہے کہ یہ ایک سال قبل اور ایک سال بعد کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا‘‘ ۔ تو ادھر اصول یہ برآمد ہوا کہ ذوالحجہ کا مہینا مالی عبادات کا ایسا مجموعہ ہے جس کے ساتھ تبعًا چند بدنی عبادات کو بھی جوڑ دیا گیا ہے۔
ایک اور نسبت سے بھی عباداتِ اربعہ کے دو جوڑے بنائے جا سکتے ہیں۔ پہلے عرض کیا جاچکا کہ نماز اور زکوۃ بارہا جوڑے کی صورت میں واقع ہوئے ہیں۔ نتیجتاً ان دو عبادات کے احکام یکجا ذکر نہیں ہوئے بلکہ پورے قرآن میں منتشر ہیں۔ البتہ حج و روزے کی عبادات کو یکجا،علیحدہ علیحدہ ذکر کیا گیا ہے۔ سورۂ بقرہ میں بڑی بلاغت سے روزے کی فرضیت،شرائط و حکم کو ذکر کیا گیا ہے۔ لہذا یہ کہنا ممکن ہے کہ پوری عبادت کو یکجا ذکر کیا گیا۔ یہ ہی خاصہ حج کا بھی ہے۔ سورۂ حج کے چوتھے اور پانچویں رکوع میں قدرے تفصیل سے اس عظیم عبادت کو قربانی و عید الاضحیٰ کے پیرائے میں ذکر کیا گیا ہے۔ تو اس نسبت سے بھی روزے اور حج کی عبادت کو ایک دوسرے کا مثنّیٰ قرار دیا جا سکتا ہے۔ واللہ اعلم
ایک اشکال اور اس کا جواب
یہاں سورۂ حج کی نسبت سے ایک فکر کا جائزہ لے لینا چاہیے۔ نصف صدی سے ہمارے معاشرے میں ایک ایسا گمراہ فرقہ پروان چڑھ رہا ہے جس نے عوام الناس میں طرح طرح کی بد عقیدگیوں کو رواج دیا ہے۔ یہ فرقہ منکرینِ حدیث کے نام سے معروف ہے۔ قربانی جیسی عظیم عبادت کے بارے میں بھی اس گروہ نے طرح طرح کے اشکالات اٹھائے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ قرآنِ حکیم نے تو اصلًا صرف حجاج کے لیے قربانی مشروع ٹھہرائی تھی جبکہ بعدمیں آنے والے فقہا نے اسے تمام اطراف و عالم میں بسنے والے مسلمانوں کے لیے عام کر دیا ۔ لہذا غیرِ حجاج کو اس فعلِ قربانی کو انجام نہیں دینا چاہیے۔ جان لینا چاہیے کہ یہ بات پرلے درجے کی گمراہی پر مبنی ہے۔ قرآن حکیم نے بڑے اہتمام سے ان دونوں قربانیوں کا تذکرہ فرمایا ہے۔ سورۃ الحج کا چوتھا رکوع جہاں منٰی میں پیش کی جانے والی خاص قربانی(ہدی کی قربانی)کو بیان کرتا ہے وہیں پانچویں رکوع میں اس معمول بہ قربانی کو بھی مشروع ٹھہراتا ہے جو تمام علاقوں کے لیے عام ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿وَلِكُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا﴾ ترجمہ: ’’اور ہم نے ہر امت کے لیے قربانی کو مقرر کر دیا‘‘ ۔ (الحج:۳۴)نیز پوری امت کے فقہاے کرام قربانی کے مشروع ہونے پر متفق ہیں۔ اس کے وجوب وسنیت میں تو اختلاف پایا جاتا ہے لیکن نفسِ قربانی کا انکار کسی بھی فقیہ نے نہیں کیا۔ لہذا منکرِ قربانی ایک درجے میں خارقِ اجماع بھی ہے جس کے لیے نصوصِ شرعیہ میں بہت سی وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔
تاریخِ قربانی
قربانی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ایسی عظیم الشان سنت ہے کہ اگلی تمام امتوں میں جاری کردی گئی۔ حضرت آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں میں اگر نزاع کی کیفیت پیدا ہوئی تو اس کے پس منظر میں بھی ایک قربانی موجود ہے۔ قرآنِ کریم میں ارشاد ہوتا ہے: ﴿اِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِهِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَرِ﴾ ترجمہ: ’’جب ان دونوں نے ایک قربانی پیش کی تھی اور ان میں سے ایک کی قربانی قبول کرلی گئی اور دوسرے کی قبول نہ ہوئی‘‘ ۔ (المائدۃ:۲۷)معلوم ہوا کہ قربانی تو اول دور سے چلی آرہی ہے۔ البتہ اس کے ادوار و اطوار مختلف ہو سکتے ہیں۔ تورات میں آج بھی سوختنی قربانی کے واقعات تفصیل سے موجود ہیں۔ جب کوئی شخص قربان گاہ میں جاکر قربانی پیش کرتا تو آسمان سے آگ کا ایک شعلہ آکر اس قربانی کو جلا دیا کرتا تھا۔ یہ اس بات کی علامت ہوتی تھی کہ فلاں شخص کی قربانی قبول ہوگئی۔ اس امت کے لیے نفسِ قربانی کو تو برقرار رکھا گیا البتہ اس خاص طریق کو منسوخ کر دیا گیا۔
حیاتِ دنیوی کی غرض و غایت – امتحان
اولًا اس بات کو سمجھ لینا چاہیے کہ یہ قربانی کس شے کا نام ہے؟یعنی وہ کیا عظیم امر تھا جسے اللہ تعالیٰ نے اسوۂ ابراہیمی قرار دے کر آئندہ آنے والی امتوں میں جاری و ساری فرمادیا۔ واقعہ یہ ہے کہ انسان کی تخلیق کا مقصد ہی امتحان و اختبار ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿الَّذِيْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيٰوةَ لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا﴾ ترجمہ: ’’اس نے موت اور زندگی اس لیے پیدا کی تاکہ وہ تمھیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل میں زیادہ اچھا ہے‘‘ ۔ (الملک:۲)لہذا یہ ابتلاو آزمائش مقصدِ حیات و ممات قرار پائی۔ اسی دنیا میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اعلی سطح پر اس امتحان کو مکمل کیا۔ اسی لیے قرآن حکیم نے ان کی کامیابی کی یہ داستان جابجا بیان فرمائی۔ ان تمام امتحانات کو بالترتیب ذکر کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
امتحان و آزمائش کی کامل مثال
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آزمائشوں کا تذکرہ سورۂ بقرہ میں بایں الفاظ وارد ہوا: ﴿وَاِذِ ابْتَلٰٓى اِبْرٰهِمَ رَبُّه بِكَلِمٰتٍ فَاَتَـمَّهُنَّ﴾ ترجمہ: ’’اور یاد کرو جب ابراہیم علیہ السلام کو ان کے رب نے بعض کلمات سے آزمایا تو انھوں نے ان کلمات کو پورا کر دکھایا‘‘ ۔ (البقرۃ:۱۲۴) یہاں بھی وہ لفظِ ابتلا ہی استعمال ہوا۔ مزید برآں ’کلمات‘ کو اس آیت میں نکرہ ذکر کیا گیا۔ عربی زبان میں کسی اسم کے نکرہ آنے کی ایک وجہ تفخیم ہوا کرتی ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ اشارہ فرما رہے ہیں کہ وہ بڑے شدید امتحانات تھے جن سے کہ ابراہیم علیہ السلام کو گزارا گیا۔ یکے بعد دیگرے ایک مطالبہ ہوتا اور ہر نیا مطالبہ ما قبل سے زیادہ سخت و کٹھن ہوا کرتا تھا۔ البتہ اللہ تعالیٰ نے ساتھ ہی ساتھ ابراہیم علیہ السلام کو کامیابی کی سند بھی دے دی۔ فرمایا : ﴿فَاَتَـمَّهُنَّ﴾ ترجمہ: ’’انھوں تمام ہی مطالبات پر پورا اتر کر دکھایا‘‘ ۔ ایک دوسرے مقام پر فرمایا: ﴿اِذْ قَالَ لَهٗ رَبُّهٗٓ اَسْلِمْ ۙقَالَ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ﴾ ترجمہ: ’’جب جب ان کے پروردگار نے ان سے کہا : ’’سرِ تسلیم خم کردو ‘‘ تو وہ (فورًا )بولے: میں نے رب العالمین کے (ہر حکم کے) آگے سر جھکا دیا‘‘ ۔ (البقرۃ:۱۳۱)یہ ہی وہ اسوۂ ابراہیمی ہے جس کے مظاہر بارہا قرآن مجید میں واقع ہوئے ہیں۔
عقیدے کا امتحان
حضرتِ ابراہیم علیہ السلام جن آزمائشوں سے گزارے گئے انھیں چند بڑے بڑے عنوانات کے تحت جمع کیا جاسکتا ہے۔ پہلی قبیل عقیدےسے متعلق ہے۔ اور ہمارے دین کی روح سے اصل امتحان اسی گوشے میں ہوا کرتا ہے۔ کفار و مسلمانوں کے درمیان فاصل بھی یہ عقیدہ ہی بنا کرتا ہے۔ کافر کے اعمال چاہے جتنے ہی بلند درجے کے کیوں نہ ہوں اس کا عقیدہ ان تمام اعمال کے بطلان کا سبب بن جایا کرتا ہے۔ جب کہ مسلمان کے معمولی اعمال بھی اس کے ایمان کے سبب بڑی قدر و قیمت رکھتے ہیں۔ لہٰذا آپ علیہ السلام کو بھی یہ حکم ہوا کہ ماحول میں رائج شرک و بت پرستی کے خلاف علمِ بغاوت بلند کریں۔ اگرچہ یہ بات ذہن نشیں کر لینی چاہیے کہ انبیا اپنی زندگی کے کسی بھی حصے میں شرکیہ عقائد کے حامل نہیں ہوا کرتے۔ وہ اول روز سے فطرت و توحید پر ہوتے ہیں۔ اگر اس کے برعکس تعبیر اختیار کی جائے تو عقیدۂ عصمتِ انبیا پر زد آتی ہے، اور بدقسمتی سے ہمارے زمانے کے بعض مفکرین نے اس بارے میں غلط مَوْقِف اختیار کر رکھا ہے۔ بہرحال، انبیاے کرام علیہم السّلام پہلے ہی روز سے راہِ راست پر گامزن ہوا کرتے ہیں،ہاں اظہارِ نبوت ایک الگ مرحلہ ہے اور ظاہر ہے کہ وہ ایک متعین وقت پر ہی ہوا کرتا ہے۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تفہیمِ توحید کی خاطر ایک عجب انداز اختیار کیا۔ چند عقلی دلائل سے وہ قوم کو ایک نتیجے پر لانے کی کوشش کر رہے تھے۔ انھوں نے مشاہدے سے یہ بات ثابت کی کہ سورج ،چاند و ستاروں کے بارے میں وقتًا تو یہ گمان ہو سکتا ہے کہ یہ عبادت کے لائق ہیں،لیکن ان کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ یہ فنا ہو جاتے ہیں۔ سورج کے کتنے ہی فوائد ہوں مغرب کے بعد وہ غروب ہی ہو جایا کرتا ہے۔ جبکہ خدا کی ذات کے لیے فنا مستحیل ہے لہذا ثابت ہوا کہ یہ تمام چیزیں کسی اورخالق کی مخلوق ہیں اور وہ اکیلا ہی عبادت کے لائق ہے۔ اس استدلال کے بعد اپنا عقیدہ بھی بایں الفاظ واضح کر دیا: ﴿اِنِّىْ وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِيْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ حَنِيْفًا وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ﴾ ترجمہ: ’’میں نے سب سے یکسو ہو کر اپنے آپ کو اسی ذات کی طرف متوجہ کیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں‘‘ ۔ (الأنعام:۷۹)یہ وہ پہلا دشوار امتحان تھا جسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے علٰی وجہ الکمال مکمل فرمایا۔
بت پرستی کی نفی
ایک قدم اور آگے بڑھتے ہوئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پورے معاشرے میں پائے جانے والی بت پرستی کی نفی کرنے کا ارادہ فرمایا۔ حال یہ تھا کہ آپ کے اپنے والد بت پرست ہی نہیں بت گر بھی تھے۔ لہذا یہ بھی بڑا مشکل مرحلہ تھا جس سے کہ آپ علیہ السلام کو گزرنا تھا۔ قرآنِ حکیم نے اس کشمکش کو بایں الفاظ نقل فرمایا: ﴿قَالَ اَفَتَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا يَنْفَعُكُمْ شَـيْــــًٔا وَّلَا يَضُرُّکُمْ * أُفٍّ لَّکُمْ وَلِمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ أَفَلَا تَعْقِلُوْنَ﴾ ترجمہ:پھر تم اللہ کو چھوڑ کر ایسی چیزوں کو کیوں پوجتے ہو جو تمھیں نہ کچھ فائدہ دے سکیں نہ نقصان پہنچا سکیں ۔ اف ہے تم پر اور جن کو تم اللہ کے سوا پوجتے ہو ان پر بھی۔ کیا تم عقل نہیں رکھتے؟‘‘ (الأنبیاء:۶۷۔ ۶۶) معلوم ہوا کہ ایک زبردست ضرب تھی جو کہ ابراہیم علیہ السلام نے اس معاشرے پرلگائی۔ نیز وہ موقع بھی آیا کہ خلیل اللہ علیہ السلام نے آگے بڑھ کر قوم کے بتوں کو نیست و نابود کر دیا۔ ایک مشرک معاشرے میں بسنے والوں کا اپنے بتوں سےبڑا گہرا تعلق ہوا کرتا ہے۔ اس معاشرے میں اگر کوئی ایسا نوجوان تنِ تنہا کھڑے ہو کر ان بتوں کے خلاف علمِ بغاوت بلند کرے جس کے گھر والے ہی اس کے خلاف ہیں تو اس بات کو چشمِ تصور میں لایا جا سکتا ہے کہ وہ کن ایمانی کیفیات سے دوچار ہوگا!مزید برآں تمام بتوں کو توڑنےکے بعد تیشے کو بڑے بت کے گلے میں معلق کر دے اور پوچھے جانے پر سوالیہ لہجے میں کہے کہ بڑے بت سے دریافت کرلو؟(اگر یہ بول سکتے ہیں!)۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام توکل و استقامت کے اعلیٰ مراتب پر فائز تھے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے بھی اس واقعے کو ابراہیم علیہ السلام کے عظیم مجاہدے کے طور پر ذکر فرمایا ہے۔
ظالم بادشاہ نمرود کے بالمقابل
بعد از ایں ابراہیم علیہ السلام کو اگلی سطح کے امتحان سے گزارا گیا۔ اس زمانے میں بابل کے بادشاہ نمرود کے لقب سے جانے جاتے تھے اور وہ اپنی مطلق حاکمیت و ربوبیت کے دعوےدارتھے۔ آپ علیہ السلام کو اس باغی کے خلاف علمِ توحیدبلند کرنے کا حکم ہوا۔ ایک بار پھر یہ بات چشمِ تصور میں لائی جاسکتی ہے کہ ایک بادشاہ کا دربار لگا ہوا ہو۔ اس میں خوب داد و دہش ہو اور کوئی نگاہ اٹھا کر بات کرنے کی ہمت نہ کرتا ہو۔ اس دربار میں ایک نوجوان کو حاضر کیا جاتا ہے اور وہ بادشاہ کی ہر حجت کو پوری تمکنت کے ساتھ دلیل سے کاٹتا ہے یہاں تک کہ اسے ہکا بکا کر دیتا ہے۔ نتیجہ پھر یہ ہی نکلتا ہے کہ ایسا کارنامہ اعلی ترین ایمانی کیفیات کے بغیر انجام نہیں دیا جا سکتا۔ قرآن حکیم نے بھی اس واقعے کا نقشہ کھینچا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْ حَاجَّ اِبْرٰھٖمَ فِيْ رَبِّهٖٓ اَنْ اٰتٰىهُ اللّٰهُ الْمُلْكَ ۘاِذْ قَالَ اِبْرٰھٖمُ رَبِّيَ الَّذِيْ يُـحْي وَيُمِيْتُ ۙ قَالَ اَنَا اُحْيٖ وَاُمِيْتُ قَالَ اِبْرٰھٖمُ فَاِنَّ اللّٰهَ يَاْتِيْ بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَاْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُهِتَ الَّذِیْ کَفَرَ وَاللہُ لَا یَھْدِیْ الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ﴾ ترجمہ: ’’بھلا تم نے اس شخص کو نہیں دیکھا جو اس (غرور کے) سبب سے کہ اللہ نے اسے حکومت دی تھی حضرت ابراہیم علیہ السلام سے جھگڑنے لگا۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا: ’’میرا رب تو وہ ہے جو زندگی دیتا ہے اور مارتا ہے‘‘ ۔ وہ بولا کہ زندگی اور موت تو میں بھی دے سکتا ہوں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا: ’’اللہ تو سورج کو مشرق سے نکالتا ہے تو اسے مغرب سے نکال کر دکھا‘‘ !(پس) وہ کافر ہکا بکا کر دیا گیا۔ اور اللہ بے انصافوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا‘‘ ۔ (البقرۃ:۲۵۸) روایات میں مذکور ہے کہ جب ابراہیم علیہ السلام نے پہلی دلیل دی تو نمرود نے دو قیدیوں کو طلب کیا۔ ان میں سے ایک کی رہائی کا فیصلہ ہوچکا تھا اور دوسرے کے قتل کا۔ لیکن نمرود نے مقدم الذکر کو قتل کروا دیا اور مؤخر الذکر کو رہا کر دیا۔ اور کہنے لگا کہ میں بھی زندگی و موت کا فیصلہ کرتا ہوں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام جان گئے کہ یہ کٹ حجتی پر اتر آیا ہے اور اسے ایسا جواب دیا کہ وہ مبہوت ہوگیا۔ لہذا دلیل کے میدان میں نمرود کو شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا اور ظلم و جبر کے سوا کوئی ایسی بنیاد نہیں بچی جس پر کہ وہ قائم رہ سکے۔
اللہ سے محبت کا عملی امتحان – جان کی قربانی
مذکورہ بالا واقعے کے بعد نمرود نے طیش میں آکر قوم سے خطاب کیا اور ان کے جذبات کو ابھارا۔ لہذا قوم والوں نے بھی ایک مذموم ارادہ کیا۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الأنبیاء میں قوم کے اس ارادے کو بایں الفاظ نقل فرمایا: ﴿قَالُوْا حَرِّقُـوْهُ وَانْصُرُوْٓا اٰلِهَتَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ فٰعِلِيْنَ﴾ ترجمہ: ’’وہ (ایک دوسرے سے) کہنے لگے ’آگ میں جلا ڈالو اس شخص کو اور اپنے خداؤں کی مدد کرو اگر تم میں کچھ کرنے کا دم خم ہے‘‘ ۔ (الأنبیاء:۶۸)بعد از ایں ایک الاؤ تیار کیا گیا اور اس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ڈال دینے کا حکم ہوا۔ اب آپ کے پاس دو اختیارات تھے۔ یا تو آپ توحید کی تعلیم سے رجوع کر لیتے یا پھر آگ میں کودنے کے لیے تیار ہو جاتے۔ اور ظاہر سی بات ہے انبیاے کرام علیہم السّلام کا عظیم منصب مؤخر الذکر اختیار ہی کو گوارا کرتا ہے۔ بقولِ اقبالؔ ؎
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق |
عقل ہے محو تماشاے لب بام ابھی |
اگر عقل سے مشورہ لیا جاتا تو پسپائی کا کوئی نہ کوئی راستہ تو نکل آتا مگر ابراہیم علیہ السلام عاشقانہ مزاج کے حامل تھے اور عشق عقل کا پابند نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ نے بھی صرف اس عزیمت کو ظاہر کرنا تھا،یکدم آگ کو حکم ہوا: ﴿كُـوْنِيْ بَرْدًا وَّسَلٰمًا عَلٰٓي اِبْرٰهِيْمَ﴾ترجمہ: ’’ٹھنڈی ہوجا اور ابراہیم علیہ السلام کے لیے سلامتی بن جا ‘‘ (الأنبیاء:۶۹) لہذا حضرت ابراہیم علیہ السلام بغیر کسی نقصان کے آگ سے باہر نکل آئے اور قوم والوں پر حجت تمام کردی۔ لیکن اس واقعے کے بعد واضح ہو گیا کہ اب یہ قوم اللہ پر ایمان لانے والی نہیں ہے۔ ان پر تمام امور واضح ہوچکے ہیں لیکن پھر بھی یہ لوگ شرک و کفر سے باز نہیں آرہے۔ لہذا آپ علیہ السلام نے اللہ کی خاطر وطن ترک کر دینے کا ارادہ کرلیا۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا: ﴿وَ قَالَ اِنِّىْ ذَاهِبٌ اِلٰى رَبِّيْ سَيَهْدِيْنِ﴾ترجمہ: ’’اور حضرت ابراہیم علیہ السلام بولے میں اپنے رب کی طرف جانے والا ہوں وہ مجھے راستہ دکھائے گا ‘‘ ۔ (الصافات:۹۹)
والدین کی محبت
ایک اصولی بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ یہ واقعات صرف تاریخ کا بیان نہیں ہے۔ بلکہ ہر بندہ ٔمومن کی زندگی کے کسی نہ کسی مرحلے پر ایسا موقع آتا ہے جب اسے اللہ کی خاطر کسی آزمائش سے گزرنا پڑتا ہے۔ لہذا یہ واقعات ایک بہترین اسوہ اور رویہ واضح کرتے ہیں۔ اس رویے پر گامزن ہوکر ایک شخص مصیبت کے وقت میں بھی اللہ کی رضا کا حامل ہو سکتا ہے۔ چنانچہ یہ واقعات تمام مسلمانوں کے لیے عمل کا موضوع ہیں۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام امتحانات میں آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ والدین کی محبت کوبھی قربان کر دینے کا مطالبہ سامنے آتا ہے۔ آپ بارہا اپنے والد کو لجاجت کے ساتھ سمجھاتے رہےلیکن وہ نہ سمجھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اپنے والد کے ساتھ مکالمہ نہ صرف دعوت و نصیحت کی اہمیت کو واضح کرتا ہے بلکہ اس طرزِ بیان کی طرف بھی اشارہ فرماتا ہے جو ایک بیٹے کو اپنے والد کے ساتھ اختیار کرنا چاہیے۔ البتہ جب یہ بات ظاہر ہوگئی کہ وہ بات ماننے والے نہیں ہیں تو آپ علیہ السلام نے ان سے بھی اعلانِ براءت کردیا۔ الفاظِ قرآنی ہیں: ﴿فَلَمَّا تَـبَيَّنَ لَہٗ اَنَّهٗ عَدُوٌّ لِّلّٰهِ تَبَرَّاَ مِنْهُ إنَّ اِبْرٰهِيْمَ لَاَوَّاهٌ حَلِيْمٌ﴾ ترجمہ: ’’پھر جب ان پر یہ بات واضح ہو گئی کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تو وہ اس سے دستبردار ہوگئے،حقیقت یہ ہے کہ ابراہیم علیہ السلام بڑی آہیں بھرنے والے بڑے بردبار تھے‘‘ ۔ (التوبۃ:۱۱۴)جب سگے والد نے آپ کو گھر سے نکال دیا تو بڑے تحمل کا اظہار کرتے ہوئے آپ نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ ان کے لیے استغفار کریں گے۔ البتہ جب آپ کو بذریعہ وحی یہ بتا دیا گیا کہ وہ بحالتِ کفر ہی انتقال فرمائیں گے تو آپ نےوالد کے لیے استغفارکے اس عمل کوبحکمِ خداوندی بھی ترک کردیا۔
قوم کی محبت
چونکہ انسان ایک اجتماعیت میں پروان چڑھتا ہے، اسے اپنے اطراف میں بسنے والے اشخاص سے بھی ایک خاص انسیت ہوتی ہے۔ البتہ بندۂ مومن کی ہر محبت و عداوت اللہ کی خاطر ہوتی ہے۔ لہذا اگر اس کے اطراف میں رہنے والے اشخاص اللہ کے دشمنوں کا کردار ادا کریں تو وہ ان سے بھی دست بردار ہو جاتا ہے۔ یہی رویہ ابراہیم علیہ السلام کا بھی تھا جس کی طرف قرآن مجید نے اشارہ فرمایا: ﴿قَدْ كَانَتْ لَكُمْ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِيْٓ اِبْرٰهِيْمَ وَالَّذِيْنَ مَعَهٗ ۚ اِذْ قَالُوْا لِقَوْمِهِمْ اِنَّا بُرَءٰؤُا مِنْكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ۡ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَۃُ وَ الْبَغْضَاءُ أَبَدًا حَتّٰی تُؤْمِنُوا بِاللہِ وَحْدَہٗ﴾ ترجمہ: ’’تمہارے لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں میں بہترین نمونہ ہے،جب انھوں نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ’ہمارا تم سے اور اللہ کے سوا تم جن کی عبادت کرتے ہو،ان سے کوئی تعلق نہیں ہے،ہم تمہارے (عقائد کے) منکر ہیں اور ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کے لیے دشمنی اور بغض پیدا ہو گیا ہے جب تک کہ تم صرف ایک اللہ پر ایمان نہ لاؤ‘‘ ۔ (الممتحنۃ :۴)اس علمِ توحیدکو بلند کرنے کے لیے جو ایمانی کیفیات درکار تھیں،اس شعر میں ان کا ذکر ہے ؎
کیا ڈر ہے جو ہو ساری خدائی بھی مخالف |
کافی ہے اگر ایک خدا میرے لیے ہے |
آج ہمارے معاشرے میں بھی ایک جبر کی کیفیت ہے۔ سوسائٹی کا اپنا ایک دباؤ ہے جو ایک خاص طرزِ زندگی کا متقاضی ہے۔ اب اس صورت میں دو رویے ہی ممکن ہیں ۔ یا تو انسان معاشرے ہی کے بہاؤ میں بہتا چلا جائے ؎
صدا ایک ہی رخ نہیں ناؤ چلتی |
چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی |
ی ا دوسرا رویہ جو کہ اسوۂ ابراہیمی کا بھی عکاس ہے اور دین کا بھی مطلوب کہ معاشرے کے خلاف ڈٹ جایا جائے۔ بقول اقبالؔ ؎
زمانہ با تو نہ سازد |
تو با زمانہ ستیز |
ہمارے دین کا تو یہ ہی مطالبہ ہے کہ اگر بندۂ مومن ایسے معاشرے میں رہتا ہے جہاں اللہ کے احکام کو پس پشت ڈالا جا رہا ہے تو اب وہ آمادگی کے ساتھ نہیں بلکہ ایک مسلسل کشکمش کی صورت میں زندگی بسرکرتا ہے۔
بیوی اور اولاد کی محبت
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے امتحانات ادھر آکر بھی مکمل نہ ہوئے۔ بلکہ اب وہ ایک اور پیرائے سے جانچے گئے۔ بطبعِ بشری ہر انسان اپنی بیوی اور بچوں سے بہت محبت کرتا ہے اور اگر اولاد سال ہا سال کی دعاؤں کے نتیجے میں نصیب ہوئی ہو تو اس کے ساتھ کس قسم کی لگن ہوگی اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ابھی حضرت اسماعیل علیہ السلام نوزائدہ ہی تھے کہ اللہ نے ماں بیٹے دونوں کو حجاز کی ایک سنگ لاخ وادی میں چھوڑ دینے کا حکم دیا۔ یہ بات کس کو معلوم تھی کہ یہ سنسان اور غیر آباد علاقہ ایک دن مکہ مکرمہ اور ام القری کہلائے گا۔ ام القری تو دور کی بات حال تو یہ تھا کہ زمین ایک دم بنجر تھی۔ نہ کھانے کو کچھ اگتا تھا اور نہ پانی کی کوئی سہولت فراہم تھی۔ قرآنِ حکیم میں کہا گیا: ﴿بِوَادٍ غَیْرٍ ذِیْ زَرْعٍ﴾ ترجمہ: ’’ایسی وادی جہاں کوئی زراعت نہیں ہوتی‘‘ ۔ (ابراہیم:۳۷)لیکن خلیل اللہ کہاں پیچھے ہٹنے والے تھے۔ اہلیہ و بیٹے سمیت مکہ کی جانب قصد کیا یہاں تک کہ خود جا کر انھیں وہاں آباد کردیا۔ ایک بار پھر غیب کے دروازوں سے نصرت کا نزول ہوا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کے مطابق تمام اطراف سے لوگ اس وادی کی طرف کھچے چلے آئے۔ نیز طرح طرح کے میوے ادھر میسر ہوگئے۔ آج بھی اس بستی میں ان برکتوں کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔
امتحانات کا نقطۂ عروج
جب حضرت اسماعیل علیہ السلام نو عمری کو پہنچ گئے اور والد کے ساتھ کچھ دوڑ دھوپ کے قابل ہو گئے تو ایک اور امتحان سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو گزارا گیا۔ اپنی ساخت میں یہ امتحان تمام آزمائشوں کا نقطۂ عروج ثابت ہوا: ﴿رَبِّ هَبْ لِيْ مِنَ الصّٰلِحِيْنَ * فَبَشَّرْنٰهُ بِغُلٰمٍ حَلِـيْمٍ * فَلَمَّا بَلَــغَ مَعَهُ السَّعْيَ قَالَ يٰبُنَيَّ اِنِّىْٓ اَرٰى فِي الْمَنَامِ اَنِّىْٓ اَذْبَحُكَ فَانْظُرْ مَاذَا تَرٰى قَالَ يٰٓاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِيْٓ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰبِرِيْنَ * فَلَمَّآ اَسْلَمَا وَتَلَّهٗ لِلْجَبِيْنِ * وَنَادَيْنٰهُ اَنْ يّـٰٓاِبْرٰهِيْمُ * قَدْ صَدَّقْتَ الرُّءْيَا ۚ اِنَّا كَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِيْنَ * اِنَّ ھٰذَا لَهُوَ الْبَلٰؤُا الْمُبِيْنُ * وَفَدَيْنٰهُ بِذِبْحٍ عَظِيْمٍ﴾ ترجمہ: ’’اے پروردگار مجھے (اولاد)عطا فرما جو نیکو کاروں میں سے ہو۔ تو ہم نے اسے ایک بردبار لڑکے کی خوشخبری دی۔ جب وہ ان کے ساتھ دوڑدھوپ (کی عمر) کو پہنچا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا: ’’بیٹا میں خواب میں دیکھتا ہوں (گویا)تم کو ذبح کر رہا ہوں تو تمہارا کیا خیال ہے؟‘‘ بیٹے نے کہا: ’’اے ابا جان! جو آپ کو حکم ہوا ہے وہی کیجیے، اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے‘‘ ۔ جب دونوں نے حکم مان لیا اور باپ نے بیٹے کو ماتھے کے بل لٹا دیا۔ تو ہم نے اسے پکارا: ’’اے ابراہیم!تم نے تو خواب کو سچا کر دکھایا‘‘ ۔ ہم نیکوکاروں کو ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں۔ بلاشبہہ یہ ایک بڑی آزمائش تھی اور ہم نے ایک بڑی قربانی کو ان کا فدیہ بنا دیا‘‘ ۔ (الصافات:۱۰۷- ۱۰۰) مفسرینِ کرام رحمتہ اللّٰه علیہم فرماتے ہیں کہ اس وقت حضرت اسماعیل علیہ السلام کی عمر تقریبًا تیرہ سال تھی۔ نیز حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جو حضرت اسماعیل علیہ السلام سے مشورہ طلب کیا وہ تعمیلِ فعل سے نہیں بلکہ طرزِ تعمیلِ فعل سے متعلق تھا۔ صاحبزادے کا جواب بھی پدر کی اعلیٰ تربیت پر دال تھا ۔ فرمایا کہ اے ابا جان! تاخیر کیوں فرماتے ہیں، وہ کام کر گزریے جس کا حکم دینے والی ذات ربِ ِ کائنات کی ہے۔ اقبالؔ نے اس کیفیت کا کیا خوب نقشہ کھینچا ہے ؎
یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی |
سکھائے کس نے اسماعیل کو آدابِ فرزندی |
بعض لوگوں نے یہاں ایک اشکال ظاہر کیا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ایک خواب کی بنا پر اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کا فیصلہ کیسے صحیح ہو سکتا تھا؟ یہ بات درست نہیں ہے کیونکہ نبی کا خواب وحی کی ایک صورت ہے لہذا یہ اللہ ہی کا حکم تھا جس کی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تعمیل فرمائی تھی۔ اسی عظیم قربانی کا قصد کر کے دونوں باپ بیٹے گھر سے نکلے تھے کہ شیطان نے راستے ہی میں وسوسہ اندازی کی کوشش شروع کردی۔ لہذا تین مقامات پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس کو پتھر مار مار کر بھگا دیا۔ اسی عمل کو اللہ تعالیٰ نے جَمَرات کی رمی کی صورت میں آئندہ آنے والے تمام مسلمانوں کے لیے مشروع ٹھہرا دیا۔ مذکورہ بالا آیات میں دونوں انبیا علیھم السّلام کی فرمانبرداری کی کیفیت کو أسلما کے فعل سے تعبیر فرمایا گیا۔ غور طلب بات ہے کہ اسی فعل کا مصدر اسلام بنتا ہے۔ معلوم ہوا کہ نفسِ بندگی و طاعت خود لفظ اسلام میں پنہاں ہے۔ ہر بندۂ مومن سے یہ رویہ مطلوب ہے کہ اللہ کے احکام کے آگے سرِ تسلیم خم کردے۔ اور یہ ہی اسوۂ ابراہیمی کا سب سے بڑا مظہر ہے۔ البتہ یہ طرزِ زندگی اختیار کرنا آسان نہیں ہے۔ بقولِ اقبالؔ ؎
یہ شہادت گہِ الفت میں قدم رکھنا ہے |
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا |
ایک فارسی شعر میں اسی حقیقت کو بایں الفاظ بیان فرمایا گیا ؎
چوں می گویم مسلمانم بلرزم |
کہ دانم مشکلاتِ لا الہ را |
آج ہماری زندگی میں جو امور بھی کسی قربانی کے متقاضی ہوتے ہیں وہاں یہ واقعات ہمیں رہنمائی کا سامان فراہم کرتے ہیں۔ علماے کرام فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے لختِ جگر کو پیشانی کے بل اس لیے لٹایا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس پر نظر پڑ جائے اور پدری جذبات غالب آجائیں۔ نیز کہیں وقتًا ہی ہاتھ رک جائے اور اللہ کے حکم میں تاخیر ہوجائے یہ بات بھی آپ کو گوارا نہ تھی۔ اس قدر اہتمام،بندگی و طاعت کے باعث اللہ کی مدد ایک بار پھر شاملِ حال ہوئی اور اس بار حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کامیابی کی سند بھی عطا کردی گئی۔ خالقِ کائنات نے اپنی شان کے مطابق اپنے خلیل کو ندا دی اور نہ صرف ان کے عزم کی تعریف کی بلکہ اس امتحان کو ایک ’’بڑی آزمائش‘‘ سے تعبیر فرمایا۔ اگر ممتحن خود کسی امتحان کو بڑی آزمائش قرار دے تو چشمِ تصور میں اس دقت و مشقت کو لایا جاسکتا ہے جو اس امتحان کے ساتھ ملحق ہوگی۔ روایات میں مذکور ہے کہ اللہ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کےذریعے ایک مینڈھا آسمان سے بھیجا۔ انھوں نے اس مینڈھے کوحضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ رکھ دیا اور وہ چھری جو اصلًا بیٹے کا قصد کی ہوئی تھی اس مینڈھے پر چلا دی گئی۔ اسی طریقے کو اللہ نے بعد والوں کے لیے جاری فرمادیا: ﴿وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الْاٰخِرِينَ﴾ ترجمہ: ’’اور اسی طریقے کو ہم نے بعد والوں کے لیے قائم فرمادیا‘‘ ۔ (الصافات:۱۰۸) یعنی جب دونوں باپ بیٹے نے ممتحن کے معیار پر پورا اتر کر دکھا دیا تو اللہ نے بھی اس طریقے کو بقیہ نوعِ انسانی کے لیے جاری کردیا۔ اور اس عمل کو ایک علامت بنا دیا کہ جب اللہ کے دین کا کوئی مطالبہ سامنے آئے تو جان دینے اور لینے میں بھی کوئی جھجک محسوس نہیں کرنی چاہیے جیسا کہ جہاد فی سبیل للہ میں ہوتا ہے۔ لہذا جہاں بقر عید کےموقعے پر جانوروں پر چھری پھیرنا مشروع ہے وہیں اس کیفیت کو اجاگر کرنا بھی دین کے مقاصد میں سے ہے۔ ہر فرد کو اپنا جائزہ خود لینا چاہیے کہ کیا وہ صرف ایک جانور پر چھری پھیر رہا ہے یا اپنی نفسانی خواہشات اور جھوٹی انانیت کا بھی سر قلم کر رہا ہے۔ کیا وہ اپنی عزت نفس کو بھی اللہ تعالیٰ کے لیے قربان کرنے کے لیے تیار ہے؟کیا وہ عبادات کے لیے اپنے آرام کو ترک کرسکتا ہے؟کیا وہ حرام اشیاکو بھی ترک کرنے کے لیے تیار ہے؟نیز کیا وہ دین کے جمیع مطالبات پر عمل کرنے کی نیت بھی کر رہا ہے؟حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اسوہ تو ان تمام پہلوؤں سے رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اور یہ ہی طریقہ جناب سرورِ دو عالم ﷺ کا تھا۔ جہاں آپ ﷺ کی نماز و قربانی اللہ تعالیٰ کے لیے خالص تھی وہیں آپ کا جینا مرنا بھی خالقِ کائنات ہی کے واسطے تھا۔ آیت ملاحظہ ہو: ﴿إنَّ صَلَاتِی وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ﴾ ترجمہ: ’’میری نماز،میری قربانی،میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ کے لیے ہے جو تمام جہان والوں کا رب ہے‘‘ ۔ (الأنعام:۱۶۲)
بندۂ مومن کی مطلوب کیفیت کا نقشہ مندرجہ ذیل شعر میں کھینچا گیا ؎
وبالِ دوش ہے اس نا تواں کو سر لیکن |
لگا رکھا ہے تیرے خنجر و سناں کے لیے |
یہ جان تو اصلًا اللہ کےدین کے لیے لگا دی جانے والی بازی ہے۔ اگر اس فعلِ قربانی سے یہ ذوقِ عبادت و شوق ِشہادت استوار نہیں ہوتا تو پھر عبادت کا ظاہری تقاضہ تو پورا ہورہا ہے البتہ باطنی روح ابھی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ بقولِ اقبالؔ ؎
نماز و روزہ و قربانی و حج |
یہ سب باقی ہے تو باقی نہیں ہے |
اگرچہ اس بے روح پیکر کو بھی انجام دینا فائدے سے خالی نہیں ہے لیکن جہاں نفسِ عبادت مقصود ہے وہیں اس عبادت کی روح بھی اللہ کے یہاں مقبولیت کی ایک شرط ہوتی ہے۔ جس طرح انسان روح کے بغیر میت قرار پاتا ہے اسی طرح یہ عبادات بھی اپنی ارواح کے بغیر کامل درجے میں مقبول نہیں ہوا کرتیں۔ ﴿لَنْ يَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلٰكِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوٰي مِنْكُمْ﴾ ترجمہ: ’’اللہ تک نہ ان کا گوشت پہنچتا ہے نہ ان کا خون بلکہ اس تک تمہارا تقوی پہنچتا ہے‘‘ ۔ (الحج:۳۷)یہ تقوی اعمال میں اخلاص کا متقاضی ہےاور کمائی میں حلال کا طالب ہے نیز یہ پوری زندگی میں اللہ کی فرمانبرداری کا سبق دیتا ہے۔ مزید برآں یہ تقوی جو کہ اس قربانی کی روح ہے کسی ایک عمل کا نام نہیں ہے۔ بلکہ یہ تو ایک باطنی کیفیت سے عبارت ہے جو کہ تمام اعمال میں جاری و ساری ہوا کرتی ہے۔ اگر یہ کیفیت ہماری عبادات میں سرایت کی ہوئی ہے تو پھر قربانی بھی ہماری صحیح کیفیات کی صحیح علامت ہے اور اگر ایسا نہیں ہے تو ایک علامت تو موجود ہے لیکن کیفیات کا فقدان ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان حکمتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اس عظیم عبادت کو سر انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے ۔
عشرہ عربی میں دس کو کہتے ہيں۔ يہاں اس سے ذوالحجہ کے ابتدائی دس دن مراد ہیں۔ ان ایام کے بہت سے فضائل احادیث میں وارد ہوئے ہیں۔ جو اعمال ان میں نبی ﷺ نے تلقین فرمائے ہیں ان میں سے بعض واجب کا درجہ رکھتے ہیں،بعض سنتِ مؤکدہ کا اور بقیہ احکام مستحب واقع ہوئے ہیں۔ اولاً ان ایام کی فضیلت کو سمجھ لینا مفید ہوگا۔
عشرۂ ذوالحجہ کے چند فضائل
سورة الفجر کے آغاز میں اللہ تعالیٰ نے بعض قسمیں اٹھائیں ہیں۔ علماےکرام فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جب قرآن مجید میں کسی شے کی قسم اٹھاتے ہیں تو اس کا ایک مقصد ’’مقسوم بہ ‘‘ کی فضیلت ظاہر کرنا بھی ہوتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَالْفَجْرِ * وَلَیَالٍ عَشْرٍ * وَّالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ﴾ ترجمہ: ’’قسم ہے فجر کی، اور دس راتوں کی ، اور جفت اور طاق کی‘‘ ۔ (سورۃ الفجر: ۳- ۱) پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے فجر کے وقت کی قسم اٹھائی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ وقت اپنے دامن میں بہت سی فضیلتیں سمیٹے ہوئے ہے۔ بعض علماے کرام فرماتے ہیں کہ اس آیت میں خاص یومِ عرفہ کی فجر مراد ہے۔ اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے دس راتوں کی قسم اٹھائی۔ ان دس راتوں کو متعین کرنے میں مفسرین نے الگ الگ آرا کا اظہار کیا ہے۔ لیکن اکثریت کا رجحان ذو الحجّہ ہی کی ابتدائی دس راتوں کی جانب ہے۔ معلوم ہوا کہ ان راتوں کی خاص فضیلت ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ بہت سے علما ے کرام نے یہ بحث فرمائی کہ پورے سال میں سب سے زیادہ فضیلت کے حامل ایام کون سے ہیں۔ اسی بحث کے نتیجے میں بعض حضرات نے تو ذو الحجّہ کے ابتدائی دس ایام کو رمضان کے آخری عشرے سے بھی زیادہ فضیلت کا حامل قرار دیا ہے۔ اگرچہ اکثریت کی رائے اس سے مختلف ہے مگر وہ حضرات بھی رمضان کے آخری عشرے کو صرف لیلۃ القدر کے باعث افضل جانتے ہیں۔ تیسری آیت میں اللہ تعالیٰ نے جفت اور طاق کی قسم اٹھائی ہے۔ اگرچہ ان کے تعیّن میں بھی بہت سے اقوال ہیں لیکن یہاں مضمون کی مناسبت سے ایک قول پیش کیا جاتا ہے،وہ یہ کہ جفت سے یوم النّحر اور طاق سے یومِ عرفہ مراد ہے۔ (دیکھیے زادالمسیر از امام ابن جوزی رحمتہ اللہ )
اسی طرح نبی ﷺ کی ایک حدیثِ مبارکہ ملاحظہ ہو: ((مَا الْعَمَلُ فِي أَيَّامٍ أَفْضَلَ مِنْهَا فِي هَذِهِ، قَالُوا:وَلا الجِهَادُ، قَالَ: وَلَاالجِھادُ، إِلَّا رَجُلٌ خَرَجَ يُخَاطِرُ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ، فَلَمْ يَرْجِعْ بِشَيْءٍ))[7] ترجمہ: ’’کوئی دن ایسا نہیں ہوتا جس میں اللہ کے نزدیک اچھے اعمال ذو الحجّہ کے پہلے دس دن میں کیےہوئے اعمال سے زیادہ محبوب ہوں۔ صحابہ رضی اللہ عنھم نے دریافت کیا: یا رسول اللہ! کیا اللہ کی راہ میں جہاد بھی نہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ کی راہ میں جہاد بھی نہیں سوائے اس شخص کے جو جان و مال لے کر جہاد کے لیے نکلے اور پھر ان میں سے کوئی چیز بھی واپس نہ لائے‘‘ ۔
معلوم ہوا کہ اللہ کے نزدیک ان ایام کی غیر معمولی اہمیت ہے۔
عشرۂ ذوالحجہ کے چند اعمال
ذوالحجہ کے پہلے عشرے میں کئی اعمال مشروع ٹھہرائے گئے ہیں۔ ان میں سے بعض تو مستحب و مسنون ہیں اور بعض واجب کے درجے کے ہیں ۔ اب ہم ان اعمال کو ان کی فضیلت اور ان کی فقہی و شرعی حیثت و حکم کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ دین کے اصولوں میں سے ایک اصول یہ بھی ہے کہ کسی کی مشابہت بھی اس کے اجر یا وزر(وبال) میں شریک کر دیتی ہے۔ نیک لوگوں کی مشابہت نیکوں کے زمرے میں جبکہ فسّاق و فجّار کی مشابہت اُن ہی کے زمرے میں شریک کر دیا کرتی ہے۔ اس بات کو آپ ﷺ نے یوں تعبیر فرمایا: ((مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ))[8]ترجمہ: ’’جو جس قوم کی مشابہت کرتا ہے وہ اُن ہی میں شمار کیا جائے گا‘‘ ۔ ایک اور روایت میں فرمایا: ((مَنْ کَثَّرَ سُوَادَ قَوْمٍ فَھُوَ مِنْھُمْ))[9]ترجمہ: ’’جو کسی قوم کے پرستاروں کی تعداد میں اضافے کا ذریعہ بنے تو وہ اُن ہی میں شمار کیا جائے گا‘‘ ۔ ایک معنی یہ بیان کیا گیا کہ دنیا میں ان میں شمار کیا جائے گا جبکہ بعض نے اسے آخرت سے متعلّق مانا ہے۔ اور ایک معنی تو بالکل واضح ہے کہ وہ ان کے اجر یا وزر (وبال)میں شریک ٹھہرا دیا جائے گا۔ چونکہ ان ایام میں بہت سے حضرات احرام کی پابندیوں میں حج کی عظیم عبادت ادا کر رہے ہوتے ہیں اور اِن ہی میں ایک پابندی بال اور ناخن نہ کاٹنے کی بھی ہے ،اس لیے تمام اطراف و اکنافِ عالم میں بسنے والے مسلمانوں کو بھی اس کی ترغیب دے کر حجاج کی فضیلت میں شریک کر لیا گیا۔ ارشادِ نبوی علیہ السلام ہے: (( إِذَا رَأَيْتُمْ هِلَالَ ذِي الْحِجَّةِ وَأَرَادَ أَحَدُكُمْ أَنْ يُضَحِّيَ فَلْيُمْسِكْ عَنْ شَعْرِهِ وَأَظْفَارِہٖ)) [10] ترجمہ: ’’جب ذو الحجّہ کا مہینہ شروع ہو اور تم میں سے کسی کا قربانی کا ارادہ ہو تو اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے‘‘ ۔ اس روایت میں تو صرف قربانی کا ارادہ رکھنے والے کا ذکر آیا ہے جبکہ دیگر روایات میں اس عمل کو بقیہ مسلمانوں کے لیے بھی مشروع قرار دیا گیا ہے۔
ایک روایت ملاحظہ ہو: ((أُمِرْتُ بِيَوْمِ الْأَضْحَى عِيدًا جَعَلَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِھَذِهِ الْأُمَّةِ، قَالَ الرَّجُلُ: أَرَأَيْتَ إِنْ لَمْ أَجِدْ إِلَّا أُضْحِيَّةً أُنْثَى أَفَأُضَحِّي بِهَا * قَالَ :لَا وَلَكِنْ تَأْخُذُ مِنْ شَعْرِكَ وَأَظْفَارِكَ وَتَقُصُّ شَارِبَكَ وَتَحْلِقُ عَانَتَكَ فَتِلْكَ تَمَامُ أُضْحِيَّتِكَ عِنْدَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ))[11]ترجمہ: ’’فرمانِ رسول ﷺ ہے: مجھے حکم دیا گیا ہے یوم الاضحیٰ کو عید منانے کا ،(کہ) اللہ نے اس دن کو اس امت کے لیے (عید)بنا دیا ہے۔ ایک صاحب نے دریافت کیا: اے اللہ کے رسول! اگر میرے پاس صرف ایک بکری یا اونٹنی ہو جسے میں نے کسی کام سے اجارے وغیرہ پر لیا ہو تو کیا میں اسے ذبح کر دوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں، بلکہ (جب بقیہ افراد ذبیحہ پیش کریں)تو تم اپنے بال اور ناخن کاٹ لینا اور موچھیں کتروا لینا اور زیرِ ناف بال صاف کر لینا، پس اللہ کے نزدیک اسی پر تمھارے لیے قربانی کا پورا پورا اجر ہوگا‘‘۔
ہمارے علماےاحناف کے نزدیک ان ایام میں بالوں اور ناخنوں کا نہ کاٹنا قسمِ مستحب میں شامل ہے یعنی پابندی پر ثواب ہے، اگر پابندی نہ بھی کرے تو گناہ نہیں ہوگا۔ جبکہ حنابلہ کے نزدیک ان کا کاٹنا حرام ہے۔ [12]
دن کا روزہ اور شب کی عبادت
فضیلتِ عشرۂ ذوالحجہ سے متعلق مذکورہ روایت سے یہ بات تو واضح ہے کہ ان ایام میں کیا جانے والا ہر نیک عمل بقیہ ایام کی نسبت زیادہ فضیلت کا حامل ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان ایام کو قیمتی کس طرح بنایا جائے۔ کیوں کہ دین کی اساس نبی ﷺ اور خیر القرون پر قائم ہے تو اس معاملے میں بھی ان ہی سے رجوع کرنا مفید معلوم ہوتا ہے۔ نبی ﷺ نے ان ایام میں مسلسل روزے رکھنے کی عبادت کو مشروع ٹھہرایا ہے اور ان راتوں کے لیے قیام اللیل کی خصوصی ترغیب بھی دی ہے۔ ارشادِ نبوی ہے: ((مَا مِنْ أَيَّامِ الدُّنْيَا أَيَّامٌ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ سُبْحَانَهُ أَنْ يُتَعَبَّدَ لَهُ فِيهَا، مِنْ أَيَّامِ الْعَشْرِ، وَإِنَّ صِيَامَ يَوْمٍ فِيهَا لَيَعْدِلُ صِيَامَ سَنَةٍ، وَلَيْلَةٍ فِيهَا بِلَيْلَةِ الْقَدْرِ))[13]ترجمہ: ’’اللہ کے نزدیک کسی بھی دن کی عبادت عشرۂ ذوالحجہ کی عبادت سے زیادہ محبوب نہیں ہے، اس کے ہر دن کا روزہ سال بھر کے روزوں کے برابر اور اس کی رات کا قیام لیلۃ القدر کے قیام کے برابر ہے‘‘ ۔
یومِ عرفہ کا روزہ
جہاں اس عشرے میں روزوں کی عمومی ترغیب دی گئی ہے وہیں یومِ عرفہ یعنی نو ذو الحجّہ کے روزے کو خصوصی اہمیت کا حامل ٹھہرایا گیا ہے۔ عرفہ اس میدان کا نام ہے جہاں حجاجِ کرام نو ذو الحجّہ کو قیام فرماتے ہیں۔ حدیث میں آیا: ((الحَجُّ یَوْمُ عَرَفَۃَ))[14] ترجمہ: ’’حج قیامِ عرفہ کا نام ہے‘‘ ۔ حجاج کے لیے اس دن کی اہمیت وقوف کے اعتبار سے ہے، اس لیے حجاج اس دن کا روزہ نہیں رکھیں گے۔جبکہ بقیہ اطراف و اکنافِ عالم میں بسنے والے مسلمانوں کے لیے اس دن کا روزہ مشروع ٹھہرایا گیا ہے۔ سنن ابی داود کی روایت ہے: ((كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَصُومُ تِسْعَ ذِي الْحِجَّةِ، وَيَوْمَ عَاشُورَاءَ))[15] ترجمہ: ’’رسول اللہ ﷺ نوذوالحجہ اور یومِ عاشورا کا روزہ رکھا کرتے تھے‘‘ ۔ اس روایت میں نبی ﷺ نے روزے کی فضیلت کو نو تاریخ کے ساتھ متعلق کیا ہے،اسی لیے علماء نے فرمایا کہ تمام اطرافِ عالم میں بسنے والے مسلمان اپنی رؤیتِ قمری کے اعتبار سے اس روزے کا تعین کریں گے۔ عوام میں یہ بات غلط مشہورہے کہ نو ذوالحجہ کا روزہ سعودی عرب کی رؤیت کے مطابق رکھا جائے گا۔ حالانکہ جس طرح رمضان و عید کے تعین میں اپنی ہی رؤیت کا اعتبار ہوتا ہے اسی طرح ۹ ذوالحجہ کی فضیلت بھی اپنی ہی رؤیت سے متعلق ہے۔ اس بات کو یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ یہ روزہ اصلا غیر حجاج کے لیے مشروع ہے،حجاج کے لیے اس دن روزہ رکھنا ممنوع ہے، تو یہ بات کیسے ممکن ہو سکتی ہے کہ اس کے تعین میں حجاج کی رؤیت کا اعتبار ہو۔ پس معلوم ہوا کہ یہ روزہ بھی تمام مسلمان اپنی اپنی رؤیت کے اعتبار سے ہی رکھیں گے۔ اس روزے کی فضیلت کو نبی ﷺ نے بایں الفاظ بیان فرمایا: ((صِيَامُ يَوْمِ عَرَفَةَ، أَحْتَسِبُ عَلَى اللهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ وَ السَّنَۃَ الَّتِیْ بَعْدَہُ))[16] ترجمہ: ’’یومِ عرفہ کے روزے کے بارے میں؛ میں اللہ سے امید رکھتا ہوں کہ یہ ایک سال قبل اور ایک سال بعد کے گناہوں کا کفارہ ہو جائے گا‘‘ ۔ معلوم ہوا کہ عمل تو بہت ہی مختصر ہے مگر اس پر جو اجر دیا جا رہا ہے وہ نہایت قیمتی و بیش بہا ہے۔ یہ اجر و ثواب ویسے تو ہر شخص کے لیے ہے لیکن ایک بات کو ملحوظِ خاطر رکھنا چاہیے۔ اور وہ یہ کہ کبیرہ گناہ توبہ کے بغیر معاف نہیں ہوتے،لہذا ایسے گناہوں سے توبہ کےساتھ اگر یہ اعمال انجام دیے جائیں تو نہایت مفیدثابت ہوں گے۔ لہذا اس فضیلت کو سمیٹنے کا خود بھی اہتمام کرنا چاہیے اور گھر والوں کو بھی اس کی ترغیب دلانی چاہیے۔
اس عشرے کا خاص عمل
ہمارے دین کا یہ مستقل قاعدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جس شے کو چاہیں فضیلت بخش دیں، قرآن میں فرمایا: ﴿وَرَبُّکَ یَخْلُقُ مَا يَشَآءُ وَ یَخْتَارُ﴾ ترجمہ: ’’اورتمھارا پروردگار جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور (جو چاہتا ہے)پسند کرتا ہے‘‘ ۔ (القصص: ۶۸) معلوم ہوا کہ عقل پرست شخص دین دار نہیں ہو سکتا۔ جس شخص کو دین کا ہر حکم ماننے کے لیے logical reasoning سے گزرنا پڑتا ہو وہ دین کے مزاج سے آشنا ہی نہیں ہوا۔ یہ دین اللہ کا ہے اور یہ اسی کے مختارِ کل ہونے کا مظہر ہے کہ وہ جس شے کو چاہے افضل قرار دے دے،اگرچہ عقل اس فضیلت کو نہ سمجھتی ہو۔ مثلًا سال میں بارہ مہینے ہیں،حجم کے اعتبار سے سب ہی برابر ہیں لیکن اللہ نے رمضان کے مہینے کو بقیہ کی نسبت ایک خاص مقام دے دیا۔ اسی طرح جمعے کا دن بقیہ ایام سے افضل قرار پایا۔ و علی ہذا القیاس۔ آج کا جدید ذہن چاہتا ہے کہ پہلے ہر بات کو سمجھ لے اور پھر مانے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے بہت سے ایسے احکام جاری کیے ہیں جن کی حکمت صرف وہ ہی جانتا ہے اور ان کی مقصدیت کو سمجھے بغیر ہی انھیں انجام دے دینا مقصود ہے جیسا کہ مضمون کے آغاز میں مفصلاً ذکر ہوا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے بعض ایام میں بعض اعمال کا اجر بڑھا دیا ہے۔ ویسے تو ان ایام میں تمام ہی اعمال قیمتی ہوتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی حکمتِ کاملہ کے تحت کوئی ایک خاص عمل بقیہ اعمال سے بھی افضل قرار پاتا ہے۔ مثلًا رمضان کا ہر عمل ہی مبارک ہے مگر تلاوتِ قرآن اس مہینے کا خاص عمل شمار کیا جاتا ہے۔ اسی طرح ذوالحجہ کے پہلے عشرے میں یہ اعلی فضیلت ذکر و اذکار کے ساتھ خاص کی گئی ہے۔ پھر تمام اذکار میں سے بھی تسبیح، تحمید، تہلیل اورتکبیر کو افضلیت بخشی گئی ہے۔ (یہ تمام کلمات تیسرے کلمے میں جمع کردیے گئے ہیں)۔ ارشادِ نبوی ہے: ((مَا مِنْ أَيَّامٍ أَعْظَمُ عِنْدَ اللَّهِ وَلَا أَحَبُّ إِلَيْهِ مِنَ الْعَمَلِ فِيهِنَّ مِنْ هَذِهِ الْأَيَّامِ الْعَشْرِ، فَأَكْثِرُوا فِيهِنَّ مِنَ التَّهْلِيلِ وَالتَّكْبِيرِ وَالتَّحْمِيدِ))[17]ترجمہ: ’’کوئی دن اللہ کے نزدیک عشرۂ ذوالحجہ سے زیادہ عظمت والا نہیں ہےاور کسی دن میں کیا ہوا عمل بھی اللہ کے نزدیک ان ایام میں کیے ہوئے عمل سے زیادہ محبوب نہیں، ہےتو پس تم ان ایام میں تہلیل، تکبیر اور تحمید کی کثرت کیا کرو‘‘ ۔ تہلیل سے لا الہ الا اللہ، تحمید سے الحمدللہ اور تکبیر سے اللہ اکبر کہنا مراد ہے۔ بعض روایات میں تسبیح (سبحان اللہ کہنا) کا بھی ذکر آیا ہے۔ حضرت ابنِ عمر رضی اللّٰه عنہ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللّٰه عنہ کا تو معمول تھا کہ آپ حضرات ان ایام میں بازاروں میں جا کر بلند آواز سے تکبیر پڑھا کرتے تھے، یہاں تک کہ بقیہ افراد بھی ساتھ آواز یں ملا لیا کرتے تھے۔ ہماری زندگی میں کچھ اوقات ایسے ہوا کرتے ہیں جن میں لازمی طور پر کچھ نہ کچھ وقت ضائع ہو رہا ہوتا ہے۔ جسے آج compulsory waste of time سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ خصوصًا ان ایام میں اور عمومًا پورے سال میں تمام اوقات کو اللہ کے ذکر سے حقیقتاً قیمتی بنالینا چاہیے۔ ان اذکار کےعلاوہ استغفار کو بھی ایک خاص فضیلت سے نوازا گیا ہے۔ ہر فرد کوچاہیےکہ روزانہ کثرت سے اس کا بھی ورد کیا کرے۔
تکبیرِ تشریق
عشرۂ ذوالحجہ کے واجب اعمال میں سے ایک عمل تکبیراتِ تشریق کا ہے۔ جہاں ذکر و اذکار کی عمومی ترغیب دی گئی ہے وہیں یہ خاص ذکر ایسا ہے جسے واجب ٹھہرا دیا گیا ہے۔ احادیث میں دو مختلف طریقوں سے اس کا ذکر وارد ہوا ہے۔ پہلا طریقہ ملاحظہ ہو:اللهُ أكْبَرُ اللهُ أكْبَرُ لَا إلٰہ َ إلَّا الله ُ وَ الله ُ أكْبَر ُ الله ُ أكْبَر ُ و لله ِ الْحَمْدُ[18]دوسرا صیغہ بایں الفاظ نقل ہوا: اللهُ أكْبَرُ کَبِیْرًا وَّ سُبْحَانَ اللہِ وَ بِحَمْدِہٖ بُکْرَۃً وَّ أَصِیْلًا[19]اس تکبیر کو دونوں ہی طریقوں سے پڑھنا جائز ہے۔ اگرچہ ہمارے علماےاحناف کے نزدیک پہلا اور شوافع کے نزدیک دوسرا طریق اولیٰ ہے۔
طریقہ:۹ ذوالحجہ کی فجر سے لے کر ۱۳ ذوالحجہ کی عصر تک ہر فرض نماز کے بعد ایک مرتبہ بلند آواز سے اس تکبیر کا پڑھنا واجب ہے۔ مفتی ٰ بہ قول کے مطابق یہ تکبیر؛ امام ،مقتدی ،منفرد، مسبوق، مرد و عورت سب ہی پر واجب ہے۔ [20]مسافر پر اصلًا تو یہ تکبیر واجب نہیں ہے لیکن اگر وہ کسی مقیم امام کی اقتدا میں نماز ادا کرے تو تبعًا اس پر بھی اس کا وجوب ثابت ہو جاتا ہے۔ مردوں کے لیے باآوازِ بلند اور مستورات کے لیے آہستہ آواز میں اس تکبیر کا پڑھنا واجب ہے۔ مرد چونکہ عمومًا مسجد میں با جماعت نماز ادا کرتے ہیں اس لیے ان کے لیے اس تکبیر کا یاد رکھنا آسان ہوتا ہے۔ خواتین کو چاہیے کہ عمومًا گھر کے جس حصے میں نماز ادا کرتی ہیں وہاں کوئی ایسی علامت لگا لیں جو کہ ان تکبیرات کی یاد دہانی کا ذریعہ بن جائے۔ لہذا وہ بھی باآسانی اس واجب کو ادا کر پائیں گی۔ اگر کوئی شخص یہ تکبیرات پڑھنا بھول جائے یا نماز کے فورًا بعد قصدًا وضو توڑ دے تو اب ان تکبیرات کو نہ پڑھے۔ لیکن چونکہ اس نے ایک واجب عمل کو ترک کیا اس لیے اس پر توبہ و استغفار کرنا لازم ہوگا۔
یہاں ایک حکمت کی بات بھی سمجھ لینا مفید ہوگا، وہ یہ کہ جن ایام میں یا جن مقامات پر تعظیم کے باعث نیکیوں کا اجر بڑھ جایا کرتا ہے اِن ہی مواقع پر گناہ کا وزر بھی بڑھ جاتا ہے۔ یہ اس لیے کہ اتنے عظیم موقعے پر نیکیوں میں آگے بڑھنے کی بجائے معاصی پر گامزن رہنا شعائر اللہ کی توہین کے مرادف ہے۔ لہذا ان ایام میں خصوصًا اور بقیہ ایام میں عمومًا ہر طرح کی معصیت سے بچنے کا خوب اہتمام ہونا چاہیے۔ یہ کچھ وہ اعمال تھے جن کا تعلق پورے عشرے سے تھا اب چند وہ مباحث پیش کیے جاتے ہیں جن کا تعلق ۱۰ ذوالحجہ سے ہے۔
قربانی
’’قربان‘‘ عربی زبان کا مصدر ہے۔ اگرچہ اردو زبان میں جس عمل کو قربانی سے تعبیر کیا جاتا ہے اس کے لیے عربی زبان میں ’’أضحیّۃ‘‘ کی اصطلاح مستعمل ہے۔ اس کی جمع ’’أضاحی‘‘ آتی ہے اور اسی نسبت اس عید کو بھی عید الاضحیٰ کہا جاتا ہے۔ قرآن مجید نے سورۂ مائدہ میں ہابیل و قابیل کے واقعے میں قربانی کا لفظ اپنے لغوی معنی میں استعمال کیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:﴿إذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ أَحَدِھِمَا وَ لَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الآخَرِ﴾ ترجمہ: ’’جب دونوں نے قربانی پیش کی اور ایک کی قربانی قبول ہو گئی اور دوسرے کی قبول نہ ہوئی‘‘ ۔ (المائدۃ:۲۷) علامہ آلوسی رحمتہ اللہ اس مقام پر قربانی کی تعریف بایں الفاظ ذکر کرتے ہیں: ما یتقرب به إلی الله تعالى من ذبيحة و غيرها[21]ترجمہ: ’’قربانی اس شے کا نام ہے جس کے ذریعے سے اللہ کا قرب حاصل کیا جائے‘‘ ۔ پچھلی امتوں میں بھی قربانی کا ایک خاص طریقہ رائج تھا جسے سوختنی قربانی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ کچھ خاص مقامات طے ہوتے تھے جہاں جاکر لوگ اپنی اپنی قربانی پیش کیا کرتے تھے۔ اور اگر وہ قربانی عند اللہ مقبول ہوتی تو بطورِ علامت آسمان سے ایک آگ آکر اس کو جلا دیا کرتی تھی۔ اس امت کے لیے نفسِ قربانی تو برقرار رہی مگر یہ خاص طریقہ منسوخ ہو گیا۔ اور یہ اس امت پر اللہ رب العزت کا خاص فضل و انعام ہے کہ قبولیت و عدمِ قبولیت کو چھپا کر سب کو عدمِ قبولیت کی رسوائی سے بچا لیا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو روزِ قیامت کی رسوائی سے بھی بچائے۔ آمین
فضیلتِ قربانی
چونکہ ہم ایک مادہ پرست دور میں زندہ ہیں اور آج ہر شے مال کے اعتبار سے تولی جاتی ہے، اس لیے قربانی بھی وسائل کا ضیاع نظر آتی ہے۔ بظاہر محسوس ہوتا ہے کہ اتنا خون بہانے سے تو بہتر ہے کہ کسی تنگدست کی مدد کر دی جائے۔ تو اصولی بات ذہن نشین کر لینی چاہیے،کہ ہمارے دین نے بعض اعمال چند اوقات کے ساتھ خاص کر دیے ہیں۔ ایسے ہی اعمال کو اصولیّین ’’الواجب المقیّد‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ اب اگر کوئی شخص ان اوقات میں تمام اچھے کام انجام دے مگر اس واجب کو ادا نہ کرے جو ان کے ساتھ خاص ہے تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس نے کوئی نیکی نہیں کی۔ ان اوقات میں اصلًا اس واجب ہی کو سر انجام دینا نیکی کہلائے گا۔ بعینہٖ یہ معاملہ قربانی کا ہے۔ اگر کوئی شخص یوم النحر کو ہزاروں تنگدستوں کی مدد کردے تب بھی نہ وہ قربانی کے اجر کو پہنچ پائے گا اور نہ اس پر سے اس کا وجوب ساقط ہوگا۔ ارشادِ نبوی ہے:((مَا عَمِلَ آدَمِيٌّ مِنْ عَمَلٍ يَوْمَ النَّحْرِ أَحَبَّ إِلَى اللهِ مِنْ إِهْرَاقِ الدَّمِ، إِنَّهُ لَيَأْتِي يَوْمَ القِيَامَةِ بِقُرُونِهَا وَأَشْعَارِهَا وَأَظْلاَفِهَا، وَأَنَّ الدَّمَ لَيَقَعُ مِنَ اللهِ بِمَكَانٍ قَبْلَ أَنْ يَقَعَ مِنَ الأَرْضِ، فَطِيبُوا بِهَا نَفْسًا))[22] ترجمہ: ’’یوم النحر کو ابن آدم کا کوئی عمل بھی اللہ کے نزدیک خون بہانے سے زیادہ محبوب نہیں ہے۔ بے شک وہ جانور قیامت کے روز اپنے سینگوں ،بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گا۔ نیز قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے ہی اللہ کے یہاں شرفِ قبولیت حاصل کرلیتا ہے۔ لہذا خوب خوش دلی سے قربانی کیا کرو‘‘ ۔
بقیہ جانوروں کے برعکس اونٹ کو کھڑے کھڑے ہی حلقوم پر چھری ماری جاتی ہے۔ قربانی کے اس خاص طریقے کو نحر سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ لہذا اس روز کو یوم النحر بھی کہا جاتا ہے۔ روایت میں فرمایا گیا کہ ابھی زمین پر خون کا پہلا قطرہ نہیں گرتا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ قربانی شرفِ قبولیت حاصل کر لیتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قربانی کرنا تقوے کا اظہار ہے۔ اور تقوی افعالِ قلوب میں سے ہے۔ تو اللہ تعالیٰ تو ویسے ہی دلوں کے حال سے واقف ہوتے ہیں اور ان کے نزدیک اصل اہمیت اسی اخلاص و تقوی کی ہوتی ہے۔ اسی بات کو قرآنِ مجید نے بایں الفاظ ذکر فرمایا :﴿لَنْ یَّنَالَ اللہَ لُحُومُھا وَلَا دِمَآ ئُھا وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْویٰ مِنْکُمْ﴾ترجمہ: ’’اللہ تعالیٰ کے پاس نہ ان (جانوروں) کا گوشت پہنچتا ہے نہ ان کا خون ،لیکن اس کے پاس تمھارا تقوی پہنچتا ہے‘‘ ۔ (الحج:۳۷) آخر میں فرمایا کہ اس قربانی کو خوش دلی سے انجام دیا کرو۔ یعنی قربانی کرتے وقت نہ کسی مشقت کا احساس ہونا چاہیے اور نہ ہی کسی کراہیت کا۔ آج کل ایک عجیب رویہ چل پڑا ہےکہ بعض لوگ اپنے آپ کو اتنا مہذّب سمجھتے ہیں کہ جانور ذبح کرنے کے اس عمل سے کراہیت کھاتے ہیں۔ خون بہانے کو بھی کوئی غیر مہذّب کام سمجھا جاتا ہے۔ جاننا چاہیے کہ یہ رویہ ایک بد عملی ہی نہیں بلکہ تجدد و گمراہی ہے۔ بندۂ مومن تو ہر صورت میں اللہ کے حکم کا پابند ہے۔ جانور ذبح کرنا تونسبتًا آسان بات ہے، اگر اللہ کا حکم ہو تو اہل ایمان تو میدانِ جہاد میں انسانوں کی گردنیں مارنے میں بھی عار محسوس نہیں کرتے۔ نیز اگر قربانی کرنے میں کچھ مشقت بھی ہو تو اسے گوارا کر لینا چاہیے کیونکہ یہ مشقت بھی روزِ قیامت اجر کا باعث بنے گی۔
ترکِ قربانی پر وعید
جہاں اس عظیم عبادت کو سر انجام دینے پر بہت سے فضائل وارد ہوئے ہیں وہیں بلا عذر اس کے ترک کرنے پر بڑی وعیدیں بھی سنائی گئی ہیں۔ ارشادِ نبوی ہے: ((مَنْ وَجَدَ سَعَۃً فَلَمْ یُضَحِّ فَلَا یَقْرَبَنَّ مُصَلَّانَا))[23] ترجمہ: ’’جو شخص وسعت رکھنے کے با وجود بھی قربانی نہ کرے تو ہمارے مصلے(عید گاہ)کے قریب نہ آئے‘‘ ۔ اس روایت سے ایک تو اس عمل کے بلا عذر ترک کرنے کی کراہیت کا اندازہ ہو جاتا ہے،اور دوسرا ایک اہم فقہی اصطلاح کی طرف اشارہ بھی مل جاتا ہے۔ یہ بات تو طے ہے کہ کسی بھی لفظ کے اصطلاحی معنی قرآن و سنت سے نہیں اس فن کے ماہرین کے اتفاق سے طے ہوتے ہیں لیکن بعض اوقات کچھ اصطلاحات کے اشارے نص میں مل جایا کرتے ہیں۔ جیسے کہ اس روایت سے معلوم ہوا کہ قربانی ہر صاحب ِوسعت پر واجب ہے۔ مزید یہ کہ ’’مَنْ‘‘ اس مفہوم کو ادا کررہا ہے کہ ہر صاحبِ وسعت کی وسعت کا علیحدہ اعتبار ہوگا، اور ہر صاحبِ استطاعت پر علیحدہ قربانی واجب ہوتی ہےنہ کہ ایک گھر سے ایک بکری۔
قربانی کا فقہی درجہ متعین کرنے میں اول دور سے کچھ نہ کچھ اختلاف رہا ہے۔ احناف کے نزدیک ہر صاحب ِوسعت پر علیحدہ علیحدہ قربانی کرنا واجب ہے۔ جبکہ بقیہ ائمّہ اسے سنتِ مؤکّدہ جانتے ہیں۔ [24]
شرائطِ قربانی
ہر عاقل بالغ مقیم مسلمان پر قربانی کرنا واجب ہے جبکہ اس کی ملکیت میں حاجتِ اصلیہ سے زائد ساڑھے باون تولے چاندی یا اس کی قیمت کا مال موجود ہو۔ اب خواہ وہ مال سونا چاندی یا اس کے زیورات یا مالِ تجارت یا ضرورت سے زائد گھریلو سامان یا مسکونہ مکان سے زائد کوئی مکان وغیرہ کی صورت میں ہو[25]۔ ضرورت سے زائد گھر یلو سامان سے وہ برتن وغیرہ مراد ہیں جو عمومًا استعمال میں نہیں آتے۔ اگر ایک شخص کا مال غیر ملکی کرنسی کی صورت میں موجود ہے تو اس کا بھی اعتبار ہوگا۔ وجوب کے لیے اعتبار ۱۰ سے ۱۲ تاریخ تک کا ہوگا۔ [26]اگر ان ایام میں کسی بھی وقت وہ صاحبِ وسعت تھا تو اس پر قربانی واجب ہو جائے گی۔ نیز اگر کسی کے پاس رہائشی مکان کے علاوہ مزید پلاٹ ہیں یا ضرورت کی سواری سے زائد سواری ہے تو اس پر بھی قربانی کرنا واجب ہے۔ مالِ تجارت چاہے جس بھی صورت میں ہو اگر اس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہے تو اس کا مالک صاحبِ وسعت قرار پائے گا۔ عوام میں یہ بات عام ہو گئی ہے کہ جس شخص پر زکوٰۃ فرض نہیں ہے اس پر قربانی بھی واجب نہیں ہے۔ یہ بات درست نہیں ہے،کیونکہ زکوٰۃ فرض ہونے کے لیے اس مال پر سال کا گزرنا شرط ہے جبکہ قربانی کے وجوب کے لیے ایسی کوئی شرط نہیں ہے ۔ نیز زکوٰۃ صرف سونا، چاندی ،نقدی و مالِ تجارت پر فرض ہوتی ہے جبکہ قربانی کے نصاب میں اور بھی کئی چیزیں شمار ہوتی ہیں،جیسے کہ ماقبل مذکورہ شرائط سے واضح ہے۔ اسی لیے فقہاے کرام رحمتہ اللّٰه علیہم فرماتے ہیں کہ زکوٰۃ صاحبِ نصاب پر فرض ہے جبکہ قربانی و صدقۃ الفطر صاحبِ وسعت پر واجب ہے۔ ہاں یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ جس شخص پر زکوٰۃ فرض ہے اس پر قربانی بھی واجب ہے۔
اگر کسی شخص پر اصلًا تو قربانی واجب نہ تھی لیکن اس نے قربانی کے ارادے سے کوئی جانور خرید لیا تو اب اس پر قربانی لازم ہو گئی۔ ہاں اگر اس کا یہ جانور گم ہو گیا یا ضائع ہو گیا تو اس پر اب دوسرا جانور خرید کر اسے قربان کرنا واجب نہ ہوگا۔ [27]
نیز اگر کوئی شخص خیر میں مزید آگے بڑھنا چاہے تو گھر کے بزرگوں،مرحومین ،سلفِ صالحین اور نبی ﷺ کی طرف سے بھی قربانی کر دے۔ یہ عمل اس قربانی کرنے والے اور جس کی طرف سےقربانی کی جارہی ہے دونوں ہی کے لیے اجر کا باعث بن جائے گا۔
قربانی کے جانور
یہ بات درست نہیں ہے کہ جو جانور حلال ہو اس کی قربانی بھی جائز ہو جاتی ہے۔ بلکہ نبی ﷺ نے بالاہتمام ان جانوروں کو متعین فرما دیا ہے جن کو ذبح کرنے سے واجب قربانی ادا ہوتی ہے۔ کُل چھے جوڑے ہیں جنھیں فقہاے کرام رحمتہ اللّٰه علیہم نے ذکر فرمایا ہے۔ گائے بیل،بھینس بھینسا، اونٹ اونٹنی،بکرا بکری،دنبہ دنبی،بھیڑ اور بھیڑا۔ ان میں سے پہلے چھے میں سات سات جبکہ بقیہ میں ایک ایک حصہ ہوتا ہے۔ اگر بڑے جانور میں سات سے زائد حصے شمار کر لیے جائیں تو کسی ایک حصے میں بھی قربانی درست نہ ہوگی۔ ایک اور شرط فقہا یہ بھی لگاتے ہیں کہ اگر بڑے جانور میں الگ الگ لوگ حصہ ڈال رہے ہوں تو سب ہی کی نیت تقرب کی ہونی چاہیے۔ واجب قربانی،ایصالِ ثواب اور عقیقہ وغیرہ تقرب کے کاموں میں شامل ہے۔ لیکن اگر اس کے علاوہ کسی بھی شخص نے تجارت یا گوشت ذخیرہ کرنے کی نیت سے حصہ ڈالا تو تمام ہی افراد کی قربانی فاسد ہو جائے گی۔ اصل میں فقہاے کرام رحمتہ اللّٰه علیہم یہ اصول بیان فرماتےہیں کہ قربانی کا جانور مالِ مشاع ہے۔ یعنی یہ قابلِ تقسیم نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ کسی جانور میں چار حصے تو تقرب کے واسطے ہوں اور بقیہ تجارت کی خاطر۔ اگر ایسا کیا تو وہ چار حصے بھی غیر معتبر قرار پائیں گے۔ اس ہی بات سے ایک اور مسئلہ نکلتاہے۔ اور وہ یہ کہ اگر اجتماعی قربانی میں تساہل برتا جائے اور کوئی ایک فرد بھی اپنی حرام آمدن میں سے کسی جانور میں حصہ ڈال دے تو بقیہ شرکا کی بھی قربانی فاسد قرار پائے گی۔ آسان سا حل یہ ہے کہ حصہ لیتے وقت یہ اعلان کر دیا جائے کہ تمام شرکا اپنی حلال آمدن میں سے حصہ ڈالیں۔ اس کےبعد لوگوں کے ظاہری قول ہی پر اعتماد کر لیا جائے ۔ زیادہ تفتیش میں پڑنا درست نہیں ہے۔ جو حضرات کسی ادارے کے تحت حصہ ڈالنے کا ارادہ رکھتے ہوں ،ان پر شرعًا واجب ہے کہ کسی ایسے ادارے کا انتخاب کریں جہاں مسائلِ شرعیہ کی پابندی کی جاتی ہو اور مستند علماےکرام اور مفتیانِ عظام کی نگرانی میں تمام کام انجام دیا جاتا ہو۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو ایک عظیم عبادت کے ضائع ہو جانے کا خدشہ ہے۔
اصول تو یہ ہے کہ جس پر قربانی واجب ہے وہ اپنے ہی مال میں سے اسے ادا کرے گا۔ لیکن اگر کوئی دوسرا شخص اسے بتا کر اس کی طرف سے قربانی کردے تو اس سے قربانی کا وجوب ساقط ہو جائے گا۔ خواہ اس نے وہ قربانی اپنے مال سے کی ہو یا اس شخص کے مال سے۔ مثلًا اگر کسی خاتون کی ملکیت میں اتنا زیور ہے کہ اس پر قربانی واجب ہو جائےلیکن اس کا شوہر اس کو اطلاع دے کر اس کی طرف سے قربانی کر دیتا ہے تو اب اس پر سے قربانی کا وجوب ساقط ہو جائے گا۔ اسی کو فقہاے کرام رحمتہ اللّٰه علیہم وکالت سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس صورت میں بس موکل(جس کی طرف سے قربانی کی جا رہی ہے)کو اطلاع دے دینا لازمی ہے۔ کیونکہ اگر اطلاع نہ دی اور موکل نے اپنی واجب قربانی الگ سے ادا کردی تو جس جانور میں وکیل نے موکل کے حصے کی نیت کی تھی اس کے تمام حصوں کی قربانی غیر معتبر قرار پائے گی اور تمام شرکا کی ایک عظیم عبادت ضائع ہو جائے گی۔
شرکا کے مابین تقسیم
اگر بڑے جانور میں مختلف شرکا موجود ہیں تو قربانی کے بعد گوشت کو برابرتقسیم کرنا لازمی ہوگا۔ باقاعدہ تول کر تمام شرکا کو ان کا حصہ دیا جائے گا۔ کمی زیادتی سے گناہ ہوگا۔ البتہ اگر شرکا ایک ہی گھر سے ہیں اور سب ساتھ مل کر کھاتے ہیں تو اس صورت میں گوشت تقسیم کرنا ضروری نہیں ہے۔ اسی طرح اگر تمام شرکا الگ الگ بھی رہتے ہیں لیکن سب اس بات پر راضی ہو جائیں کہ گوشت تقسیم کرنے کی بجائے ایک جگہ پکا کر کھا لیا جائے یا پورا صدقہ ہی کر دیا جائے تب بھی تقسیم کرنا لازمی نہیں ہے۔ البتہ اگر ایک فرد بھی اس پر راضی نہ ہو تو اب تقسیم کرنا لازم ہو جائے گا۔ جانور کے بقیہ حصے جنھیں تولنا ممکن نہ ہو انھیں اس طرح تقسیم کیا جائے کہ کوئی بھی معقول شخص اس تقسیم کو عدل پر مبنی شمار کرے۔ اگر کھال اور کلہ پائے گوشت کے ساتھ تقسیم کر دیے جائیں تو اب گوشت کو تولنا لازم نہ ہوگا۔ ایک شریک کو اگر کھال کے ساتھ کچھ گوشت دے دیا جائے اور بقیہ گوشت دوسرا شریک رکھ لے تو یہ بھی درست شمار ہوگا۔
جانور کی شرائط
نبی ﷺ نےجب حضرت علی رضی اللّٰه عنہ کو قربانی کے جانور خریدنے کے لیے یمن کی طرف روانہ کیا تو فرما دیا تھا کہ جانور کے کان، آنکھ اور دانت اچھی طرح دیکھ لیے جائیں۔ معلوم ہوا کہ ہر قسم کا معیوب جانور ذبح کرنا جائز نہیں ہے۔ ان شرائط کو فقہاے کرام رحمتہ اللّٰه علیہم نے بڑی تفصیل سے بیان فرمایا ہے جنھیں مدِّ نظر رکھتے ہوئے قربانی کا جانور خریدنا چاہیے ۔ پہلی شرط جانور کی عمر سے متعلق ہے:
۱)بکرا ،دنبہ اور بھیڑا کم از کم ایک سال کا ہو۔
۲)گائے اور بھینس کم از کم دو سال کے ہوں۔
۳)اونٹ کم از کم پانچ سال کا ہو۔
اگر کسی جانور کی عمر پورے ہونے کا یقین ہو تو اب اس کے دانت دیکھنے کی حاجت نہیں ہے، لیکن چونکہ عام طور پر ایسا نہیں ہوتا اسی لیے دانت دیکھ لینے کا بھی حکم دیا جاتا ہے۔ [28]نیز دنبے اور بھیڑ میں علماء نے ایک استثنا بیان کیا ہے کہ اگر وہ سال بھر کے نہ بھی ہوں لیکن ان کی عمر چھے ماہ سے زیادہ ہو اور وہ اتنے موٹے تازے ہوں کہ اگر سال بھر کے بھیڑ اور دنبوں میں چھوڑ دیے جائیں تو کم عمر نہ نظر آتے ہوں تو اس صورت میں ان کی قربانی بھی جائز قرار پائے گی۔ [29]
پھر نبی ﷺ نے کچھ ایسے عیوب بھی بیان فرمائے کہ جن کی موجودگی میں ایک جانور کی قربانی کرنا جائز نہیں ہوتی۔ یعنی عام حالات میں تو انھیں ذبح کر کے کھانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن قربانی کے لیے ان کو پیش کرنا جائز نہیں ہے۔ ارشادِ نبوی ہے: ﴿(أَرْبَعٌ لَا تَجُوزُ فِي الْأَضَاحِيِّ : فَقَالَ الْعَوْرَاءُ بَيِّنٌ عَوَرُهَا، وَالْمَرِيضَةُ بَيِّنٌ مَرَضُهَا، وَالْعَرْجَاءُ بَيِّنٌ ظَلْعُهَا، وَالْكَسِيرُ الَّتِي لَا تَنْقَى)﴾[30] ترجمہ: ’’چار ایسے جانور ہیں جنھیں قربانی کی خاطر ذبح کرنا جائز نہیں ہے،ایسا کانا جس کا کانا پن ظاہر ہو،ایسا بیمار جس کا مرض ظاہر ہو،ایسا لنگڑا جس کا لنگڑا پن ظاہر ہو اور ایسا کمزور کہ جس کی ہڈیوں میں گودا نہ رہا ہو‘‘۔
حضراتِ فقہاے کرام رحمتہ اللّٰه علیہم نے ان عیوب کی مزید وضاحت فرمائی ہے۔ ایسا جانور جو اندھا ہو یا بالکل کانا ہو یا اس کی ایک آنکھ کی تہائی یا اس سے زیادہ روشنی جاتی رہی ہو یا اس کے ایک کان کا تہائی یا اس سے زیادہ حصہ کٹ چکا ہو یا دم کا ایک تہائی یا اس سے زیادہ حصہ کٹ چکا ہو یا وہ اتنا کمزور ہو کہ اس کی ہڈیوں میں بالکل گودا ہی نہ رہا ہو تو اس کی قربانی کرنا نا جائز ہے۔ اگر جانور دبلا ہو مگر اتنا زیادہ دبلا نہ ہو تو اس کی قربانی جائز ہو گی۔
اگر کسی جانور کے پیدائشی کان نہ ہوں تو اس کو بھی قربانی کے لیے ذبح کرنا جائز نہیں ہے۔ اگر اس کےپیدائشی سینگ نہ ہوں تو اسے قربان کرنا جائز ہے۔ اسی طرح اگر سینگ تھے لیکن ٹوٹ گئے تب بھی کوئی حرج نہیں۔ البتہ اگر سینگ جڑ سے ٹوٹا ہوا ہو یا اس طرح اکھڑا ہو کہ دماغ تک چوٹ کا اثر پہنچ جائے تو ایسے جانور کی قربانی جائز نہ ہو گی۔ اسی طرح اگر کسی جانور کے اکثر یا سارے دانت ٹوٹ گئے ہوں تو اس کی بھی قربانی جائز نہیں ہے۔
خصی جانور ذبح کرنا نہ صرف یہ کہ جائز ہے بلکہ افضل بھی ہے۔ نبی ﷺ نے خود بھی ایسے مینڈھے ذبح فرمائےتھے: ﴿(ذَبَحَ النَّبِيُّ ﷺ يَوْمَ الذَّبْحِ كَبْشَيْنِ أَقْرَنَيْنِ أَمْلَحَيْنِ مُوجَأَيْنِ)﴾[31] ترجمہ: ’’نبی ﷺ نے بقر عید کو دو سینگ والے،چتکبرے،خصی مینڈھے ذبح کیے‘‘ ۔
قربانی کا وقت
تمام ہی مذاہبِ اسلامیہ میں قربانی کا وقت ۱۰ ذوالحجہ کو نمازِ عید کے بعد شروع ہوتا ہے۔ اگرچہ اس کے اختتامی وقت میں دو اقوال پائے جاتے ہیں۔ احناف،مالکیہ اور حنابلہ کے نزدیک ۱۲ ذوالحجہ کی مغرب سے پہلے پہلے تک قربانی کرنا جائز ہے۔ جبکہ شوافع کے نزدیک ۱۳ ذوالحجہ کا دن بھی ایامِ قربانی میں شامل ہے۔ فضیلت کے اعتبار سے ۱۰ ذوالحجہ کی قربانی اولیٰ ہے۔
جس بستی میں عید کی نماز نہ ہوتی ہو جیسے دیہات تو وہاں فجر کے بعد ہی سے قربانی کا وقت شروع ہو جاتا ہے۔ لیکن جہاں اس کا اہتمام ہوتاہو جیسے شہر وہاں نماز کے بعد ہی قربانی جائز ہوگی۔ فقہا نے یہ بھی وضاحت فرمائی ہے کہ یہ بات لازمی نہیں ہے کہ قربانی کرنے والے شخص نے نماز ادا کرلی ہو بلکہ اگر پوری بستی میں ایک جگہ بھی نماز ادا ہوگئی تو اب قربانی کی جاسکتی ہے۔ البتہ اگر کسی نے اس سے پہلے جانور ذبح کر دیا تو اس کی قربانی ادا نہ ہوگی اور اگر وہ صاحبِ استطاعت ہے تو اس پر ایک دوسری قربانی واجب ہوگی۔
منت و وصیت کی قربانی
اگر کسی شخص نے قربانی کی منت مانی اور اس کا کام بھی پورا ہوگیا تو اب اس پر یہ قربانی کرنا واجب ہوگا۔ وجوب کی ایک قسم من اللہ ہوتی ہےجیسا کہ بقر عید کی قربانی کا معاملہ ہے۔ جبکہ وجوب ہی کی ایک دوسری قسم بھی ہے جو بندے کی اپنی طرف سے ہوتی ہے۔ البتہ منت کی قربانی میں ایک فرق ضرور واقع ہوتا ہے،اور وہ یہ کہ اس کا گوشت صرف فقرا و مساکین میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ یعنی اغنیا پر اس کا کھانا ممنوع ہے۔ بعینہٖ یہ حکم وصیت کی قربانی کا بھی ہے۔ اس کی صورت یہ ہے کہ کسی شخص نے ایک تہائی مال کے اندر اندر یہ وصیت کردی کہ ہر سال اس میں سے ایک قربانی کردی جائے تو اب ورثا پر اس وصیت کو پورا کرنا لازم ہوگا۔ اس قربانی کا بھی پورا گوشت فقرامیں تقسیم ہوگا۔ مزید برآں نفلی قربانی کے برعکس ان قربانیوں میں صرف ایک ہی نیت معتبر ہوتی ہے۔ یعنی منت و وصیت کی قربانی میں کسی اور نفلی قربانی کی نیت نہیں کی جاسکتی۔
قربانی کی قضا
اگر کسی شخص پر قربانی تو واجب تھی مگر وہ کسی بھی وجہ سے اسے ادا نہ کر سکا تو اب اس پر ایک حصے کی کم از کم قیمت صدقہ کرنا واجب ہوگا۔
آدابِ قربانی
کسی بھی عمل کو بدرجۂ احسن ادا کرنے کے لیے اس کے آداب کو ملحوظ رکھنا لازمی ہے۔ ہمارے اسلاف کا بھی یہ ہی طرز تھا کہ وہ اپنے ہر عمل کو اس کے آداب بجا لاکر مزین کیا کرتے تھے۔ قربانی بھی ایک عظیم عبادت ہے اور جو شخص بھی اسے سر انجام دے رہا ہو اسے چاہیے کہ اس کے تمام آداب کو ملحوظِ خاطر رکھے تاکہ اللہ کے یہاں مکمل اجر پا سکے۔
سب سے پہلے دل میں قربانی کی نیت کرلینی چاہیے۔ زبان سے کچھ کہنا لازمی تو نہیں ہے لیکن اگر کوئی شخص یکسوئی کی خاطر کچھ کلمات بھی ادا کرلے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ البتہ ذبیحے پر بِسْمِ اللہِ اللہُ أَکْبَر زبان سے پڑھنا لازمی ہے،اس کے بغیر جانور حلال نہ ہوگا۔ جانور کو ذبح کرنے کے وقت قبلہ رو لٹانا بھی قربانی کے آداب میں شامل ہے۔ جانور کو لٹانے کے بعد یہ دعا پڑھنا مسنون ہے: ((إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ * قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ * لَا شَرِيكَ لَه وَبِذٰلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ * اَللّٰهُمَّ مِنْكَ وَلَكَ عَنْ مُحَمَّدٍ وَأُمَّتِهٖ))[32]ترجمہ: ’’میں اس ذات کے لیے یکسو ہوتا ہوں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں، بلا شبہہ میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا اللہ ہی کے لیے ہے جو کہ تمام جہانوں کا پالنے والا ہے، اے اللہ ( یہ توفیقِ قربانی) تیری طرف سے ہے اور ( یہ قربانی) تیرے ہی لیے ہے اور ( یہ قربانی) محمد ﷺ اور آپ کی امت کی طرف سے ہے ‘‘ ۔ پھر ’’بسم اللہ اللہ اکبر‘‘ کہہ کر ذبح کریں،اورذبح کرنے کےبعداگر یہ دعا یاد ہو تو پڑھ لیں:اللّٰھُمَّ تَقَبَّلْہُ مِنِّی کَمَا تَقَبَّلْتَ مِنْ حَبِیْبِكَ مُحَمَّدٍ وَ خَلِیْلِكَ إبْرَاھِیْمَ عَلَیْھِمَا السَّلَامُ[33]ترجمہ: ’’اے اللہ تو مجھ سے بھی یہ قربانی اسی طرح قبول کرلے جس طرح تو نےاسے اپنے حبیب محمد ﷺ اور اپنے خلیل ابراہیم علیہ السلام سے قبول فرمالیا تھا‘‘ ۔ اگر ذبح کرنے والا کسی اور کا جانور ذبح کرے تو’مِنِّی‘ کی بجائے ’مِنْ‘ کے بعد جس کی قربانی ہے اُس کا نام لے، اگر گائے ہے تو مناسب یہ ہے کہ تمام حصے داروں کے نام لے۔
جانور کو کچھ دن پالنا بھی افضل ہے۔ مزید برآ ں چونکہ نبی ﷺ نے ذبح کرنے میں بھی احسان کا حکم دیا ہے، اسی لیے چاہیےکہ ذبح کرنے سے قبل چھری خوب تیز کرلی جائے اور ایک جانور کو دوسرے کے سامنے نہ ذبح کیا جائے۔ اسی طرح ذبح کرنے کے بعد جانور کو ٹھنڈا ہونے دیا جائے اور جب پوری جان نکل جائے تب کھال اتاری جائے۔ اپنی قربانی کو خود ذبح کرنا اولیٰ ہے لیکن اگر ایسا ممکن نہ ہو تو کم از کم اس وقت وہاں حاضر رہنا چاہیے۔
گوشت کی تقسیم
ویسے تو یہ بات جائز ہے کہ ایک شخص پورا کا پورا گوشت ذخیرہ کرلے۔ لیکن مستحب یہ ہے کہ گوشت کے تین حصے بنا لیے جائیں،ایک اپنے استعمال کے لیے ،ایک رشتے دارواں کے لیے اور ایک فقرا و مساکین کے لیے ۔ البتہ اس کے برخلاف بھی تقسیم جائز ہے۔
کھال کے احکام
جاننا چاہیے کہ جانور کے تمام اعضاو اجزاکے مصارف طے ہیں۔ یہاں تک کے وہ شے جس کو نمائش و آرائش کی خاطر جانور پر تانا گیا ہو اسے بھی فروخت کر کے اس کی قیمت استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔ فقہا نے تو یہاں تک صراحت فرمائی کہ جانور کی رسی بھی فروخت کرنا یا اجرت پر دینا جائز نہیں ہے۔ بعینہٖ یہ حکم کھال کا بھی ہے۔ اسے خود استعمال میں لانا یا صدقے میں دے دینا یا کسی کوتحفتاً دے دینا تو جائز ہے لیکن اسے فروخت کر کے اس کی قیمت استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔ اسی طرح قصائی کو اجرت پر کھال دے دینا بھی ناجائز ہے۔ اگر ایسی غلطی کردی تو کھال کی قیمت صدقہ کرنا لازم ہوگی۔ ایک بات یہ بھی واضح رہنی چاہیے کہ کھال کو مسجد مدرسے وغیرہ کی تعمیر میں استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔ کھال کی قیمت کو بھی زکوۃ کی مانند فقرا کی ملکیت میں دینا شرط ہے۔ ہاں کسی مدرسے کے طلبہ اگر مستحق زکوۃ ہوں تو ان کے کھانے پینے اور لباس وغیرہ میں کھال کی قیمت کو استعمال کرنا درست ہے۔ اس بات کا اہتمام کرنا چاہیے کہ کھال ایسی جگہ دی جائے جہاں مستند علماے کرام کی نگرانی میں کام ہوتا ہوتاکہ اس عظیم عبادت میں کوئی نقص نہ آنے پائے۔
عید کے دن کےمسنون اعمال
عید کے دن چند اعمال کا بجا لانا مسنون ہے۔ چونکہ یہ اعمال نہایت آسان بھی ہیں اور اپنی جگہ فضیلت کے حامل بھی اس لیے انھیں سر انجام دینے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اولا تو صبح جلدی بیدار ہونا چاہیے اور فجر کی نماز کا جماعت کے ساتھ اہتمام کرنا چاہیے۔ پھر نماز کے بعد خوب اچھی طرح سے مسواک بھی کرنا چاہیے اور غسل بھی۔ عمدہ ترین لباس زیب تن کرنا بھی مسنون ہے چاہے وہ نیا نہ ہو۔ پھر اگر کسی کو سہولت ہو تو عید کی نماز سے پہلے کچھ نہ کھائے اور جانور ذبح کرنے کے بعد اس کے گوشت سے ہی کھانے پینے کا آغاز کرے۔ نبی ﷺ بھی ذبیحے کی کلیجی سے ہی کھانے پینے کا آغاز فرماتے تھے۔ البتہ اس میں شدت برتنا درست نہیں ہے۔ اسی طرح اسے روزے سے تعبیر کرنا بھی مناسب نہیں ہے، چونکہ اس دن روزہ رکھنا نا جائز ہے۔ پھر عید الفطر کے برعکس عید الاضحیٰ میں عید گاہ جاتے ہوئے بلند آواز سے تکبیر کا پڑھنا مسنون ہے۔ یہ وہ چند آداب ہیں جن کا تعلق روزِ عید سے ہے۔
نمازِ عید کا طریقہ
ہر عبادت کو بجا لانے سے قبل اس کے مسائل کا سیکھ لینا لازم ہے۔ عید کی نماز چونکہ سال میں صرف دو ہی بار ادا کی جاتی ہے اس لیے عوام میں اس کے مسائل سے نا واقفیت پائی جاتی ہے۔ جبکہ فقہاے کرام رحمتہ اللّٰه علیہم نے بڑے سہل انداز میں اس نماز کا طریقہ بیان فرمایا ہے۔ اولا تو نماز کی نیت کر لی جائے۔ ما قبل یہ بات واضح کر دی گئی ہے کہ نیت اصلًا تو فعلِ قلب ہے لیکن زبان سے اس کو مؤکّد کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص عربی میں نیت کرنا چاہیے تو ان کلمات کو پڑھ لے: نَوَیْتُ أنْ أُصَلِّیَ رَکْعَتَیِ الْوَاجِبِ صَلَاۃَ عِیْدِ اْلأَضْحٰی مَعَ سِتِّ تَکْبِیْرَاتٍ وَّاجِبَۃٍ،اس کے بعد دونوں ہاتھوں کو کانوں کی لو تک اٹھا کر تکبیرِ تحریمہ کہے اور پھر ہاتھ باندھ کر ثنا پڑھ لے۔ پھر دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھا کر تین تکبیرات کہے۔ دو کے بعد ہاتھ چھوڑ دے اور تیسری کے بعد باندھ لے۔ پھر معمول کے مطابق ہی پہلی رکعت مکمل کر لے۔ دوسری رکعت میں پہلے قراءت کی جائے گی اور پھر تین تکبیرات کہی جائیں گی۔ تینوں تکبیرات میں ہاتھ چھوڑ دیے جائیں گے اور پھر چوتھی تکبیر کہہ کر رکوع کیا جائے گا۔ اس کے بعد معمول کے مطابق نماز مکمل کرلی جائے گی۔ اس طرح عید کی واجب نماز ادا ہو جائے گی۔ نیز نماز کے بعد عید کا خطبہ سننا بھی واجب ہے۔ عید کی نماز احناف کے نزدیک واجب ہے۔
یہ وہ کچھ منتشر مباحث تھے جنھیں ایک عنوان کے تحت جمع کر دیا گیا۔ لیکن اس مختصر رسالے کو پڑھ کر بقیہ کتب سے استغنانہیں برتا جاسکتا۔ یہ تو ترغیب دلانے کا ایک سبب ہے،تاکہ قاری میں ایک ذوق پیدا ہو اور وہ علماے کرام کی کتابوں سے مستفید ہو سکے۔ اللہ تعالیٰ سےدعا ہے کہ اس چھوٹی سی کاوش کو اپنی بارگاہِ عالیہ میں شرفِ قبولیت عطا فرمائے،اور جو کمی کوتاہیاں رہ گئیں اپنے فضل سے ان کا ازالہ فرمائے۔ وما توفیقی إلا بالله