کسی بھی عمل کو بدرجۂ احسن ادا کرنے کے لیے اس کے آداب کو ملحوظ رکھنا لازمی ہے۔ہمارے اسلاف کا بھی یہ ہی طرز تھا کہ وہ اپنے ہر عمل کو اس کے آداب بجا لاکر مزین کیا کرتے تھے۔قربانی بھی ایک عظیم عبادت ہے اور جو شخص بھی اسے سر انجام دے رہا ہو اسے چاہیے کہ اس کے تمام آداب کو ملحوظِ خاطر رکھے تاکہ اللہ کے یہاں مکمل اجر پا سکے۔
سب سے پہلے دل میں قربانی کی نیت کرلینی چاہیے۔زبان سے کچھ کہنا لازمی تو نہیں ہے لیکن اگر کوئی شخص یکسوئی کی خاطر کچھ کلمات بھی ادا کرلے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔البتہ ذبیحے پر بِسْمِ اللهِ اللهُ أَکْبَر زبان سے پڑھنا لازمی ہے،اس کے بغیر جانور حلال نہ ہوگا۔جانور کو ذبح کرنے کے وقت قبلہ رو لٹانا بھی قربانی کے آداب میں شامل ہے۔جانور کو لٹانے کے بعد یہ دعا پڑھنا مسنون ہے:((إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ * قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ * لَا شَرِيكَ لَه وَبِذٰلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ * اَللّٰهُمَّ مِنْكَ وَلَكَ عَنْ مُحَمَّدٍ وَأُمَّتِه))( سنن ابن ماجه، كتاب الأضاحي، باب أضاحي رسول الله ﷺ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ)’’میں اس ذات کے لیے یکسو ہوتا ہوں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں، بلا شبہہ میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا اللہ ہی کے لیے ہے جو کہ تمام جہانوں کا پالنے والا ہے، اے اللہ ( یہ توفیقِ قربانی) تیری طرف سے ہے اور ( یہ قربانی) تیرے ہی لیے ہے اور ( یہ قربانی) محمدﷺاور آپ کی امت کی طرف سے ہے‘‘۔ پھر’’بسم اللهِ اللهُ أکبر‘‘ کہہ کر ذبح کریں،اورذبح کرنے کےبعداگر یہ دعا یاد ہو تو پڑھ لیں:اللّٰهُمَّ تَقَبَّلْهُ مِنِّي کَمَا تَقَبَّلْتَ مِنْ حَبِیْبِكَ مُحَمَّدٍ وَ خَلِیْلِكَ إبْرَاهِیْمَ عَلَیْهِمَا السَّلَامُ(فتاویٰ محمودیہ، باب في مستحبات الأضحیة و آدابها)’’اے اللہ تو مجھ سے بھی یہ قربانی اسی طرح قبول کرلے جس طرح تو نےاسے اپنے حبیب محمد ﷺ اور اپنے خلیل ابراہیم علیہ السّلام سے قبول فرمالیا تھا‘‘۔ اگر ذبح کرنے والا کسی اور کا جانور ذبح کرے تو’مِنِّي‘ کی بجائے ’مِنْ‘ کے بعد جس کی قربانی ہے اُس کا نام لے، اگر گائے ہے تو مناسب یہ ہے کہ تمام حصے داروں کے نام لے۔
جانور کو کچھ دن پالنا بھی افضل ہے۔مزید برآ ں چونکہ نبیﷺنے ذبح کرنے میں بھی احسان کا حکم دیا ہے، اسی لیے چاہیےکہ ذبح کرنے سے قبل چھری خوب تیز کرلی جائے اور ایک جانور کو دوسرے کے سامنے نہ ذبح کیا جائے۔اسی طرح ذبح کرنے کے بعد جانور کو ٹھنڈا ہونے دیا جائے اور جب پوری جان نکل جائے تب کھال اتاری جائے۔اپنی قربانی کو خود ذبح کرنا اولیٰ ہے لیکن اگر ایسا ممکن نہ ہو تو کم از کم اس وقت وہاں حاضر رہنا چاہیے۔
گوشت کی تقسیم
ویسے تو یہ بات جائز ہے کہ ایک شخص پورا کا پورا گوشت ذخیرہ کرلے۔لیکن مستحب یہ ہے کہ گوشت کے تین حصے بنا لیے جائیں،ایک اپنے استعمال کے لیے،ایک رشتے دارواں کے لیے اور ایک فقرا و مساکین کے لیے۔البتہ اس کے برخلاف بھی تقسیم جائز ہے۔
کھال کے احکام
جاننا چاہیے کہ جانور کے تمام اعضاو اجزاکے مصارف طے ہیں۔یہاں تک کے وہ شے جس کو نمائش و آرائش کی خاطر جانور پر تانا گیا ہو اسے بھی فروخت کر کے اس کی قیمت استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔فقہا نے تو یہاں تک صراحت فرمائی کہ جانور کی رسی بھی فروخت کرنا یا اجرت پر دینا جائز نہیں ہے۔بعینہٖ یہ حکم کھال کا بھی ہے۔اسے خود استعمال میں لانا یا صدقے میں دے دینا یا کسی کوتحفتاً دے دینا تو جائز ہے لیکن اسے فروخت کر کے اس کی قیمت استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔اسی طرح قصائی کو اجرت پر کھال دے دینا بھی ناجائز ہے۔اگر ایسی غلطی کردی تو کھال کی قیمت صدقہ کرنا لازم ہوگی۔ایک بات یہ بھی واضح رہنی چاہیے کہ کھال کو مسجد مدرسے وغیرہ کی تعمیر میں استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔کھال کی قیمت کو بھی زکوۃ کی مانند فقرا کی ملکیت میں دینا شرط ہے۔ہاں کسی مدرسے کے طلبہ اگر مستحق زکوۃ ہوں تو ان کے کھانے پینے اور لباس وغیرہ میں کھال کی قیمت کو استعمال کرنا درست ہے۔اس بات کا اہتمام کرنا چاہیے کہ کھال ایسی جگہ دی جائے جہاں مستند علماے کرام کی نگرانی میں کام ہوتا ہوتاکہ اس عظیم عبادت میں کوئی نقص نہ آنے پائے۔