لاگ ان

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

لاگ ان

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

لاگ ان / رجسٹر
جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

مختلف طبقوں کی جانب سے ہر سال قربانی، حج اور پے در پے عمروں پر اعتراضات کیے جاتے ہیں، شعائرِ دینی کا مذاق اڑایا جاتا ہے اور اس کے لیے مختلف دلائل دیے جاتے ہیں ۔بہت سے مخلص لیکن سادہ لوح مسلمان بھی لاعلمی کی بنیاد پر ان لوگوں سے اثر لیتے ہوئے ، انھی جیسی گفتگو کر کے احکام ِ شرعیہ کی اہانت کے مرتکب ہو جاتے ہیں۔ انھی مخلص مسلمانوں کو اس اثر ِبد سے بچانے کے لیے یہ مضمون ترتیب دیا جا رہا ہے۔کچھ عرصہ پہلے ایک رسالے میں ’’ بار بار حج کرنے والوں کے نام‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون شایع ہوا جس میں بار بار حج کرنے والوں کی بعض برائیوں کا تذکرہ کیا گیا ہے، مثلا والدین کی اجازت کے بغیر حج کے لیےنکلنا، یا دکھاوے اور شہرت پسندی کے لیے حج کرنا یا مالِ حرام سے حج کرنا وغیرہ، پہلی صورت کو الگ کرتے ہوئے سوچیں تو دیگر تمام عیوب پہلی دفعہ حج کرنے والوں کے لیے بھی ممنوع ہیں یعنی حج فرض ہو یا نفل؛ مالِ حرام یا ریا سے کرنا تو بہر حال ناجائز ہی ہے،تو اب عنوان ’’بار بار حج کرنے والوں‘‘ کے بجائے ’’حج کرنے والوں کے نام‘‘ ہونا چاہیے تھا ، بار بار کے تذکرے سے تاثر یہ ملتا ہے کہ حج صرف ایک ہی کرنا چاہیے اور بس! بظاہر لگتا ہے کہ مضمون نگار نے ’’ریا‘‘ اور ’’مالِ حرام‘‘ کی آڑمیں تجدد زدہ اور مغرب گزیدہ طبقے کے موقف کی ترجمانی کی ہے یعنی یہ موقف کہ ’’ حج ایک بار کرنا فرض ہے، بار بار حج کرنا پیسے کا ضیاع ہے، نفلی حج سے بہتر ہے کہ مساکین میں یہ رقم تقسیم کردی جائے‘‘۔مضمون میں مثبت طور سے تکرارِ حج کا تذکرہ سرے سے نہیں کیا گیا ہے حالانکہ یہ شریعت کا ایک مستقل موضوع ہے جس پر کئی احادیث روشنی ڈالتی ہیں۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ حج زندگی میں ایک بار فرض ہے اور دوسری بار حج کرنا منع نہیں ہے ۔ اس کی دلیل حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث ہے کہ نبیﷺ نے ہمیں خطبہ دے کر فرمایا: ’’ اے لوگو! اللہ نے تم پر حج فرض کیا ہے،(لہٰذا )تم حج کرو‘‘۔ ایک آدمی نے کہا:’’ کیا ہر سال اے اللہ کے رسول؟‘‘ آپﷺ خاموش ہوگئے، اس نے تین بار سوال کیا تو آپﷺ نے فرمایا:’’اگر میں ہاں کہتا تو(ہر سال حج) تم پر واجب ہوجاتا اور تم اس کی استطاعت نہ رکھتے‘‘ (صحیح مسلم )چونکہ سائل کا سوال فرضیت کے متعلق تھا تو آپ ﷺ نے فرضیت کا انکار کیا لیکن ہر سال حج کرنے سے روکا بھی نہیں تو اس حدیث سےمعلوم ہواہے کہ حج زندگی میں ایک بار فرض ہے اور اس کے بعد اگر کوئی تکرارکرنا چاہے تو وہ منع نہیں ہے۔ دوسری بات یہ کہ فرض حج کے بعد مزید حج کرنا نہ صرف یہ کہ منع نہیں بلکہ نفل ہے ۔ مندرجہ بالا حدیث کی ایک روایت کے مطابق آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا (( وَلَوْ وَجَبَتْ لَمْ تَعْمَلُوا بِهَا وَلَمْ تَسْتَطِيعُوا وَالْحَجُّ مَرَّةٌ فَمَنْ زَادَ فَتَطَوُّعٌ )) (مسند احمد ،سنن نَسائي)’’ اگر ہر سال حج کرنا فرض ہوتا توتم اس حکم پرعمل نہ کرتے اورنہ ہی تم اس کی طاقت رکھتے پس حج زندگی میں ایک بار ہی ہے اور جو کوئی اس پر اضافہ (تکرار) کرے تو یہ نفل ہے ‘‘۔ان روایات کی روشنی میں علمائے فقہ کا اجماع ہے کہ زندگی میں ایک بار حج کرنا فرض ہے اور اس کے بعد جو حج بھی کیا جائے وہ نفل ہے۔چناں چہ آپ ﷺ نے متعدد بار نفلی حج کی ترغیب دلائی ہے ۔عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں نبی کریمﷺ نے فرمایا: ((تَابِعُوا بَيْنَ الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ، فَإِنَّهُمَا يَنْفِيَانِ الْفَقْرَ وَالذُّنُوبَ كَمَا يَنْفِي الْكِيرُ خَبَثَ الْحَدِيدِ))(سنن نسائي) ’’حج اور عمرہ بار بار کیا کرو، بے شک یہ دونوں غربت اور گناہوں کو دور کردیتے ہیں جیسا کہ بھٹی؛ لوہے، سونے اور چاندی کے زنگ کو دور کردیتی ہے‘‘۔یہ روایت حضرت عبد اللہ ابن مسعود، حضرت عمر فاروق، حضرت ابوہریرہ، حضرت عبد اللہ ابن عمر اور حضرت علی اور عامر بن ربیعہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے بھی مروی ہے۔ حضرت ابن مسعودرضی اللہ عنہ کی روایت میں یہ اضافہ ہے: وَلَيْسَ لِلْحَجِّ الْمَبْرُورِ ثَوَابٌ دُونَ الْجَنَّةِ(سنن نَسائي)’’حج مبرور کا بدلہ سوائے جنت کے کچھ بھی نہیں، حضرت جابررضی اللہ عنہ کی روایت میں ((أدِيموا الحَجَّ والعُمْرَةَ))(جمع الجوامع)کے الفاظ آئے ہیں کہ حج اور عمرے پر مداومت اختیار کرو۔ایک حدیث میں پانچ سال کے بعد دوبارہ حج نہ کرنے پر وعید سنائی گئی ہے۔ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: (( إنَّ عبدًا أصحَحتُ لهُ جسمَهُ، ووسَّعتُ عليهِ في مَعيشتِهِ ، تمضي عليهِ خمسةُ أعوامٍ لا يَفِدُ إليَّ لمَحرومٌ))(رواه أ بویعلیٰ و البیهقي وابن حبان )’’بے شک وہ بندہ جس کو میں نے صحت دے دی، اس کو مالی فراخی سے نوازا،(پھر)اس پر پانچ سال گزر جائیں اور وہ میری طرف کوچ نہ کرے(حج نہ کرے)وہ محروم ہے‘‘۔ملا علی قاری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ حج کرنے کی استطاعت رکھنے والے کو چاہیے کہ پانچ سال میں ایک بار حج کرنا نہ چھوڑے، جیسا کہ ابن حبان علیہ الرحمہ کی روایت سے معلوم ہوتاہے‘‘۔ یہ تو بطور خاص حج یا عمرے کی فضیلت کا بیان تھا لیکن دین کی عمومی تعلیمات میں بھی نفل عبادات کی بہت ترغیب دی گئی ہے اور ظاہر ہے کثرت نوافل میں نفلی حج اور عمرہ بھی داخل ہے۔ ایک حدیث قدسی کے مطابق اللہ تعالی فرماتے ہیں : (( وَمَا تَقَرَّبَ إِلَيَّ عَبْدِي بِشَيْءٍ أَحَبَّ إِلَيَّ مِمَّا افْتَرَضْتُ عَلَيْهِ وَمَا يَزَالُ عَبْدِي يَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّى أُحِبَّهُ))(صحیح بخاري)’’بندہ جن چیزوں سے میرا تقرب حاصل کرتا ہے ان میں مجھے سب سے زیادہ پسند وہ چیزیں ہیں جو میں نے اس پر فرض کی ہیں اوربندہ (فرض کے ساتھ ساتھ ) نوافل کے ذریعے میں تقرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں …‘ ‘۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا :((إن أولَّ ما يُحاسَبُ النّاسُ به يومَ القيامةِ مِنْ أعمالِهم الصلاةُ قال يَقولُ ربُّنا جَلّ و عَزّ لِمَلَائِکَتِهِ وهوأعْلَمُ اُنْظُروا في صلاةِ عَبْدي أَتَمَّها أمْ نَقَصَها فإنْ كانَتْ تامّةً كُتِبَتْ له تامّةٌ وإنْ كانَ انْتَقَصَ منها شيئاً قال اُنْظُروا هلْ لِعبْدي مِنْ تَطَوُّعٍ فإنْ كانَ له تطوعٌ قال أَتِمّوا لعبدي فريضَتَه مِنْ تَطَوِّعِه ثُمّ تُوْخَذُ الأعمالُ علیٰ ذَاکم))(سنن أبي داود)’’قیامت کے دن تمام اعمال میں سب سے پہلے نماز کے متعلق سوال ہوگا، تو ہمارا پروردگار فرشتوں سے فرمائے گا، حالانکہ وہ خوب جانتا ہے، دیکھو! میرے بندے کی نماز کامل ہے یا ناقص؟ اگر وہ کامل ہوگی تو کامل ہی لکھ دی جائے گی۔ (یعنی اس کا ثواب پورا لکھا جائے گا) اگر اس میں کچھ کمی رہ گئی ہوگی تو اللہ فرشتوں سے فرمائے گا دیکھو میرے بندے کے پاس نفل بھی ہے؟اگر نفل ہوں گے تو اللہ فرمائے گا: میرے بندے کے فرائض کی کمی اس کے نوافل سے پوری کردو۔ اور پھر تمام اعمال کا حساب اس طرح لیا جائے گا۔ (یعنی فرض کی کوتاہی کو نفل سے پورا کیا جائے گا )۔مذکورہ حدیث سے پتا چلتا ہے، کہ حج سمیت کسی بھی نفل عبادت کی بندے کی جہنم سے نجات میں بڑی اہمیت ہے، اس لیے اسے کمتر اورحقیر نہیں سمجھنا چاہیے، اور جہاں تک ہو سکے ان کی ادائی کا اہتمام کرناچاہیے۔ ہم میں سے کون دعویٰ کرسکتا ہے کہ وہ فرائض رب ذولجلال کی مرضی کے شایان شان ادا کرسکتا ہے؟ ظاہر ہے کسی کایہ دعوی نہیں نہیں بلکہ کوشش کے باوجود کمی کوتاہی رہ ہی جاتی ہے ۔ ایسی ہی کوتاہیوں کی تلافی کے لیے نوافل کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ لہٰذا ہمیں ترک نوافل کے لیے بہانے ڈھونڈنے کی بجائے اس کی ترغیب دینی چاہیے۔

لرننگ پورٹل