﴿سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ * وَآتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَجَعَلْنَاهُ هُدًى لِبَنِي إِسْرَائِيلَ أَلَّا تَتَّخِذُوا مِنْ دُونِي وَكِيلًا * ذُرِّيَّةَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ إِنَّهُ كَانَ عَبْدًا شَكُورًا * وَقَضَيْنَا إِلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ فِي الْكِتَابِ لَتُفْسِدُنَّ فِي الْأَرْضِ مَرَّتَيْنِ وَلَتَعْلُنَّ عُلُوًّا كَبِيرًا * فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ أُولَاهُمَا بَعَثْنَا عَلَيْكُمْ عِبَادًا لَنَا أُولِي بَأْسٍ شَدِيدٍ فَجَاسُوا خِلَالَ الدِّيَارِ وَكَانَ وَعْدًا مَفْعُولًا * ثُمَّ رَدَدْنَا لَكُمُ الْكَرَّةَ عَلَيْهِمْ وَأَمْدَدْنَاكُمْ بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَجَعَلْنَاكُمْ أَكْثَرَ نَفِيرًا * إِنْ أَحْسَنْتُمْ أَحْسَنْتُمْ لِأَنْفُسِكُمْ وَإِنْ أَسَأْتُمْ فَلَهَا فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ الْآخِرَةِ لِيَسُوءُوا وُجُوهَكُمْ وَلِيَدْخُلُوا الْمَسْجِدَ كَمَا دَخَلُوهُ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَلِيُتَبِّرُوا مَا عَلَوْا تَتْبِيرًا * عَسَى رَبُّكُمْ أَنْ يَرْحَمَكُمْ وَإِنْ عُدْتُمْ عُدْنَا وَجَعَلْنَا جَهَنَّمَ لِلْكَافِرِينَ حَصِيرًا﴾
’’پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصی تک لے گئی جس کے ماحول پر ہم نے برکتیں نازل کی ہیں، تاکہ ہم انھیں اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں۔ بے شک وہ ہر بات سننے والی، ہر چیز دیکھنے والی ذات ہے۔ اور ہم نے موسیٰ کو کتاب دی تھی اور اس کو بنی اسرائیل کے لیے ہدایت کا ذریعہ بنایا تھا کہ (اے بنی اسرائیل) تم میرے سوا کسی اور کو اپنا کارساز قرار نہ دینا۔ اے ان لوگوں کی اولاد ،جن کو ہم نے نوح کے ساتھ کشتی میں سوار کیا تھا بے شک وہ بڑے شکر گزار بندے تھے۔اور ہم نے کتاب میں فیصلہ کر کے بنو اسرائیل کو اس بات سے آگاہ کردیا تھا کہ تم زمین میں دو مرتبہ فساد مچاؤ گے، اور بڑی سرکشی کا مظاہرہ کرو گے۔چنانچہ جب ان دو واقعات میں سے پہلا واقعہ پیش آیا تو ہم نے تمہارے سروں پر اپنے ایسے بندے مسلط کردیے جو سخت جنگجو تھے، اور وہ تمہارے شہروں میں گھس کر پھیل گئے۔ اور یہ ایک ایسا وعدہ تھا جسے پورا ہو کر رہنا ہی تھا۔پھر ہم نے تمھیں یہ موقع دیا کہ تم پلٹ کر ان پر غالب آؤ، اور تمہارے مال و دولت اور اولاد میں اضافہ کیا، اور تمہاری نفری پہلے سے زیادہ بڑھا دی۔ اگر تم اچھے کام کرو گے تو اپنے ہی فائدے کے لیے کرو گے، اور برے کام کرو گے تو بھی وہ تمہارے لیے ہی برا ہوگا۔ چنانچہ جب دوسرے واقعے کی میعاد آئی (تو ہم نے دوسرے دشمنوں کو تم پر مسلط کردیا) تاکہ وہ تمہارے چہروں کو بگاڑ ڈالیں، اور تاکہ وہ مسجد میں اسی طرح داخل ہوں جیسے پہلے لوگ داخل ہوئے تھے، اور جس جس چیز پر ان کا زور چلے، اس کو تہس نہس کر کے رکھ دیں۔ عین ممکن ہے کہ (اب) تمہارا رب تم پر رحم کرے۔ لیکن اگر تم پھر وہی کام کرو گے، تو ہم بھی تمھارے ساتھ دوبارہ وہی کریں گے، اور ہم نے جہنم کو کافروں کے لیے قید خانہ بنا ہی رکھا ہے‘‘۔
سفر معراج کا ذکر
پہلی آیت میں معراج کا ذکر کیا گیا لیکن اس کا آغاز سُبْحَانَ الَّذِي کہہ کر اللہ تعالی کی پاکی اور اس کی شان اور قدرت کی طرف اشارہ کیا گیا تاکہ آئندے بیان ہونے والے محیر العقول واقعات اور انقلاباتِ زمانہ پرکسی کوتعجب نہ ہو۔ واقعہ معراج کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام آنحضرت ﷺکے پاس آئے اور رات کے وقت انھیں ایک جانور پر سوار کیا جس کا نام براق تھا، وہ انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ آپ کو مسجد حرام سے بیت المقدس تک لے گیا، یہ سفر معراج کا پہلا مرحلہ تھا، جسے اسراء کہا جاتا ہے، پھر یہاں سے آسمانی سفر شروع ہوا جس کااجمالی ذکر سورۃ النجم اور تفصیلی ذکراحادیث میں ہے ۔
ملک شام کی برکت
مسجد اقصی کے ذکر میں اس کے ارد گرد کے با برکت ہونے کا اعلان کیا گیا یعنی جس ملک میں مسجد اقصیٰ (بیت المقدس) واقع ہے وہاں حق تعالیٰ نے بہت سی ظاہری و باطنی برکات رکھی ہیں۔ مادی حیثیت سے چشمے، نہریں، غلے، پھل اور میووں کی افراط، اور روحانی اعتبار سے دیکھا جائے تو کتنے ہی انبیا و رسل کا مسکن و مدفن اور ان کے فیوض و انوار کا سرچشمہ رہا ہے۔
معراج کی حکمت
﴿لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ﴾’’ تاکہ ہم آپ کو اپنی نشانیاں دکھائیں‘‘۔ان الفاظ میں اسرا و معراج کی حکمت کی طرف اشارہ کیا گیا۔ مکہ سے بیت المقدس کا تیز ترین سفر اوریہاں سے آسمانی سفر ، انبیاے کرام اور رسولوں سے ملاقات اور ان کی امامت کرنا ، جنت دوزخ کا نظارہ اللہ تعالی سے گفتگو کے علاوہ کئی نشانیاں اللہ کے نبی ﷺ کو دکھائی گئیں۔ نبی کریمﷺ کو بیت المقدس لے جانے میں یہ بھی اشارہ ہوگا کہ جو کمالات؛ انبیاے بنی اسرائیل وغیرہ پر تقسیم ہوئے تھے آپ کی ذات مقدس میں وہ سب جمع کردیے گئے، جو نعمتیں بنی اسرائیل پر مبذول ہوئی تھیں، ان پر اب بنی اسماعیل کو قبضہ دلایا جانے والا ہے۔’’ کعبہ‘‘ اور’’بیت المقدس‘‘ دونوں کے انوار و برکات کی حامل ایک ہی امت ہونے والی ہے۔ احادیثِ معراج میں تصریح ہے کہ بیت المقدس میں تمام انبیا علیہم السلام نے آپ کی اقتدا میں نماز پڑھی۔ گویا حضورﷺ کو جو سیادت و امامتِ انبیا کا منصب دیا گیا تھا اس کا حسی نمونہ آپ کو اور مقربین بارگاہ کو دکھلایا گیا۔
بنی اسرائیل پر اللہ تعالی کے احسانات کا ذکر
اگلی آیات میں بنی اسرائیل کو ایمان کی دعوت دی جانے والی ہے ۔ اس سے پہلے ان پر اپنے احسانات بتائے جارہے تاکہ ان کا دل نرم ہو جائے ۔ اس ضمن میں پہلے تورات کا ذکرکیا کہ وہ حضرت موسی علیہ السلام کے ذریعے سے انھیں ملی تھی جو ان کا تعلق و اعتماد ، کائنات کی سب سے بڑی قوت اللہ تعالی سے قائم کرتی تھی کہ صرف اسی کو کارساز سمجھا جائے۔ اس کے بعد اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا کہ تم ان لوگوں کی اولاد ہو جو حضرت نوح علیہ السلام پرایمان لا ئے اور ان کی کشتی میں سوار ہو کر اللہ کے عذاب سے مامون رہے تھے اور یہ کہ تمھارے پیش رو حضرت نوح علیہ السلام بہت شکر گزار انسان تھے لہذا ،تم بھی شکر گزاری کا رویہ اختیار کرو،تورات کی تعلیم پر عمل اور اپنے اجداد کے نقش قدم پرچلتے ہوئے ایمان و توحید کو اختیار کرو۔
تاریخ سے عبرت
اپنے احسانات جتلانے کے بعد اب بنی اسرائیل کو ان کی تاریخ کے عبرتناک واقعات کے ذریعے سے خبردار کیا جا رہا ہے ۔شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’ یعنی توراۃ میں کہہ دیا گیا تھا کہ بنی اسرائیل دو بار شرارت کریں گے، اس کی جزا میں دشمن ان کے ملک پر غالب ہوں گے ۔ ایک بار جالوت غالب ہوا، پھر حق تعالیٰ نے اس کو حضرت داؤد کے ہاتھ سے ہلاک کیا۔ اس کے بعد بنی اسرائیل کو ریاست و طاقت سے نوازا ۔ جب انھوں نے دوسری بار سرکشی اختیار کی تو بخت نصر کو ان پر مسلط کیا گیا جس کے بعد انھوں نے قوت نہ پکڑی اور ہمیشہ کے لیے ذلیل ہو رہے ۔علامہ عثمانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:’’بعض علماء نے پہلے وعدے سے بخت نصر کا حملہ اور دوسرے وعدے سے’’طیطوس رومی‘‘ کا مراد لیا ہے۔ کیونکہ ان دونوں حملوں میں یہود پر پوری تباہی آئی اور ’’مقدس ہیکل‘‘ کو برباد کیا گیا‘‘۔
دعوتِ ایمان اور ترغیب وترہیب
﴿عَسَى رَبُّكُمْ أَنْ يَرْحَمَكُمْ وَإِنْ عُدْتُمْ عُدْنَا وَجَعَلْنَا جَهَنَّمَ لِلْكَافِرِينَ حَصِيرًا﴾ ’’عین ممکن ہے کہ (اب) تمہارا رب تم پر رحم کرے۔ لیکن اگر تم پھر وہی کام کرو گے، تو ہم بھی تمھارے ساتھ دوبارہ وہی کریں گے، اور ہم نے جہنم کو کافروں کے لیے قید خانہ بنا ہی رکھا ہے‘‘۔ عبرت دلا نے کے بعد اب انھیں رحمت کی امید دلائی جا رہی ہے کہ تم اب بھی اللہ کی رحمت کے حقدار بن سکتے ہیں اگر تم اس آخری نبی امیﷺ پر ایمان لا کر ان کے دامن سے وابستہ ہو جاؤ ۔ لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا اور اپنی سابقہ روش پر قائم رہے تو پھر ہم تمھیں دنیا میں اسی طرح سزائیں دیں گے جیسا کہ پہلے دیتے رہے ہیں اور پھر آخرت میں دوزخ کا عذاب بھی ہم نے تیار کر رکھا ہے ۔
تاریخ شاہد ہے کہ اہل کتاب نے اس آخری موقعے سے فائدہ نہ اٹھایا بلکہ رسول اللہ ﷺاور آپ کی امت کی دشمنی پرکمر باندھے رکھی ۔ مختلف اوقات میں یہ کبھی دوسری اقوام کے ہاتھوں اور کبھی ایک دوسرے کے ہاتھوں پٹتے رہے ہیں ۔حضرت عیسی علیہ السلام کے نزول کے بعد مسلمانوں کے ہاتھوں ان کی عالمی ہزیمت وگوشمالی ، طے شدہ ہے جس کی خبریں احادیث میں دی گئی ہیں، رہا ا ٓخرت کا معاملہ تو نبی کریم ﷺ کا یہ فرمان عالی شان فیصلہ کن ہے کہ جس یہودی یا عیسائی نے میری بعثت کی خبر سن لی پھر ایمان نہ لایا تو وہ دوزخ میں جائے گا۔( مسند احمد )