لاگ ان

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

لاگ ان

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

لاگ ان / رجسٹر
جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

دنیا کی زندگی کے بھی ظاہر کو دیکھنے والے ، شام اوربیت المقدس کو خاک و خوں میں غلطاں دیکھ رہے ہیں ۔ عمارتیں هباءاًمنثورا ًہو رہی ہیں ۔ بچے یتیم اور سہاگنیں بیوہ ہوتی جا رہی ہیں ، سجیلے جوانوں کو آتش ِ شیطان چاٹے جا رہی ہے۔ شہر کے شہر برباد ہوئے جاتے ہیں ۔ لیکن جاننے والے ، اس بربادی کو آبادی جانتے ہیں :

درو دیوار کی ویرانی پہ نہ جا پس دیوار ہے گلزار کھِلا

نمارِدَہ وقت کےتَمرُّدکی کہانی کہتی آتش ِسوزناک میں اولاد ِ ابراہیم پھول کھلائے جا رہی ہے۔’’اپنی پوری اور بھرپور ‘‘ بے سروسانی لیکن جانفشانی اور سرشاری کے عالَم میں ، جَواں خون کے ساتھ صبر کی داستانیں رقم کیے جا رہے ہیں ۔تو ایسا ہے کہ وہ جیت رہے ہیں۔ یہ آگ ان کے لیے باغ ابراہیم بننے والی ہے اور آگ برسا کر تماشا کرنے والے آگ میں جانے والے ہیں :

گلِستاں کُنَند آتشے بر خلیل گروہے بآتش بُرَدز ابِ نیل

وہ ذات جو خلیل علیہ السلام پر دہکائی جانے والی آگ کو گلستاں کرتی ہے اور جو ، نیل کے پانیوں سے دشمنان کلیم علیہ السلام کو آگ میں پہنچا دیتی ہے، اس کی قدرتوں کے سامنے یہ کون سا مشکل ہے۔ ’اور تم اپنے رب کی کون کون سی قدرتوں کو جھٹلاؤ گے‘اور یہ کیوں کر نہ ہو کہ اس دھرتی کو محبوب رب دوجہاں ﷺ کی دعا نے حِصار میں لیا ہوا ہے: ((اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي شَامِنَا))(صحیح بخاری)’’اے اللہ ہمارے لیے ہمارے شام میں برکت عطا فرما‘‘ اس دعاے مبارکہ میں (شَامِنَا) ’’ہمارا شام ‘‘ کے الفاظ خاص ہیں کہ وہ شام جو کبھی آلِ اسحق و یعقوب علیہم السلام یعنی بنی اسرائیل کا تھا ، ان کے کفر کی پاداش میں اُن سے چھن کر ہمارا ہو گیاہے۔ اس کی برکتوں کے امین اب صرف پیروکارانِ رسول قرشی و مکی ﷺ ہیں۔ تو آتش و آہن کی بارش کے باوجود ،ارض مقدس کی برکتیں اور رحمتیں دائم ہیں کہ وہ اینٹ گارے کی عمارتوں کی محتاج نہیں ہیں ۔قُدسیوں کے فرامین میں ارض مقد س کی برکتوں کا بیان بہت ہے سو تبرک کے لیے ان میں سے کچھ پیش کرتے ہیں :سیدنا عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :((إِنَّ الْخَيْرَ قُسِّمَ عَشَرَةَ أَعْشَارٍ فَتِسْعَةٌ بِالشّام وَعَشْرٌ بِهَذِهِ وَإِنَّ الشَّرَّ قُسِّمَ عَشَرَةَ أَعْشَارٍفَتِسْعَةٌ بِهَذِهِ وَعَشْرٌ بِالشَّامِ))(فضائل الصحابہ، امام احمد بن حنبل)’’بے شک خیر کو دس حصوں میں تقسیم کیا گیا پھر نو حصے تو شام میں رکھے گئے اور ایک دسواں حصہ ادھر باقی زمیں میں رکھا گیا اور شر کے بھی دس حصے کیے گئے اس کے نو حصے تو اِدھر اُدھر ہیں اور شام میں صرف ایک دسواں حصہ رکھا گیا،،زید بن ثابت رضی اللہ عنہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ، مختلف پارچہ جات میں قرآن کی ترتیب و تالیف میں مصروف تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے تین بار فرمایا ((طُوبَى لِلشَّامِ)) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس کی وجہ دریافت کی تو فرمایا ((لأَنَّ مَلاَئِكَةَ الرَّحْمَنِ بَاسِطَةٌ أَجْنِحَتَهَا عَلَيْهَا)) (مسند احمد)’’اس لیے کہ رحمن کے فرشتے اس پر اپنے پروں کو پھیلائے رہتے ہیں‘‘۔سیدنا عبد اللہ بن عمرو ابن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :((إِنِّي رَأَيْتُ كَأَنَّ عَمُودَ الْكِتَابِ انْتُزِعَ مِنْ تَحْتِ وِسَادَتِي فَأَتْبَعْتُهُ بَصَرِي فَإِذَا هُوَ نُورٌ سَاطِعٌ عُمِدَ بِهِ إِلَى الشَّامِ أَلَا وَإِنَّ الْإِيمَانَ إِذَا وَقَعَتِ الْفِتَنُ بِالشَّامِ)) (معجم الکبیر للطبرانی)’’میں (عالَم رویا) دیکھتا ہوں کہ ایک کتاب کا سرا میرے تکیے کے نیچے سے کھینچ لیا گیا تو میں اس کے پیچھے نظر دوڑاتا ہوں تو وہ ایک پھیلا ہوا نور تھا جو شام پر چھا گیا تھا ۔آگاہ ہو جاؤ جب فتنے برپا ہوں گے تو ایمان شام میں ہوگا‘‘۔تو فتنے برپاہیں اور ایمان شام میں ہے ، شہیدوں کا خون ہے اور آگ ہے اور دھواں ہے کیوں کہ وہاں ایمان ہے اور جہاں ایمان ہے وہاں آزمائش ہے۔ توجب ایمان شام میں پایا گیا تو لازم ہوا کہ کامل الایمان ہستیاں بھی وہیں پائی جائیں تو اس سے بڑی برکت کیا ہو گی کہ قاطع صلیب و دجال سیدنا عیسی روح اللہ علیہ الصلاۃ و السلام کا نزولِ سعید بھی اسی بقعہ مبارکہ میں ہو گا :((يَنْزِلُ عِيْسَى بْنُ مَرْيَمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ عِنْدَ المَنَارَةِ البَيْضَاءِ شَرْقِيَّ دِمَشقَ)) (معجم الکبیر للطبرانی) ’’سیدناعیسی علیہ السلام دمشق کے شرقی حصے میں ایک سفید رنگ کے منارے پر نزول فرمائیں گے‘‘۔مِس خام آزمائشوں کی بھٹیوں سے گزر کر ہی کندن بنتا ہےتوشام والوں میں ابدال کا پایا جانا بھی ان کی آزمائشوں میں ثابت قدمی کی بدولت ہی ہے۔ رسول ِپاک ﷺ نے اس کی خبر دیتے ہوئے فرمایا : ((اَلْبُدَلَاءُ بِالشَّامِ وَهُمْ أَرْبَعُونَ رَجُلًا كُلَّمَا مَاتَ رَجُلٌ أَبْدَلَ اللَّهُ مَكَانَهُ رَجُلًا يُسْتَقَى بِهِمُ الْغَيْثُ وَيُنْتَصَرُ بِهِمْ عَلَى الْأَعْدَاءِ وَيُصْرَفُ عَنْ أَهْلِ الشَّامِ بِهِمُ الْعَذَابُ)) (مسند احمد)’’ابدال شام میں ہیں اور وہ (عموماً) چالیس افراد ہوتے ہیں اور جب ان میں سے کوئی ایک فوت ہوجاتا ہے تو اللہ اس کی جگہ دوسرے کو لے آتا ہے انھی ( کی برکت ، دعایا وسیلے) سے بارشیں دی جاتی ہیں انھی کے سبب دشمنوں پر مدد دی جائے گی اور انھی کے ذریعے اہل شام سے عذاب دور کیا جاتا ہے‘‘۔چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ لوگوں کومنع کرتے ہوئے فرماتے ہیں:((لَا تَسُبُّوا أَهْلَ الشَّامِ وَسَبُّوا ظَلَمَتَهُمْ فَإِنَّ فِيهِمُ الْأَبْدَالُ)) (مستدرک حاکم)’’ اہلِ شام کو برا بھلا مت کہو البتہ ان کے ظالموں کو برا بھلا کہہ سکتے ہو کیونکہ ان میں ابدال موجود ہوتے ہیں‘‘۔ ایسا نہیں ہے کہ صرف قُرونِ اولی ہی میں ابدال پائے جاتے ہوں بلکہ آخری دور میں بھی ان کا ذکر ملتا ہے۔ امام مہدی کی بیعت کے حوالے سے ابدالِ شام کا ذکر ملتا ہے ۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :((أَتَاهُ أَبْدَالُ الشَّامِ وَعَصَائِبُ أَهْلِ الْعِرَاقِ فَيُبَايِعُونَهُ)) (مسند احمد)’’ ان کے پاس شام کے ابدال اور عراق کے نیک لوگ آئیں گے جو امام مہدی کے ہاتھ پر بیعت کریں گے‘‘۔یہ بیعت تو ظاہر ہے مکہ شریف میں ہو گی لیکن بعد میں کسی مرحلے پر امام مہدی شام میں بھی تشریف فرما ہوں گے دمشق میں نزول ِ عیسی ابن مریم علیہ السلام کی روایت ہم پڑھ چکے جبکہ ایک دوسری روایت سے معلوم ہوتاہے کہ ان کے نزول کے تھوڑی ہی دیر بعد نماز کا وقت ہوجائے گا چنانچہ امام مہدی ، سیدنا عیسی علیہ السلام سے درخواست کریں گے کہ آپ نماز پڑھائیں تو وہ فرمائیں گے:((لِيَتَقَدَّمْ إِمَامُكُمْ فَلْيُصَلِّ بِكُمْ))(مسند احمد)’’چاہیے کہ تمھارا ، امام آگے بڑھ کر نماز پڑھائے‘‘ تو اس روایت سے معلوم ہوا کہ فتنوں کے دور میں ایمانی حیثیت سے اس وقت کی دوسری بڑی شخصیت بھی شام میں جلوہ افروز ہو گی۔ سیدنا عیسی اور امام مہدی جیسی پاک طینت ہستیوں کی بیت المقدس میں موجودگی اس خطے کی برکت پرشاہد تو ہے ہی لیکن قدس کی برکت کا ایک سلبی پہلو یہ بھی ہے کہ اسے دجالِ منحوس کے قدم سے بھی بچایا جائے گا ۔آپ ﷺ نے اس کی خبر دیتے ہوئےفرمایا: ((يَخْرُجُ فَيَكُونُ فِي الْأَرْضِ أَرْبَعِينَ صَبَاحًا يَرِدُ مِنْهَا كُلَّ مَنْهَلٍ إِلَّا الْكَعْبَةَ وَبَيْتَ الْمَقْدِسِ وَالْمَدِينَةَ))(فضائل بيت المقدس ضياء الدين المقدسی)’’دجال نکلے گا اور وہ زمیں میں چالیس دن قیام کرے گا اور دنیا کے ہر کونے میں جائے گا سوائے یہ کہ وہ کعبہ ،بیت المقدس اور مدینہ میں داخل نہ ہو سکے گا‘‘ دوسری روایت میں ایک چوتھے مقام کا ذکر بھی ہے : ((لَا يَأْتِي أَرْبَعَةَ مَسَاجِدَ: الْكَعْبَةَ وَمَسْجِدَ الرَّسُولِﷺوَالْمَسْجِدَ الْأَقْصَى وَالطُّورَ)) (مسنداحمد) ’’ وہ چار مساجد میں نہیں آسکے گا کعبہ ،مسجد نبوی ، مسجد اقصیٰ اور مسجد طور میں ‘‘۔ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بیت المقدس تک پہنچ کر اس کا محاصرہ کر لے گا((يَخْرُجُ حَتَّى يُحَاصِرَهُمْ)) (فضائل بيت المقدس ضياء الدين المقدسی) لیکن اندر داخل ہونے کی حسرت اس کی پوری نہیں ہو گی کہ عیسی علیہ السلام کو دیکھ کر فرار ہو گا لیکن بیت المقدس سے تقریبا ۳۶ کلومیٹر دور مقام لد (Lod) پر ہی واصل جہنم کیا جائے گا۔کانا دجال تو ابھی نہیں آیا لیکن اس کے پیروکار ، ارض مقدس پرچرھائی کیے ہوئے ہیں ۔ لیکن جس طرح دجال یہاں داخل نہ ہوگا اسی سے نیک فال لیتے ہوئے ہم امید کرتے ہیں کہ خداوند ِ قدوس ، بیت المقدس کو ان پیروکارانِ کے وجود منحوس سے پاک ہی رکھے گا ۔اگرچہ کئی سالوں سے شام پر ،شام غم چھائی ہوئی ہے ۔ لیکن یہ بھی بھلا کوئی پریشانی کی بات ہے ’’گرتے ہیں شاہ سوار ہی میدان جنگ میں ‘‘ پر غور کریں تو بات صاف ہو جاتی ہے۔ ہر شہر کے مقدر میں کہاں ’ نازِ شہیداں ‘ ہر بستی کو رزم گاہ حق و باطل بننا کہاں نصیب ،بابرکت شہروں ہی کی یہ شان ہے کہ عاشقان پاک طینت کے سینوں کے ابلتے خون کو اپنے سینے میں جگہ دے ۔ مَقدسی جوانوں کی قربانیاں بتاتی ہیں کہ وہ ایک زندہ قوم ہیں:

جن کے سلامت پَر ہوتے ہیں خون میں اکثر تر ہوتے ہیں

زبان رسالت سے بھی ان سرفروشون کی تعریف وارد ہوئی ہے :((إِذَا وَقَعَتِ الْمَلَاحِمُ بَعَثَ اللهُ بَعْثًا مِنَ الْمَوَالِي [مِنْ دِمَشْقَ] هُمْ أَكْرَمُ الْعَرَبِ فَرَسًا وَأَجْوَدُهُ سِلَاحًا يُؤَيِّدُ اللهُ بِهِمُ الدِّينَ)) (ابن ماجہ)’’جب جنگیں واقع ہوں گی اللہ تعالی دمشق کے مضافات سے ایک لشکر اٹھائے گا وہ اہل عرب میں سے بہترین لوگ ہوں گے اور ہتھیاروں کے اعتبار سے بھی وہ مسلح ہوں گے اللہ ان کے ذریعے دین کی تائید و نصرت کرے گا‘‘ حقیقت کا علم تو اللہ تعالی ہی کو ہے کہ غلیل ، ڈنڈے اور پتھروں سے مقابلہ کرنے والے جان نثاروں کے ہاتھ میں ہتھیار کب اور کیسے آئیں گے اور ان کی نوعیت کیاہو گی کیا وہ جدید ہوں گے یا قدیم لیکن بہرحال اتنا تو بلاتکلف معلوم ہوتا ہےکہ وقت کبھی پلٹا ضرور کھائے گا۔بعض روایتوں میں ان بابرکت لوگوں کی جگہوں کی تعریف کی گئی ہے۔ایک حدیث میں فرمایا: ((سَتَكُون هجرةٌ بَعْدَ هجْرَة، فَخِيَار أهْل الأَرض أَلْزَمُهُم مُهَاجَرَ إِبراهيمَ))(ابو داود)’’ عنقریب ہجرت کے بعد ایک اورہجرت ہو گی پس ہجرت کی بہترین جگہ وہ ہے جہاں ابراہیم علیہ السلام کی ہجرت ہوئی تھی‘‘سیدنا ابوالدردا رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:((يَوْمَ الْمَلْحَمَةِ الْكُبْرَى فُسْطَاطُ الْمُسْلِمِينَ، بِأَرْضٍ يُقَالُ لَهَا الْغُوطَةُ، فِيهَا مَدِينَةٌ يُقَالُ لَهَا دِمَشْقُ، خَيْرُ مَنَازِلِ الْمُسْلِمِينَ يَوْمَئِذٍ)) (مستدرک حاکم) ’’ملحمۃ الکبری (بڑی اور خونریز جنگ)کے دنوں میں مسلمانوں کا پڑاو (کیمپ) غُوطہ نامی علاقے میں ہو گا اسی خطے میں دمشق نامی شہر بھی ہو گا جو ان دنوں مسلمانوں کے بہترین مقامات میں سے ہو گا‘‘۔یہ ساری فضیلتیں اور برکتیں ابھی جگہ لیکن انسان اپنی بشریت کی بنا پر دنیا وی نتیجے سے بے پرواہی نہیں کر سکتا چاہے توبہتاہوا خون ِ قدس اِن کی کامرانی کی کہانی سنا رہا ہے:

ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا

اب ہم فرامین ِ مقدس کی طرف آتے ہیں تو سب سے پہلے سیدنا عبد اللہ بن حَوالہ رضی اللہ عنہ سے مروی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :((سَتُجَنَّدُونَ أَجْنَادًا جُنْدًا بِالشَّامِ وَجُنْدًا بِالْعِرَاقِ وَجُنْدًا بِالْيَمَنِ))’’عنقریب تمہاری کئی فوجیں بن جائیں گی ایک فوج شام میں ہوگی ایک فوج عراق میں اور ایک فوج یمن میں ہو گی ‘‘ انھوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے لیے آپ ہی پسند فرما دیں، فرمایا: ((عَلَيْكُمْ بِالشَّامِ ) فَإِنَّهُ خِيْرَةُ الْمُسْلِمِينَ وَصَفْوَةُ اللهِ مِنْ بِلَادِهِ يَجْتَبِي إِلَيْهَا صَفْوَتَهُ مِنْ خَلْقِهِ) فَمَنْ أَبَى فَلْيَلْحَقْ بِيَمَنِهِ وَلْيَسْقِ مِنْ غُدُرِهِ فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ تَكَفَّلَ لِي بِالشَّامِ وَأَهْلِهِ))(مستدرک حاکم)’’شام کو پکڑ لو کیونکہ وہ مسلمانوں کے لیے اللہ کےپسندیدہ اور چنیدہ شہروں میں سے ہے۔ اللہ اس شہر کے لیے اپنی مخلوق میں سے خاص لوگوں کو چنے گا پس جو کوئی اس شہر کو آئے تو وہ اس کے داہنے طرف کو اختیار کرے اور اس کے کنوؤں سے پیے، پس اللہ نے میرے لیے شام اور اہل ِشام کی ذمے داری اٹھائی ہے‘‘۔ راوی حدیث فرماتے ہیں: اللہ جس کا ذمہ اٹھا لے اسے کوئی ضائع نہیں کر سکتا !!

اللہ تعالی کی کفالتِ اہل شام دو اعتبار سے ہے اور ایک اعتبار سے نہیں ہے ۔کفالت ہے ان کے حق پر قائم و دائم رہنے کی اور ان کے کامیاب ہونے چاہے جلدہو یا بہ دیر اور اللہ نے کفالت نہیں کی دنیاوی آزمائشوں کے واقع ہونے کی سیدنا ابو امامہ رضی اللہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ((لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي عَلَى الدِّينِ ظَاهِرِينَ لِعَدُوِّهِمْ قَاهِرِينَ لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَالَفَهُمْ إِلَّا مَا أَصَابَهُمْ مِنْ لَأْوَاءَ حَتَّى يَأْتِيَهُمْ أَمْرُ اللَّهِ وَهُمْ كَذَلِكَ)) ’’ میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ دین پر قائم و دائم رہے گا اور اپنے دشمن سے مغلوب نہ ہو گا۔ کسی کی مخالفت انھیں نقصان نہ پہنچا سکے گی سوائے دنیاوی مشکلات اور معاشی سختی کے ۔یہاں تک کہ اللہ کا امر آجائے گا جبکہ وہ اسی حال پر ہوں گے‘‘ ،پوچھا گیا: یا رسول اللہ!وہ کہاں پائے جائیں گے فرمایا((بِبَيْتِ الْمَقْدِسِ وَأَكْنَافِ بَيْتِ الْمَقْدِسِ))(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد)’’ بیت المقدس میں اور اطراف بیت المقدس میں ‘‘اس طرح کی ایک دوسری روایت ، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت کی گئی ہے جس کے مطابق آپ ﷺ نے فرمایا: ((لَا تَزَالُ عِصَابَةٌ مِنْ أُمَّتِي يُقَاتِلُونَ عَلَى أَبْوَابِ دِمَشْقَ وَمَا حَوْلَهُ وَعَلَى أَبْوَابِ بَيْتِ الْمَقْدِسِ وَمَا حَوْلَهُ لَا يَضُرُّهُمْ خِذْلَانُ مَنْ خَذَلَهُمْ ظَاهِرِينَ عَلَى الْحَقِّ إِلَى أَنْ تَقُومَ السَّاعَةُ))(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد)’’میری امت کا ایک گروہ دمشق کے دروازوں اور اس کے آس پاس ڈٹا رہے گا اوراسی طرح ایک گروہ بیت المقدس اور اسے دروازوں کے آس پاس بھی ڈٹا رہے گا کسی بے وفا کی بے وفائی انہیں نقصان نہیں دے سکے گی اور قیام قیامت تک وہ حق پر قائم رہیں گے‘‘۔ایک بار نبی کریم ﷺ نے بیت المقدس میں آ کر وہاں نماز پڑھنے کی ترغیب دلائی توفرمایا :((ائْتُوهُ فَصَلُّوا فِيهِ فَإِنَّ صَلاَةً فِيهِ كَأَلْفِ صَلاَةٍ فِى غَيْرِهِ)) صحابیہ نے عرض کیا:((إِنْ لَمْ أَسْتَطِعْ أَنْ أَتَحَمَّلَ إِلَيْهِ))فرمایا : ((فَتُهْدِى لَهُ زَيْتًا يُسْرَجُ فِيهِ فَمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ فَهُوَ كَمَنْ أَتَاهُ))(ابن ماجہ)’’ پھر وہاں کی مسجد کے لیے کچھ تیل ہی بطور ہدیہ بھیج دینا جس سے وہاں چراغ جلے جو بھی ایسا کر لے گا گویا وہاں پہنچ گیا‘‘ضروری نہیں کہ تیل صرف چراغ جلانے ہی میں استعمال ہو۔ آج کل تیل، چولھے اور گاڑی سے بکتر بند گاڑی تک بہت کچھ چلاسکتا ہے اور یہ بھی ضروری نہیں کہ صرف تیل ہی بھیجا جائے اور اس کی قیمت نہ بھیجی جا سکے، تو جس طرح پرانی بوڑھیاں درگاہ پہ جانے والی کسی ہمجولی کو پلو سے بندھے سکے کھول دیا کرتی تھیں کہ بہن میری طرف سے چراغوں میں تیل ڈال دینا تو اردگرد دیکھیں شاید آپ کو ، کوئی ایسے بھائی مل جائیں جو آپ کی طرف سے بیت المقدس کے چراغوں میں تیل پہنچا سکیں:

شکوۂ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
لرننگ پورٹل