﴿شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَىٰ وَالْفُرْقَانِۚ
فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ﴾
سورۃ البقرہ:۱۸۵تا۱۸۶
’’رمضان کا مہینا وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کے لیے سراپا ہدایت، اور ایسی روشن نشانیوں کا حامل ہے جو صحیح راستہ دکھاتی اور حق و باطل کے درمیان دو ٹوک فیصلہ کردیتی ہیں، لہذا تم میں سے جو شخص بھی یہ مہینا پائے وہ اس میں لازماً روزہ رکھے‘‘۔
’’صوم کا لغوی معنی کسی چیز سے رکنا اور اس کو ترک کرنا ہے۔صوم کو ہماری زبان میں روزہ کہتے ہیں۔اس کا شرعی معنی ہے : مکلف اور بالغ شخص کا ثواب کی نیت سے طلوعِ فجر سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے پینے اور جماع کو ترک کرنا اور اپنے نفس کو تقوی کے حصول کے لیے تیار کرنا۔تمام ادیان اور ملل میں روزہ معروف ہے۔ قدیم مصری یونانی رومن اور ہندو سب روزہ رکھتے تھے۔ موجودہ تورات میں بھی روزےداروں کی تعریف کا ذکر ہے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا چالیس دن روزہ رکھنا ثابت ہے۔ اس طرح موجودہ انجیلوں میں بھی روزے کو عبادت قرار دیا گیا ہے اور روزے داروں کی تعریف کی گئی ہے۔ ہجرت کے ڈیڑھ سال اور تحویل قبلہ کے بعد دس شعبان کو روزہ فرض کیا گیا۔اور اس عبادت کے لیے ماہ رمضان کو پسند کیا گیا۔ اس لیے کہ دن کے روزے کے ساتھ رات کا قیام بھی اللہ تعالی کی حکمت میں شامل تھا، قیام کے لیے ترتیل و سماعِ قرآن ضروری تھا،روزے کی عبادت کے لیے ماہ رمضان کو قرآن مجید کے ساتھ اس کے خاص تعلق کی وجہ سے پسند کیا گیا۔اسی ماہ مبارک میں یہ عظیم کتاب لوح ِ محفوظ سے آسمان دنیا پر اتاری گئی۔اسی مہینے میں نبی کریمﷺ پر بواسطہ جبریل علیہ السلام اس کے نزول کی ابتدا ہوئی۔ اسی مہینے میں ہر سال نبی کریم ﷺ ، جبریل علیہ السلام کے ساتھ مل کر اس کا دور کیا کرتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس دور قرآنی میں بعض بار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی شریک کیا جب کہ اس کی عام ترغیب بھی دی اور فرمایا: ((مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ (بخاری) ’’جس نے رمضان کی راتوں میں ایمان و احتساب کے ساتھ قیام کیا اس کے سابقہ گناہ معاف ہو جائیں گے‘‘۔ ((اَلصِّيَامُ وَالْقُرْآنُ يَشْفَعَانِ لِلْعَبْدِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، يَقُولُ الصِّيَامُ: أَيْ رَبِّ، مَنَعْتُهُ الطَّعَامَ وَالشَّهَوَاتِ بِالنَّهَارِ، فَشَفِّعْنِي فِيهِ، وَيَقُولُ الْقُرْآنُ مَنَعْتُهُ النَّوْمَ بِاللَّيْلِ فَشَفِّعْنِي فِيهِ قَالَ: فَيُشَفَّعَانِ))(مسند احمد)’’روزہ اور قرآن بندے کی سفارش کریں گے، روزہ کہے گا: اے اللہ! میں نے اسے دن بھر کھانے پینے اور دیگر خواہشات سے روکے رکھا، تو اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما، اور قرآن کہے گا: میں نے اسے رات کو نیند سے روکے رکھا، پس اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما، پس ان دونوں کی سفارش قبول کی جائے گی‘‘۔
﴿وَمَن كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ
وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَىٰ مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ﴾
’’اور اگر کوئی شخص بیمار ہو یا سفر پر ہو تو وہ دوسرے دنوں میں اتنی ہی تعداد پوری کرلے، اللہ تمہارے ساتھ آسانی کا معاملہ کرنا چاہتا ہے اور تمہارے لیے مشکل پیدا کرنا نہیں چاہتا، تاکہ (تم روزوں کی) گنتی پوری کرلو، اور اللہ نے تمھیں جو راہ دکھائی اس پر اللہ کی تکبیر کہو اور تاکہ تم شکر گزار بنو‘‘۔
ان آیات میں اللہ تعالی نے انسانوں کے لیے آسانی فرمائی ہے اور مریض اور مسافر کو یہ رعایت دی ہے کہ وہ روزہ چھوڑ سکتے ہیں البتہ رمضان کے بعد انھیں بطور قضا روزہ رکھنا پڑے گا۔ مسافر کے لیے روزہ رکھنا اور روزہ نہ رکھنا دونوں جائز ہیں اگر اس کو روزہ رکھنے سے ضرر نہ ہو تو روزہ رکھنا افضل ہے اور اگر ضرر ہو تو روزہ نہ رکھنا افضل ہے۔
﴿يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ﴾
اسلام دین یسر ہے،اسلام نے کوئی ایسا حکم نہیں دیا جس سے امت حرج اور دشواری میں مبتلا ہوجائے۔ قرآن مجید میں ہے: ’’ اللہ تعالیٰ یہ ارادہ نہیں فرماتا کہ تم پر تنگی کی جائے‘‘۔(المائدہ : ٦) اور’’اللہ تعالیٰ نے تم پر دین میں کوئی تنگی نہیں کی‘‘۔ (الحج : ٧٨) مریض اور مسافر کو دی جانے والی چھوٹ اللہ تعالی کی اسی آسانی پر مبنی ہے۔
﴿وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ ۖ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ۖ
فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ﴾
’’اور (اے پیغمبر) جب میرے بندے آپ سے میرے بارے میں پوچھیں تو ( آپ ان سے کہہ دیجیے کہ) میں اتنا قریب ہوں کہ جب کوئی مجھے پکارتا ہے تو میں پکارنے والے کی پکار سنتا ہوں لہذا وہ بھی میری بات دل سے قبول کریں، اور مجھ پر ایمان لائیں، تاکہ وہ راہ راست پر آجائیں‘‘۔
اس آیت میں اللہ تعالی نے واضح فرما دیا کہ اللہ تعالی اپنے بندوں کے قریب ہے اور بندے جب چاہیں اور جہاں چاہیں اپنے رب سے دعا کے ذریعے رابطہ کر سکتے ہیں۔البتہ اس کے لیے انسان کو اللہ تعالی کے ساتھ اپنے تعلق کو درست کرنا پڑے گا۔ انسان اللہ تعالی کے احکامات کو مانے اور اپنے ایمان کو راسخ رکھے تاکہ اللہ سے اس کا تعلق مضبوط ہو۔ رمضان کے احکام کے ذیل میں قبول دعا کا ذکر کرنے میں یہ بھی اشارہ ہے روزے اور رمضان میں دعاؤں کی قبولیت کے مواقع زیادہ ہیں اس لیے ان سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔