جوڑی بہت عمدہ تھی اور وہ دونوں رسولِ خدا ﷺ کے صحابی تھے۔ ایک ساتھ ایمان لائے اور ایک ساتھ ہی بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوئے۔ان میں سے پہلا،دوسرے کی نسبت امورِ دین میں زیادہ محنت کرنے والا تھا۔ ایک غزوے کا موقع آیا تو ان کی جوڑی ٹوٹی۔محنتی دوست نے شہادت کا رتبۂ بلند پایا، جبکہ ان کا جوڑی دار تنہا زندگی گزارتارہا۔ ’’بچھڑ کے لوگ زیادہ جیا نہیں کرتے ‘‘ کے مصداق اگلے ہی سال طبعی موت پا کر یہ بھی راہیٔ ملکِ بقا ہوئے۔ اللہ تعالی سچوں کو سچ دکھاتا رہتا ہے، چنانچہ حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ کو ان دونوں کے بارے میں خواب دکھایا گیا۔ کہتے ہیں کہ میں جنت کے دروازے پر کھڑا تھا اور وہ دونوں دوست بھی وہیں موجود تھے۔ اتنے میں جنت سے ایک بندہ نکلا اور اس نے اولاً ، بعد میں وفات پانے والے دوست کو جنت میں داخلے کی اجازت دی، بلکہ اسے لے کر اندر چلا گیا اور پھر تھوڑی دیر بعد نکلا اور پھر اس نے شہید کو جنت میں داخلے کا اذن دیا۔صبح ہوتی ہے تو حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ لوگوں کو یہ خواب سناتے ہیں۔دیکھیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بڑی تعداد نے اس خواب کو سنا۔اگرچہ بعد میں رسول اللہ ﷺ نےا س خواب کی تصدیق فرما دی تھی لیکن ابھی تک وہ تصدیق سامنے نہیں آئی تھی لیکن اس کے باجود ، اس خواب کے سچے ہونے پر کسی نے شک و شبہے کا اظہار نہیں کیا ، اس لیے کہ سچے ، سچ کی جانچ اور سچے کی پہچان رکھتے ہیں۔ ہاں البتہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس خواب میں دکھائی جانے والی صورتحال پر متعجب ضرور ہوئے۔ باعثِ حیرانی یہ تھا کہ طبعی موت مرنے والا شہید سے سبقت کیسے لے گیا۔ اصل میں یہ اجتہاد فی العبادت اور رمضان کی ریاضت کا صلہ تھا جو مرنے والے کو شہید سے پہلے جنت میں لے جانے کا ذریعہ بنا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنی حیرانی کا اظہار ایک دوسرے کے سامنے ضرور کیا ہوگا، جبھی تو یہ بات رسول اللہ ﷺ تک پہنچی، آپﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا’’تم کیوں کر حیران ہوئے جاتے ہو؟‘‘، لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ شخص کثرت عبادت کے ساتھ مرتبہ شہادت سے بھی سرفراز ہوا لیکن جنت میں یہ بعد میں داخل ہو رہا ہے اور اس معاملے میں دوسرے کو اس پر ترجیح دی گئی۔ آپﷺ نے پوچھا:’’یہ بتاؤ طبعی موت مر کر پہلے جنت میں داخل ہونے والا شہید کے بعد ایک سال کی مدت زندہ رہا کہ نہیں؟انھوں نے عرض کیا:جی ہاں کیوں نہیں، بالکل ایسا ہی ہے۔ آپﷺ نے پوچھا: کیا اس نے رمضان کا مہینا پا کر اس کے روزے نہیں رکھے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نےفرمایا: بالکل یا رسول اللہ! پھر آپ نے پوچھا: کیا اس نے اس سال میں اتنی اتنی نمازیں نہیں پڑھیں اور سجدے نہیں کیے؟ انھوں نے عرض کیا: کیوں نہیں، یا رسول اللہ! ایسا ہی ہوا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: بس اسی وجہ سے ان کے درمیان زمیں و آسمان کا فرق واقع ہو گیا‘‘۔ (مسند احمد) عرصۂ حیات کا قدرے لمبا ہو جانا ، اصل میں مہلت عمل میں اضافہ ہے اور نیک بندے کے لیے یہ مہلت بہت کام کی چیز ہے۔اسی لیے مومن زندگی سے کبھی نہیں گھبراتا اس لیے کہ وہ جانتا ہے کہ یہی تو اس کی کمائی کی جگہ ہے۔ مشکل ترین حالات میں بھی زندگی سے پیچھا چھڑانے یا موت کی طلب سے یہ فرما کر روکا گیا: ﴿إِمَّا مُحْسِنًا فَلَعَلَّهُ أَنْ يَزْدَادَ خَيْرًا، وَإِمَّا مُسِيئًا فَلَعَلَّهُ أَنْ يَسْتَعْتِبَ﴾(صحیح بخاری) ’’یا تو بندہ نیک ہے تو امید ہے اس کی نیکی ہی میں اضافہ ہو گا اور اگر وہ برا ہے تو شاید وہ توبہ کر لے‘‘۔لمبی عمر کی خواہش ہر انسان میں ہوتی ہے، لیکن باعثِ بشارت عمر وہ ہے جس حسن عمل کے ساتھ ہو: ﴿طُوبَى لِمَنْ طَالَ عُمْرُهُ وَحَسُنَ عَمَلُهُ﴾ (سنن ترمذی)’’بشارت ہے اس کے لیے جس کی عمر زیادہ ہو اور اس کا عمل نیک ہو‘‘۔اب جسے یہ مہلت عمل رمضان کی صورت میں دی جائے تو یقینا وہ خوش قسمت ہے۔اس لیے کہ عام طور پر یہ نیکی کا مہینا تو ہے ہی لیکن دوسری طرف برائی کی قوتیں ، سرکش شیاطین اور جنات کو قید کر دیا جاتا ہے یعنی رمضان کا مل جانا گویا نیکی کی عمر ، یا نیکی کی عمر کے ایک حصے کو پالینا ہے، اسی لیے تو ’’ بلغنا رمضان ‘‘ کی دعائیں مانگی جاتی رہیں۔ تو خوش قسمت ہے وہ جس نے رمضان کا مہینا پایا اور اس میں حسن عمل کا اہتمام کیا اس لیے کہ یہ نجات کا مہینا ہے: ﴿لِلَّهِ عُتَقَاءُ مِنَ النَّارِ وَذَلِكَ كُلَّ لَيْلَةٍ ﴾ (سنن ترمذی)’’بے شک اللہ کی طرف سے بہت سارے لوگوں کو دوزخ سے نجات دی جاتی ہے اور یہ معاملہ رمضان کی ہر رات میں ہوتا ہے‘‘۔
رمضان ، محنت و مشقت کا مہینا ہے۔ دن کو روزہ رکھ کر اپنے کھانے پینے کی قربانی دینا اور شب کو بیدار رہ کر اللہ کی عبادت کرنا یقینا ایک محنت طلب کام ہے، لیکن اس تکان سے راحت جنت کی صورت میں ملنے والی ہے۔وہ جنت جسے رمضان میں سجایا جاتا ہے تو اسے یہ پیغام دیا جاتا ہے ﴿يُوشِكُ عِبَادِي الصَّالِحُونَ أَنْ يُلْقُوا عَنْهُمُ الْمَئُونَةَ وَالْأَذَى وَيَصِيرُوا إِلَيْكِ﴾(مسند احمد )’’قریب ہے کہ میرے نیک بندے، اپنی تکلیف و تھکاوٹ اتارنے تیری طرف آئیں ‘‘۔تو اہل ہوس کی سب مصلحتوں کو پامال کیجیے۔ تن بدن کی راحت ، کام و دہن کی لذت اور نیند ِشب کی صحت کی پرواہ مت کریں۔ دن کو روزہ رکھیں تو اس کے آداب کا خیال رہنا چاہیے۔ ممنوعات و مکروہات سے اجتناب کا خوب اہتمام ہونا چاہیے۔ قرآن کریم کی کثرت سے تلاوت، اللہ کے نام کا خوب خوب ذکر ، تراویح کی اچھی طرح ادائی، سنت موکدہ ، غیر موکدہ ، نماز تہجد ، صلاۃ التسبیح اور دیگر نوافل کا اہتمام ، دروس قرآن کی محافل میں شرکت اور صدقہ و خیرات سمیت نیکی کے امور میں خود کو خوب تھکانا چاہیے کہ ہمارے لیے تھکان سے آسودگی کا مقام بہت عمدہ ہے۔