لاگ ان

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

لاگ ان

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

لاگ ان / رجسٹر
جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

اعلی حضرت مولانا احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ (۱)

تعارف و تشریح: حماد احمد ترک

پھر کے گلی گلی تباہ، ٹھوکریں سب کی کھائے کیوں ​
دل کو جو عقل دے خدا، تیری گلی سے جائے کیوں ​
​رخصتِ قافلہ کا شور، غش سے ہمیں اٹھائے کیوں ​
سوتے ہیں اُن کے سائے میں، کوئی ہمیں جگائے کیوں​
بار نہ تھے حبیب کو، پالتے ہی غریب کو​
روئیں جو اب نصیب کو، چین کہو گنوائے کیوں​
یادِ حضور کی قسم، غفلتِ عیش ہے ستم ​
خوب ہیں قیدِ غم میں ہم، کوئی ہمیں چھڑائے کیوں ​

(۱)آپ کی ولادت ۱۸۵۶ ء میں ہندوستان کےمشہور شہر بریلی میں ہوئی۔ بقول مولانا ابو الحسن علی الندوی: ’’ آپ نہایت کثیر المطالعہ، وسیع المعلومات اور متبحر عالم تھے، رواں دواں قلم کے مالک اور تصنیف و تالیف میں جامع فکر کے حامل تھے‘‘۔ عابدؔ نظامی لکھتے ہیں: ’’یہ کوئی شاعرانہ تعلّی نہیں، بلکہ عینِ حقیقت ہے،ان کے اشعار پڑھتے ہوئے ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے فصاحت وبلاغت،حلاوت وملاحت،لطافت ونزاکت یہ سب ان کے ہاں کی لونڈیاں ہیں‘‘۔ بقول شان الحق حقی: ” میرے نزدیک مولانا کا نعتیہ کلام ادبی تنقید سے مبرا ہے۔ اس پر کسی ادبی تنقید کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کی مقبولیت اور دلپذیری ہی اس کا سب سے بڑا ادبی کمال اور مولانا کے مرتبے پر دال ہے‘‘۔ کوثر نیازی نے آپ کو نعت کا امام قرار دیا ۔آپ کا دیوان حدائقِ بخشش کے نام سے شائع ہوا۔ پیشِ کردہ نعت مرزا غالب ؔ کی زمین میں کہی گئی ہے:

دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ آئے کیوں
روئیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں ستائے کیوں
دیکھ کے حضرتِ غنی، پھیل پڑے فقیر بھی​
چھائی ہے اب تو چھاؤنی، حشر ہی آنہ جائے کیوں​

یعنی نبی اکرمﷺکی کرما فرمائی اور جود و سخا سے فیض پا کر، آپ کے غلاموں نے وہاں سے تاحشر نہ جانے کا تہیہ کر لیا۔

جان ہے عشقِ مصطفی، روز فزوں کرے خدا​
جس کو ہو درد کا مزہ، نازِ دوا اٹھائے کیوں​
​​​اب تو نہ روک اے غنی عادتِ سگ بگڑ گئی ​
میرے کریم پہلے ہی لقمۂ تر کھلائے کیوں​
​سنگِ درِ حضور سے ہم کو خدا نہ صبر دے​
جانا ہے سر کو جاچکے، دل کو قرار آئے کیوں​
​ہے تو رضا نِرا ستم، جرم پہ گر لجَائیں ہم​
کوئی بجائے سوزِ غم سازِ طرب بجائے کیوں​

لَجانا یعنی شرمندہ ہونا۔ جرم سے مراد محبوب کا در چھوڑنا۔ دوسرے مصرعے میں پہلا ’’بجائے‘‘ سے مراد ہے ’’کی جگہ‘‘ اور دوسرا ’’بجائے‘‘سے مراد قتِ رخصت قافلے کی روانگی کے لیے گھنٹی بجانا، قافلے کی گھنٹی کو سازِ طرب قرار دیا کہ ساز عموما خوشی کے وقت بجایا جاتا ہے اور گھنٹی کی آواز بھی ایک طرح کا ساز ہے۔ مفہوم شعر کا یہ ہوا کہ ہم محبوبﷺکو چھوڑ کر واپس جا رہے ہیں اور ہم اپنے اس جرم پر شرمندہ ہیں، اس جدائی پر چاہیے تو یہ تھا کہ سوزِ غم منایا جاتا، سازِ طرب کیوں بجایا جا رہا ہے، لفظ ’’بجائے‘‘ کے استعمال نے شعر کی خوبصورتی کو چار چاند لگادیے ہیں۔اسے صنعتِ تجنیس بھی کہا جاتا ہے۔

لرننگ پورٹل