لاگ ان

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

لاگ ان

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

لاگ ان / رجسٹر
جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

فتاویٰ یسئلونک
دارالافتاء، فقہ اکیڈمی

سوال:السلام علیکم! شوال کے چھے روزوں کا کیا حکم ہے؟ ایک مفتی صاحب کا کہنا ہے کہ شوال کے چھے روزوں کی احادیث کی صحت کا تین بڑے اماموں نے (امام ابوحنیفہ، امام مالک اور امام بخاری رحمہم اللہ نے) انکار کیا ہے، اسی طرح محقق علی الاطلاق علامہ ابن ہمام اور علامہ ابن نجیم شارح کنز الدقائق رحمہما اللہ نے ان روزوں کو ناجائز روزوں میں شمار کیا ہے۔

شوال کے چھے روزے مستحب ہیں ان کا رکھنا باعث ثواب ہے اور ان کو مکروہ سمجھنا درست نہیں۔حدیث شریف میں ہے:  عن أبي أیوب عن رسول اﷲﷺقال: من صام رمضان ثم أتبعه ستامن شوال فذاک صیام الدهر‘‘ . (رواہ الجماعة إلاالبخاري والنسائي) ترجمہ: ’’ جس نے رمضان کے روزے رکھے اورپھرشوال کے چھے روزے رکھے تویہ ہمیشہ (یعنی پورے سال)کے روزے شمارہوں گے‘‘۔اس حدیث کوامام مسلم ،ابوداؤد،ترمذی اورابن ماجہ سب نے صحیح سندکے ساتھ ذکرکیاہے، فقہ حنفی کی معتبرکتابوں نے بھی ان روزوں کومستحب اورسنت قراردیاہے،چنانچہ الدر المختار میں ہے: (وندب تفریق صوم الست من شوال ) ولایکره التتابع علی المختار خلافا للثاني حاوي والأتباع المکروه أن یصوم الفطروخمسة بعده فلوأفطرالفطرلم یکره بل یستحب ویسن۔ ابن کمال

علامہ شامی علیہ الرحمۃ نے بھی’’الدرالمختار‘‘کی مذکورہ عبارت کی تشریح کرتے ہوئے مختلف کتابوں کے حوالہ سے حنفی مذہب میں راجح اورمختارقول کے مطابق ان روزوں کوثابت کردیاہے۔ اوراخیرمیں علامہ قاسم ابن قطلوبغاکے ایک رسالے کاحوالہ دیتے ہوئے، جن لوگوں نے ان روزوں کی مطلقاً کراہت کوامام ابوحنیفہ کی طرف منسوب کیاہے ان لوگوں کے دعوے کوجھوٹااوربلادلیل قراردیاہے۔وتمام ذلک في رسالة ’’ تحریرالأقوال في صوم الست من شوال ‘‘ للعلامة قاسم وقد رد فيهاعلی مافی منظومة التباني وشرحامن عزوه الکراهة مطلق إلی أبي حنیفة وأنه الاصح بأنه علی غیرروایة الأصول وأنه صحح مالم یسبقه أحد إلی تصحیحه وأنه صحح الضعیف وعمد إلی تعطیل مافیه الثواب الجزیل بدعوی کاذبة بلادلیل ثم ساق کثیرامن نصوص کتب المذهب فراجعافاهم

سوال میں جتنی کتابوں کا ذکر فرمایا گیا ہے ان تمام کتابوں میں کراہت کے قول کو نقل فرما کر عامۃ المشائخ کے جواز کا قول بھی ذکر کیا گیا ہے اور جو کراہت ہے اس کے بارے میں علامہ کاسانی فرماتے ہیں کہ کراہت صرف اس صورت میں ہے جبکہ عید کے دن کو بھی اس میں شامل کر لیا جائے اور عید کے دن روزہ رکھ کر باقی پانچ دن روزہ رکھا جائے لیکن اگر عید کے دن روزہ نہ رکھا جائے تو اس میں کراہت بھی نہیں۔ والأتباع المکروه هوأن یصوم یوم الفطرویصوم بعده خمسة أیام فأما إذا أفطریوم العید ثم صام بعده ستة أیام فلیس بمکروه بل هومستحب وسنة ۔امام مالک رحمہ اللہ ان روزوں کو ناجائز یا مکروہ نہیں فرماتے بلکہ ان روزوں کو فرض سمجھنے سے منع فرماتے ہیں چنانچہ فقہ مالکی کی مشہور کتاب الاستذکار میں ہے :’’امام مالک کے ہاں یہ روزے مکروہ نہیں ہوں گے ان شاءاللہ کیونکہ روزہ ڈھال ہے اور اللہ تعالی کے لیے کھانے پینے اور اپنی شہوات کو چھوڑ دینے کی فضیلت معلوم ہے اور یہ خیر اور نیکی کا کام ہے اور امام مالک رحمہ اللہ ان تمام چیزوں سے ناواقف نہیں تھے اور انہوں نے ان روزوں کو ان فضائل کی بنیاد پر مکروہ نہیں کہا بلکہ ناواقف لوگوں کے خوف سے کہ وہ ان کی متابعت کر کے ان کو رمضان کے روزوں میں شمار نہ کرنے لگیں‘‘۔اور امام بخاری رحمہ اللہ کا ان روزوں کی فضیلت پر مشتمل حدیث کا اپنی صحیح میں ذکر نہ کرنا اس سے انکار پر دلالت نہیں کرتا بلکہ ممکن ہے کہ ان کی متعین کردہ شرائط کے موافق نہ ہونے کی وجہ سے اس کہ تخریج نہ فرمائی ہو کیونکہ گزشتہ سطور میں یہ بات ذکر کی جا چکی ہے کہ یہ حدیث سند کے اعتبار سے صحیح ہے ۔لہذا شوال کے ان روزوں کو مطلقا مکروہ سمجھنا درست نہیں، جبکہ سلف صالحین کے ہاں ان روزوں کے رکھنے کا معمول بھی چلا آرہا ہے۔ اس لیے صحت وقدرت ہو تو ان روزوں کا اہتمام کرنا چاہیے۔

لرننگ پورٹل