لاگ ان

ہفتہ 21 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 23 نومبر 2024

لاگ ان

ہفتہ 21 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 23 نومبر 2024

لاگ ان / رجسٹر
ہفتہ 21 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 23 نومبر 2024

ہفتہ 21 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 23 نومبر 2024

اس مضمون میں ہم اردو املا سے متعلق چند اہم اور بکثرت استعمال ہونے والے الفاظ پر بحث کریں گے جنھیں عموما غلط املا سے لکھا جاتا ہے۔ املا کے ضمن میں جو اہم ترین اور بنیادی اصول ہے، اگر وہ پیشِ نظر رہے تو اغلاط کی شرح نہایت کم ہوجاتی ہے۔ استاذ محترم، ماہرِ لسانیات، ڈائریکٹر جنرل ادارہ فروغِ قومی زبان ڈاکٹر عبد الرؤف پاریکھ صاحب سے ہی یہ اصول سیکھا تھا کہ’’جو لفظ جیسے بولتے ہیں ویسے ہی لکھیں گے‘‘۔ چنانچہ اس اصول کے تحت ہم کچھ الفاظ ذکر کرتے ہیں:

۱)’’ہ‘‘ اور’’ھ‘‘ میں غلطی :

اردو میں ہاے حطی (ح) کے علاوہ ، ہاے ہَوَز ، اور ہاے مخلوط (ھ) بھی استعمال ہوتی ہیں۔ ہاے مخلوط (ھ) کسی دوسرےحرف کے ساتھ مل کر اس حرف کی معروف آواز میں تغیر کا باعث بنتی ہے، یعنی یہ (ت ) کے ساتھ مل کر اسے (تھ) تھے بنا دیتی ہے۔ جبکہ ہاے ہوز ، وہاں استعمال ہوتی ہے جہاں (ہا) کی آواز دوسرے حرف میں مدغم نہ ہو بلکہ الگ سے سنائی دے۔ پس لکھتے وقت خیال رکھنا چاہیے کہ ہاے ہوز اور ہاے مخلوط ایک دوسرے کی جگہ استعمال نہ ہوں۔ذیل کی مثالوں پر غور کرنے سے بات واضح ہو جائے گی:

(پانی کا ) بہاؤ ، ہاے ہوز سے لکھا جائے گا اس لیے کہ اس میں (ہا ) کسی دوسرے حرف کے ساتھ مدغم نہیں ہو رہی اور (آٹے دال کا ) بھاؤ، ہاے مخلوط سے لکھا جائے گا اس لیے کہ یہاں ( ہا ) بے کے ساتھ مدغم ہو رہی ہے ۔

کہو اور کھو، بَہلانا اور بُھلانا،پَہَر اور پِھر ، اور اس طرح کے بہت سے ملتے جلتے الفاظ ہیں جن میں ( ہا ) کا استعال سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے۔ اگر ان الفاظ کا املا غلط لکھا تو معنی کچھ سے کچھ ہو جائے گا جیسے ہم کہیں کہ’’اس پانی کا’بھاؤ‘ کتنا ہے‘‘ ’’دال مسور کا بہاؤ کیا ہے ‘‘یا ’’تم نے میرا قلم’کہو‘ دیا‘‘ یا ’’ماں اپنے بچے کو’بھلاتی‘ رہی‘‘۔ تو مفہوم بالکل ہی بدل گیا۔

اسی طرح درج ذیل الفاظ میں بھی ( ہا ) کی غلطی عام پائی جاتی ہے ۔ یعنی یہ عموماً ’’ھ‘‘ کے بجائے’’ہ‘‘ سے لکھے جاتے ہیں جبکہ ان کا درست املا یوں ہے: تمھیں، تمھارا، جنھیں، جنھوں، انھیں، انھوں۔ واضح رہے کہ ہم بولتے وقت ان تمام الفاظ کو’’ھ‘‘ کے ساتھ ادا کرتے ہیں یعنی ’’ تُم ہیں ‘‘ نہیں بلکہ ’’ تُ مھیں ‘‘ بولتے ہیں۔تو چونکہ لفظ کا املا اس کے تلفظ کے مطابق ہونا چاہیے یعنی لفظ جیسے بولا جائے اسے اسی طرح لکھنا چاہیے لہذا ، مندرجہ بالا الفاظ’’ھ‘‘ (ہاے مخلوط) کے ساتھ لکھے جانے چاہیے۔ اب ہم ان الفاظ کے تلفظ کو وزن شعری سے ثابت کرتے ہیں :

یہ وادیاں یہ فضائیں بلا رہی ہیں تمھیں خموشیوں کی صدائیں بلا رہی ہیں تمھیں

ساحرؔ کا یہ شعر بحرِ مجتث مثمن مخبون محذوف میں ہے یعنی ’’مفاعِلُن فَعِلاتُن مفاعِلُن فَعِلُن‘‘۔ اگر یہاں تمہیں (تم ہیں) پڑھا جا ئے تو شعر بحر سے خارج ہو جائے گا۔۔۔ کیسے؟آخری حصے کی تقطیع دیکھیے!

صحیحبلا(مفا) رہی(علن) ہیں تُ(فعِ) مھیں(لُنْ)

غلط= بلا(مفا) رہی(علن) ہیں (مف)تم (عو)ہیں(لُن) اور یہ کوئی بحر ہے ہی نہیں۔

اگر چہ بات پیچیدہ ہو گئی لیکن ذرا سی توجہ سے واضح ہوجائے گا کہ’ تمہیں‘ غلط املا ہے۔ چند مزید اشعار ذکرتے ہیں:

تم کو جہان شوق و تمنا میں کیا ملا ہم بھی ملے تو درہم و برہم ملے تمھیں

جونؔ ایلیا کے اس شعر کا وزْن(نہ کہ وزَن)ہے’’مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن‘‘، نتیجہ خود نکال لیجیے۔ جونؔ کایہ شعردیکھیے:

تمھارا ہجر منا لوں اگر اجازت ہو میں دل کسی سے لگا لوں اگر اجازت ہو

احمد مشتاق کا یہ شعر دیکھیے:

کیسے انھیں بھلاؤں محبت جنھوں نے کی مجھ کو تو وہ بھی یاد ہیں نفرت جنھوں نے کی

یہ شعر بحر مضارع یعنی’’مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن ‘‘ میں ہے۔ انہیں(اُن ہیں) اور جنہوں(جِن ہوں) پڑھ کر دیکھیے، آپ خود کہہ اٹھیں گے کہ درست ’’ھ‘‘ سے ہے۔

ہاے مخلوط کسی لفظ کے شروع میں نہیں آتی، جہاں بھی کسی لفظ کے شروع میں (ہا ) آئے گی وہ ہاے ہوز ہی ہو گی چنانچہ ’ہاتھی ‘ کو ’ ھاتھی ‘ ، ’ ہا‘ کو ’ ھا‘ ، ’ ہائے ‘ کو ’ ھائے ‘ ، ’ ہمت ‘ کو ’ ھمت ‘ لکھنا درست نہ ہو گا۔

ایک اہم معاملہ’’ء‘‘ کا ہے۔ وہ عربی الفاظ جو’’فُعَلاء‘‘ کے وزْن پر آتے ہیں جیسے عُلماء، شعراء وغیرہ، انھیں ہم علما اور شعرا بولتے ہیں، جیسے ’’وہاں شعرا کی مجلس تھی‘‘، آپ اس جملے کو ادا کرتے وقت شعرا کے آخر میں ہمزہ نہیں ادا کرتے، چنانچہ ہمزہ لکھا بھی نہیں جائے گا۔ البتہ اگر کسی نام کو درج کیا جائے جیسے’’ندوۃ العلماء‘‘ یا پھر کوئی عربی ترکیب ذکر کی جائے تو ہمزہ لکھا جائے گا جیسے ’’سید الشہداء‘‘۔

اسی طرح عربی کے وہ دیگر الفاظ جن کے آخر میں ہمزہ ہے ۔ اردو میں بدون ہمزہ لکھے جائیں گے جیسے ابتدا، انتہا، آرا(راے کی جمع)، اشتہا، ارتقا، عشا، غذا، غنا، شفا وغیرہ۔ اس املا کے درست ہونے پر اساتذہ کاکلام شاہد ہے ۔جون ایلیا کا شعر ہے:

اب ببر شیر اشتہا ہے میری شاعروں کو تو کھا چُکا ہوں میں

اور علامہ اقبالؔ کا شعر:

ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں

اصول: ہاے مختفی صرف عربی فارسی الفاظ میں آئے گی جیسے دریچہ ، پروانہ،غنچہ، عمرہ،خزانہ،وغیرہ:

چنانچہ بھروسا، ٹھیکا، دھوکا، راجا،مہینا اور دیگر ہندی یا سنسکرت سے آئے الفاظ الف سے ہی لکھے جائیں گے۔ البتہ جگہوں کے نام جو ’’ہ‘‘ سے لکھے جاتے ہوں جیسے آگرہ،لاڑکانہ،افریقہ،کوئٹہ، یاوہ الفاظ جو عربی فارسی کے نہ ہوں لیکن ’’ہ‘‘سے رائج ہو چکے ہوں جیسےپکوڑہ، سموسہ، انھیں ’’ہ‘‘ سے ہی لکھاجائے گا۔

ان الفاظ کو لکھتے وقت امالے کا قاعدہ برتا جائے گا یعنی املا میں تلفظ کا اتباع ضروری ہوگا جیسے یہاں ایک دریچہ ہے، میں دریچے میں گیا(دریچہ میں گیا غلط ہے)۔ اسی طرح میری ذِمے داری ہے نہ کہ ذمہ داری۔

اصول: اردو میں اسمِ صفت یا اسمِ کیفیت بناتے وقت الفاظ کے آخر میں ’’ ی ‘‘ کا اضافہ کرتے ہیں ۔ اس میں اصول یہ ہے کہ جن الفاظ میں ہاے مختفی ہو صرف ان کے اسمِ صفت یا اسمِ کیفیت میں ’’ ی‘‘ کے ساتھ ’’ گ ‘‘ کا اضافہ کریں گے جیسے دیوانہ سے دیوانگی، روانہ سے روانگی، بیگانہ سے بیگانگی، مردانہ سے مردانگی۔ اس کے علاوہ تمام الفاظ کے آخر میں صرف ’’ ی ‘‘ کا اضافہ ہو گا چنانچہ جدا سے جدائی ہوگا جدائیگی نہیں، ادا سے ادائی ہوگا ادائیگی نہیں،درست سے درستی ہوگا درستگی نہیں، ناراض سے ناراضی ہوگا ناراضگی نہیں۔

درج ذیل الفاظ بھی عموما غلط املا سے لکھے جاتے ہیں:

منہ غلط / منھ درست، مہندی(م ہ ن د ی)غلط / منہدی(م ن ہ دی) درست،مینہ(بارش)غلط / مینھ درست،مصرعہ غلط / مصرع درست، موقعہ غلط / موقع درست،معہ غلط / مع درست،سن ۲۰۲۰ء غلط / سنہ ۲۰۲۰ء درست۔(سنہ کا مطلب سال اور سِن کا مطلب عمر)،دئے،کئے،لئے،کیجئے،دیجئے،لیجئے،کیجیئے،بولئے،پوچھئے غلط / دیے،کیے،لیے، کیجیے، دیجیے، لیجیے، بولیے، پوچھیے درست، چھ(۶) غلط / چھے درست۔

دو لفظوں میں اضافت

جس طرح عربی میں اضافت کے لیے قاعدہ موجود ہے اسی طرح اردو اور فارسی میں بھی ہے۔ فارسی میں تین حروفِ اضافت ہیں، ان تین حروفِ اضافت میں سے کوئی بھی ایک حرف دو لفظوں کے مابین آکر مرکبِ اضافی بناتا ہے، تین حروف یہ ہیں:

ء، ے، -ِ(ہمزہ، بڑی یا اور زیر)۔ جس طرح اردو میں حروف اضافت استعمال کرتے وقت ایک ہی حرف استعمال ہوتاہے یعنی: یہ احمد کی کتاب ہے۔ کی حرفِ اضافت ہے، جب ایک حرف آگیا تو اس کے ساتھ دوسرا حرف لکھنا بیوقوفی ہے جیسے: یہ احمد کی کے کتاب ہے، کی اور کے دونوں کا بیک وقت استعمال غلط ہے اسی طرح فارسی کے حروفِ اضافت میں سے بیک وقت ایک حرف استعمال ہوگا، یعنی ہمزہ آئے گا، یا زیر آئے گا یا پھر یا آئے گی۔

ہمزہ / ء

اگر مضاف کے آخر میں ’’ہ‘‘ ہو یا’’ی‘‘ ہو تو اضافت کے لیے ہمزہ لگائیں گے(صرف ہمزہ)، مثلاً:

شعبۂ اردو، حوالۂ بالا، درجۂ اول، خواجۂ خواجگان قطرۂ دریا، خلاصۂ قرآن، طلبۂ علم(طلبا کے بجائے طلبہ لکھنا درست ہے)۔ چنانچہ شعبۂِ اردو غلط، قطرۂِ دریا غلط ہوگا دو حروفِ اضافت آنے کی وجہ سے۔

زندگیٔ من، خوشیٔ دوست، گرانیٔ طبع ۔

بڑی یا / ے

اگر مضاف کے آخر میں الف ہو تو اضافت بڑی یا سے ہوگی، مثلا:

علماےکِرام، شعراےکراچی، دریاے سندھ،گُل ہاےرنگارنگ، ابتداے عشق، انتہاےسحر وغیرہ۔ چنانچہ علمائے کرام، فقہائے عظام، انتہائے سحر غلط ہوگا۔ اس لیے کہ اس میں دو علامات اضافت جمع ہو رہی ہیں ۔ غالب نے لکھا ہے کہ بوقتِ اضافت بڑی یا پر ہمزہ لگا نا عقل کو گالی دینا ہے(جیسے بیک وقت کا اور کے کا استعمال حماقت ہے)۔ ہمارے استاذ ڈاکٹر عبد الرؤف پاریکھ صاحب دورانِ تدریس یہ قاعدہ بتانے کے بعد ازراہِ تفنن، طلبہ سے فرماتے’’ تم لوگ یا پر ہمزہ لگاؤ اور اپنی عقلوں کو گالی دو‘‘!!

زیر / ِ

درج بالا دو قواعد کے سوا تمام جگہ اضافت زیر سے ہوگی:

پیشِ نظر، شہرِ کراچی، عشقِ نبیﷺ، محبوبِ حقیقی وغیرہ۔

نوٹ: پسِ منظر غلط اور پس منظر درست ہے۔ یہ اصل میں منظرِ پس تھا جسے پس منظر کردیاگیا۔

اہم بات

ایک اہم بات جسے عموماً نظر انداز کردیا جاتا ہے، وہ یہ کہ جس زبان میں بھی عبارت لکھی جائے اس زبان کے قواعد کے مطابق لکھی جائے، مثلاً اگر ہم اپنے مضمون میں عربی عبارت لکھتے ہیں تو اس بات کا خیال رکھیں کہ کہاں یا کے نیچے نقطے آئیں گے کہاں نہیں! کہاں الف کے اوپر ہمزہ آئے گا، کہاں نیچے آئے گا، کہاں ہمزہ نہیں آئے گا وغیرہ، یہی معاملہ فارسی، انگریزی، سندھی، پشتو اور دیگر زبانوں کا ہے کہ ان زبانوں کی عبارتیں ان کے مروجہ رسم الخط میں لکھی جائیں اور لکھتے وقت ان کے قواعد کی رعایت کی جائے۔

لرننگ پورٹل