لاگ ان

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

لاگ ان

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

لاگ ان / رجسٹر
جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

حضرت مولانا مفتی نذیر احمد ہاشمی مدظلہ

رئیس شعبۂ تحقیق و تصنیف، فقہ اکیڈمی

القاعدة الثانیة: العبرة في العقود للمقاصد والمعاني لا للألفاظ والمباني

ترجمہ: ’’تمام عقود میں مقاصد اور معانی کا اعتبار ہوگا الفاظ اور کلام کی ترکیبی عبارت کا نہ ہوگا‘‘۔

یہ قاعدہ سابقہ قاعدے’’ الامور بمقاصدها‘‘ کی فروع میں سے ہے۔ سب سے پہلے مذکورہ قاعدے کے مفردات کا معنی دیکھتے ہیں:

العبرة:لغوی مفہوم دو ہیں:

(۱)نصیحت اور یاددہانی۔ارشادِ خداوندی ہے: ﴿إِنَّ فِي ذَلِكَ لَعِبْرَةً لِمَنْ يَخْشَى﴾ (النازعات:۲۶) ترجمہ:’’بے شک اس میں نصیحت ہے، اس کے لیے جو ڈرتا ہے‘‘۔

(۲) الإعتداد بالشيء في ترتب الحكم ’’ کسی حکم کی ترتیب میں کسی شے کا شمار یا اعتبار کرنا‘‘یہاں پر دوسرا معنی مراد ہے۔

العقود:عقد کی جمع ہے، جو عقد يعقد باب ضرب سے مصدر ہے۔اس کا لغوی معانی  (الربط) ’’ جوڑ نا ‘‘ ہے ، یعنی کسی چیز کو دوسری سے جوڑنے کا عمل ، جس طرح ایک رسی کو دوسری سے جوڑ دیا جائے جسے گرہ کہتے ہیں ۔ارشاد ِربانی ہے: ﴿وَمِنْ شَرِّ النَّفَّاثَاتِ فِي الْعُقَدِ﴾(الفلق:۴)’’اور گرہوں میں پھونکیں مارنے والیوں کے شر سے‘‘۔

گرہ لگانے سے چونکہ آزادانہ حرکت میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے اس لیے  احتباس اللسان(صدور ِکلام میں زبان کے اٹکنے) کے لیے بھی یہی لفظ استعمال ہوتا ہے ۔اللہ عزوجل نے موسیٰ علیہ السلام کی دعا نقل کرتے ہوئے فرمایا ہے:  ﴿وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسَانِي﴾ (طہ:۲۷)’’میری زبان کی گرہ کھول دے‘‘

اس کا ایک معنی (الالتزام) ہے۔قاعدہ زیر مطالعہ میں یہی معنی مراد ہے یعنی کسی قول پر ایسا اتفاق جس سے فریقین پر حقوق و فرائض لازم آ جائیں :ارشاد ربانی ہے: ﴿وَلَا تَعْزِمُوا عُقْدَةَ النِّكَاحِ حَتَّى ۔۔۔۔۔۔ ﴾ (البقرۃ:۲۳۵)’’اور نہ پختہ کرو نکاح کی گرہ (معاہدہ) یہاں تک کہ۔۔۔‘‘نیز فرمایا : ﴿يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ﴾ (المائدہ:۱) ’’اے اہل ایمان اپنے عقود کو پورا کرو ‘‘۔ مندرجہ بالا آیات میں عقد ہ یا عقود سے مراد ہے (ما يتعاقد عليه اثنان وما يعاهد ربه)’’ایسا عقد و معاہدہ جو دو اشخاص کے درمیان طے کیا جائے یا بندے اور اس کے رب کے درمیان طے شدہ ہو ‘‘۔

عقد کااصطلاحی مفہوم: علما نے عقد کی متعدد تعریفات کی ہیں، جو آپس میں متقارب ہیں:

(۱) ارتباط ارادتين لإنشاء التزام أو نقله أو نهائه. کسی التزام(ذمے داری) کے انشا (ایجاد)، نقل یا اختتام تک پہنچانے کے لیے دو (اشخاص کے)ارادوں کے درمیان ارتباط۔

(الوجيز في شرح القواعد الفقهية في الشريعة الإسلامية لعبد الكريم زيدان، ص:14 بالهامش)

(۲) ارتباط الإيجاب بالقبول. ایجاب کا قبول کے ساتھ جڑنا۔( التعريفات الفقهية، ص:149)

(۳) ارتباط ايجاب بقبول على وجه مشروع يثبت أثره في محله ’’مشروع طریقے سے ارتباط کہ اس کا اثر محل میں ظاہر ہوجائے‘‘۔ ( مجلة الأحكام العدلية، دفعة:153.154) یعنی دو فریقوں کا کسی امر کی بابت اپنی ذات پر ذمے داری لے کر اپنے آپ کو اس کا پابند کرلینا۔ مذکورہ بالا تینوں تعریفات میں تیسری تعریف بنسبت دوسری اور پہلی تعریف کے زیادہ مناسب ہے۔کیوں کہ اس میں فریقین کے اتفاق اور تعاقد کو لفظِ مشروع کے ساتھ مُقَیَّد کیا گیا ہے، جس سے وہ عقود جو شرعاً حرام ہیں، نکل گئے۔

المعاني :معنی کی جمع ہے۔ اور اس کا مفہوم تفسیر وتاویل اور ، مراد ِمتکلم ہے۔

اصطلاحی مفہوم: وہ صورۃ ذہنیہ جس پر لفظ دلالت کرتا ہے۔

الألفاظ :لفظ کی جمع ہے، جو لفظ یلفظ باب ضرب سے مصدر ہے۔اس کا لغوی مفہوم: پھینکنا ہے۔ ارشادخداوندی ہے: ﴿مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ﴾ (ق:۱۸)’’ نہیں نکالتا کوئی بات مگر اس کے پاس ہوتا ہے ایک نگران ہوشیار‘‘۔

اصطلاحى مفہوم: الصوت الخارج من الفم حروفا مقطعة ’’حروف مقطعہ کی صورت میں منھ سے نکلنے والی آواز‘‘ یہ مستعمل اور مہمل دونوں کو شامل ہے۔حاصل یہ کہ الفاظ ایسا وسیلہ ہیں، جس کے ذریعے انسان اپنی دلی مراد کو ظاہر کرتا ہے۔

المباني:مبنی کی جمع ہے۔ اور اس سے مراد الجملة من الكلام ہے۔

العقود پر الف لام استغراقی ہے۔ یعنی عقود کی تمام اقسام میں ان کے معانی مقصودہ کا اعتبار ہوکر ان کے مطابق عمل ہوگا۔ الفاظ کا تغیر وتبدل ان کو ان کے مقاصد شرعیہ سے علیحدہ نہ کرسکے گا۔

یہ قاعدہ سابقہ قاعدہ’’ الأمور بمقاصدها‘‘ کو شامل ہے۔ کیوں کہ عقود بھی منجملہ ان امور کے ہیں، جن کو انسان روزمرہ کی زندگی میں انجام دیتا رہتا ہے۔ اس طرح اس قاعدے کو سابقہ قاعدے کی فرع بھی کہا جاسکتا ہے۔

قاعدۂ مذکورہ کی فروعات اور تطبیقات:

اگر ایک شخص نے دوسرے سے کہا کہ یہ مکان ہر ماہ اتنی رقم کے عوض تمھیں عارْیَت پر دیا۔تو اگرچہ عاریت کے لفظ کا معنی اپنی چیز ،بلاعوض کسی کے استعمال میں دینا ہے ۔ لیکن لفظ کے یہ معنی عقد کے مقصدو معنی میں خلل انداز نہ ہوں گے بلکہ فریق دوم کی قبولیت کی صورت میں اسی قول سے عقد اجارہ منعقد ہو جائے گا ۔اسی طرح اگر ایک عورت نے کسی کے پیغامِ نکاح دینے پر اس کے جواب میں کہا کہ ’’میں نے اتنے مال کے عوض اپنا نفس تم پر ہبہ کیا‘‘ تو اگرچہ لفظ ہبہ اپنے معنی کے ساتھ اس قول و قرار کے مناسب نہیں ہے لیکن لفظ کا غلط استعمال عقد کے مقصد پہ رکاوٹ نہیں بنے گا اور عقد نکاح منعقد ہو جائے گا۔ یا کسی مدیون(قرض لینے والے ) نے اپنے دائن(قرض دینے والے) سے اس طرح کہا کہ آپ کا ایک ہزار ، روپیہ قرض جو میرے ذمے ہے ، اس کے عوض یہ کپڑا میں آپ کو ایک ہزار روپے میں فروخت کرتا ہوں، لیکن شرط یہ ہے کہ جب میں قرض کا ایک ہزار روپیہ آپ کو ادا کروں گا تو یہ کپڑا آپ مجھے واپس کردیں گے ۔اب اس قول میں لفظ فروخت بے محل استعمال ہوا ہے کیونکہ جو صورت بتائی جا رہی ہے وہ رہن کی ہے نہ کہ بیع کی تو لفظ فروخت کے استعمال کے باوجود ، دائن کی قبولیت کی صورت میں عقد رہن ہی منعقد ہو گا نہ کہ عقد بیع !!

فقہ اسلامی میں اس قاعدے کی فروع کثرت سے موجود ہیں۔ مثلاً ایک شخص نے کچھ رقم کے عوض کسی سے کوئی چیز خریدی اور اس کے بعد بائع کو کپڑا دیتے ہوئے اس سے کہا کہ یہ کپڑا قیمت کی ادائی تک اپنے پاس رکھو تو یہ بائع کے پاس رہن سمجھا جائے گا۔ اگرچہ خریدار نے رہن کا لفظ استعمال نہیں کیا لیکن چونکہ عقود میں معانی کا اعتبار ہوتا ہے نہ کہ الفاظ کا لہذا مشتری کے کلام کے معنی و مقصد کی رعایت کرتے ہوئے عقد مذکور عقد بیع مانا جائے گا۔

بحر الرائق کی کتاب الکفالہ میں ہے کہ حیات(صحت) کی حالت میں وصیت کا لفظ وکالت ہوگی اور وکالت کا لفظ موت کے بعد کے لیے وصیت ہوگا۔ اس لیے کہ قابل لحاظ معانی ہوتے ہیں نہ کہ الفاظ ۔

ہبہ بشرط العوض بیع ہوتا ہے۔ چناں چہ اگر کسی نے دوسرے سے کہا )وهبتك هذا الفرس بمأة دينار(’’ میں نے یہ گھوڑا سو دینار میں تمھیں ہبہ کیا‘‘ اور دوسرے نے قبول کیا تو یہ بیع ہوگی، اگرچہ عبارت میں ہبہ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔

اسی طرح اعارہ بشرط عوض اجارہ ہے۔ چناں چہ اگر کسی نے دوسرے سے کہا (أعرتك سيارتي هذه بخمسين دينارا تستعملها هذا اليوم في صنعاء) ’’ میں آپ کو اپنی یہ گاڑی پچاس دینا ر، کے عوض عاریتاً دیتا ہوں جس کو آپ آج کے دن صنعامیں استعمال کر سکیں گے ‘‘ اور دوسرے نے اس پیشکش کو قبول کر لیا تو یہ عقد اجارہ سمجھا جائے گا نہ کہ اعارہ ، اگرچہ ایجاب میں لفظ اعارہ کا استعمال کیا گیا ہے۔

اگر قرض کےکسی معاملے میں ’حوالے ‘ کے لفظ کے ساتھ کوئی عقد کیا جائے لیکن جو شرائط طے کی جائیں تو وہ ’کفالہ ‘ کی ہوں تو باوجود لفظ ’ حوالہ‘ کے استعمال کے ، مذکورہ معاملے کو عقد کفالہ قرار دیا جائے گا۔

حوالہ اور کفالہ کی تعریفات :کفالہ کی تعریف اس طرح کی جاتی ہے: (ضم ذمة إلى ذمة في المطالبة بالدين) دَین (قرض)کے مطالبے میں ایک فرد (مکفول عنہ یعنی وہ مقروض جس کے قرض کی ذمےداری کوئی دوسرا لے رہا ہو) کے ذمے کو دوسرے شخص ( یعنی کفیل جو یہ کہے کہ فلاں مقروض کے قرض کے ادا ہونے کی ذمے داری میں اٹھاتا ہوں) کے ذمے سے ملانا ۔ اس تعریف کی رو سے کفالہ میں مکفول عنہ کے ذمے سے دَین کفیل کے ذمے کی طرف منتقل نہیں ہوتا بلکہ مکفول عنہ یعنی مقروض پر اپنے قرض کی ادائی کی ذمے داری بدستور عائد رہتی ہے البتہ اس کی اس ذمے داری میں کفیل بھی شریک ہو جاتا ہے ۔

’حوالہ‘کی تعریف یوں کی جاتی ہے: (نقل دین من ذمة إلی ذمة)’’ کسی قرض کا ایک شخص (یعنی مقروض ، مُحیل ) کے ذمے سے کسی تیسرے شخص (یعنی محال علیہ) کی جانب منتقل ہو جانا‘‘ حوالے کے معاملے میں تین فریق ہوتے ہیں ۔ ایک مقروض و مدیون جسے مُحیل کہتے ہیں جو اپنے قرض کی ادائی دوسرے کے حوالے کرتا ہے ۔ دوسرا فریق محال علیہ یا محتال علیہ ، قرض لوٹانے کی ذمے داری جس کو سونپی جاتی ہے۔ تیسرا فریق ، صاحب حق یعنی دائن ہوتا ہے جو مُحال یا محتال کہلاتا ہے۔عقدِ حوالہ ان تینوں فریقین کی رضامندی سے منعقد ہوتا ہے۔ عقد حوالہ کے انعقاد کے بعد مُحیل ادائی قرض سے بری الذمہ ہو جاتا ہے ، کیونکہ عقود میں اعتبار ، لفظ کا نہیں بلکہ مقصد و معانی کا ہوتا ہے۔مثال کے طور پر اگر مدیون نے دائن سے کہا  (أحلتك بما لك من دين بذمتي ومقداره كذا على فلان، على أن تبقي ذمتي مشغولة بدينك علي، حتى يدفع لك المحال عليه الدين) ’’میرے ذمے اتنی اتنی مقدار کا جو تمہارا دَین ہے وہ میں نے فلاں کے حوالے کردیا، اس شرط پر کہ جب تک محال علیہ دَین کی رقم تمہارے حوالے نہ کرے، اس وقت تک تمہارا دَین بدستور میرے ذمے رہے گا ‘‘ ۔ اب اگر تمام فریق اس عقد پر اپنی رضامندی ظاہر کر دیں تو عقد منعقد تو ہو جائے گا لیکن یہ عقد کفالہ ہو گا نہ کہ عقد حوالہ۔ کیوں کہ عقدِمذکور میں اگرچہ لفظ حوالے کا استعمال ہوا ہے لیکن بیان کردہ شرط میں محیل (مقروض ) کے ذمے سے دین محال علیہ کے ذمے کی طرف اس طرح منتقل نہیں ہوا کہ محیل بری الذمہ ہو جاتا، جیسا کہ عقد حوالہ میں ہوتا ہے بلکہ محیل بدستور ادائی قرض کا ’ شریک مکلف ‘رہا اور شراکت ذمہ کفالہ کی شرط ہے لہذا لفظ حوالہ سے قطع نظر عقد کے مقصد و معنی کا لحاظ کرتے ہوئے عقد مذکورہ کو عقد کفالہ قرار دیا جائے گا اور اسی کے احکام فریقِین پر جاری ہوں گے۔

ایک شخص نےدوسرے پر مثلاً کسی سامان کا دعوی کیا ۔ مدعی علیہ نے مدعی کے دعوے کو درست تسلیم کرتے ہوئے سامان کے عوض کچھ مال دے کر مدعی سے صلح کرنا چاہی پھر معاہدے کے وقت کہا گیا کہ ہم فلاں فلاں معاملے میں اتنی رقم کے عوض باہم صلح کرتے ہیں تو فریقین کی رضامندی سے یہ عقد منعقد ہو جائے گا لیکن یہ عقد صلح نہیں بلکہ عقد بیع گردانا جائے گا ، قطع نظر اس کے کہ عقد میں لفظ صلح استعمال ہو رہا ہے۔اس لیے کہ مدعی علیہ ، دعوے کو مان کر یہ تسلیم کر رہا ہے کہ مدعی کا سامان میری تحویل میں ہے اور مال غیر کا عوض اس کی قیمت کہلاتا ہے اس لیے یہ معنوی اعتبار سے بیع ہے اور بیع کے احکام مثلا شفعہ اور عیب کی صورت میں واپسی کا حق وغیرہ اس عقد پر جاری ہوں گے۔

ایک شخص نے اپنے مکان کی آمدنی کے سلسلے میں یہ وصیت کی کہ وہ دائمی طور پر مساکین پر صرف کی جائے یا اولاً فلاں شخص پر بعدہ دائماً مساکین پر، تو یہ مکان ضرورتاً وقف سمجھا جائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے سابق طرز کلام کا معنی یہ ہے کہ میں نے اپنے مرنے کے بعد فلاں مصرف پر یہ مکان وقف کیا، لیکن چوں کہ یہ وقت موت پر معلق کیا گیا ہے، اس لیے تہائی مال میں نافذ ہوگا۔اگر کسی شخص نے کہا کہ میرے اس مکان کی آمدنی میں سےہر ماہ دس روپے کی روئی خرید کر مساکین میں تقسیم کی جایا کرے تو یہ مکان وقف ہوگا۔ ردالمحتار میں ہے کہ اس کلام کا مقتضی یہ ہے کہ پورا مکان اگر اس شخص کے مال کی ایک تہائی قرار پاتا ہے تو کل مکان وقف ہوجائے گا۔ اگرچہ اس شخص نے یہ کہا ہے’’مکان کی آمدنی سے‘‘ اور یہ عبارت چاہتی ہے کہ آمدنی کا کچھ حصہ مساکین کے استعمال میں آئے، لیکن چوں کہ اعتبار مقاصد ومعانی کا ہوتا ہے، نہ کہ الفاظ کا تو اس لیے پورا مکان وقف ہوگا۔

لرننگ پورٹل