لاگ ان

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

لاگ ان

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

لاگ ان / رجسٹر
جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

الجماعہ بمعنی علماے مجتہدین

پیچھے ہم نے ایک سوال اٹھایا تھا کہ ما أنا علیه و أصحابي کا علم کیسے ہو تو اس کا جواب یہ دیا گیا تھا کہ اہل سنت کے علمی سلسلے سے اس کا علم حاصل کیا جائے گا ۔ لیکن اس بات کا ایک اہم پہلو رہ گیا تھا ۔اس طرف آنےسے پہلے ذہن میں یہ تازہ کر لینا چاہیے کہ اہل سنت کے اصولوں میں سے ایک اصول ہم نے اجماع بھی بیان کیا تھا، تو منہجِ اہلِ سنت کا علم بھی اجماع سے ہوگا ۔ علامہ مظہری الحنفی رحمہ اللہ نے یہ نکتہ بیان کیا ہے : بأي شيء يُعرف ما عليه النبي عليه السلام وأصحابه رضوان الله عليهم؟ قلنا: بالإجماع، فما اجتمع عليه علماء الإسلام فهوحق (المفاتیح شرح المصابیح) ’’ سوال یہ ہے کہ آپﷺاور صحابہ کرام کا قول و فعل اور اعتقاد معلوم کیسے ہو تو ہم کہتے ہیں کہ اجماع سے یعنی جن چیزوں پر علماے امت و مجتہدین کا اجماع ہے وہی حق ہیں ‘‘۔

جب الجماعہ کے پہلے مصداق ، امت مسلمہ میں خرابی آئی اور لوگ سنت رسول اور منہج صحابہ سے ہٹتے ہوئے، امت مسلمہ میں شامل ہونے کے باوجود معیاری امت کے درجے سے محروم ہو گئے ۔ تو اس دورِ زوال میں بھی ایک گروہ عظیم سنت رسول اور منہج صحابہ پر قائم رہا جو اہل سنت والجماعہ کے لقب سے ممتاز ہوا ۔ سوال یہ ہے کہ یہ گروہ اہل سنت کیونکر گمراہ ہونے سے محفوظ رہا ۔ وہ کون سا علمی مرکزیہ تھا جس کے سبب لوگ معیارِ اسلام پر قائم رہے ؟ تو وہ علمی مرکزیہ ، اہل علم اور مجتہدین ملت اور ان کے اجماع کا کھونٹا تھا کہ جس سے بندھ کر لوگ گمراہی سے بچے اور اہلسنت کے مدار پر قائم رہے۔ اسی وجہ سے بعض جلیل القدر ائمہ نے یہ رائے اختیار کی کہ الجماعہ سے مراد ہی اہل علم و مجتہدین کا گروہ ہے۔امام شاطبی نے الاعتصام میں لکھا : يَدْخُلُ فِي الْجَمَاعَةِ مُجْتَهِدُو الْأُمَّةِ وَعُلَمَاؤُهَا وَأَهْلُ الشَّرِيعَةِ الْعَامِلُونَ بِهَا، وَمَنْ سِوَاهُمْ دَاخِلُونَ فِي حُكْمِهِمْ، لِأَنَّهُمْ تَابِعُونَ لَهُمْ وَمُقْتَدُونَ بِهِمْ ’’ الجماعہ میں اس امت کے مجتہدین اور علماے عاملینِ شریعت داخل ہیں اور جو ان کے سِوا (عام لوگ ) ہیں وہ بھی انہی کے حکم میں ہے اس لیے کہ ان کی پیروی اور اقتدا کر نے والے ہیں‘‘۔امام شاطبی نے تو الجماعہ کے دوسرے مصداقات بھی نقل کیے ہیں لیکن ، امام ترمذی ، امام شافعی اور امام بخاری امام ابن حبان رحمہم اللہ نے اس کا ایک ہی مصداق نقل کیا ہے اور وہ یہی آخری والا مفہوم ہے یعنی الجماعہ بمعنی جماعت اہل علم !!

امام شافعی رحمہ اللہ ’’الرسالہ ‘‘میں حدیث مبارکہ مَنْ سَرَّهُ بُحْبُوحَةُ الْجَنَّةِ فَلْيَلْزَمِ الْجَمَاعَةَ کے تحت فرماتے ہیں :’’ مسلمانوں کی جماعت مختلف علاقوں میں منقسم ہے تو التزام جماعت سے یہ تو مراد نہیں ہو سکتا کہ سارے لوگ جسمانی طور پر ایک ہی جگہ رہیں ، نہ کوئی اس کی طاقت رکھتا ہے اور نہ اس کا کوئی فائدہ ہے۔ اس لیے کہ جسمانی قربت میں تو بعض شہروں میں کافر بھی شامل ہیں اور مسلمانوں کے فاجر و متقی بھی ساتھ ساتھ رہتے ہیں ۔تو اب التزام جماعت کا ایک ہی مطلب ممکن ہے اور وہ التزامِ علمی ہے کہ تحلیل و تحریم اور دیگر مسائل میں جماعت مسلمین کی پابندی کی جائے۔پس جو ان مسائل کی بابت جماعت مسلمین کی آرا کی پابندی کرے گا وہی ہے کہ جو التزام جماعت کا اہتمام کرنے والا ہے اور جو ان کے خلاف کرے گا تو اس نے التزام کے بجائے جماعت مسلمین کی مخالفت کی۔ پس قرآن و سنت کے معانی اور اجتہادی احکامات سے غفلت الجماعہ سے الگ رہ کر ہی ہو سکتی ہے جب کہ الجماعہ کتاب و سنت کے معانی اور اجتہادی احکام سے غافل نہیں ہو سکتے‘‘ ۔

امام ترمذی اپنی سنن میں الجماعہ والی احادیث کو نقل کرنےکےبعد لکھتے ہیں : وَتَفْسِيرُ الْجَمَاعَةِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ هُمْ أَهْلُ الْفِقْهِ وَالْعِلْمِ وَالْحَدِيثِ ’’اہل علم کے نزدیک الجماعہ سےمراد فقہ و حدیث کے علم کی حامل جماعت ہے‘‘۔ امام ابن حِبَّان اپنی صحیح میں لکھتے ہیں: والجماعة بعد الصحابة هم أقوام اجتمع فيهم الدين والعقل والعلم (صحیح ابن حبان ) ’’صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بعد الجماعہ کا مصداق وہ لوگ ہیں جو عقل دین اور علم کے جامع ہوں‘‘۔امام بخاری نے صحیح بخاری کتاب الفتن میں ایک باب قائم کیا ہے: (قَوْله بَاب وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا) وَمَا أَمَرَ النَّبِيُّﷺبِلُزُومِ الْجَمَاعَةِ وَهُمْ أَهْلُ الْعِلْمِ ’’ اللہ تعالٰی کے فرمان وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا کا بیان اور اللہ نے جس الجماعہ سے وابستہ رہنے کا حکم دیا ہے اس کا بیان اور اس سے مراد اہل علم ہیں‘‘۔

امام ابن حجر عسقلانی فتح الباری میں لکھتے ہیں بظاہر آیت مبارکہ ﴿ وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا﴾ ’’اسی طرح ہم نے تمھیں بنایا بہترین امت‘‘ اور لزوم جماعت کی احادیث میں کوئی ربط نظر نہیں آتا ۔ لیکن اس میں ایک معنویت ہے، وہ یہ کہ برا بن عازب رضی اللہ عنہ (وَسَطًا ) کی تفسیر الْعَدْلُ سے کرتے ہیں یعنی یہ امت عدالت کی حامل ہے اگرچہ آیت میں لفظ امت عام ہے لیکن اس سے مراد گروہ خاص ہے۔ کیوں کہ امت میں جاہل ، اہل بدعت اور غیر عادل لوگ سبھی شامل ہیں تو یہ بہترین کہلانے کے حقدار نہیں ہیں ۔ بلکہ امت میں سے اہل سنت اور علم شریعت کے ماہرین ہی عدل کے معیار پر پورا ، اترتے ہیں اور وہی الجماعہ کے مصداق ہیں‘‘۔امام ابن حجر کی تَوجیہہ کو آیت مبارکہ ﴿وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ﴾ کی روشنی میں دیکھیں تو یہ بات مزید سمجھ میں آتی ہے کہ کہ امت سے مراد ، امت کے اندر کا ایک گروہ ہے نہ کہ پوری امت!!

ہم نے الجماعہ کے ایک سے زیادہ مصداقات نقل کیے ہیں ۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ امام بخاری ، امام شافعی اور امام ترمذی الجماعہ سے مراد جماعت اہل علم اور ائمہ مجتہدین کو قرار دے رہے ہیں ۔ کیا یہ سوچا جاسکتا ہے کہ یہ چار جلیل القدر ائمہ کرام ،الجماعہ کے دوسرے مصداقات سے ناواقف تھے یا پھر ان مصداقات سے متفق نہ ہونے کی وجہ سے ان کا ذکر نہیں کیا ؟ ظاہر ہے یہ دونوں باتیں درست نہیں ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ الجماعہ کے جو دوسرے مصداقات ہیں ان میں سے بعض میں انقطاع ہو جاتا ہے ۔مثلا کبھی مسلمان کسی امیر پر متفق ہوں گے اور کبھی نہیں ہوں گے لیکن الجماعہ کا یہ جو آخری اطلاق ہے اس میں کوئی انقطاع نہیں ہو گا یہ ہمیشہ موجود رہے گا ۔دوسری بات یہ ہے کہ الجماعہ کے دوسرے مصداقات پر ، اہل علم و مجتھدین والے مفہوم کو ترجیح حاصل ہے ۔ اس لیے امت مسلمہ میں شمولیت و اخراج کے اصول و ضوابط کو طے کرنا اور ریاست کے اہداف و آداب کو متعین کرنا یہ جماعت اہل علم و مجتھدین کا کام ہے ۔ گویا جماعت اہل علم دوسری جماعتوں پر ایک نگران کی سی حیثیت رکھتی ہے ۔پس الجماعہ کے مصداق آخر یعنی جماعت اہل علم و مجتہدین کی خصوصی حیثیت اور دائمی بقا ، دین پر عمل و نفاذ اور اجتہاد کے لیے اس گروہ کی لازمی ضرورت اور امت کے اس گروہ کے محتاج ہونے کے سبب ائمہ کرام نے الجماعہ کا مصداق ہی اس جماعت کو قرار دیا ہے۔

ایک حدیث اگرچہ کمزور صحت کی ہے لیکن اس کا معنی دوسری صحیح احادیث سے ثابت ہے ۔اس کے الفاظ ہیں : ((الْعلم أفضل من الْعَمَل)) علم ، عمل سے افضل ہے ۔امام مناوی ، شرح جامع الصغیر میں اس حدیث کے ذیل میں لکھتے ہیں : یہ اس لیے کہ علم کی بقا ہی میں شریعت کا احیا ء اور ملت کے اعلی مقاصد کی تکمیل ہے۔ امام بخاری نےصحیح البخاری میں یہ باب باندھا ہے : باب الْعِلْمُ قَبْلَ الْقَوْلِ وَالْعَمَلِ اس کا بیان کہ علم ، قول و عمل سے پہلے حاصل کرنا چاہیے۔ اس کا مفہوم یہ بھی ہے کہ علم پہلے حاصل کرنا چاہیے اور اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ علم کا رتبہ علم سے زیادہ ہے ۔امام ابن حجر ان الفاظ کی شرح یوں کرتے ہیں : أَنَّ الْعِلْمَ شَرْطٌ فِي صِحَّةِ الْقَوْلِ وَالْعَمَلِ فَلَا يُعْتَبَرَانِ إِلَّا بِهِ فَهُوَ مُتَقَدِّمٌ عَلَيْهِمَا ’’اس لیے کہ علم قول و عمل کی صحت کے لیے شرط کی مانند ہے، علم کے بغیر قول و فعل معتبر نہیں ہو سکتے اسی لیے علم ، ان دونوں پر مقدم ہے‘‘، پس علم کی یہی تقدیم ہے جس کی وجہ سے الجماعہ کے مفہوم میں ، جماعت علماے مجتہدین کے مفہوم کو ترجیح دی گئی ۔الجماعہ کے ذکر والی ایک دوسری روایت بھی ہے ۔نبی کریمﷺنے فرمایا : إِنَّ اللَّهَ لَا يَجْمَعُ أُمَّتِي عَلَى ضَلَالَةٍ، وَيَدُ اللَّهِ عَلَى الْجَمَاعَةِ، وَمَنْ شَذَّ شَذَّ فِي النَّارِ(سنن ترمذي) ’’بے شک اللہ میری امت کو ضلالت پر جمع نہیں کرے گا اور اللہ کا ہاتھ ’الجماعت ‘پر ہے اور جس نے شذوذ اختیار کیا وہ الگ کر کے دوزخ میں پھینکا جائے گا‘‘۔اس حدیث میں چند باتیں سمجھنے کی ہیں:

ضلالت کا معنی گناہ اور گمراہی وغیرہ بھی ہوتا ہے اور ضلالت کا ایک معنی خطا یعنی چوکنا بھی ہوتا ہے ۔ جیسے حضرت موسی علیہ السلام نے غلطی سے قبطی کے مارے جانے کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ﴿ فَعَلْتُهَا إِذًا وَأَنَا مِنَ الضَّالِّينَ﴾ (الشعرا ء20) اسی لیے مرقاۃ شرح مشکاۃ میں علامہ الابھری کے حوالے سے لکھا گیاہے : عَلَى ضَلَالَةٍ أَيْ عَلَى خَطَأٍ ’’امت ضلالت پر جمع نہیں ہو گی یعنی غلطی پر جمع نہیں ہو گی‘‘۔ یہ وضاحت اس لیے ضروری ہے کہ بعض لوگ اجماع کی اہمیت کو کم کرنے کے لیے کہتے ہیں کہ جی ٹھیک ہے امت ، گمراہی پر جمع نہیں ہو سکتی لیکن خلوص کے ساتھ غلطی تو ہو سکتی ہے ۔ حالانکہ حدیث مبارکہ میں اسی اجتماعی یا اجماعی غلطی ہی کی نفی کی گئی ہے۔یہاں اجماع سے مراد ، اہل سنت والجماعت کے علماے مجتہدین کا اجماع ہے۔علامہ مبارکپوری لکھتے ہیں : والمراد إجماع العلماء المجتهدين من أهل السنة والجماعة ’’اجماع سے مراد ، اہل سنت کے علماے مجتہدین کا اجماع ہے‘‘۔ملا علی قاری مرقاۃ میں لکھتے ہیں : فَالْحَدِيثُ يَدُلُّ عَلَى أَنَّ اجْتِمَاعَ الْمُسْلِمِينَ حَقٌّ، وَالْمُرَادُ إِجْمَاعُ الْعُلَمَاءِ، وَلَا عِبْرَةَ بِإِجْمَاعِ الْعَوَامِّ لِأَنَّهُ لَا يَكُونُ عَنْ عِلْمٍ ’’حدیث یہ دلالت کرتی ہے کہ مسلمانوں کو اجماع حق ہوتا ہے اور اجماع سے مراد ، اہل علم کا اجماع ہے اس لیے کہ عوام کسی بات پر اگر جمع ہو بھی جائیں تو علم نہ ہونے کے سبب ان کا اجماع معتبر نہیں ہو گا‘‘۔جماعت پراللہ کا ہاتھ ہونے سے ،نصرت ، حفاظت ، غلبے اور اللہ کی رحمت کی طرف اشارہ ہے۔ ملا علی القاری نے اس کی شرح میں یہ بھی لکھاہے: إِحْسَانُهُ وَتَوْفِيقُهُ لِاسْتِنْبَاطِ الْأَحْكَامِ وَالِاطِّلَاعِ عَلَى مَا كَانَ عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِﷺوَأَصْحَابُهُ مِنَ الِاعْتِقَادِ وَالْعَمَلِ ’’ اس کا معنی یہ بھی ہے کہ انھیں استنباط احکام اور اعتقاد و عمل کے اعتبار سے رسول اللہﷺاور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے راستے و منہج کی توفیق دی جاتی ہے اور ان پر اس علم تک رسائی کا احسان کیا جاتا ہے ‘‘۔ (عَلَى الْجَمَاعَةِ) کی شرح میں لکھا گیا أَيِ: الْمُجْتَمِعِينَ عَلَى الدِّينِ يَحْفَظُهُمُ اللَّهُ مِنَ الضَّلَالَةِ وَالْخَطَأِ أَوْ لِلتَّوْفِيقِ لِمُوَافَقَةِ إِجْمَاعِ هَذِهِ الْأُمَّةِ ’’ وہ لوگ جو دین پر اس طرح سے جمع ہوں کہ اللہ انھیں گمراہی اور خطا سے بچائے رکھے یا بہ الفاظ دیگر انھیں اس امت کے اجماعی موقف سے موافقت پر قائم رکھے‘‘ ۔ اس تشریح کو امام بخاری ، امام ترمذی اور امام شافعی کے اس قول سے ملا کر دیکھیں کہ الجماعہ سے مراد، جماعت علماے مجتہدین ہے تو سمجھ میں یہی آتا ہے کہ اس حدیث میں الجماعہ سے مراد بھی وہی ہے یعنی جماعت علماے مجتہدین ، اور اس جماعت کی پابندی کا حکم دیا جا رہا ہے۔شذوذ ، کی وضاحت میں شارحین فرماتے ہیں: انْفَرَدَ عَنِ الْجَمَاعَةِ بِاعْتِقَادٍ أَوْ قَوْلٍ أَوْ فِعْلٍ لَمْ يَكُونُوا عَلَيْهِ ’’وہ اعتقاد یا قول و فعل اختیار کرنا جس پر وہ نہ ہوں ‘‘مطلب یہ کہ جماعت علماء کے اجماع کے خلاف کوئی قول و فعل اختیار کرناشذوذ ہے ۔ چونکہ اس کام پر دوزخ کی وعید وارد ہوئی ہے تو یہ ممنوع اور حرام طرز عمل ہے ۔ اس لیے ذاتی زندگی سمیت ، دعوتی، تربیتی اور تحریکی میدانوں میں بھی اجماع علماے امت کی پابندی کرنی چاہیے۔ مطلب یہ کہ معروف معنی میں صرف فقہ و اعتقاد میں ہی نہیں بلکہ منہج و طریق میں بھی علماے اہل سنت کے اجماعی مواقف کی پابندی کرنی چاہیے۔صحیح بخاری کی روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا : ((لاَ يَزَالُ مِنْ أُمَّتِي أُمَّةٌ قَائِمَةٌ بِأَمْرِ اللَّه)) ’’میری امت میں سے ایک جماعت ہمیشہ اللہ کے دین پر قائم رہے گی‘‘ ۔

’الاعتصام بالکتاب ‘ میں امام بخاری نے اس گروہ کی تعیین ان الفاظ میں کی ہے: وَهُمْ أَهْلُ الْعِلْمِ ’’ اور یہ گروہ اہل علم کا ہے‘‘ ۔ ملا علی القاری اس جماعت کے قیام بامر اللہ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں ، أَيْ بِأَمْرِ دِينِهِ وَأَحْكَامِ شَرِيعَتِهِ مِنْ حِفْظِ الْكِتَابِ وَعِلْمِ السُّنَّةِ وَالِاسْتِنْبَاطِ مِنْهُمَا، وَالْجِهَادِ فِي سَبِيلِهِ، وَالنَّصِيحَةِ لِخَلْقِهِ وَسَائِرِ فُرُوضِ الْكِفَايَةِ ’’ یہ جماعت اللہ تعالی کے دین ، احکام شریعت ،قرآن پاک اور سنت رسولﷺکی حفاظت اور ان دونوں شرعی احکام کےاستنباط و اجتہاد ، جہاد فی سبیل اللہ ، مخلوق خدا کی خیر خواہی اور دیگر فروض کفایہ کی ادائی پر قائم رہے گی ‘‘۔

تعلیم دین اور استنباط و اجتہاد کے علاوہ ، دوسرے کاموں مثلا دعوت و تبلیغ ، جہاد و قتال فی سبیل اللہ ، خدمت خلق وغیرہ میں علماے کرام کی سرپرستی میں چلتے ہوئے بچشم سر دیکھے جاسکتے ہیں اور انہی بابرکت کوششوں سے اسلام کے غلبے کی امید کی جاتی ہے ۔

لرننگ پورٹل