لاگ ان

منگل 02 جمادی الثانی 1446 بہ مطابق 03 دسمبر 2024

لاگ ان

منگل 02 جمادی الثانی 1446 بہ مطابق 03 دسمبر 2024

لاگ ان / رجسٹر
منگل 02 جمادی الثانی 1446 بہ مطابق 03 دسمبر 2024

منگل 02 جمادی الثانی 1446 بہ مطابق 03 دسمبر 2024

جب مجھے اندازہ ہوا کہ حضرت کو اس موضوع پر مزید بات ناگوار گزرتی ہے تو میں نے گفتگو کا رُخ موڑ تے ہوئے کہا کہ استاد جی! ایک تأثر یہ بھی پایا جاتا ہے کہ جو علماء تحریک پاکستان میں شریک تھے آزادی کے فورا ً بعد وہ عملی سیاست سے کنارہ کش ہو گئے، جس سے ایک خلا پیدا ہوا، اور اس کا دینی طبقے کو نقصان ہوا؟ فرمایا: یہ تأ ثر درست نہیں ہے، اس لیے کہ آئینی طور پر قرارداد مقاصد اور دستور کی بنیادی اسلامی دفعات کی صورت میں جو کامیابی ہمیں ملی ہے ان علماء کی کوششوں کا ثمرہ ہے۔ جمعیت علماے اسلام کے بانی علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ کا نقطۂ نظر یہ تھا کہ علماء انتخابات میں براہ راست شریک نہ ہوں، بلکہ انتخابی عمل سے بالا رہیں تا کہ لوگ یہ نہ کہیں کہ یہ اقتدار کے خواہشمند ہیں۔ تو اس طرح ان کا عوام میں اعتماد بحال رہے گا۔ نظامِ اسلام پارٹی میں ایسے لوگ تھے جو علماء تو نہیں تھے، البتہ تعلیم یافتہ اور دین دار لوگ تھے اور علماء کے زیر اثر تھے۔ ان کی ساری پالیسیاں جمعیت علماے اسلام طے کرتی تھی، کیوں کہ جمعیت علماے اسلام انتخابات میں حصہ نہیں لیتی تھی، مگر نظامِ اسلام پارٹی کی حمایت کرتی تھی۔ تو اسی نظامِ اسلام پارٹی نے بنگال (مشرقی پاکستان) میں حکومت بنائی، یہاں تک کہ مغربی پاکستان کی مرکزی حکومت میں وزرا کی بڑی تعداد اسی پارٹی سے تعلق رکھتی تھی۔ اگر گورنر جنرل غلام محمد دستور ساز اسمبلی نہ توڑتے تو نظامِ اسلام پارٹی نے آئین بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اگر غور کیا جائے تو آج بھی ان کی پالیسی بہترہے، یعنی علماے کرام حق کو حق اور باطل کو باطل کہنے کا فریضہ ادا کرتے رہیں۔ اسی زمانے میں حضرت والد صاحب رحمہ اللہ نے پورے ملک کے دورے کیے، انتخابات میں کھڑے ہوئے بغیر ایک فضا بنائی، میں نے اس کی کچھ تفصیل اپنی آپ بیتی ’’یادیں‘‘ میں لکھی ہے، اور مزید بھی ان شاء اللہ لکھنے کا ارادہ ہے۔

سیاست پر بات کرنے کے بعد ہم تعلیم کے موضوع پر آئے۔میں نے کہا کہ آج کل ہمارے ملک میں طبقاتی نظام تعلیم ہے،عصری اداروں میں پڑھنے والے اور دینی مدارس کے طلبہ کے درمیان ایک خلیج ہے،ہم ایک دوسرے کے مزاج سے نا واقف ہیں، کیا وفاق المدارس نے اس کے حل کے لیے سوچا ہے؟ جواب میں فرمایا : کافی تبدیلیاں آرہی ہیں، دیکھیں! یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ کچھ ضروری مضامین کو نصاب میں داخل کرنا چاہیے، لیکن اس کا منشا یہ نہیں ہے کہ ہمارے طلبہ کو ملازمتیں ملیں،ٹھیک ہے اگر اس کے ذریعے ملازمتیں ملیں بھی، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے،لیکن مقصود اصلی وہ نہیں، مقصود اصلی درحقیقت یہ ہے کہ ایک عالم ِدین کو دین کا پیغام اس طرح لوگوں تک پہنچانے کے قابل ہونا چاہیے کہ ((کلّمواالنّاس علی قدرِ عقولهم)) کے مصداق لوگوں کی ذہنی سطح کے مطابق ان سے گفتگو کرسکے۔تو اس کے لیےضروری ہےکہ علما انگریزی سیکھیں۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ یہ سب کام ہم خود کریں، حکومت کے کہنے پر نہیں۔ کیونکہ حکومت کے ساتھ ہم کوئی رشتہ نہیں جوڑنا چاہتے۔ پچھلے دنوں ہمارا حکومت کے ساتھ اس پر باقاعدہ اختلاف ہوا ، حکومت سے بھی فوج سےبھی۔ ماضی میں ذوالفقارعلی بھٹومرحوم تمام مدارس کوتسلط میں لینا چاہتے تھے۔الحمدللہ ہم نےاُس وقت بھی ڈٹ کر مقابلہ کیا۔اور شاید کسی نے اس طرح بات نہ کی ہو جو میں نے موجودہ حکومت کے ساتھ حالیہ میٹنگ میں ایک صاحب منصب اور با اختیار آدمی سےکہی ، وہ مجھ سے بہت زیادہ محبت کا اظہار کر تے تھے ،مگر اس دن ان کے چہرے سے ان کی پریشانی عیاں تھی۔ لیکن اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ جو منصوبہ لے کر آئےتھے وہ پورا نہیں ہوا۔اب تک ہمارے ان کے ساتھ جو مذاکرات ہوئے ، ہم نے ان کا ایک مطالبہ بھی قبول نہیں کیا۔ اور ایک بات میں نے سب سے کہی کہ ہم اپنے طور پر نصاب میں ضروری تبدیلیاں کریں گے، لیکن گورنمنٹ کے ساتھ کوئی رشتہ جوڑنا نہیں چاہتے۔پھر انھوں نے ایک ڈائریکٹریٹ قائم کیا، اس پر بھی ہمارے تحفظات ہیں۔عصری اور دینی اداروں میں میٹرک تک ایک نصاب ہونا چا ہیے، بلکہ ہماری رائےہے کہ انٹرمیڈیٹ تک ایک نصاب ہو، تاکہ فی الجملہ ساری چیزوں کاتعارف ہوجائے،اس کےبعدپھرالگ الگ شعبوں کاانتخاب ہو۔بہرحال اب ہماری کوشش ہے کہ جدیدفلکیات،پولیٹکل سائنس،معاشیات،اسی طرح مختلف ضروری مضامین مدارس کے نصاب کا حصہ بنائیں، تاکہ ہمارے طلبہ کو اندازہ ہو کہ دنیا کہاں جارہی ہے۔اب آہستہ آہستہ یہ چیزیں نصاب میں داخل کی جارہی ہیں۔لیکن ایک وقت تھا کہ عالم کی سند کے لیے لکھنا جاننا شرط نہیں تھا،یعنی باقاعدہ مہتمم کی ذمےداری تھی کہ امتحان میں اگر کسی طالب علم کو لکھنا نہیں آتاتو اسےکاتب فراہم کیاجائے،اس لیے کہ لکھنے کا رواج ہی نہیں تھا۔ یہ کہاجاتاتھاکہ ہم ’’امّتِ امّیہ ‘‘ہیں،ہمیں لکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ چنانچہ ایک عرصے تک یہ سلسلہ جاری تھا،مجھے یاد ہے کہ وفاق کے امتحان میں کاتب فراہم کیا جا تا تھا۔اب رفتہ رفتہ حالات بہتر ہورہےہیں ۔اب صورتحال یہ ہےکہ وہ کتابیں جن کاکوئی مصرف نہیں تھا،مثلاً صدرا، خیالی، مُلاحسن، سُلّم، میبذی، شمس بازغہ،بطلیموس کی فلکیات ،یہ سب نصاب سے نکالی جاچکی ہیں۔اب نئی کتابیں داخل نصاب ہیں،رفتہ رفتہ نصاب بہتر ہورہا ہے۔

 ایک سوال ہوا کہ نصاب میں اتنےسارےمضامین شامل ہونے کے بعد طالب علم ان کو صحیح ضبط نہیں کرسکےگا؟اس کے جواب میں فرما یا : اگر پڑھنے والے ڈھنگ سے پڑھیں اور پڑھانے والے ڈھنگ سے پڑھائیں تو کوئی مشکل نہیں ہے۔دیکھیں !شیخ الہند اس سال شیخ الہندنہیں بنےتھے،جس سال ان کی فراغت ہوئی،اور حکیم الامّت جس دن مدرسے سے فارغ ہو کر نکلے اسی دن وہ حکیم الامّت نہیں بنے۔میں سمجھتاہوں کہ دورۂ حدیث کا سال درحقیقت علم کا آغاز ہے،یہ علم کی انتہا نہیں ہے،اس کے بعد انسان کے اندر صلاحیت پیداہوگی،اب تک پڑھنے سے مطالعے کا ایک سلیقہ آجاتاہے۔

فیض محمدنےان علوم کے بارےمیں پوچھا،جوایک عالم دین کےلیےآج کل ضروری ہیں اورجن میں اختصاص کی ضرورت ہے،جو معاشرے کے لیے مفید ہوں۔اس کے جواب میں فرمایا:دیکھیں! تین چار ایسے میدان ہیں جن میں ایک عالم دین کے لیے کرنے کے کام ہیں،ایک تومغربی فلسفہ ہے، اس میں کام کرنےکی ضرورت ہے۔اس لیے کہ بہت سے لوگ فلسفے کے راستے سے گمراہ ہوئے۔مغربی فلسفے کو سمجھ کر اس کی طرف سے وارد ہونے والے اشکالات کا جواب اسی وقت ممکن ہے کہ جب اسے اچھی طرح سمجھا جائے۔ ایک عالم دین کو اس سے واقف ہونا چاہیے،ایک میدان تویہ ہے۔

اسی طرح معاشیات ایک اہم موضوع ہے، علماےکرام کو اسے سمجھنے اور اس میدان سے واقفیت ضروری ہے۔اس وقت دنیا میں جنگ معیشت کی ہوتی ہے،آج کل ہم جو پریشان ہیں اس کی بنیادی وجہ ہمارے کمزور معاشی حالات ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ پاکستان معاشی لحاظ سے بہت بہتر تھا، لیکن آج یہ حالت ہے جو آپ کے سامنے ہے۔ موجودہ دور میں ایک ملک اور ایک قوم کے مضبوط اور مستحکم ہونے کا دار و مدار مضبوط معیشت پر ہے۔ اگر معیشت مضبوط اور توانا ہوگی تو ملک مستحکم ہوگا۔اگر فرض کریں جنگ ہو تو آپ کے پاس بہتر سے بہتر ہتھیار کیوں نہ ہوں،جب تک آپ کی معیشت مستحکم نہ ہو،آپ نہیں جیت سکتے۔ ہمارے پاس اسلحہ،ہتھیار بھارت سے بہتر ہیں،لیکن کیا ہمارا پٹرول بیس دن کام دے گا ؟جنگ لڑنے کے لیے تو پٹرول چاہیے، تو ہمارے پاس ذخیرہ اتنا ہے کہ جنگ برداشت کرسکیں؟ دس دن،پندرہ دن بعد پتا چلے کہ پٹرول ختم ہوگیا ہے تو ہم کیسے لڑیں گے؟ اسی طرح جب ہماری معاشی حالت بہتر ہوگی تو دنیا ہماری بات سنے گی۔تو معیشت ایک اہم علم ہے، علماےکرام کو اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔

اسی طرح سیاسیات ہیں،یعنی علم سیاست،کہ اہل حل وعقد کون ہوں گے؟ ریاست کیا ہوتی ہے؟ دار الاسلام کی تعریف کیا ہے؟ اس طرح کے بہت سارے مسائل ہیں۔ میری کتاب ’’اسلام اور سیاسی نظریات‘‘ میں اس موضوع پر بحث موجود ہے،آپ اس کا مطالعہ کریں۔

اسی طرح ایک وقت تھا کہ دنیا میں چرب زبانی تھی،حسّ مزاح اور خوش طبعی سے محفل کو لوٹ لیا جاتا تھا۔ لیکن آج کی دنیا کا جو مجموعی مزاج ہے،وہ سنجیدہ پہلوؤں اور سنجیدہ دلائل کا مزاج ہے،تو اس مزاج کے تحت دین کی بات زیادہ مؤثرہوتی ہے۔ایک عالم دین کو بات کرنے کا اسلوب اور اس کا سلیقہ آنا چاہیے۔ حالانکہ ہمارے علوم بڑے پختہ ہیں، اتنے پختہ ہیں کہ اصولِ فقہ ہے اس کی مثال دنیا میں نہیں ملتی،اصولِ حدیث بہت اعلیٰ درجے کا علم ہے۔ لیکن جب ہم اس کو پیش کریں دنیا کے سامنے تو ان کی ذہنیت اور ان کے مذاق و مزاج کو مد نظر رکھیں۔تو اب ان مضامین کو آہستہ آہستہ نصاب کا حصہ بنا یاجا رہا ہے۔ یہ مضامین اگر نصاب میں نہیں بھی ہیں، تو اب بھی اچھی استعداد رکھنے والے طلبہ فارغ ہونے کے بعد بھی مطالعہ کر سکتے ہیں۔علمِ سیاسیات ہے،اس کو پڑھنے کے لیے کسی استاذ کی ضرورت نہیں ہے،کوئی لمبے چوڑے فلسفے کی ضرورت نہیں ہے،معلومات ہیں، اپنے طور پر مطالعہ کرلیں۔البتہ معاشیات میں اُستاذ کی رہنمائی کی ضرورت ہے، اس لیے کہ یہ اتنا مرتّب نہیں ہے جس طرح باقی علوم مرتّب اور منضبط ہیں۔مگر ایک عالم کے لیے جتنی معاشیات جانناضروری ہیں،وہ تقریباً میں نے اپنی کتاب ’’اسلام اور جدید معیشت و تجارت‘‘ میں ذکر کی ہیں۔وہ کم ازکم اتنا اگر پڑھ لیں تو ایسا نہیں ہوگا کہ وہ کوئی ہوا کی بات ہو۔

جناب یاسین مدنی جو ماشاءاللہ ایک ویژنری آدمی ہیں، وہ حضرت کے وژن کو جاننے کی جستجو میں تھے،انھوں نے پوچھا کہ معاشیات کے میدان میں آپ کا وژن کیا تھا ؟ تو فرمایا: بس مجھے شروع ہی سے سود سے نفرت تھی،کیونکہ اللہ کا ارشاد ہے :﴿فَإِن لَّمْ تَفْعَلُواْ فَأْذَنُواْ بِحَرْبٍ مِّنَ ٱللَّهِ وَرَسُولِهِ﴾تو اس لیے میں اس طرف متو جہ ہوا کہ اس کے خلاف کام کیا جائے،اور میں نے سوچا کہ مسلم دنیا کو سودی نظام سے کیسے بچایا جائے،تو میں نے علم معاشیات کا مطالعہ اس نقطۂ نظر کے ساتھ کیا۔ اور اللہ کی توفیق سے اس پر کام کیا اورالحمدللہ اس کےاچھےنتائج سامنے آئے۔سرمایہ دارانہ نظام اور اشتراکیت کو برا تو سب کہتے ہیں مگر اس سے نکلنے کا راستہ کیا ہو، اس پر غور نہیں کیا جا تا۔تو میں نے اس کی حقیقت معلوم کرنے کےلیے اس کا مطالعہ کیا، اور اس پر محنت کی،کیونکہ معاشیات ایسا علم ہے کہ جو اس طرح کا مرتب نہیں ہے جس طرح ہمارے ہاں اور علوم ہیں۔میں نے اس کے نظریات کو صحیح سمجھنے میں بہت محنت کی، مختلف معاشی نظاموں کا تقابل کیا۔کیونکہ شروع میں جب کوئی آدمی کسی ایسے موضوع پر کام کرتا ہے،جس پر پہلے کام نہ ہوا ہو، تو اس پر زیادہ محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔ آپ سمجھ لیں! میری محنت کا حال یہ تھا کہ اُس وقت میں دار العلوم میں تین چار سبق پڑھا یا کرتا تھا۔اور شام کو دو گھنٹے دارالافتا ءمیں کام کرتا تھا۔مغرب کی نماز پڑھ کر یہاں سے بس پکڑ تا تھا،بس کا ڈنڈا پکڑ کر،اس میں کھڑے ہو کر صدر تک جاتا تھا۔صدر سے دوسری بس میں ٹاور جاتاتھا، وہاں ایک لائبریری تھی،اس میں معاشیات کا مطالعہ کرتاتھا۔چونکہ اُس زمانے میں میرےذمےعدالتی کام بھی تھے،ان پر بھی کام کرتاتھا۔ اورمعاشیات کو سمجھنے کے لیے ایک استاذ سے پڑھتاتھا،اور ان کو(ہدایہ)پڑھاتا بھی تھا۔پھر رات کو گیارہ بجے گھرواپس آکر صبح کے اسباق کے لیے مطالعہ کرتا اور ’’اظہارالحق‘‘ کا کچھ نہ کچھ ترجمہ بھی کرتا تھا۔ 

شرکاےمحفل میں سے کسی نے پوچھا کہ جدید ذہن کے سوالات کے جواب کے لیے کون سا طریقہ اختیار کیا جائے، تو فرمایا : اس کے لیے حکیم الامّت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کی کتاب ’’ الانتباهات المفیدة‘‘ کا مطالعہ کرنا چاہیے ، یہ ایک عجیب کتاب ہے، لیکن اس کی لوگ قدر نہیں کرتے، اگر اس کے سارے مسائل ذہن نشین ہوجائیں تو بہت سارے سوالات کا جواب مل سکتا ہے۔مجھے فلسفے سے زیادہ مناسبت تو نہیں ہے، لیکن جب کوئی ایسا سوال آتا ہے تو مجھے انتباہات کے بنیادی اصول کام آتے ہیں۔

تقریباً ڈیڑھ گھنٹے پر محیط یہ علمی اور بابرکت محفل شب ۱۱ بجے اختتام کو پہنچی اور حضرت گھر تشریف لے گئے۔ چونکہ شیخ الاسلام حضرت مفتی صاحب دامت برکاتہم العالیہ کی مجالس میں پہلے ہی سے حاضری کی سعادت حاصل ہے۔دورۂ حدیث کے سال میں باقاعدہ تلمّذ کا شرف بھی الحمدللہ حاصل ہے۔ اس تعلق کی بناپر حضرت کے علوم ومعارف کا کچھ اندازہ پہلے ہی سے تھا۔لیکن اس مختصر ملاقات میں وہ معلومات ہمیں حاصل ہوئیں،جو شاید درجنوں کتابوں کی ورق گردانی سے بھی حاصل نہیں ہوسکتی تھیں۔سادگی،بےتکلفی،تواضع آپ کی شخصیت کی نمایاں خصوصیات ہیں۔آپ کی گفتگو میں اپنائیت کااحساس جھلکتاہے۔یہ بات بلاتردّد کہی جاسکتی ہے کہ آپ کی علمی تحقیقی تصانیف کو جو غیر معمولی شہرت وقبولیت ملی ہے، وہ شاید موجودہ دور میں کسی اور کو ملی ہو۔متنوع موضوعات، فقہ،علوم حدیث،علوم قرآن اور اصلاح وارشاد کے میدان میں آپ کی تصانیف سے ایک جہان استفادہ کر رہاہے۔ خصوصاً فقہ کے میدان میں آپ گویاابوحنیفہ ٔ عصر ہیں۔مسائل جدیدہ کے سلسلے میں عرب وعجم کے فقہا کی نظریں آپ کی طرف اٹھتی ہیں۔ ظاہری علوم کے ساتھ آپ کو اللہ تعالیٰ نےباطنی علوم سے بھی بڑاحصہ عطا فرمایا ہے۔آپ کی ذات تواضع وانکساری کی مجسّم تصویر ہے۔سچی بات یہ ہے کہ آپ کی شخصیت جن ظاہری اور باطنی خوبیوں کی حامل ہے،ان کے اظہار سے اپنے قلم کو قاصر پاتا ہوں۔اورحقیقت میں حضرت کےعلمی اور عملی مقام کا ٹھیک ٹھیک اندازہ مجھ جیسے کم فہم کےلیےممکن بھی نہیں ہے۔ آپ امّت کے قیمتی سرمایہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ دشمنوں کے شر سے آپ کی حفاظت فرمائیں،اور آپ کا سایہ تادیر ہمارے سروں پر قائم رکھیں ۔آمین

لرننگ پورٹل