﴿ فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِينَ *إِنَّا كَفَيْنَاكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ﴾ سورۃ الحجر آیت:۹۵،۹۴
’’ پس جس بات کا آپ کو حکم دیا جارہا ہے اسے علی الاعلان لوگوں بیان کریں، اور مشرکین کی پروا مت کریں۔ بے شک ہم آپ کی طرف سے ان لوگوں سے نمٹنے کے لیے کافی ہیں جو ( آپ کا ) مذاق اڑاتے ہیں‘‘۔ان آیات میں رسول اللہﷺکو تبلیغ عام کا حکم دیا گیا ہے کہ توحید کے جس پیغام کے آپ امین بنائے گئے ہیں،اسے ڈنکے کی چوٹ بیان کریں ۔ اگرچہ مشرکین پہلے کی طرح آپ کی دعوت اور آپ کی شخصیت کو ٹھٹھے مذاق اور استہزا کا نشانہ بنائیں گے بلکہ اس میں شدت بھی آئے گی لیکن آپ ان کی پروا نہ کریں ۔ ان کے مقابلے میں ہم آپ کے لیے کافی ہیں‘‘۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت کے مطابق ، آپ کا استہزا کرنے والوں کے سرخیل ، ولید بن مغیرہ، اسودبن عبدیغوث، اسود بن عبدالمطلب، حارث غیطل السہمی اور العاص بن وائل السہمی وغیرہ تھے ۔اللہ تعالی نے ان سے اپنے رسول ِ پاک کی توہین و استہزا کا انتقام لیا چانچہ ان میں سے کوئی اندھا ہو کر مرا ، کوئی پھوڑے پھنسیوں مرقع بن کر رہا اور واصل جہنم ہوا ، کسی کے پیٹ میں زرد پانی پڑ گیا اور اس کا پاخانہ منھ کے راستے نکلنے لگا ۔ کسی کے ناسور نے آ لیا اور پیپ اور کچ لہو سے بھر گیا ۔ غرض یہ کہ گھن انگیز بیماریوں کا شکار ہو کر مرے،، (المعجم الاوسط للطبرانی، رقم الحدیث : ۴۹۸۶ )رسول اللہﷺکی یہ کرامت و بزرگی کہ آپ کا استہزا کرنے والا خدائی انتقام سے دوچار ہو؛ آج بھی باقی ہے، چنانچہ آج کے گستاخ بھی خدائی انتقام سے بچ نہیں سکتے اور جلد یا بدیر کسی آفت کا شکار ہو کر رہیں گے۔ البتہ ان آیات کی روشنی میں ہمارے کرنے کا کام وہی ہے جس کا حکم رسول اللہﷺدیا گیا تھا:﴿فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ﴾’’پس جس کا حکم آپ کو دیا گیا آپ اسے کھل کر بیان کریں،، لہذا ہمارے کرنے کا کام یہ ہے کہ ہم توحید الہی شریعت کی بالادستی اور شرعی احکام کے اجرا ، حتی کہ توہین رسالت تک کی سزا کو بھی ڈنکے کی چوٹ بیان کریں اور اس ضمن میں کسی کافر ، فرد یا ادارے کی ملامت و استہزا کی پرواہ نہ کریں۔ دین و شریعت کے احکامات پر کوئی سمجھوتہ نہ کرنے اور ڈٹ جانے والے کردار ے لیے کچھ خصوصیات ضروری ہیں ۔
زیرِ مطالعہ آیات سے ماقبل آیات میں تین ہم صفات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ اگرچہ ان آیات میں خطاب نبی کریمﷺسے ہے لیکن آپ کے واسطےسے یہ حکم پوری امت کو دیا جا رہا ہے: ﴿وَلَقَدْ آتَيْنَاكَ سَبْعًا مِنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنَ الْعَظِيمَ *لَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَى مَا مَتَّعْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِنْهُمْ وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِلْمُؤْمِنِينَ﴾ ’’ہم نے آپ کو سات دہرائی جانے والی آیات اور قرآن عظیم سے سے نوازا ہے ۔ آپ اپنی آنکھ اٹھا کر بھی اس چیز کو نہ دیکھیے جو ہم نے مختلف قسم کے کافروں کو برتنے کے لیے دے رکھی ہے اور ان پر غم نہ کیجیے اور مسلمانوں پر شفقت و رحمت کا مظاہرہ فرمائیے‘‘تو امت محمدﷺکو چاہیے کہ دعوت اسلام سے خائف ہو کر ، توہین آمیز ہتھکنڈے اختیار کر لینے والے عالمی ساہوکاروں کی چمک دمک اور جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری پر نظر طمع دراز نہ کرے بلکہ اپنے پاس موجود عظیم ترین دولت و نعمت قرآن حکیم سے لو لگائے اور باہم نرمی و شفقت کا سلوک کرے تا کہ امت جسد واحد کی صورت متحد رہے۔اسی صورت وہ دعوت اسلام پر قائم اور توہین رسالت کے مجرموں کا مقابلہ کر سکتی ہے۔آیات زیر مطالعہ کے مابعد بھی اہم احکام دیے گئے ہیں:﴿فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَكُنْ مِنَ السَّاجِدِينَ*وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّى يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ﴾ ’’پس تسبیح کریں اپنے رب کی حمد کے ساتھ اور سجدے کرنے والوں میں ہو جائیں اور اپنے رب کی عبادت پر گامزن رہیں یقینی چیز (موت ) کے آنے تک‘‘۔شریعت کے احکام کی پاسداری اور محافظت کے لیے وہ کردار ، درکار ہے جو ذکر و اذکار ، سجدوں کی کثرت اور عبادت کی بھٹیوں سے گزر کر کندن بن چکا ہو۔ اسی سے قرب الٰہی کی منازل طے ہوتی ہیں اور اسی سے اُس دینی غیرت و حمیت میں اضافہ ہوتاہے جو دین اور صاحب دین علیہ السلام کے ناموس کی حفاظت میں فیصلہ کن عامل کا کردار ادا کرتی ہے۔