لاگ ان

منگل 02 جمادی الثانی 1446 بہ مطابق 03 دسمبر 2024

لاگ ان

منگل 02 جمادی الثانی 1446 بہ مطابق 03 دسمبر 2024

لاگ ان / رجسٹر
منگل 02 جمادی الثانی 1446 بہ مطابق 03 دسمبر 2024

منگل 02 جمادی الثانی 1446 بہ مطابق 03 دسمبر 2024

ہم اہل علم و صلاح سے یہ جملہ آئے روز سنتے رہتے ہیں کہ عصر موجود ، دور فِتَن ہے ۔ اگر ہم اپنے اسلاف کی چار سو سال پرانی تصنیفات پڑھیں چاہے آٹھ سو سال پرانی ، ہر جگہ ایک بات آپ کو مشترک لگے گی کہ زمانہ بہت خراب ہوگیا ہے ، بہت فتنوں کا دور ہے اور جیسے قرب قیامت کی علامتیں ظاہر ہوگئی ہیں۔ آج کے لوگ اس بات کو مذاق اور تفنن کا ہدف بنالیتے ہیں کہ یہ عجیب سی بات ہے کہ اُن کو آٹھ سوسال پہلے فتنےاور آثار قیامت نظر آتے تھے اور آج بھی انھیں یہی کچھ سوجھ رہا ہے ۔

کچھ اس میں تمسخر یا مذاق کی بات نہیں ہے بلکہ یہ تو عین دانشمندی کا تقاضا ہے کہ جس طرح ہمیں اپنی موت کو بہت دور خیال نہیں کرنا چاہیے ۔اسی طریقے سے اس کائنات کی جو موت یا اجل ہے ،جسے الساعۃ کہا گیا ہے اس کو بھی دور نہیں سمجھنا چاہیے۔ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عمومی ذوق یہی تھا ۔ایک موقعے پر نبی اکرمﷺ نے دجال کا تذکرہ کیا۔اس روایت میں الفاظ آتے ہیں:﴿فَخَفَّضَ فِيهِ وَرَفَّعَ﴾ کبھی اپنی آواز کو پست کیا کبھی بلند کیا یا یہ مفہوم بھی لیا گیا ہے کہ کبھی اس کی ذات کو بہت حقیر اور کم تر دکھایا اور کبھی بہت مہیب الشان بتایا،تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بہت پریشان ہوئے۔حضور کریم ﷺ نے پوچھا یہ تمہاری کیا حالت ہو رہی ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی: ’’یا رسول اللہ آپ نے دجال کے بارے میں جس انداز سے بیان کیا تو ہمیں لگا کہ کھجوروں کے جھنڈ سے ابھی دجال برآمد ہوجائے گا‘‘۔ دیکھیں اس پر رسول اللہ ﷺ نے یوں نہ کہا کہ نہیں بھئی دجال کا ظہور تو ابھی بہت دور ہے۔ ابھی تو فلاں فلاں نشانیوں نے ظہور کرنا ہے، بلکہ فرمایا: ﴿إِنْ يَخْرُجْ وَأَنَا فِيكُمْ فَأَنَا حَجِيجُهُ دُونَكُمْ وَإِنْ يَخْرُجْ وَلَسْتُ فِيكُمْ فَامْرُؤٌ حَجِيجُ نَفْسِهِ﴾(صحیح مسلم)’’اگر دجال میری موجودگی میں ظاہر ہو گیا تو میں تم سب کی طرف سے مقابلہ کروں گا اور اگر دجال میرے بعد نکلے تو ہر بندہ خود اپنا ذمے دار ہو گا‘‘۔

تو ٹھیک بات یہ ہے کہ آدمی قیامت اور آثار قیامت کو قریب سمجھے اس کو دور خیال نہ کرے ، بلکہ ڈرتا رہے۔ اسی طرح دوسروں کو ان نشانیوں اور فتن سے خبردار کرنا بھی درست طر ز عمل ہے۔ نبی کریم ﷺ نے دجال ہی کے ضمن میں یہ فرمایا :﴿اِنِّي أُنْذِرُكُمُوهُ وَمَا مِنْ نَبِيٍّ إِلَّا وَقَدْ أَنْذَرَ قَوْمَهُ﴾(مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ)’’میں تمھیں اس سے ڈراتا ہوں اور ہر نبی اپنی قوم کو دجال سے ڈراتا رہا ہے‘‘۔تومعلوم ہوا کہ لوگوں کو ان نشانیوں کے ظہور سےڈرانا شیوہ پیغمبری رہا ہے۔بہرحال حقیقت یہ ہے کہ ہم جس دور میں رہ رہے ہیں ، وہ آسان دور نہیں ہے ۔ایمان اور عمل صالح کے تقاضے ادا کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم سب کی زندگیوں میں کچھ ایسی چیزیں داخل ہوچکی ہیں جو عمل صالح کے راستے کی رکاوٹ ہیں۔

اس حوالے سے بطور مثال ایک دو چیزوں کو دیکھ ہی لیتے ہیں ۔اس دور میں تصویر (Image)کا جوفتنہ ہے ، اس کی وجہ سے نظر کی حفاظت تقریباً ناممکن ہوتی جارہی ہے اور یہ کوئی معمولی چیز نہیں ہے بلکہ ایک بڑا فتنہ ہے ۔ یہ انسان کی شخصیت میں بہت گہرائی میں جاکر سرایت کرتا ہے اور یہی اصل میں جنسی آوارگی کے فتنے کی جڑ اور بنیاد ہے۔ وہ جو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا نا کہ نگاہوں کا زنا بھی ہے،سماعت کا زنا بھی ہے،زبان کا زنا بھی ہے،تھامنے کا زنا بھی ہے،چلنے کا زنا بھی ہےتو ساکن و متحرک دونوں قسم کی تصویروں میں زنا کی مندرجہ بالا اقسام بے تکلف پائی جاتی ہیں۔کیمرے کے ہر عام و خاص کے لیے مفت مہیا ہونے کی وجہ سے تصویر سازی نے اس طرح وبائی انداز اختیار کرلیا ہے کہ اس کی شناعت و کراہت ذہنوں سے محو ہو چکی ہے۔یہ وہ مسائل ہیں جن کی وجہ اس دور میں اپنی عصمت وعفت اور پاک دامنی کے ساتھ زندگی گزارنا آسان نہیں ہے۔

دوسرا ایک فتنہ جو عموم بلویٰ اختیار کر چکا ہے وہ کسب ِ مال کا فتنہ ہے سو ال یہ ہے کہ ہم کھا کما کیسے رہے ہیں۔معاملہ اب بہت سادہ نہیں رہا۔آج سے سو ڈیڑھ سو سال پہلے تک کچھ لوگ تھے جو حرام میں ملوث تھے۔ سود کا کاروبار کرتے یا رشوت لیتے تھے یا کوئی اور طرح کی ناجائز کمائی کی صورتیں تھیں ،لیکن اب تو صورتِ حال ایسی ہوگئی ہے کہ ہم میں سے شاید ہی کوئی شخص یہ پوری طرح کہہ سکے کہ اس کی جو کمائی ہے وہ بالکل حلال و طیب اور پاک ہے۔ اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ ہماری دعائیں اللہ کی جناب میں قبول نہیں ہوتیں۔وہ جو بہت ہی لرزا دینے والی حدیث ہےکہ نبی اکرمﷺنے تذکرہ کیا ایک شخص کا کہ طویل سفر اس نے کیا ہے بال پراگندہ ، کپڑے خاک آلود اور دونوں ہاتھ آسمان کی طرف بلند کیے پکارتا ہے… یا رب …یا رب ! آپ دیکھیے دعا کی قبولیت کی جتنی بھی اضافی چیزیں ہیں وہ سب اسے حاصل ہیں، سفر میں دعا قبول ہوتی ہے تو وہ طویل سفر کرکے آیا ہےپھر پراگندگی کی حالت بجائے خود اللہ تعالیٰ کی رحمت کو متوجہ کرنے والی ہے ۔حج کے لباس ’’احرام‘‘میں یہی پراگندگی اور درماندگی ہی توہوتی ہے۔پھر اللہ کے آگے ہاتھ اٹھانا بجائے خود ایک بڑی بات ہے جس کے بارے میں نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ اللہ کو اس سے حیا آتی ہے کہ وہ بندوں کے پھیلے ہاتھوں کو خالی لوٹا دے ۔ اور کچھ روایات میں آتا ہے کہ جیسے وہ ملتزم کو تھامے ہوئے ہے کعبہ کے پردے کو تھامے ہوئے ہے اور پکار رہا ہے اے رب! اے رب! لیکن حالت کیا ہے: ﴿وَمَطْعَمُهُ حَرَامٌ وَمَشْرَبُهُ حَرَامٌ وَمَلْبَسُهُ حَرَامٌ وَغُذِىَ بِالْحَرَامِ فَأَنَّى يُسْتَجَابُ لِذَلِكَ﴾ ’’اس کا کھایا حرام ہے،اس کا پیا حرا م ہے،اس کا پہنا وا حرام اور اس کا جسم جس غذا سے پلا بڑھا ہے وہ حرام ہے۔ تو اس کی کہاں سنی جائے‘‘۔ سیدنا سعد ابن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے نبی اکرمﷺ سے یہ درخواست کی تھی کہ اے اللہ کے نبیﷺآپ دعا کیجیے کوئی نسخہ بتایئے کہ میں مستجاب الدعوات ہوجاؤں یعنی میری دعائیں اللہ کی جناب میں سنی جائیں۔ تو نبی اکرمﷺ نے فرمایا کہ ﴿أَطِبْ مَطْعَمَكَ تَكُنْ مُسْتَجَابَ الدَّعْوَةِ﴾’’اپنے کھانے کو پاکیزہ بنالوتو تمہاری دعائیں سنی جائیں گی‘‘۔ (مجمع الزوائد ومنبع الفوائد)

 تو ان دو اعتبار سے موجودہ زمانہ بہرحال آسان نہیں ہے ۔ اپنی نگاہوں کی حفاظت کرنا،اپنی جنسی زندگی کو محفوظ رکھنا اور پھر اسی طریقے سے کسبِ حلال کرنا طیب کمائی کرنا مشکل سے مشکل ہوتا جارہا ہے یعنی دن بہ دن حالات ایسے بنتے جارہے ہیں کہ لوگوں کو گویا حرام کھانے پر مجبور کیا جارہا ہے۔تو اس طرح کے دور میں ہم سب کو اس کی ضرورت ہے کہ ہم سب ایک دوسرے کو یاد دہانی کرواتے رہیں۔قرآن مجید میں ہر مسلمان کے ذمے یہ کام لگایا گیا ہے کہ وہ تواصی بالحق(ایک دوسرے کو حق کی نصیحت و تلقین) کرتا رہے ۔ اسی غرض سے یہ سطور پیش کی جا رہی ہیں۔

 ہمیں دنیا میں بھیجا گیا تو ہم سے ایک ہی مطالبہ کیا گیا وہ یہ ہم خود کو پاکیزہ رکھیں ۔یہی ہماری کامیابی ہے کہ حالت پاکیزگی میں اللہ کی جناب میں پہنچیں تو پھر ہمارے وارے نیارے ہیں۔ سورہ الشعراء میں فرمایا گیا:﴿يَوْمَ لَا يَنْفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ (88) إِلَّا مَنْ أَتَى اللَّهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ (89) وَأُزْلِفَتِ الْجَنَّةُ لِلْمُتَّقِينَ (90)﴾ ’’وہ قیامت کا دن جب نہ مال کام آئے گا نہ اولاد کوئی نفع دے گی سوائے اس شخص کے جو اللہ کے سامنے ایک جھکا ہوا فرمانبردار،صحیح سالم دل لے کر آتا ہے اور ایسے ہی متقی لوگوں کے نزدیک جنت لا کھڑی کی جائے گی‘‘۔سیدنامسیح علیہ السلام نے فرمایا: ’’دیکھو اللہ نے ایک دھیلا دے کے تمھیں آزمایا ہے اگر تم اس میں امین ثابت ہوئے تو تمھیں خزانہ بھی دیں گے‘‘۔وہ دھیلا کیا ہے وہ نورِ فطرت ہے جس پر ہمیں خلق کیا گیا ہے۔اور ہماری آزمائش یہی ہے کہ اللہ نے جس فطرت پر ہمیں خلق کیا ہے ہم اس کو Pervert نہ ہونے دیں ہم اس میں آمیزش نہ ہونے دیں اور کوشش کریں کہ کم سے کم (آلودگی)Pollution کے ساتھ اللہ سے ملیں۔یہ تو ناممکن ہے کہ انسان دنیا میں رہے اور گناہوں سے بالکل پاک رہے۔نبی اکرمﷺ نے ایک موقعے پر صحابہ کرام سے پوچھا:’’کیا ایسا ممکن ہے کہ کوئی شخص پانی پر چلے اور اس کے تلوے تر نہ ہوں؟‘‘انھوں نے عرض کیا: پانی پر چلنے سے پاؤں تر تو ہوں گے،تو آپ ﷺ نے فرمایا:﴿كَذَلِكَ صَاحِبُ الدُّنْيَا لَا يَسْلَمُ مِنَ الذُّنُوبِ﴾ (شعب الایمان)’’یہی معاملہ ہے صاحب دنیا کا کہ وہ گناہوں سے بالکل پاک نہیں ہوسکتا‘‘۔تو ہم سب آلودہ ہوجاتے ہیں ہم سب اپنے آپ کو خاک آلود کرلیتے ہیں تو ہمیں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے تزکیہ پر توجہ دیں اپنے آپ کو پاک کرنے کی ایک مسلسل کوشش میں لگے رہیں تاکہ پاک ہو کر جنت کے مکیں بن سکیں اس لیے کہ جنت پاکی اور ستھرائی کا مقام ہے تو تزکیہ یافتہ لوگ ہی وہاں داخل ہو سکیں گے: ﴿جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَذَلِكَ جَزَاءُ مَنْ تَزَكَّى﴾(طہ :۷۶)’’یہ باغات ہیں رہائشی ، جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں اس میں ہمیشہ رہیں گے اور یہ بدلہ ہے اس کا جو پاک ہوا‘‘۔ اسی طرح ایک حدیث میں آتا ہے : ﴿إِنَّهُ لاَ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلاَّ نَفْسٌ مُسْلِمَةٌ﴾(صحیح بخاری)’’جنت میں داخل نہ ہو گا مگر بندہ فرمان بردار‘‘۔تو جو لوگ فرمانبرداری اور اپنا تزکیہ کر کے جنت کے مستحق بن گئے ان کے تو کیا کہنے مگر جو دوسرے ہیں جو خود کو گناہوں سےپاک نہ رکھ سکے لیکن ہیں وہ ایمان والے تو ، آخرت میں ان کا تزکیہ کیا جائے گا!! لیکن آخرت کا تزکیہ بہت جاں گسل ہوگا ، گناہوں کے میل کچیل کو جلانے کے لیے دوزخ کی بھٹیوں سے گزرنا پڑے گا ۔ لوگ آگ سے جل کر چُر مُر ہو جائیں گے ۔پھر جب وہ گناہوں سے پاک ہو گئے تو اب اللہ تعالی ٰ انھیں جنت کے لیے روانہ کریں گے تو پہلے نہر حیات میں انھیں غسل دیا جائے گا: ﴿فَيُلْقَوْنَ فِي نَهْرِ الْحَيَاةِ، فَيَنْبُتُونَ كَمَا تَنْبُتُ الْحِبَّةُ فِي حَمِيلِ السَّيْلِ، أَلَمْ تَرَوْا أَنَّهَا تَخْرُجُ صَفْرَاءَ مُلْتَوِيَةً﴾(متفق عليه)’’پھر انھیں نہر حیات میں ڈالا جائے گا وہ ایسے ترو تازہ ہو کر ابھریں گے جیسے نہر کے کنارے سبز چارہ گھنا ہو کر اگتا ہے‘‘۔

البتہ بعض غارت گر ِ ایمان ایسے بھی ہیں کہ جن کے مرتکبین کو یہ سخت ترین تزکیہ بھی نصیب نہ ہوگا۔اسی لیے آپ دیکھتے ہیں قرآن مجید میں جو بہت سخت ترین وعید اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتی ہے اس میں یہی الفاظ آتےہیں: ﴿لَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ وَلَا يَنْظُرُ إِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ﴾(سورہ آلِ عمران:۷۷)’’اللہ تعالیٰ نہ ان سے کلام کریں گے نہ ان کی طرف نگاہ التفات کریں گے اور نہ ہی انھیں پاک کریں گے اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے‘‘۔تو جو نور فطرت ہمیں دیا گیا اس کی حفاظت کی کوشش کرنا یہی ہماری آزمائش ہے۔اسی لیے آپ دیکھتے ہیں نا قرآن مجید بتاتا ہے کہ اہل ایمان یہ دعا کرتے رہتے ہیں :﴿رَبَّنَا أَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْ لَنَا﴾ (التحریم:۸)’’اے ہمارے رب! ہمارے نور کو پورا کردے اور ہماری مغفرت فرما‘‘ ۔ یعنی ہم نے اپنی سی کوشش کی اپنی سی ہم نے جدوجہد کی ہے لیکن بہرحال ہم آلودہ ہوہی گئے ہیں تو اے اللہ جو کمی رہ گئی ہے وہ تو پوری کردیں۔تو یہ ہماری ذمے داری ہے کہ ہم جب اللہ کی جناب میں حاضر ہوں تو ہم کم سے کم آلودہ ہوں۔ تو اس کے لیے استقامت درکار ہے۔ ایک صحابی سیدنا سفیان بن عبد اللہ السقفی رضی اللہ عنہ، نبی اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور درخواست کی کہ اے اللہ کے نبی ﷺ:﴿قُلْ لِي فِي الْإِسْلَامِ قَوْلًا لَا أَسْأَلُ عَنْهُ أَحَدًا بَعْدَكَ﴾ ’’اللہ کے نبی آپ مجھے اسلام کی بابت کوئی ایسی بات ارشاد فرمایئے کہ آپ کے بعد مجھے کسی اور سے کچھ پوچھنے کی ضرورت نہ رہے‘‘ یعنی کوئی جامع بات ارشاد فرمادیجیےکوئی ایسی بات کہ جس کو میں پلّے باندھ لوں اور وہ میرے لیے کافی ہوجائے اور مجھے کفایت کرجائے ،تو نبی اکرمﷺ نے فرمایا :﴿آمَنْتُ بِاللَّه ثمَّ اسْتَقِم﴾(شعب الایمان)’’تم یہ کہو میں اللہ پر ایمان لایا پھر اس پر جم جاؤ اس پر ڈٹ جاؤ‘‘۔ انسان اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اللہ کی ربوبیت کا اقرار کرے اور پھر اس پر جم جائے اور یہ ربوبیت کا اقرار تو ویسے ہم اس دنیا میں اپنی تخلیق سے پہلے کر آئے ہیں وہ جو عہد الست میں ہماری ارواح سے پوچھا تھا اللہ تعالیٰ نے:﴿اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ﴾’’کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟‘‘ تو ہم سب کی ارواح نے اس وقت یہ کہا تھا:﴿بَلَى شَهِدْنَا﴾’’کیوں نہیں!ہم اس پر گواہ ہیں‘‘۔ تو استقامت پر رہنا یہی مقام ولایت ہے:﴿أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (62) الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ(63)﴾(یونس)’’ آگاہ ہو جاؤ کہ اللہ کے دوستوں کے لیے نہ کوئی خوف ہے نہ وہ غمگین ہوں گے وہ جو ایمان لائے اور تقوی پہ گامزن رہے‘‘۔ تو اللہ پر ایمان لانا اور پھر اس ایمان کے تقاضے ادا کرنا یہی ہماری آزمائش ہے۔اور کامیابی کسے کہتے ہیں یہ بھی قرآن مجید نے ہمیں واضح کردیا :﴿كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ وَإِنَّمَا تُوَفَّوْنَ أُجُورَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ﴾ (آل عمران:۱۸۵)’’ہر نفس کو موت مزہ چکھنا ہے اور بے شک تمھیں قیامت کے دن تمہارا پورا پورا بدلہ دے دیا جائے گا تو جس کو جہنم سے کھینچ کے دور کردیا گیا،بچالیا گیا،اور اس کو جنت میں داخل کردیا گیا تو وہ شخص ہے جو کامیاب ہوگیا‘‘ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کامیابی سے نوازے۔ تو اصل کامیابی کیا ہے کہ ہم کوئی ایسی زندگی بسر کریں کہ جس میں ہم جب اللہ کی جناب میں حاضر ہوں تو وہاں کامیاب ہوجائیں۔ وہاں کامران ہوجائیں:﴿يَوْمَ يَجْمَعُكُمْ لِيَوْمِ الْجَمْعِ ذَلِكَ يَوْمُ التَّغَابُنِ﴾ (التغابن:۹) ’’وہ دن کہ جس دن ہم تمام لوگوں کو جمع کریں گے وہ دن ہے تغابن کا دن‘‘، اس دن معلوم ہوگا کہ کون غبن میں تھا کون ٹوٹے میں تھا،کون خسارے میں تھا اور کون کامیاب تھاتو فیصلہ جو ہے وہ آخرت میں ہونا ہے۔

اب اس کے لیے ہمیں کرنا کیا ہے اس کے لیے ہمیں یہ کرنا ہے کہ نیکی کی تقویٰ والی زندگی بسر کرنی ہے اور اس کو ٹالنا نہیں ہے اس میں دیر نہیں کرنی۔امام نو وی رحمۃ اللہ علیہ نےریاض الصالحین میں ایک باب باندھا ہے پورا اس عنوان سے (المبادرة إلی الخیر) ’’خیر کے کاموں میں جلدی کرنا‘‘اس Defer نہ کرنا جس طرح میں نے عرض کیا کہ ایک فتنے کا دور ہے جس سے ہم گزر رہے ہیں اور ہر طرف Distraction ہے اور ہر طرف ہمیں اپنی طرف کشش کرنے والی چیزیں ہیں ۔تو ان حالات میں اگر ہم سستی کریں ، اہم کاموں کو موخر کریں تو اس کا امکان ہے کہ ہم کوتاہی کا شکار ہوجائیں گے اور ہم اپنی منزل کھوٹی کرلیں گے۔تو قرآن مجید ہمیں کیا کہتا ہے: ﴿فاستبقوا الخیرات﴾’’کہ تم سبقت لے جاؤ ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کرو خیر اور بھلائی کے کاموں میں‘‘۔سورۂ آل عمران میں فرمایا:﴿وَسَارِعُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ﴾(۱۳۳) ’’سرعت کرو ،جلدی کرو اپنے رب کی مغفرت کی طرف اور اس جنت کی طرف جس کی چوڑائی آسمان وزمین پر محیط ہے‘‘،توجلدی کرنا دیر نہ کرنا ،ویسے تو آپ کو معلوم ہے کہ عجلت کو پسند نہیں کیا گیا:﴿الأَنَاةُ مِنَ اللَّهِ وَالعَجَلَةُ مِنَ الشَّيْطَانِ﴾ ’’سوچ سمجھ کے دیکھ بھال کے معاملہ کرنا اللہ کی طرف سے ہے جلدی کرنا اور عجلت مچانا یہ شیطان کی طرف سے ہے‘‘،لیکن جو دینی معاملات ہیں اس کو غیر ضروری طور پر ٹالتے رہنا اور وہ جو ایک بیماری ہوتی ہے جس کو Procrastination کہتے ہیں کل کرلیں گے پھر کل کرلیں گے پھر کل کرلیں گے تو جس کو تسویف کہتے ہیں سوف،سوف کہتے رہنا ، جلد ہو جائے ،عنقریب کر لیں گے۔ حسن البصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :إيَّاك والتسويف؛ فإنَّك بيومك ولست بغَدِك، فإنْ يكنْ لك غد، فكُنْ في غَدٍ كما كُنتَ في اليوم، وإنْ لم يكن لك غدٌ لم تندمْ على ما فرَّطت في اليوم’’سوف سوف کرنے سے بچو کیونکہ تم آج کے دن میں رہ رہے ہو یہ تمہاری کَل نہیں ہے اور اگر تمہاری کل آ گئی تو تم آنے والی کَل کو بھی ایسے ہی ہو گے جیسے آج کے دن میں ہو اور اگر تمہاری کَل آہی نہ سکی تو نیکی میں کوتاہی پر تمھیں ندامت کے سوا کچھ نہ ملے گا ‘‘۔کاموں کو کل پہ ٹالتے جانا،یہ وہ چیز ہے جو ہمیں خراب کرتی ہے۔توکہا گیا کہ بھائی سرعت کرو تیزی دکھاؤ اپنے رب کی مغفرت کی طرف،اس کا مطلب کیا ہے کہ ایک تو استغفار کے لیے جلدی کرو اللہ سے مغفرت طلب کرنے میں جلدی کرو اس میں دیر نہ کرو۔آگے جو آیات آرہی ہیں اس میں بھی فرمایا:﴿وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللَّهَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِهِمْ وَمَنْ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا اللَّهُ وَلَمْ يُصِرُّوا عَلَى مَا فَعَلُوا وَهُمْ يَعْلَمُونَ﴾ (۱۳۵)’’کہ وہ لوگ کہ جب ان سے کسی فحش کا ارتکاب ہوتا ہے یا اپنی جانوں پر ظلم ڈھا بیٹھتے ہیں،تو وہ اللہ کو یاد کرتے ہیں اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کرتے ہیں،اور کون ہے گناہوں کو بخشنے والا سوائے اللہ کے، جو کچھ انھوں نے کیا ہے جو گناہ ان سے ہوگیا ہے وہ اس پر جانتے بوجھتے اصرار نہیں کرتے‘‘،توجلدی کرنا اللہ کی مغفرت کی طرف۔اور نبی اکرم ﷺ نے تلقین بھی کی ہے ہمیں: ﴿بَادرُوا بِالْأَعْمَالِ فِتناً كَقِطَعِ اللَّيْلِ الْمُظْلِمِ يُصْبِحُ الرَّجُلُ مُؤْمِنًا وَيُمْسِي كَافِرًا وَيُمْسِي مُؤْمِنًا وَيُصْبِحُ كَافِرًا يَبِيعُ دِينَهُ بِعرْض من الدُّنْيَا﴾ (صحیح مُسلم)’’نیک اعمال میں جلدی کرو دیر نہ کرو کہیں ایسا نہ ہو کے ایسے فتنے آجائیں جو اندھیری رات کے ٹکڑوں کے مانند ہوں آدمی صبح کرے گا حالت ایمان میں اور شام ہوگی تو کافر ہوجائے گا اور شام کے وقت مؤمن ہوگا اور صبح ہوگی تو کافر ہوجائے گا ،اور وہ اپنا دین بیچ دے گا دنیا کی پونجی کے عوض‘‘۔تو نیک کام جوہم نے سوچ رکھا ہے کوئی خیر کا کام ہے کوئی انفاق کرنا ہے کوئی نفل پڑھناہے کوئی قرآن مجید کی تلاوت کرنی ہے جو بھی نیک کام ہم سوچتے ہیں اس میں جلدی کرنی چاہیے دیر نہیں کرنی چاہیے۔ایک دوسری روایت کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :﴿بَادِرُوا بِالْأَعْمَالِ هَرَمًا نَاغِصًا، وَمَوْتًا خَالِسًا، وَمَرَضًا حَابِسًا، وَتَسْوِيفًا مُؤْيِسًا﴾(شعب الایمان) ’’اعمال میں جلدی کرو شکستہ بڑھاپے کےآنے سے پہلے اور اچانک اچک لے جانے والی موت سے پہلے اور ڈھا دینے والے مرض اور مایوس کن تسویف کے نتیجے سے پہلے‘‘۔

اور ایک طویل حدیث میں نبی اکرمﷺ نے بہت سے ایسے Factors کو جمع کردیا جو انسان کے لیے رکاوٹ بن سکتے ہیں نیکی کے کام میں خیر کے کام میں،آپﷺ نے فرمایا :﴿بَادِرُوا بِالأَعْمَالِ سَبْعًا هَلْ تَنْظُرُونَ إِلاَّ فَقْرًا مُنْسِيًا أَوْ غِنًى مُطْغِيًا أَوْ مَرَضًا مُفْسِدًا أَوْ هَرَمًا مُفَنِّدًا أَوْ مَوْتًا مُجْهِزًا أَوِ الدَّجَّالَ فَشَرُّ غَائِبٍ يُنْتَظَرُ أَوِ السَّاعَةَ فَالسَّاعَةُ أَدْهَى وَأَمَرُّ﴾(سنن ترمذی) اس حدیث مبارکہ کو اگر ہم اچھی طرح سمجھ لیں تو ہماری موعظت و نصیحت کا بہت سامان ہےاس میں۔ فرمایا: ﴿بَادِرُوا بِالأَعْمَالِ سَبْعًا﴾’’سات چیزوں کے ظہور پذیر ہونے سے پہلے پہلے نیک اعمال میں جلدی کر لو‘‘۔﴿هَلْ تَنْظُرُونَ إِلاَّ فَقْرًا مُنْسِيًا﴾’’تم انتظار کس بات کا کررہے ہو ،ایک ایسے فقر کا جو اللہ کی یاد ہی بھلادے‘‘۔ ابھی اللہ تعالیٰ نے کچھ مال دیا ہے کچھ تونگری دی ہے تمہاری ضرورتیں پوری ہورہی ہیں تو ابھی وقت ہے کہ اللہ کے لیے کچھ محنت کرلو،کچھ کوشش کرلو،کچھ Effort کرلو کہیں ایسا نہ ہو کہ ایسا فقر تم پر آجائے جو اللہ ہی کو بھلادے۔ وہ جو ایک ضرب المثل ہے نہ عام طور حدیث کے طور پر مشہور ہے:﴿كاد الفقر أن يكون كفراً﴾’’قریب ہے کہ فقر انسان کو کفر تک پہنچادے ‘‘۔فقر میں یہ صلاحیت ہے کہ انسان اگر روٹی کے چکر میں پڑجائے اور صبح وشام ایک کردے دو وقت کی روٹی کے لیے تو اس کا بہت کم امکان ہوتا ہے کہ وہ اللہ سے کوئی تعلق قائم کرے ، اللہ سے لو لگائے ۔ ایک فقر زہد اور استغنیٰ کے معنوں میں ہے لیکن فقر کا ایک معنی غربت اور تنگدستی ہے تو ان معنوں میں فقر کوئی اچھی چیز نہیں ہے۔ نبی اکرمﷺ نے اسی فقر سے پناہ مانگی ہے، لہٰذا یہ چیز اچھی نہیں ہوسکتی :﴿اللَّهُمَّ إِن أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْكُفْرِ وَالْفَقْرِ﴾(سنن نسائی)’’ اے اللہ میں تجھ سے پناہ طلب کرتا ہوں کفر سے اور فقر سے‘‘۔تو ابھی اللہ نے کچھ مال دیا ہے کچھ کشائش دی ہے تو ہمیں چاہیے کہ ہم نیک کام کرلیں بھلائی کے کام کرلیں اس میں جلدی کریں کہیں ایسا نہ ہو کہ ایسی غربت ایسی تنگدستی آجائے جو اللہ کی یاد ہی کو بھلادے اور اس میں ہم اپنا معیار کوئی بہت بڑا نہ کریں کہ اتنا مال ہوگا ہمارے پاس تو تب ہم مالدار ہوں گے اور پھر خرچ کریں گے۔نبی اکرمﷺ کے اس قول کو سامنے رکھنا چاہیے :﴿مَنْ أَصْبَحَ مِنْكُمْ آمِنًا فِى سِرْبِهِ مُعَافًى فِى جَسَدِهِ عِنْدَهُ قُوتُ يَوْمِهِ فَكَأَنَّمَا حِيزَتْ لَهُ الدُّنْيَا﴾(سنن ترمذی)’’جو آدمی صبح کرے تم میں سے اس حال میں کہ وہ اپنے گھر بار میں امن سے ہو ، اس کا جسد عافیت سے ہو اور اس کے پاس اِس دن کا کھانا موجود ہو تو گویا پوری دنیا اس پر انڈیل دی گئی ‘‘۔تو اس کو غنیمت جانیں کہ اگر اللہ نے آج اتنی سہولت دے رکھی ہے کہ بنیادی ضرورتیں پوری ہورہی ہیں تو کوشش کریں کے نیک کام میں بھلائی کے کام میں کوئی دین سیکھنے کا کام ہے،دین کے لیے انفاق ہے،کوئی عبادات کا ارادہ کیا ہوا ہے کوئی حج وعمرہ کا قصد کیا ہے تو اس میں دیر نہ کریں کہ کہیں ایسا نہ ہو کوئی ایسا فقر آجائے جو اللہ کی یاد ہی بھلادے۔ ﴿أَوْ غِنًى مُطْغِيًا﴾’’یا تم ایسی تونگری اور مالداری کا انتظار کررہے ہو جو تمھیں سرکش بنادے‘‘ ۔مال و دولت اور جاہ و جلال میں یہ صلاحیت ہے کے یہ انسان کو سرکش بنادیں ۔

قرآن کریم میں وہ جو ایک خاص سرکش کردار کا تذکرہ کیا گیا ہے ۔اس کے تکبر و تمرد کا سبب یہی دو چیزیں بیان کی گئیں :﴿أَنْ كَانَ ذَا مَالٍ وَبَنِينَ﴾ (سورة القلم : 14)تو جب مال و بنین نے سرکش بنا دیا تو اب حق کے بارے میں اس کا رویہ ملاحظہ کریں:﴿إِذَا تُتْلَى عَلَيْهِ آيَاتُنَا قَالَ أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ﴾ (سورة القلم : 15)’’جب اس پر ہماری آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو یہ کہتا ہے یہ تو اگلوں کے قصے ہیں‘‘۔تو مال جب انسان کے پاس زیادہ ہوجائے تو یہ مال انسان کو سرکش کردیتا ہے تو پھر وہ کہتا ہے :﴿مَالِى مَالِى﴾’’میرا مال میرا مال‘‘، حالانکہ اللہ کے نبیﷺ نے فرمایا کہ تمہارا مال کون سا ہے،جو تم نے کھا لیا اور فنا کردیا یا جو تم نے پہن لیا اور اس کو پہن کے بوسیدہ کردیا یا جو تم نے صدقہ کردیا اور اس کو آگے بھیج دیا باقی تمہارا مال ہے ہی نہیں وہ تو تمہارے وارثوں کا مال ہے۔تو اس سے بھی ڈرنا چاہیے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ مالداری آجائے ، ایک دم اللہ تعالیٰ چھپڑ پھاڑ کے ایسا دے دیں کہ اس کے بعد انسان سرکش ہوجائے۔تو اللہ کے بنیﷺ نے فرمایا کہ کیا تم انتظار کررہے ہو ایسی تَوَنگری اور مالداری کا جو تمھیں سرکش بنادے۔﴿أَوْ مَرَضًا مُفْسِدًا﴾’’یا تم انتظار کررہے ہو ایسی بیماری کا ، ایسے مرض کا جو جسم کو فاسد کردے جسم کو گلاسڑا دے‘‘۔آج تم بھلے چنگے ہو تمہارے جسم و جان میں صلاحیت ہے تم کچھ کرنے کے قابل ہو تو کچھ کرلو کہیں ایسا نہ ہو کوئی تکلیف آجائے کوئی بیماری آجائے اور پھر تم کچھ کرنا چاہو تو نہ کرسکو جیسے لوگ عام طور پر کرتے ہیں کہ ٹالتے رہتے ہیں بھلائی کے کاموں کو ، نیکی کے کاموں کو کہ بڑی عمر پڑی ہے بڑھاپے میں جاکر کریں گے تو کہا کہ کہیں ایسا نہ ہو کے تمہارا جسم ہی گل سڑ جائے اس کو کوئی ایسی بیماری لاحق ہوجائے کہ پھر تم وہ نیک عمل نہ کرسکو۔تو کہا کہ مرض مفسد کے آنے سے پہلے پہلے اللہ تعالیٰ کی بندگی کے کام میں خیر کے کام میں جلدی کرو۔اور پھر فرمایا:﴿أَوْ هَرَمًا مُفَنِّدًا﴾’’ یا تم انتظار کررہے ہو ایسے بڑھاپے کا ایسی ادھیڑ عمری کا کہ جو تمہاری مت ہی ماردے عقل ہی تمہاری جاتی رہے‘‘۔یہ جو لفظ ہے﴿مُفَنِّدًا﴾یہ وہ ہی لفظ ہے جو قرآن مجید میں سیدنا یعقوب علیہ السلام نے بولا تھا :﴿إِنِّي لَأَجِدُ رِيحَ يُوسُفَ لَوْلَا أَنْ تُفَنِّدُونِ﴾(۹۴) ’’میں یوسف کی خوشبو پارہا ہوں کہیں تم یہ نہ سمجھو کہ میری مت ماری گئی ہے یعنی مجھےسٹھیا ہوا نہ سمجھو‘‘۔﴿أَوْ هَرَمًا مُفَنِّدًا﴾ تو کیا تم انتظار کررہے ہوں ایسے بڑھاپے کا ایسی ادھیڑ عمری کا کہ جو عقل کو ہی فارغ کردے تم سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے جو ہی عاری ہوجاؤ۔تو کرلو ابھی کام کرلو ابھی بھلے چنگے ہو، ابھی جوان ہو ، ابھی صلا حیت ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ ایسا بڑھاپا آجائے کہ تم کچھ کرنا بھی چاہو تو نہ کرسکو۔اس لیے نبی اکرمﷺ اس نکمی عمر اور شکستہ بڑھاپےسے پناہ مانگا کرتے تھے :﴿أَعُوذُ بِكَ مِنْ أَرْذَلِ الْعُمُرِ﴾﴿وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ الْهَرَمِ﴾(صحیح بخاری) ’’اے اللہ میں تجھ سے پناہ طلب کرتا ہوں اس سے کہ تو مجھے نکمی عمر کی طرف لوٹادے اور میں پناہ مانگتا ہوں عقل کو زائل کرنے والے بڑھاپے سے‘‘۔ تو سمجھایا جا رہا ہے کہ ابھی جوان ہو ابھی تمہارے جسم وجان میں صلاحیت ہے تو جلدی سے نیک کام کرلو ۔﴿أَوْ مَوْتًا مُجْهِزًا﴾’’یا تم انتظار کررہے ہوں اس موت کا جو اچانک آجاتی ہے‘‘۔ یعنی موت تو کبھی بھی آسکتی ہے وہ Ultimatum دے کر تو نہیں آتی لیکن بعض اوقات ایک ہوتا ہے کہ آدمی نے اپنی عمر پوری کرلی طویل عمر جس کو کہتے ہے یا یہ ہے کہ آدمی بیمار ہوا بیماری لاحق ہوئی اس کی Stages گزری تو اس کو اندازہ ہے کہ موت قریب ہے تو آدمی توبہ تلافی کرلے کچھ اللہ سے عذرومعذرت کرلے کچھ لوگوں کے حقوق ادا کردے۔لیکن ایک ایسی موت جو اچانک آجاتی ہے کوئی ایکسیڈنٹ میں ایک دم ختم ہوجائے یا بیٹھے بیٹھےCardiac arrest ہوجائے آدمی کا دل بند ہوجائے۔ تو کہا کہ تم کیا ایسی موت کا انتظار کررہے ہو جو اچانک آجاتی ہے۔کوئی تنبیہ بھی نہیں کرتی تو کیا اس کا انتظار کررہے ہو کہ مہلتِ عمر ختم ہوجائے۔اور اس موقع پر بھی جس طرح قرآن مجید کہتا ہے نا کہ اس وقت کوئی شخص کہے:’’اے اللہ تو مجھے تھوڑی مہلت دے دیں اور تو مجھے دنیا میں لوٹادے تو میں خوب صدقہ کروں گا اور خوب نیک ہوجاؤں گا‘‘۔ لیکن ظاہر بات ہے :﴿وَلَنْ يُؤَخِّرَ اللَّهُ نَفْسًا إِذَا جَاءَ أَجَلُهَا﴾ (المنافقون:11) ’’جب کسی کی اجل آ جائے تو اللہ تعالیٰ کسی کے وقت کو موخر نہیں کرتے‘‘۔تو کہا جا رہا ہے کہ کیا تم انتظار کررہے ہو ایک ایسی موت کا جو اچانک آجاتی ہے۔﴿أَوِ الدَّجَّالَ فَشَرُّ غَائِبٍ يُنْتَظَرُ﴾ ’’یا تم انتظار کررہے ہو دجّال کا تو وہ غائب شدہ چیزوں میں سے کہ جن کا انتظار کیا جارہا ہے سب سے بری چیز ہے‘‘۔دجال کے آنے کے بعد تم نیکی کرنے کی سوچ رہے ہو تو یہ بڑی بھول ہےوہ فتنہ تو تمہاری سوچ سے کہیں بڑا ہے۔ احادیث میں آتا ہے کہ کچھ لوگ اس خیال سے کہ ہم سے اس سے نبٹ لیں گے،وہ حجت اور دلیل بازی کے ارادے سے اس کے پاس جائیں گے مگر اس کے شبہات کا شکار ہوجائیں گے۔دیکھیں ابھی وہ شخص دجّال تو نہیں آیا ایک دجّالی فتنہ اور تہذیب ہے یا پھر دنیا پرستی کا فتنہ ہے جس میں ہم سب تھوڑے بہت ملوث ہیں لیکن بہرحال ابھی تک اس شخص دجّال نے ظہور نہیں کیا جس کے بعد ایمان بچانا تقریباً ناممکن ہوجائے گا۔تو کہا کہ ’’کیا تم دجّال کا انتظار کررہے ہو تو وہ پوشیدہ چیزوں میں سے جن کا انتظار کیا جارہا ہے سب سے بری مخلوق ہے‘‘۔دجال کے بارے میں ایک روایت یہ بھی ہے:﴿ثَلاثٌ إذا خَرَجْنَ لا يَنْفَعُ نَفْسًا إيمانُها لَمْ تَكُنْ آمَنَتْ مِن قَبْلُ، أوْ كَسَبَتْ في إيمانِها خَيْرًا: طُلُوعُ الشَّمْسِ مِن مَغْرِبِها، والدَّجَّالُ، ودابَّةُ الأرْضِ﴾ (صحيح مسلم)’’ تین چیزیں وہ ہیں جب ظاہر ہو جائیں تو ایمان نہ لانے والے کو ایمان لانا ، یا ایمان میں نیکی نہ کر نے والے کو نیکی کرنے کا فائدہ نہ دے گا ،سورج کا مغرب سے طلوع ہو جانا ، دجال کاخروج کرنا اور دابۃ الارض کا ظاہر ہو جانا‘‘۔علی الاطلاق تو بہ کا دروازہ تو سورج کے مغرب سے طلوع ہونے کے بعد بند ہو گا جیسا کہ آگے آنے والی ایک حدیث میں بھی اس کی تصریح ملے گی اور اس کے بعد دابۃ الارض نکلے گا اور وہ نشان لگا کر نیک و بد کو الگ کر دے گا،تو اس وقت توبہ اور اصلاح احوال کا دروازہ بند ہو چکا ہوا گا ۔ البتہ ظہور دجال کے وقت توبہ کا دروازہ کھلا رہے گا،جبھی تو کثیر تعداد میں اہلِ کتاب عیسی علیہ السلام پر ایمان لائیں گے لیکن دجال کے ظہور کے بعد ، حالات اتنے مشکل ہوں گے کہ پہلے سے ایمان و عمل صالح میں مصروف لوگوں کے قدم بھی اکھڑ رہے ہوں گے تو ان حالات میں جس شخص نے پہلے سے ایمان نہیں لایا ہوگا یا جس نے عمل صالح کے تقاضے ادا نہیں کیے ہوں گے تو اس کے لیے توبہ کرنا، اصلاح احوال اور ایمان کی محنت شروع کرنا بہت زیادہ مشکل ہو گا ۔اس مشکل کے بیان کے لیے ، تغلیب کے قاعدے کے تحت دجال کا ذکر بھی یہاں کر دیا گہ بس دجال کے آنے کے بعد توبہ کا دروازہ بند ہی سمجھو اس سے پہلے پہلے جو کرنا ہے کر لو !!﴿أَوِ السَّاعَةَ فَالسَّاعَةُ أَدْهَى وَأَمَرُّ﴾’’یا تم قیامت کا انتظار کررہے ہوپس قیامت توبڑی ہی سخت (مصیبت ) اور بڑی ہی تلخ چیز ہے۔ ‘‘وہ قیامت جس کی صورتِ حال یہ ہے کہ اس وقت انسان بالکل باولا ہوکر پھرے گا:﴿يَاأَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ إِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْءٌ عَظِيمٌ () يَوْمَ تَرَوْنَهَا تَذْهَلُ كُلُّ مُرْضِعَةٍ عَمَّا أَرْضَعَتْ وَتَضَعُ كُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَهَا وَتَرَى النَّاسَ سُكَارَى وَمَا هُمْ بِسُكَارَى وَلَكِنَّ عَذَابَ اللَّهِ شَدِيدٌ﴾(سورۃ الحج :۱،۲) ’’اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو اللہ کا تقوی اختیار کرو بے شک قیامت کا بھونچال بہت بڑی چیز ہے۔وہ دن کہ جس دن تم دیکھو گے ہر دودھ پلانے والی اپنے شیر خوار سے غافل ہوجائے گی اور تم دیکھو گے کہ ہر حمل والی اپنا حمل گرادے گی۔ اور تم دیکھو گے کہ لوگ بالکل باولے ہوئے پھر رہے ہیں جیسے نشے میں مدہوش ہیں حالانکہ وہ نشے میں نہیں ہوں گے بلکہ اللہ کا عذاب ہی بہت شدید ہے‘‘۔

ماں (عورت) کے اندر جو سب سے بڑا جذبہ ہوتا ہے وہ ممتا کا جذبہ ہوتا ہے اور کوئی عفت والی عورت کبھی بھی اپنا حمل ضائع کرنا پسند نہیں کرتی لیکن قیامت کے حالات ان بنیادی جذبات سے بھی عورتوں کو غافل کر دیں گے ۔تو فرمایا کہ کیا تم اس الساعۃ کا انتظار کررہے ہو اور اس وقت کے لیے تم نے اپنی زندگی کے معمولات Refer کیے ہوئے ہیں تو جب نزع کا عالم طاری ہوجائے گا تو تمہارے لیے توبہ کا دروازہ بند ہوجائے گا :﴿إِنَّ اللَّهَ يَقْبَلُ تَوْبَةَ الْعَبْدِ مَا لَمْ يُغَرْغِرْ﴾(سنن ترمذی) ’’اللہ تعالیٰ بندے کی توبہ قبول کرتے ہیں جب تک جان حلق میں نہ آکر اٹک جائے‘‘۔اسی طریقے سے اس کائنات کی جو موت اور نزع کا وقت ہے اس وقت کائناتی طور پر بھی توبہ کا دروازہ بند ہوجائے گا اور اس کائنات کی نزع سورج کا مغرب سے طلوع ہونا ہے۔اللہ کے نبی کریمﷺ نے فرمایا : ﴿إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَبْسُطُ يَدَهُ بِاللَّيْلِ لِيَتُوبَ مُسِىءُ النَّهَارِ وَيَبْسُطُ يَدَهُ بِالنَّهَارِ لِيَتُوبَ مُسِىءُ اللَّيْلِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِهَا﴾(صحیح مسلم)’’اللہ تعالیٰ رات میں اپنے ہاتھ بڑھاتے ہیں تاکہ دن کا گناہگار توبہ کر لے اور دن میں ہاتھ بڑھاتے ہیں تاکہ رات کا گناہگار توبہ کرلے ، یہاں تک کہ سورج مغرب سے طلوع ہوجائے‘‘۔ توجب سورج مغرب سے طلوع ہوجائے گا تو اس کامطلب یہ ہے کہ اس کائنات کی نزع آگئی ہے اور اس کائنات کی نزع جب آجائے گی تو توبہ کا دروازہ اجتماعی طور پر بند ہوجائے گا۔تو یہ سات چیزیں نبی اکرمﷺ نے گن کر بتائی ہیں اور توجہ دلائی ہے کہ ان سات چیزوں کے آنے سے پہلے پہلے نیک عمل کرلو اللہ کو راضی کرنے والے اعمال کرلو۔ دوبارہ گن کے یاد کرلیں۔ پہلی چیز کیا ہے ﴿فَقْرًا مُنْسِيًا﴾ ’’ایک ایسی تنگدستی جو اللہ کو بھلادیے‘‘۔﴿أَوْ غِنًى مُطْغِيًا﴾ ’’یاایسی تونگری جو سرکش بنادے‘‘:﴿أَوْ مَرَضًا مُفْسِدًا﴾’’یا ایسی بیماری جو جسم کو فاسد کردے‘‘ ۔﴿أَوْ هَرَمًا مُفَنِّدًا﴾ ’’یا ایسا بڑھاپا جو انسان کی عقل مار دے‘‘۔﴿أَوْ مَوْتًا مُجْهِزًا﴾’’یا ایک ایسی موت جو اچانک آتی ہے‘‘۔ ﴿أَوِ الدَّجَّالَ فَشَرُّ غَائِبٍ يُنْتَظَرُ﴾’’یا دجّال کا انتظار کررہے ہو کہ جو سب سے بری چیز ہے کہ جس کا انتظار کیا جارہا ہے‘‘۔ ﴿أَوِ السَّاعَةَ فَالسَّاعَةُ أَدْهَى وَأَمَرُّ﴾’’یا تم قیامت کے منتظر ہو اور وہ قیامت تو بہت سخت اور بہت کڑوی ہے‘‘۔ تو ہم سب کو چاہیے کہ جومہلت ہمارے پاس ہے جو وقت اللہ نے ہم کو دیا ہے اس کو قیمتی بنائیں ۔جو وقت ہمیں ملتا ہے کوشش کریں وہ اللہ کی یاد میں اس کوصرف کریں۔بڑی خوبصورت حدیث ہے جامع ترمذی میں کہ نبی کریمﷺ کی ملاقات جب سیدنا ابراہیم علیہ السلام سے ہوئی معراج کے موقعے پر ، تو سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے نبیﷺ سے فرمایا: ’’اے محمدﷺ اپنی امت کو میرا سلام کہیے اور ان کو میرا یہ پیغام پہنچادیں کہ جنت کی زمین بہت پاکیزہ ہے بہتFertile ہے اور جنت کا پانی بہت میٹھا ہے لیکن اس کی زمین چٹیل ہے ۔اس میں کاشت کرنی ہے تو سبحان الله والحمد لله ولا إله إلا الله والله أکبرپڑھا کریں‘‘۔ گویا ہم سب کو اپنی جنت خود کاشت کرنی ہے اور اس سے اس بات کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ زبان کی اہمیت کتنی زیادہ ہے اس زبان سے گویا ہم جنت اپنی خود کاشت کررہے ہیں۔اللہ کے بنی کریمﷺ سے فرمایا :﴿مَنْ قَالَ سُبْحَانَ اللَّهِ الْعَظِيمِ وَبِحَمْدِهِ غُرِسَتْ لَهُ نَخْلَةٌ فِي الْجَنَّةِ﴾’’جس نے سبحان الله العظیم و بحمده کہا اس کے لیے جنت میں کھجور کا درخت لگادیا جاتا ہے‘‘۔اب یہ سادہ سی بات ہے لیکن یہی زبان ہے جس کی وجہ سے انسان جہنم کا ایندھن بھی جمع کرتا ہے۔جب نبی اکرم ﷺ نے سیدنا معاذ ابن جبل رضی اللہ عنہ کے سامنے اپنی زبان پکڑ کر فرمایا:﴿كُفَّ عَلَيْكَ هَذَا﴾’’اس کو تھام کر رکھو‘‘۔ تو سیدنا معاذرضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ اے اللہ کے نبیﷺکیا ہم زبان سے جو کلام کرتے ہیں اس پر بھی ہمارا مؤاخذہ ہوگا تو آپ نے فرمایا : ’’انسان کو جہنم میں اوندھے منھ گرانے والی سب سے بڑی چیز زبان کی کھیتیاں ہی تو ہیں‘‘۔تو اسی زبان سے ہم جہنم کے انگارے بھی جمع کررہے ہیں اور اسی زبان سے ہم جنت کے درخت بھی لگارہے ہیں۔اور اس کی اہمیت یہ بھی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا :﴿إِنَّ الْعَبْدَ لَيَتَكَلَّمُ بِالْكَلِمَةِ مِنْ رِضْوَانِ اللَّهِ لَا يُلْقِي لَهَا بَالًا يَرْفَعُ اللَّهُ بِهَا دَرَجَاتٍ وَإِنَّ الْعَبْدَ لِيَتَكَلَّمُ بِالْكَلِمَةِ مِنْ سَخَطِ اللَّهِ لَا يُلْقِي لَهَا بَالًا يَهْوِي بِهَا فِي جَهَنَّمَ﴾(صحيح بخاری) ’’بندہ اللہ کی رضا والا کوئی بول بولتا ہے اور اس کو اس کی قدر و قیمت کا اندازہ نہیں ہوتا،لیکن اللہ اس کے بدولت اس کے درجات بلند کر دیتا ہے اور کبھی انسان اللہ کو ناراض کرنے والاکوئی ایسا بول بولتا ہے جس کی خرابی کا اسے اندازہ نہیں ہوتا لیکن اس کی وجہ سے وہ جہنم میں جا پڑتا ہے‘‘۔

تو زبان کی اہمیت بہت زیادہ ہے اور جس طرح ہم نے شروع میں عرض کیا تھا کہ اس دور میں ہمارے لیے جو بڑے بڑے فتنے ہیں ان میں ایک فتنہ نگاہ کی حفاظت کا ہے،اس کی حفاظت کا اہتمام کریں اور دوسرا زبان کا صحیح استعمال کریں۔ اللہ کے نبی کریمﷺ نے فرمایا :﴿مَنْ يَضْمَنْ لِي مَا بَيْنَ لَحْيَيْهِ وَمَا بَيْنَ رِجْلَيْهِ أضمنْ لَهُ الجنَّةَ﴾ (صحيح بخاری)’’جو شخص مجھے ضمانت دے اس کی جو اس کے دونوں جبڑوں کے درمیان ہے (یعنی زبان) اور جو اس کی دونوں ٹانگوں کے درمیان ہے (یعنی شرمگاہ) تو میں اس کو جنت کی ضمانت دیتا ہوں ‘‘۔زبان میں دونوں ہی چیزیں آجائیں گی ایک تو وہ آفات اللسان ہے،جھوٹ ہے،غیبت ہے،بہتان ہے،گالم گلوچ ہے،تہمت لگانا ہے ۔اور دوسری انسان کی خوراک ہے یہی زبان ہے جو کھانے کے لیے استعمال ہوتی ہے انسان اگر خدانخواستہ حرام کھاتا ہے تو اسی زبان اور اسی منہ سے کھاتا ہے،تو اس لحاظ سے بھی شرمگاہ اور زبان ان کی اہمیت بہت زیادہ ہے ۔

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو توفیق دیں کہ ہم اپنی حفاظت کریں اس دورِ فتن میں اپنی زبان ،اپنی نگاہوں اور اپنی شرمگاہ کی حفاظت کریں،اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔آمین 

لرننگ پورٹل