لاگ ان

ہفتہ 21 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 23 نومبر 2024

لاگ ان

ہفتہ 21 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 23 نومبر 2024

لاگ ان / رجسٹر
ہفتہ 21 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 23 نومبر 2024

ہفتہ 21 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 23 نومبر 2024

فرضیت علم و فقہ

پہلےہم نے احادیث سے تفقہ فی الدین یا علم دین کے تین شعبے معلوم کیے تھے یعنی علم العقیدہ یا علم الکلام ، علم الاحکام یا فقہ اور علم الاخلاق یا تصوف ، یہ تقسیم نوعیت کے اعتبار سے تھی۔ اب ہم فرضیت کی طرف آتے ہیں تو علم دین کی ان تینوں انواع کا علم حاصل کرنا فرض ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان تین انواع کا کتنا علم حاصل کرنا فرض ہے۔ زمین اور بارش کی مثال پر مشتمل حدیث اس لحاظ سے اہم ہے کہ یہ بھی علم دین یا فقہ فی الدین کی دو اقسام بیان کرتی ہے لیکن یہ تقسیم مکلفین کے اعتبار سے ہے یعنی یہ تقسیم بہ اعتبار فرضیت ہے۔اس حدیث کی رو سے علم کی دو اقسام ہیں: ایک وہ جو اپنی ذات کے فائدے کے لیے ضروری ہے، جوخود دین پر عمل پیرا ہونے کی حد تک علم حاصل کرنا ہے۔ دوسرا وہ جو اس ابتدائی علم پر مستزاد ہے، جس کے ذریعے دوسروں کی رہنمائی کی جا سکتی ہے۔فقہاء کی اصطلاح میں اس بات کو یوں کہا جا سکتا ہے کہ ابتدائی درجے کا علم حاصل کرنا فرض عین ہے یعنی ہر ہر مکلف پر فرض ہے۔لیکن انہی شعبوں کا اتنا علم حاصل کرنا کہ دوسروں کی رہنمائی کی جا سکے ہر ہر مکلف پر فرض نہیں ہے بلکہ پوری اجتماعیت پر بحیثیت مجموعی فرض ہے(رد المحتار على الدر المختار) فرض عین علم سے بحث وہ حدیث مبارکہ کرتی ہے جس میں آپﷺ نے ہر مسلم پر علم حاصل کرنا فرض قرار دیا:﴿طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ﴾ (سنن ابن ماجه) ’’علم حاصل کرنا ہر مسلمان ( مرد و عورت ) پر فرض ہے‘‘جب کہ فرضِ کفایہ علم کی جانب درج ذیل آیت میں اشارہ فرمایا گیا:﴿فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طَائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنْذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ﴾(التوبة:۱۲۲) ’’تو کیوں نہ ہو کہ ان(مسلمانوں ) کے ہر گروہ میں سے   ایک جماعت نکلے کہ دین کی سمجھ حاصل کریں اور واپس آکر اپنی قوم کو ڈر سنائیں تاکہ وہ بھی بچیں (نافرمانی سے ) ‘‘۔

فقہاء کے مطابق اسلام کے بنیادی فرائض میں سے ہے کہ انسان اتنا علم حاصل کرے جو اس کے دین پر قائم رہنے کے لیے، اپنے عمل کے اللہ کے لیے خالص ہونے اور بندوں کے ساتھ اسلامی معاشرت کے لیے ضروری ہے، اور ہر مسلمان مرد و عورت پر لازم ہے کہ وہ وضو، غسل نماز اور روزے کے مسائل کا علم حاصل کرے، صاحب نصاب کے لیے زکاۃ اور صاحب استطاعت کے لیے حج کے مسائل سیکھنا بھی فرض ہے، تاجروں پر بیع و شراء کا علم حاصل کرنا اور ہر پیشے کے حاملین کے لیے اپنے پیشے کی بابت سیکھنا فرض ہے تاکہ تمام معاملات میں حرام اور مکروہات و شبہات سے بچ سکے، پس انسان جس کام سے بھی اشتغال رکھے اس کی بابت علم حاصل کرنا بھی اس پر فرض ہے۔پانچ ارکان اسلام کے بارے میں علم حاصل کرنے کی فرضیت بالکل ظاہر وباہر ہے اور اسی طرح علم اخلاص(تزکیہ نفس ) سیکھنا بھی لازم ہے کیونکہ اسی پر عمل کی صحت کا دارومدار ہے۔پس حلال و حرام کے مسائل کی طرح ریا سے بچنے کا علم حاصل کرنا بھی فرض ہے کیونکہ عامل ریا کی وجہ سے اپنے اجر سے محروم رہ سکتا ہے۔ اسی طرح حسد اور عجب وغیرہ کا علم حاصل کرنا بھی فرض ہے کیونکہ یہ نیکیوں کو اس طرح کھا جاتے ہیں جیسے کہ آگ لکڑی کو، اسی طرح بیع و شراء اور نکاح و طلاق کے مسائل سیکھنا اشخاص پر فرض ہو جاتا ہے جب وہ ان میں مشغول ہونے کا ارادہ کر لیں۔ 

اب تک کی بحث میں ہم نے سمجھا کہ علم دین یا فقہ فی الدین کے تین شعبے ہیں یعنی علم الاعتقاد یا علم الکلام ، علم الاحکام یا علم الاعمال اور علم الاخلاق یا تزکیہ نفس و احسان ۔ دوسری اہم بات یہ سمجھیے کہ ان تینوں شعبوں کا اتنا علم کہ جس کی روشنی میں انسان اپنے اعتقاد ، اعمال اور اخلاق کی اصلاح کر سکے ہر مسلمان پر فرض عین ہے۔ انہی تین شعبوں کا اتنا علم کہ جس سے دوسروں کی رہنمائی کی جا سکے تمام امت پر فرض کفایہ ہےالبتہ اس فرض کفایہ کا اہتمام کرنا اولو الامر کی ذمے داری ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ  نے عام مسلمانوں پر اولو الامر کی اطاعت لازمی قرار دی ہے۔ 

اولو الامر کی تفسیر 

قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ  مسلمانوں کو اصحاب امر کی اطاعت کا حکم دیتے ہوئےفرماتے ہیں :﴿أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ﴾ (النساء: 59)’’ اے ایمان والو ! اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی بھی اطاعت کرو اور تم میں سے جو لوگ صاحب اختیار ہوں ان کی بھی‘‘۔اس آیت کے شان نزول میں ، ابن جریر رحمہ اللہ،  ابن کثیر رحمہ اللہ اور دوسرے مفسرین نے یہ واقعہ بیان کیا ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ایک مہم پر خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو امیر بنا کر روانہ کیا جبکہ عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ بطور ماتحت لشکر میں شامل تھے۔ دونوں میں بعض امور پر اختلاف ہوا تو یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی تو اس شان نزول سے واضح ہوتا ہے کہ اولی الامر سے مراد امرا ہیں۔ لیکن دوسری طرف جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے اسی آیت میں اولی الامر کی تفسیر میں فرمایا ﴿أُولِي الْفِقْهِ وَالْخَيْرِ﴾ ’’علم اور تقوی والے‘‘۔امام حاکم رحمہ اللہ نے مستدرک میں اس حدیث پر یہ تبصرہ کیا ہے:هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ لَهُ شَاهِدٌ، وَتَفْسِيرُ الصَّحَابِيِّ عِنْدَهُمَا مُسْنَدٌ،’’یہ حدیث صحیح ہے اور اس کا ایک شاہد بھی ہے اور حضرات شیخین (بخاری و مسلم)  کے نزدیک تفسیر صحابی ، حدیث مرفوع کے حکم میں ہے‘‘۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا: ﴿أَهْلَ الْفِقْهِ وَالدَّيْنِ، وَأَهْلِ طَاعَةِ اللَّهِ الَّذِينَ يُعَلِّمُونَ النَّاسَ مَعَالِيَ دِينِهِمْ وَيَأْمُرُونَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ، وَيَنْهَوْنَهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ، فَأَوْجَبَ اللَّهُ طَاعَتَهُمْ﴾’’ علم و عمل دین اور فقہ کے حاملین اور اللہ کے اطاعت گزار بندے جو لوگوں کو دینی اقدار کی تعلیم دیتے ہیں انھیں نیکی کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے ہیں پس اللہ نے عوام پر ان کی اطاعت لازم قرار دی ہے‘‘۔امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے ان دونوں تفسیروں کو جمع کرتے ہوئے لکھا ہے :وَالظَّاهِرُ -وَاللَّهُ أَعْلَمُ-أَنَّ الْآيَةَ فِي جَمِيعِ أُولِي الْأَمْرِ مِنَ الْأُمَرَاءِ وَالْعُلَمَاءِ ’’ظاہرا ً یہ معلوم ہوتاہے کہ یہ آیت تمام اولی الامر کو شامل ہے یعنی امراکو بھی اور علماء کو بھی‘‘۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ اولو الامر میں علماے کرام کے ساتھ ساتھ اجتماعی نظم کو چلانے والے امرا بھی شامل ہیں۔ پس جہاں علماء کو چاہیے کہ وہ لوگوں کی فقہ فی الدین کا اہتمام کریں وہیں حکمرانوں کو بھی چاہیے کہ وہ علماء اور طلبہ کی ضروریات و سہولیات کا اہتمام کریں تاکہ معاشرے میں فقہ و تفقہ کا دور دورہ ہو سکے۔ 

قیادت و حکومت کے لیے علم و فقہ کی ضرورت

اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان معاشروں میں قیادت و سیادت کے اہل بھی وہی لوگ ہیں جو تفقہ فی الدین کے حامل ہوں۔ منافقین کا یہ طرز عمل تھا کہ بغیر تحقیق کے خبریں اور افواہیں پھیلا یا کرتے تھے اللہ تعالیٰ  نے ان کی تادیب کرتے ہوئے فرمایا :﴿وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَى أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ﴾ (النسا:83)’’اور اگر یہ اس (خبر) کو رسول کے پاس یا اصحاب اختیار کے پاس لے جاتے تو ان میں سے جو لوگ اس کی کھوج نکالنے والے ہیں وہ اس کی حقیقت معلوم کرلیتے‘‘۔اس آیت میں اللہ تعالیٰ  نے رسول اللہ ﷺ اور اصحاب امر ، دونوں کا وظیفہ استنباط بتایاہے اس سے ضمنی طور پر یہ رہنمائی ملتی ہے کہ حکمرانوں میں استنباط کی اہلیت ہونی چاہیے۔اس ضمن میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا ایک قول بہت چشم کشا ہے فرماتے ہیں :﴿مَنْ سَوَّدَهُ قَوْمُهُ عَلَى الْفَقْهِ كَانَ حَيَاةً لَهُ وَلَهُمْ، وَمَنْ سَوَّدَهُ قَوْمُهُ عَلَى غَيْرِ فِقْهٍ كَانَ هَلاَكاًلَهُ وَلَهُمْ﴾ (سنن الدارمي) ’’جسے اس کی قوم نے اپنا سردار بنا لیا اس کے دینی علم اور فقاہت کی بنا پر تو یہ سردار بننا اس کے لیے بھی زندگی ہے اور پوری قوم کے لیے بھی زندگی ہے، اور جسے اس کی قوم نے سردار بنا دیا اس کی فقاہت کے بغیر تو اس کی بھی ہلاکت ہے اور پوری قوم کی بھی ہلاکت ہے‘‘۔سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا اسی قسم کا ایک فرمان امام بخاری رحمہ اللہ نے نقل کیا: ﴿تَفَقَّهُوا قَبْلَ أَنْ تُسَوَّدُوا﴾ ’’سردار بننے سے پہلے فقاہت حاصل کرو‘‘۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد اپنی طرف سے خاص بات لکھی ہے :        (وَبَعْدَ أَنْ تُسَوَّدُوا ) ’’ ’’اور سردار بننے کے بعد بھی علم حاصل کیا کرو ‘‘تُسَوَّدُوا ‘‘ سے بعض اہل علم نے سردار بننا مراد لیا ہے جسے ہم نے اختیار  کیا ہے جبکہ   امام بخاری  رحمہ اللہ نے اس سے مراد ، عمر میں بڑا ہونا  مراد لیا ہے اسی  لیے وہ   آگے چل کر لکھتے ہیں :وَقَدْ تَعَلَّمَ أَصْحَابُ النَّبِيِّ ﷺ فِي كِبَرِ سِنِّهِمْ(صحیح بخاری،کتاب العلم)  ’’یقینی طور پر (اکثر) صحابہ نے علم بڑی عمر میں ہی سیکھا ہے‘‘۔

حکمرانوں کی علمی سرپرستی اور صدر اول

 دین کے علم اور فقاہت کی اتنی اہمیت تھی کہ نبی کریم ﷺ جب امراکو مختلف بلاد و امصار میں حاکم بناتے تھے تو انھیں عدل و انصاف کے ساتھ ساتھ تعلیم دین کی تاکید بھی فرماتے تھے۔جب آپ ﷺ  نے عمرو بن حزم  رضی اللہ عنہ کو یمن کا گورنر بنا کر بھیجا تو تسمیہ کے بعد تحریر فرمایا:’’یہ وثیقہ ہے اللہ اور رسول کی طرف سے اے اہل ایمان اپنے وعدوں کو پورا کرو یہ عہد ہے اللہ کے رسول ﷺ کی طرف سے عمرو بن حزم کے لیے جبکہ وہ اسے یمن کی طرف روانہ فرما رہے ہیں اور انھیں حکم دیتے ہیں اپنے فیصلوں میں تقوی اختیار کرنے کا، پس بے شک اللہ ان کے ساتھ ہے جنھوں نے تقوی اختیار کیا اور جو نیکوکار ہوئے، اور انھیں مکرر حکم دیتے ہیں حق کو اختیار کیے رکھنے کا، اور اس کا حکم دیتے ہیں کہ لوگوں کو اچھے انجام کی بشارت دے اور نیکی کا حکم دے اور لوگوں کو قرآن کی تعلیم دے اور اور قرآن میں فقاہت پیدا کرنا سکھائے اور لوگوں کو برائی سے روکتا رہے‘‘۔

اسی طرح جب فتح مکہ کے بعد رسول اللہ ﷺ حنین کے لیے روانہ ہوئے تو مکہ پر سیدنامعاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو اہل مکہ پر عامل مقر ر کیا اور انھیں حکم دیا ﴿أَنْ يُعَلِّمَ النَّاسَ الْقُرْآنَ وَيُفَقِّهَهُمْ فِي الدِّينِ﴾ کہ وہ انھیں قرآن پڑھائیں اور تفقہ فی الدین کی تعلیم دیں‘‘۔ (دلائل النبوة للبيهقي)نبی اکرمﷺ نے ایک بار سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن کی طرف عامل بنا کر بھیجا تو انھیں حکم دیا:﴿يُعَلِّمُ النّاسَ الْقُرآنَ وشَرائِعَ الإسْلامِ ويَقْضِي بَيْنَهُم﴾’’وہ لوگوں کو قرآن کی تعلیم دیں اور اسلام کے احکام شریعت بھی سکھائیں اور ان کے مطابق لوگوں میں فیصلے بھی فرمائیں‘‘۔(إمتاع الأسماع للمقريزي)حضرت عمر رضی اللہ عنہ ، امرا کی ذمے داریوں میں یہ بھی بتاتے کہ وہ لوگوں کی دینی تعلیم و تربیت کا اہتمام کریں اپنے ایک خطبے میں آپ فرماتے ہیں :﴿أَلاَ إنِّي وَاللهِ مَا أَبْعَثُ إلَيْكُمْ عُمَّالاً لِيَضْرِبُوا أَبْشَارَكُمْ ، وَلاَ لِيَأْخُذُوا أَمْوَالَكُمْ , وَلَكِنْ أَبْعَثُهُمْ إلَيْكُمْ لِيُعَلِّمُوكُمْ دِينَكُمْ وَسُنَّتَكُمْ فَمَنْ فُعِلَ بِهِ سِوَى ذَلِكَ فَلْيَرْفَعْهُ إِلَيَّ﴾(مصنف ابن أبي شیبه)’’آگاہ رہو ، خدا کی قسم میں نے تم پر عُمَّال اس لیے نہیں مقرر کیے کہ وہ تمہاری کھال ادھیڑ دیں اور نہ ہی اس لیے کہ تمہارے مال ضبط کرتے رہیں بلکہ میں تو انھیں تمھاری طرف اس لیے بھیجتا ہوں کہ تاکہ وہ تمہارا دین اور سنت تمھیں سکھائیں، پس جو کوئی اس کے علاوہ کوئی حرکتیں کرےتو اس کی اطلاع مجھ تک پہنچایا کرو‘‘۔

اب حدیث کے اگلے الفاظ کی طرف آتے ہیں:

﴿وَإِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وَاللَّهِ يُعْطِي﴾ ’’میں تو بانٹنے والا ہوں اور دینے والی ذات تو اللہ ہی کی ہے‘‘۔نبی اکرمﷺ نے اپنے لیے تقسیم کنندہ کا لفظ استعمال فرمایا۔اس ایک لفظ میں گہرے معنی پوشیدہ ہیں۔ تقسیم کرنے میں ’’دینے‘‘ سے زیادہ اہتمام شامل ہوتا ہے اور تقسیم کرنے میں بسا اوقات تقسیم کرنے والا ، وصول کنندہ کو براہ راست کچھ نہیں دیتا بلکہ اُس کی طرف سے اس کے نمائندے لوگوں تک چیز پہنچا دیتے ہیں۔ تو لفظ قاسم میں یہ مفہوم پایا جاتا ہے کہ نبی کریم ﷺ علم کے تقسیم کرنے والے ہیں تو بالاہتمام آپ ﷺ سے یہ علم حاصل کیا جائے۔اسی اہتمام کا نام تعلم یعنی شاگردی اختیار کرنا ہے اور یہ مفہوم بھی اس لفظ میں پایا جاتا ہے کہ کبھی تو علم آپ ﷺ سے براہ راست حاصل کیا جا سکے گا جیسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حاصل کیا اور کبھی ایسا ممکن نہ رہے گا تو آپ ﷺ کے وارثان یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ان کے قائم کردہ سلسلہ علمی سے رجوع کرنا پڑے گا۔اس معنی کی طرف اشارہ ہمیں امام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ کے ہاں ملتا ہے وہ فرماتے ہیں:وَالْمَعْنَى لَيْسَ الْعِلْمُ الْمُعْتَبَرُ إِلَّا الْمَأْخُوذَ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ وَوَرَثَتِهِمْ عَلَى سَبِيلِ التَّعَلُّمِ(فتح الباري)’’ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ علم معتبر وہی ہے جو انبیاے کرام یا ان کے وارثان یعنی علماء سے برسبیل تعلم ماخوذ ہو‘‘۔ 

شاگردی کی ضرورت

احادیث مبارکہ میں تعلم کی بہت تاکید آئی ہے۔رسول اللہ ﷺ نے سیکھنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا: ﴿يَا أَيُّهَا النَّاسُ إنَّمَا الْعِلْمُ بِالتَّعَلُّمَ﴾(صحیح الترغیب و الترهیب)’’اے لوگو علم تو سیکھنے ہی سےآتا ہے‘‘۔ ایک حدیث میں آتا ہے:﴿تَعَلَّمُوا الْعِلْمَ وَعَلِّمُوهُ النَّاسَ،َعَلَّمُوا الْفَرَائِضَ وَعَلِّمُوهَا النَّاسَ تَعَلَّمُوا الْقُرْآنَ وَعَلِّمُوهُ النَّاسَ، فَإِنِّي امْرُؤٌ مَقْبُوضٌ، وَالْعِلْمُ سَيُقْبَضُ، وَتَظْهَرُ الْفِتَنُ حَتَّى يَخْتَلِفَ اثْنَانِ فِي فَرِيضَةٍ لَا يَجِدَانِ أَحَدًا يَفْصِلُ بَيْنَهُمَا﴾(سنن الدارمي، دارَقطني) ’’ علم حاصل کرو اور دوسروں کی بھی تعلیم کا اہتمام کرو ، فرائض (یعنی علم وراثت ) کا علم حاصل کرو اور دوسروں کو اس کی تعلیم دو قرآن کا علم حاصل کرو اور دوسرں کو اس کی تعلیم دو پس میں ایک بندہ  ہوں   جو اٹھا لیا جاؤں گا  اور عنقریب علم بھی  اٹھا لیا جائے گا اور فتنے پھیل جائیں گے یہاں تک کہ کسی فریضے میں دو بندے بھی ایسے نہ ملیں گے جو فیصلہ کر سکیں‘‘۔

اس حدیث میں علم قرآن کے ساتھ دوسرے علوم کا ذکر بھی کیا گیا ہے اور ان سب کے لیے پہلے تعلم یعنی سیکھنے کا ذکر ہے اور اس کے بعد تعلیم یعنی دوسروں کو سکھلانے کا ذکر ہے، یہ ایک فطری ترتیب ہے۔کہ پہلے اچھی طرح سیکھا جائے اور پھر اس کے بعد آگے سکھایا جائے۔

بعض دفعہ دعوت و تبلیغ کے شوق میں اور امت کے وسیع تر یا فوری مفاد کی خاطر انسان باضابطہ علم حاصل کیے بغیر، استاد بن بیٹھتا ہے۔ یہ ایک خطرناک امر اور بہت ساری غلطیوں کا موجب ہے۔ جبکہ اصل یہ ہے کہ انسان شاگردی اختیار کرے اور پھر علم کی خدمت کی نیت سے میدان میں آئے۔ پھر اگر اللہ نے چاہا تو وہ استاذ کے منصب پر بھی فائز ہو جائے گا۔حضرت ابو دردا ءرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :﴿لاَ تَكُونُ عَالِماً حَتَّى تَكُونَ مُتَعَلِّماً﴾ (سنن الدارمي)’’ تم عالم نہیں بن سکتےجب تک کہ طالب علم نہ بنو‘‘۔

طُرُقِ تعلم 

امام شاطبی رحمہ اللہ نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف ’’الموافقات‘‘ کا بارہواں مقدمہ حصول علم کے طریقوں کے بیان پر قائم کیا ہے۔ہم ان کی بحث کا ایک خلاصہ   پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتےہیں۔ پہلے آپ نے یہ سوال اٹھا یا کہ کیا استاد کے بغیر علم کا حصول ممکن ہے یا نہیں ؟ اس کا جواب دیتے ہوئے آپ لکھتے ہیں کہ اس کا امکان تو موجود ہے لیکن انسانوں میں عادت یہی جاری ہے کہ استاد ہی سےعلم حاصل کیا جاتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ہر ممکن کا حصول۔ ہر ایک کے لیے یا تمام اوقات کے لیے ممکن نہیں ہوتا یعنی نظری طور پر جس چیز کا امکان پایا جاتا ہو یہ ضروری نہیں کہ فی الواقع اسے پا بھی لیا جائے اور اگر بعض لوگ اسے پا بھی لیں تو یہ نادر ہوتا ہے جو معدوم ہی کے درجے میں ہوتا ہے، اس لیے کہ ہر ایک کے لیے اس کا حصول مشکل ہوتا ہے۔ ہر ایک کے لیے ممکن الحصول اور سہل الوصول وہ امر ہوتا ہے جو اتنی کثرت سے واقع ہوتا ہو کہ وہ عادت بن چکا ہو۔ چونکہ استاد کے ذریعے علم حاصل کرنا امر عادی بن چکا ہے تو اسی طریقے کو اصل طریقہ کہنا چاہیے۔

امام شاطبی رحمہ اللہ نےعلماء کا یہ قول نقل کیا ہے:إِنَّ الْعِلْمَ كَانَ فِي صُدُورِ الرِّجَالِ، ثُمَّ انْتَقَلَ إِلَى الْكُتُبِ، وَصَارَتْ مَفَاتِحُهُ بِأَيْدِي الرِّجَالِ’’بے شک علم صدورِرجال میں تھا پھر یہ کتابوں میں منتقل ہوا ، اور اس کی چابیاں پھر بھی رجال کے ہاتھ ہی میں ہیں‘‘۔اسی کی جانب قرآن پاک کی اس آیت میں اشارہ پایا جاتا ہے : ﴿بَلْ هُوَ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ فِي صُدُورِ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ﴾ (العنکبوت : 49)’’بلکہ وہ واضح آیات ہیں ، ان لوگوں کے سینوں میں جنھیں علم دیا گیا ہے‘‘۔

امام شاطبی رحمہ اللہ علما ءکا مندرجہ بالا قول لکھنے کےبعد تحریر کرتے ہیں : وَهَذَا الْكَلَامُ يَقْضِي بِأَنْ لَا بُدَّ فِي تَحْصِيلِهِ مِنَ الرِّجَالِ’’یہ قول تقاضا کرتا ہے کہ علم کو صاحبان علم ہی سے حاصل کرنا چاہیے‘‘۔امام لکھتے ہیں اس اصول کی دلیل نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے :﴿إِنَّ اللَّهَ لَا يَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ النَّاسِ، وَلَكِنْ يَقْبِضُهُ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ﴾ ’’بےشک اللہ تعالیٰ  علم کو ایسے قبض نہیں کرے گا کہ اسے لوگوں کے درمیان سے کھینچ لے بلکہ وہ علماء کو اٹھا کر علم کو اٹھائے گا‘‘۔امام نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:لَيْسَ هُوَ مَحْوُهُ مِنْ صُدُورِ حُفَّاظِهِ وَلَكِنْ مَعْنَاهُ أَنَّهُ يَمُوتُ حَمَلَتُهُ’’علم کے اٹھانے کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ حفاظ کے سینوں سے اسے محو کر دے بلکہ معنی یہ ہے کہ اللہ علم والوں کو موت دے دے گا‘‘۔تو رسول اللہ ﷺ نے یہاں رفع علم کو صاحبان علم کے ساتھ جوڑا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ علم کا انحصار  اصل میں  میں عالِم و معلم پر ہے ۔

امام شاطبی رحمہ اللہ مندرجہ بالا  حدیث بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں:فَإِذَا كَانَ كَذَلِكَ، فَالرِّجَالُ هُمْ مَفَاتِحُهُ بِلَا شَكٍّ فَإِذَا تَقَرَّرَ هَذَا؛ فَلَا يُؤْخَذُ إِلَّا مِمَّنْ تَحَقَّقَ بِهِ’’پس جب معاملہ ایسا ہے تو لاریب اشخاص ہی علم کے مفاتیح و کنجیاں ہیں اور جب یہ طے ہو گیا تو اگلی بات یہ ہے کہ علم اسی عالم سے حاصل کیا جائے جو علم میں پختہ ہو چکا ہو‘‘۔اسی انداز کا ایک قول عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے فرماتے ہیں : ﴿لَا يَزَالُ النَّاسُ صَالِحِينَ مُتَمَاسِكِينَ مَا أَتَاهُمُ الْعِلْمُ مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ ﷺ وَمِنْ أَكَابِرِهِمْ، فَإِذَا أَتَاهُمْ مِنْ أَصَاغِرِهِمْ هَلَكُوا﴾ (رواه الطبراني في الكبير والأوسط، ورجاله موثقون)’’ لوگ نیکی پر قائم اور ، راسخ رہیں گے جب تک ان کے پاس علم اصحاب محمد ﷺ اور ان کے دوسرے اکابر سے آتا رہے گا اور جب ان کے پاس علم اصاغر سے آنے لگے تو وہ ہلاک ہو جائیں گے‘‘۔

اس کے بعد امام  صاحب عالم متحقق کی نشانیاں بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : عالم متحقق کی  نشانی  ایک تو یہ ہے کہ وہ عالم باعمل ہو اور اس کا عمل اس کے قول کے مطابق ہو دوسری شرط یہ ہے کہ وہ ان لوگوں میں سے ہو جنھوں نے شیوخ کے ہاتھ پر تربیت پائی ہو ان سے علم حاصل کیا ہو اور ان کی صحبت و ملازمت اٹھائی ہو، سلف صالحین کی شان یہی تھی اور اس میں سب سے پہلے صحابہ کرام ہیں جنھوں نے رسول اللہﷺ کی صحبت و ملازمت سے نفع اٹھایا تھا اور اس کے بعد تابعین آئے جنھوں نےصحابہ کرام کی صحبت و ملازمت اختیار کی اور فقاہت اور علوم شرعیہ میں مہارت حاصل کی۔ یہ اتنا پختہ قاعدہ ہے کہ تم ہر مشہور عالم کو دیکھوگے کہ وہ اپنے شیخ کے ساتھ مدتوں لگا رہا ہو گا اور تم گمراہ فرقوں اور مخالف سنت گروہوں کو دیکھو گے کہ وہ شیوخ کی ملازمت سے بے بہرہ ہوں گے۔تیسری شرط یہ کہ وہ عالم اپنےشیوخ اور ان کے آداب کا اتباع کرنے والا ہو جیسا کہ تم صحابہ کو پاتے ہو کہ وہ رسول اللہ ﷺ کا اتباع کرتے تھےاور تابعین کو دیکھتے ہو کہ وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اتباع کرتے تھے اور اسی طرح ہر زمانے کے لوگ اپنے اساتذہ کا اتباع کرتے چلے آئے ہیں۔

حصول علم کے دو طریقے

امام شاطبی رحمہ اللہ  نے حصول علم کے دو  طریقے بتائے ہیں :

پہلا طریقہ تو بالمشافہ ہے یعنی براہ راست استاد کی صحبت میں رہ کر علم حاصل کرنا، یہ زیادہ نفع مند اور محفوظ طریقہ ہے۔ اس کی دو وجہیں ہیں:اللہ تعالیٰ  نے معلم و متعلم کے رابطے میں ایک خاصیت اور تاثیر رکھی ہے، علم اور علماء سے تعلق رکھنے والا ہر شخص اس پر گواہ ہے۔ کتنی ہی بار ایک شاگرد کسی کتاب میں علم کی کوئی بات پڑھتا ہے اسے دہرا کر یاد کرنے اور سمجھنے کی کوشش کرتا ہے لیکن اس بات کو سمجھ نہیں سکتا، جوں ہی وہ یہ بات اپنے معلم کے سامنے پیش کرتا ہے تو اچانک اس کی سمجھ میں آنا شروع ہو جاتا ہے، یہ فہم کبھی تو کسی عادی قرینے سے حاصل ہوتا ہے اور کبھی یہ فہم کسی قرینےکے بغیر حاصل ہوتا ہے، لیکن یہ فہم اللہ کی خصوصی توفیق ہوتی ہے جو اسے معلم کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنے پر عطا کی جاتی ہے۔اس تاثیر کا انکار نہیں کیا جا سکتا، کیا آپ دیکھتے نہیں کہ وفات و تدفین رسول ﷺ کے بعد صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم نے اپنے دلوں کی حالت کو بدلا ہوا پایا  اور سیدنا حنظلہ رضی اللہ عنہ کے واقعےمیں بھی ادھر اشارہ پایا جاتا ہے جب انھوں بارگاہ رسالت میں عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ آپ کی محفل میں ہم حالت رضا میں ہوتے ہیں اور جب جدا ہوتے ہیں تو حالت بدل جاتی ہے۔پس جب شاگرداپنے استاد کے سامنے ہوتا ہے تو اس پر علم کے وہ دروازے کھلتے ہیں جو استاد کے بغیر نہیں کھلتے اور جب وہ اپنے استاد کے ادب و آداب کی پیروی کرتے ہیں تو انھیں ایک نور عطا کیا جاتا ہے‘‘۔

اس کے بعد حضرت امام شاطبی رحمہ اللہ نے  علم کادوسرا ذریعہ کتب کا مطالعہ بتایا ہے۔اس ضمن میں ہم یہ عرض کرتے ہیں کہ تحقیق و تنقید کے تو خیر الگ اصول بھی ہیں اور اس کے رجال بھی الگ ہی ہوتے ہیں لیکن جہاں تک عام لوگوں کے استفادے کی بات ہے تو اوپر علامہ شاطبی رحمہ اللہ نے جس قسم کے علماء سے علم سیکھنے کی تاکید کی ہے تو اسی قسم کے مصنفین کی کتابوں سے استفادہ کرنا چاہیے۔ بہر حال امام شاطبی رحمہ اللہ نے کتابوں سے علم حاصل کرنے کے طریقے کے نفع مند ہونے کی دو شرائط بیان کی ہیں۔ پہلی شرط یہ کہ قاری کو اپنےمطلوب علم کےبنیادی اصول و مقاصد اور اس کی متعلقہ اصطلاحات کی واقفیت حاصل ہو تاکہ وہ کتابوں سےپوری طرح فائدہ اٹھا سکے۔ 

اب سوال یہ ہے کہ اصطلاحات علمی یا اصول کہاں سے لیے جائیں… کیا کسی کتاب سے دیکھ لیے جائیں ؟ امام شاطبی رحمہ اللہ نے اس کا جواب دیتے ہوئے دو چیزیں بتائی ہیں :وذلك يحصل بالطريق الأول، ومن مُشَافَهَةِ الْعُلَمَاءِ، أَوْ مِمَّا هُوَ رَاجِعٌ إِلَيْهِ’’یہ واقفیت پہلے طریقے یعنی علماء سے بالمشافہ حاصل کی جائے گی یا پھر کسی طریقے سے جو اسی پہلے طریقے کی طرف راجع ہو ‘‘۔ علامہ کے نزدیک مطالعے کا بہترین فائدہ اسے ہی ہو سکتا ہے جو پہلے علماء کے علمی سلسلے سے منسلک ہو کر ابتدائی علم اور اس کے اصول و اصطلاحات سیکھ چکا ہو اور بعد میں مزید اضافے یا تفہیم کی غرض سے مطالعہ کر رہا ہو ۔أَوْ مِمَّا هُوَ رَاجِعٌ إِلَيْهِ،’’یا پھر کسی طریقے سے جو اسی پہلے طریقے کی طرف راجع ہو‘‘۔

اس دوسرےطریقے کو عرض کہا جا سکتا ہے یعنی جس نے پہلے علماء سے بالمشافہ اتنا علم حاصل نہیں کیا کہ وہ اصطلاحات علمی اور بنیادی اصولوں سے واقف ہو سکے تو اسے چاہیے کہ گاہے گاہے علماء کی خدمت میں حاضر ہو کر ان اصطلاحات کا مطلب اور اپنے حاصل مطالعہ کی صحت معلوم کرتا رہے۔  یہ عرض والا طریقہ   بیان کرنے کے بعد امام لکھتے ہیں : وَهُوَ مَعْنَى قَوْلِ مَنْ قَالَ: كَانَ الْعِلْمُ فِي صُدُورِ الرِّجَالِ، ثُمَّ انْتَقَلَ إِلَى الْكُتُبِ، وَمَفَاتِحُهُ بِأَيْدِي الرِّجَالِ ’’اور یہی  مراد ہے اس فرمان سلف کی :’’علم صدورِ رجال میں تھا پھر کتابوں کی طرف منتقل ہوا لیکن ان کی کنجیاں ، رجال علم ہی کے ہاتھوں میں ہیں‘‘۔

اسلاف کے اس قول  کی یہ بہت عمدہ توجیہ ہےکہ علم رجال کے سینوں سے کتابوں میں منتقل ہوا لیکن اس کے بعد بھی استاد سے مستغنی نہیں ہوا جا سکتا بلکہ عرض و رجوع کے ذریعے جب علماء کی احتیاج کو قائم رکھا گیا تو علم کی کنجیاں واقعی رجال علم ہی کے ہاتھ میں رہیں۔

ا ب رہا وہ شخص جو بغیر کسی استاد کی رہنمائی کے کتابوں سے علم حاصل کر رہا ہے تواس کے بارے میں امام لکھتے ہیں: ’’ اکیلی کتاب طالب علم کو کچھ فائدہ نہیں دے سکتی جب تک علماء سے رہنمائی نہ لی جائے اور یہ عام مشاہدے کی چیز ہے‘‘۔ امام اوزاعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: كَانَ هَذَا الْعِلْمُ كَرِيمًا يَتَلَقَّاهُ الرِّجَالُ بَيْنَهُمْ، فَلَمَّا دَخَلَ فِي الْكُتُبِ دَخَلَ فِيهِ غَيْرُ أَهْلِهِ(المدخل إلى السنن الكبرى)’’یہ علم بہت عزت والا تھا ، اشخاص ایک دوسرے سے اسے حاصل کیا کرتے تھے ،پھر یہ کتابوں میں داخل ہوا تو غیر اہل لوگوں کے ہتھے چڑھ گیا‘‘۔

مطالعے میں انسان ، اپنا معلم خود ہوتا ہے اس لیے کہ وہ بعض اوقات متن کے ایسےمعنی لے لیتا ہے جو لینا درست نہیں ہوتا اور اپنی سمجھ پر انحصار کر کے وہ کسی ایک معنی کو حتمی سمجھ لیتا ہے۔ کتاب قاری کو غلط معنی لینے سے روک نہیں پاتی نہ ہی وہ اس کی اصلاح کر سکتی ہے۔اس لیے استاد کا ہونا لازمی اور صرف کتاب پر انحصار کرنا خطرناک ہے۔

اپنی علمی ضروریات کو ، استاد سے صَرفِ نظر کرتے ہوئے صرف کتاب سے پورا کرنے کی تغلیط و تنقیدمیں امام شاطبی رحمہ اللہ اور امام اوزاعی رحمہ اللہ اکیلےنہیں ہیں بلکہ اسلاف میں اس مضمون کے متعدد اقوال تذكرة السامع والمتكلم في أدب العالم والمتعلم میں منقول ہیں، یہ قول دیکھیے:من كان الشيخ كتابه كان خطؤه أكثر من صوابه’’جس کا شیخ اس کی کتاب ہو گی اس کی خطائیں اس کی درستیوں سے زیادہ ہوں گی‘‘۔امام شافعی رحمہ اللہ کا قول ہے :من تفقه من بطون الكتب ضيع الأحكام’’ جو کتابوں سے فقیہ بننا چاہتا ہے وہ اکثر احکام ضائع کردیتا ہے۔ بعض علماءفرماتےہیں: من أعظم البلية مشيخة الصحيفة ’’ ایک بڑی مصیبت کتاب کو استاد بنا لینا ہے‘‘۔

کتابوں سے استفادے کے فائدہ مند ہونے کی دوسری شرط امام نے یہ بیان کی ہے کہ اپنے مطلوبہ علم میں متقدمین کی کتابوں کا شوق رکھے اس لیے کہ ان میں علمی پختگی متاخرین کی نسبت زیادہ پائی جاتی ہے۔

اب ہم حدیث مبارکہ کے آخری حصے کی طرف آتے ہیں:

﴿وَلَنْ تَزَالَ هَذِهِ الأُمَّةُ قَائِمَةً عَلَى أَمْرِ اللَّهِ لاَ يَضُرُّهُمْ مَنْ خَالَفَهُمْ حَتَّى يَأْتِىَ أَمْرُ اللَّهِ ﴾’’یہ امت اللہ کے امر پر قائم رہےگی،  اس کی مخالفت کرنے والا بھی انھیں نقصان نہیں پہنچا سکے گا، یہا ں تک کہ اللہ کا حکم آجائے‘‘۔پچھلی بحث میں ہم نے امام حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے ایک قول کا ذکر کیا تھا جس میں انھوں نے علمِ معتبر کی تعریف میں کہا تھا :الْمَأْخُوذُ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ وَوَرَثَتِهِمْ عَلَى سَبِيلِ التَّعَلُّمِ’’ جو انبیاےکرام یا ان کے وارثان یعنی علماء سے برسبیل تعلم ماخوذ ہو‘‘ ۔وارثان نبوت سے مراد علما ے کرام اور ان کا سلسلۂ علمی ہے۔علامہ شاطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے جو کلام کیا گیا وہ اصلاً تعلم کے آداب کے بارے میں تھا لیکن اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حصول علم کا اصل طریقہ صاحبان علم سے  علم  حاصل کرنا ہے۔ابن حجر رحمہ اللہ نے انھیں وارثانِ انبیا کا نام دیاتھا۔ جو اصل میں ایک حدیث مبارکہ سےماخوذ ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:﴿إِنَّ الْعُلَمَاءَ وَرَثَةُ الْأَنْبِيَاءِ وَإِنَّ الْأَنْبِيَاءَ لَمْ يُوَرِّثُوا دِينَارًا وَلَا دِرْهَمًا وَإِنَّمَا وَرَّثُوا الْعِلْمَ فَمَنْ أَخَذَهُ أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ﴾(سنن أبي داود، سنن ترمذي)’’ بے شک علما ءانبیا کے وارث ہیں اور انبیا درہم و دینار نہیں چھوڑ جاتے بلکہ وہ علم چھوڑ کر جاتے ہیں پس جس نے علم حاصل کیا اس نے نبیوں کے ترکے سے بڑا حصہ پالیا‘‘۔

علامہ شاطبی رحمہ اللہ نے عالم متحقق کی جو علامتیں بیان کی ہیں اور علم کے حصول کے جو طریقے بیان کیے ہیں، تو ہم عرض کرتے ہیں کہ ان صفات کا مظہر ، اہل سنت کا وہ علمی سلسلہ ہے جو تربیت و تزکیہ اور فقہ و تفقہ میں اتصالِ سند کا حامل ہے۔ اور اسی کی طرف اشارہ اس فرمان میں ملتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں :﴿يَرِثُ هَذَا الْعِلْمَ مِنْ كُلِّ خَلَفٍ عُدُولُهُ  يَنْفُونَ عَنْهُ تَأْوِيلَ الْجَاهِلِينَ وَانْتِحَالَ الْمُبْطِلِينَ وَتَحْرِيفَ الْغَالِينَ﴾(السنن الكبرى للبیهقي)’’پچھلی نسلوں کے عادل لوگ ، اس علم کی وراثت ،( اپنے ہی جیسے سلف سے) پائیں گے ، اور وہ عادل لوگ، اس علم میں سے،جاہل لوگوں کی تاویلات، جھوٹوں کی غلط دعوے داریوں اور غالیوں کی تحریفات کی نفی کریں گے۔

حدیث زیر مطالعہ کے آخری الفاظ اسی جانب رہنمائی کر رہے ہیں:

﴿وَلَنْ تَزَالَ هَذِهِ الأُمَّةُ قَائِمَةً عَلَى أَمْرِ اللَّهِ لاَ يَضُرُّهُمْ مَنْ خَالَفَهُمْ حَتَّى يَأْتِىَ أَمْرُ اللَّهِ﴾’’یہ امت اللہ کے امر یعنی دین پر قائم رہے گی ان کی مخالفت کرنےوالا انھیں ضرر نہ پہنچا سکے گا یہاں تک کہ اللہ کا فیصلہ آ جائے‘‘۔اس حدیث میں پوری امت  کے حق پر قائم رہنے کا   ذکر ہے لیکن درحقیقت یہاں امت سے وہ حامل الفقہ گروہ مراد ہے جس کی طرف اشارہ حدیث زیر مطالعہ کے ابتدائی الفاظ ﴿مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِى الدِّينِ ﴾سے نکلتا ہے۔اس حدیث کے دوسرے طرق کے الفاظ کا تتبع بھی اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ مسند احمد کی ایک روایت میں فقہ کے ساتھ ایک گروہ مخصوص کا ذکر ان الفاظ میں آیا ہے:﴿مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُّ فِي الدِّينِ، وَلَنْ تَزَالَ هَذِهِ الْأُمَّةُ أُمَّةً قَائِمَةً عَلَى أَمْرِ اللَّهِ﴾’’ جس کے ساتھ اللہ خیر کا ارادہ کرتا ہے اسے دین میں فقاہت دیتا ہے  اور اس امت میں  سے ایک گروہ ہمیشہ   اللہ کے دین پر قائم رہے گا ‘‘

صحیح بخاری   رحمہ اللہ  ، کتاب الاعتصام میں امام بخاری  رحمہ اللہ  ، اس سے ملتی جلتی روایت لائے ہیں : ﴿لاَ يَزَالُ مِنْ أُمَّتِي أُمَّةٌ قَائِمَةٌ بِأَمْرِ اللَّه﴾  میری امت میں سے ایک  جماعت  اللہ   کے امر پر قائم رہے گی ‘‘  امام بخاری  رحمہ اللہ  نے اس گروہ کی تعیین ان الفاظ میں کی ہے: ( وَهُمْ أَهْلُ الْعِلْمِ)  ’’ اور یہ گروہ اہل علم کا ہے‘‘۔امام نووی رحمہ اللہ اس حدیث کے تحت لکھتے  ہیں: (وَفِيهِ دَلِيلُ لِكَوْنِ الْإِجْمَاعِ حُجَّةً ) ’’اس حدیث میں اجماع کے حجت ہونے کی دلیل ہے‘‘ اور اجماع  کے واقفان جانتے ہیں اجماع اہل علم  و فقہا کا معتبر ہوتا ہے نہ کہ عوام کا تو گویا   امام نووی کے نزدیک بھی  جس امت کے قائم علی الحق ہونے کا ذکر ہے اس  سے مراد اہل علم کا گروہ ہے ۔

اب ہماری بحث یہاں مکمل ہوتی ہے کہ دین میں تفقہ کے حصول کے لیے باضابطہ تحصیل علم ضروری ہے اور اس تحصیل کے اہل سنت کے علمی سلسلے کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ چونکہ اہل سنت کے علماء کا اجماع حجت ہے لہذا تعلیم و تعلم اور تمام دوسرے معاملات میں اجماع اہل علم کی پیروی کرنی چاہیے اور اس کے خلاف نہیں جانا چاہیے۔

لرننگ پورٹل