اس کے بعد چند صفحات پر جمع قرآن سے متعلق شبہات کا جواب پیش کیاہے۔
آٹھویں بحث جمع قرآن
اس مبحث میں مصنف نے جمع قرآن کے تین مراحل کا ذکر کیا ہے:
اول۔ جمع فی صدور الرجال یعنی حفظ۔
دوم۔ عہد ابی بکر میں کتابت قرآن کی تفصیل اور اس جمع کے امتیازات۔
سوم۔ جمع قرآن بمعنیٔ ترتیب سور اور حضرت ابو بکر کے عہد میں تدوین شدہ مصحف سے نقل کرکے مزید نسخوں کی تیاری۔
پھر شیخ زرقانی نے مستشرقین کے شبہات ذکر کر کے ایک ایک کا جواب دیا ہے۔
مصنف صاحب نے قرآن و حدیث کی حفاظت کا باعث بننے والے اسباب کو تفصیل سے لکھا ہے ،اوّلاً تیرہ اسباب و عوامل ذکر کیے ہیں جو قرآن کی حفاظت سے متعلق ہیں ،اس کے بعد دس خصوصی عوامل کو بیان کیا ہے، جو خاص طور پر قرآن کی حفاظت کا سبب بنے۔
نویں بحث آیات اور سورتوں کی ترتیب
سورتوں اور آیات کی ترتیب کے بارے میں مصنف صاحب کا کہنا ہے کہ آیتوں کی ترتیب تو توقیفی ہے،جبکہ سورتوں کے بارے میں ایک موقف اجتہاد ی ہونے کا ہے۔ دوسرا یہ ہےکہ تمام سورتیں توقیفی ہیں۔تیسرا یہ ہے کہ بعض توقیفی اور بعض اجتہادی ہیں۔ مولف صاحب کا رجحان اسی جانب معلوم ہوتا ہے، کیونکہ یہ وارد آیتوں کو مستجمع ہے،جیسے لکھتے ہیں: ولعلّه أمثل الاٰراء’’شائد یہ سب سے بہترین رائے ہے‘‘۔ جبکہ علامہ سیوطی کا قول بیہقی کے حوالے سے یہ نقل کیا ہے کہ سوائے سورۂ توبہ کے، سب تو قیفی ہیں۔
دسویں بحث کتابت قرآن وغیرہ
کتابت قرآن اس کے اسم اور مصاحف وغیرہ کے ضمن میں عربوں میں کتابت کی تاریخ بیان کرنے کے بعد نبی اکرمﷺ کی اپنے دست مبارک سے کتابت اور عدم کتابت کے حوالے سے دو موقف دلائل سمیت بیان کئے ہیں: آپﷺ ابتداًلکھ نہیں سکتے تھے مگر آخر میں لکھنے پر قادر ہو گئے تھے۔یہ انھوں کے علامہ آلوسی کے حوالے سے ذکر کر کے تطبیق دی ہے۔ اس کے بعد کچھ فوائد رسم عثمانی سے متعلق بیان کر کے اس رسم کے چھے فوائد بیان کیے ہیں:
رسم عثمانی کے توقیفی اور غیر توقیفی ہونے کے بارے میں تین اقوال ہیں:
۱۔ رسم توقیفی ہے، جمہور، امام مالک وغیرہ۔ اس کی تائید میں اقوال اور دلائل بھی پیش کیے ہیں۔
۲۔رسم اجتہادی ہے توقیفی نہیں۔ ابن خلدون اور قاضی ابو بکر باقلانی نے الانتصارللقرآن میں اس کو مد لل بیان کیا ہے۔ اس کے بعد دو صفحوں میں اس کا رد ہے، جس میں ایک صوفی صاحب کا ذکر ہے جو عمدہ معلوم نہیں ہوتا۔
۳۔ نشانی سلف کے طور پر رسم عثمانی کی حفاظت ضروری ہے،مگر عوام کو خلط او رغلط فہمی سے بچانے کے لیے عام قواعد کےمطابق لکھنا بھی ضروری ہے۔ صاحب برہان کا رجحان یہی معلوم ہوتا ہے، اور یہی عز بن عبدالسلام کا قول ہے۔ اس کو مصنف صاحب نے دونوں جانب سے محتاط قرار دیا ہے تا کہ عوام غلط فہمی کا شکار بھی نہ ہو اور رسم اوّل ماثور بھی محفوظ رہے۔
رسم عثمانی پر وارد شدہ دس شبہات اور ان کے جوابات
اس کے بعد ایک عام اصول بیان کیا ہے کہ اگر تواتر کے خلاف کوئی بھی صیح ترین خبر واحد آجائے تو وہ غیر معتبر ہے۔ اور صحابہ نے تمام تر انسانی دسعت کی حد تک قرآن کی حفاظت کی ہے۔
گیارہویں بحث: قراءت قراء اور متعلقہ شبہات
علم قراءت موضوعات قرآنی کا ایک مشکل موضوع ہے۔گیارہویں مبحث میں مصنف نے قراءت کے لغوی اور اصطلاح معنی بیان کیے ہیں، علم قراءت کے آغاز کا ذکر کیا ہے اور یہ کہ قرآن میں اصل یہ ہےکہ نبی اکرمﷺ سے ثقہ در ثقہ تواتراً اخذ و نقل سے ثابت ہو جائے ۔ اس طرح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اسے لکھوایا اور ہر نسخے کے ساتھ اس قاری کو بھیجا جس کی زیادہ تر قراءت اس مصحف کے موافق تھی، اس طرح ہر زمانے میں لوگوں نے قرآن کو لیا اور بعض لوگ اس میں مشہور ہو گئے۔علم قراءت کی شہرت اس عنوان کے ساتھ بعد میں ہوئی۔سات قراءکی قراءتیں دوسری صدی کے بعد بلاد اسلامیہ میں مشہور ہو گئیں اور ابی القاسم بن سلام ، ابو حاتم سجستانی اور ابو جعفر طبری کے کتابیں سامنے آئیں۔ اس کے بعد تیسری صدی ہجری میں ابن مجاہد احمد بن موسیٰ نے سات قراء کی قراءتوں کو جمع کیا ، مگر انھوں نے کسائی کی جگہ یعقوب کو رکھا۔ اس کے بعد یہ اصول ذکر کیا کہ قبول قراءت میں اصل یہ ہے کہ وہ مصاحف عثمانیہ کے موافق ہو،عر بیت کے اصولوں کے موافق ہو، صحیح سند سے ثابت ہو۔ ان تین اصول کی وضاحت شیخ زرقانی نے تفصیل کے ساتھ کی ہے اور ان سے متعلقہ سوالوں کا جواب دیا ہے۔ اور بتایا ہے کہ جب یہ تین باتیں پائی جائیں تو اس کی قراءت نماز میں درست ہوگی اور ان کا منکر کافر ہو گا۔ اور اگر ثقات سے بطور آحاد نقل ہو عربیت کے موافق ہو مگر مصحف عثمانی کے خلاف ہو تو مقبول ہوگی مگر اس کی تلاوت نماز میں درست نہ ہو گی۔ پہلے کی مثال ملک ۔ مالک اور یخدعون اور یخادعون ہیں۔دوسری کی مثال سورۂ لیل کی آیت وما خلق الذکر والانٔثی میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی قراءت والذکر والانٔثی ہے۔تیسری کی مثال ننجیک ببدنک کی جگہ ننحیک۔ مگر قرآن میں اصل تو اتر ہے، اس پر تین اقوال ہیں۔
اس کے بعد قراءات سبعہ کے بارے میں اقوال نقل کیے ہیں کہ کس نے ان کی حمایت کی اور کس نے مخالفت کی ہے ،اور تفصیل سے اس پر کلام کیا، اس ضمن میں ابن شامہ اور ابن حاجب کے اقوال پر تفصیل سے ردکیا ہے۔ ابوشامہ نے فرمایا کہ قراءت میں سے جو آپس میں متفق ہیں وہ متواتر ہیں اور جن طرق میں اختلاف ہے وہ غیر متواتر ہیں۔ مولف نے لکھا ہے کہ طبعہ اوّل میں، میں اس کا قائل تھا ،اور اس کے وجوہ بھی ذکر فرمائے ہیں مگر پھر رجوع کیا۔اور اس کے رد میں ابن الجزری وغیرہ کا تفصیلی کلام ذکرکیا ہے۔ابن حاجب نے فُرُش (اصل کلمات ) کو متواتر جبکہ ادا ے مدّ وغیرہ کو غیر متواتر کہا ہے۔ اس کے رد میں ابن الجزری کا رد نقل کیا ہے جو بہت عمدہ ہے۔ اس کے بعد قُرّاءکا مختصر تعارف کرایا ہے اور دس کے علاوہ قراءتوں کا حکم بیان کیا ہے۔
خلاصہ ٔبحث
آخر میں ان شبہات کا رد ہے ،جس میں انھوں نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے معوّذتین کے حوالے سے موقف کی وضاحت کی ہے اور بتایا ہے کہ ان میں سے چار طرُق میں معوّذتین کی قراءت بھی شامل تھی۔
باروہویں بحث
علوم قرآن کا سب سے مرکزی موضوع تفسیر اور مفسرین ہے۔مصنف صاحب نے اس کی لغوی اور اصطلاحی تعریف کرنے کے بعد ابن تیمیہ کو شیخ الااسلا م کہہ کر ان کے حوالے سے لکھا ہے کہ انھو ں نے درایت تفسیر میں غلطی کے دواسباب ذکر کیے ہیں، ایک اپنے عقیدے کے مطابق تفسیر کرنا یعنی قرآن کے من مانے معنی نکالنا،دوسرا خالص لغت عرب سے تفسیر کر نا ،جس میں مراد متکلم کی رعایت نہ ہو۔
اسرائیلیات کے تفسیر میں شامل ہو نے کی وجہ مولف صاحب نے ابن خلدون سے نقل کی ہے کہ عربی لوگ جو ان پڑھ تھے جب انھیں اسرار کائنات اور علوم کے حصول کا شوق ہوا تو انھوں نے اہل کتاب سے پوچھنا شروع کیا، اہل کتاب سابقہ علم کی بنیاد پر انھیں جواب دیتے رہے۔
بعض اوقات مصنف غیر متعلقہ بحث کی تفصیل میں جاتے ہیں ،مثلاً تفسیر محمود اورتفسیر مذموم کے ضمن میں افعال عباد اور اسی طرح توحید کے مسئلے میں معتزلہ اور اہل سنت کا پورا جھگڑا نقل کرکے محاکمہ بھی کیا ہے۔
علامہ سیوطی کے حوالے سے چار مصادر تفسیر نقل کیے ہیں:
۱۔ رسول اللہﷺ سے منقول ہو ۲۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے منقول ہو
۳۔ لغت عرب کے موافق ہو ۴۔ مقتضا ے کلام ، جو قانون شرع کے موافق ہو
مراتب تفسیر کے بارے میں مفتی محمد عبدہ کے دو مراتب ذکر کیے ہیں، پہلا اور ادنیٰ مرتبہ یہ ہے کہ بندے کو اپنے رب کی عظمت کا احساس ہوجائے۔جبکہ اعلیٰ مرتبے کےلیے پانچ امور کا ہونا ضروری ہے۔
۱۔لفظ کا معنی معلوم ہو ۲۔اسالیب عرب سے واقفیت ہو
۳۔احوال بشر کا علم ہو ۴۔سیرت نبویﷺوصحابہ کا علم ہو
۵۔قرآن کی قوت تاثیر کا علم ہو ، اور یہ احوال جاہلیت سےواقفیت کے بعد حاصل ہوگا
مصنف نے تفسیر بالرائے کےجوازاور عدم جواز کے حوالے سے بھی بحث کی ہے فریقین کے دلائل کا جائزہ لیا ہے ،اور خلاصہ یہ نکالا ہے کہ اگر تفسیر اصول کے مطابق ہو تو درست ہے۔’’ منہج المفسرین بالرائے‘‘کا عنوان لگا کر ا س میں تفسیر بالرائے کے گیارہ اصول ذکر کیے ہیں، جو بہت اہم ہیں، آگے ان کاذکر ہوگا۔
ادبی ، کائناتی اور دیگر علوم تفسیر میں کیسے شامل ہوئے اور ان کا تفسیر پر کیا اثر ہو ا،اس کا جائزہ لیا ہے ۔ اس کے بعد شروط لابد منہا کے عنوان کے تحت اہم باتیں کی ہیں :
۱۔یہ مباحث مقصود ِقرآن جو ہدایت اور اعجاز ہے، اس سے آگے نہ بڑھیں
۲۔ ان علوم میں مزاج ِعصر سے مناسبت کا خیال رکھا جائے اور اعتدال ملحوظ رہے
۳۔ ان ابحاث کو اس طرح برتا جائے کہ مسلمانوں کو ذوق وشوق کے ساتھ قرآنی جلال اور کائناتی قوتوں سے فائدہ اٹھانے پر ابھاریں ،تاکہ امّت اپنی شرافت اور بزرگی کو پا سکے
تیرہویں بحث
قرآن کریم کا ترجمہ دوسری زبانوں میں کرنا جائز ہے یا نہیں ؟ اس مسئلے پر علماء نے تفصیل سے گفتگو کی ہے۔ شیخ زرقانی نے تیرہویں بحث کو اس کے لیے مخصوص کیا ہے۔ ترجمے کی تاریخ پر مختصر گفتگو کی ہے، جو شاید قرین صواب نہیں لگتی، خصوصاً اُردو کے حوالے سے۔مولف صاحب نے آغازمیں ازہری منہج ومشرب کی نمائندگی کی بات کی تھی،اس مقام پر بھی فرمایا: فلقد هدٰنا ا لاستقراءإلی أنّ تحدی معاني الأمورالخلافیة ‘ أوتحریرمحل النزاع ۔
لفظ ترجمہ چار معنو ںمیں مستعمل ہے
۱۔ تبلیغ الکلام :إنّ الثّمانین وبلغتها قد أحوجت سمعي إلی ترجمان ۔’’بات پہنچانا : میری عمر اسی سال ہوگئی، جس نے میرے کان ترجمان کے محتاج بنادیے‘‘۔
۲۔ تفسیر الکلام بلغته التي جاءبها: ومنه قیل ابن عباس ترجمان القرآن ۔’’یعنی کلام کی تفسیر اسی زبان میں، جیسا کہ کہا گیا ہے ابن عباس قرآن کے ترجمان ہیں‘‘۔
۳۔ تفسیر الکلام بلغة غیر لغته: إنّ الترجمان هوالمفسر للکلام ،قاموس ،لسان العرب ’’دوسری زبان میں کلام کی تفسیر و تشریح کرنا‘‘۔ شارح قاموس کہتے ہیں: وقدترجمه وترجم عنه إذا فسر کلامه بلسان آخر،قاله الجوهري
۴۔ نقل الکلام من لغةإلی أخری ۔
اصطلاح میں کہتے ہیں : التر جمة هي التعبیر عن معنی کلام في لغة بکلام آخر من لغة أخری مع الوفاءبجمیع معانیه ومقاصده ۔’’ کلام کے معنی کی دوسری زبان میں ایسی تعبیر کرنا کہ وہ اس کلام کے معنی اور مقصد کو مکمل طور پر ادا کرے‘‘۔
مصنف صاحب نے ترجمے کی عمومی ضروی شرائط یہ ذکر کی ہیں:
۱۔دونوں زبانوں کا جاننا ۲۔اسلوب اور خصوصیات کا علم
۳۔ترجمہ اصل کا مقصد اور معنی مکمل طور پر ادا کرے
۴۔ترجمہ اتنا مستقل اور پورا ہو کہ اسے اصل کا قائم مقام بنایا جاسکے
اس کے حرفی ترجمے کی مزید دو شرائط لکھی ہیں، کہ دونوں زبانوں کے مفردات لغت مساوی ہوں اور دونوں کی ضمائر وغیرہ مکمل طور پر برابر ہو ں۔
ترجمہ اور تفسیر کے درمیان چار فرق ذکر کر کے مقاصد قرآن پر گفتگو کی ہے:
۱۔ قرآن کا مقصد انسانیت کی ہدایت ہے۔ شیخ زرقانی نے ہدایت القرآن کے مختلف درجات ذکر کیے ہیں اور وہ عموم ، اتمام اور وضوح ہیں۔
۲۔ قرآن کا ایک اور مقصد اعجاز القرآن ہے خصوصاً بلاغت کے پہلو سے
۳۔ التعبد بتلاو ۃ القرآن ،إنّ الذین یتلون کتاب الله وأقاموٰالصلوٰة،الخ ۔’’ یعنی قرآن کی تلاوت کے ذریعے اللہ کی بندگی کرنا‘‘۔
آخر میں ترجمے کی چاروں اقسام کا حکم بیان کیا ہے کہ پہلی اور دوسری قسم یعنی ترجمہ بمعنیٔ تبلیغ الفاظ اور تفسیر بالعربیہ واجب ہے۔ جبکہ تیسری قسم بمعنی دوسری زبان میں تفسیر و تشریح شرائط کی رعایت کے ساتھ جائز ہے۔ اس کے بعد ترجمے کے فوائد اور اس پر وارد سوالات اور ان کے جوابات دیے ہیں۔ بہرحال خلاصۂ کلام یہ کہ ایسا ترجمہ جو قرآن کے تمام مقاصد اور معانی کو مستجمع ہو ممکن نہیں ہے ، مگر ایسا ترجمہ جس میں تفسیراور ترجمے کی شرائط پوری ہو جائیں ، اس میں اختلاف ہے ،مگر جواز کے دلائل زیادہ اور راجح ہیں۔اور بحث کا اختتام ترجمے کے بارے میں ازہریوں کے موقف کے بیان پر کیا ہے ، جس میں ’’مجلۃ الازہر ‘‘ کے حوالے سے ترجمے کی چودہ جبکہ تفسیری انداز کی چار شرائط بیان کی ہیں ، جو بہت عمدہ ہیں۔