﴿وَّ اتَّبِع سَبِیلَ مَن أَنَابَ إِلَيَّ ثُمَّ إِلَيَّ مَرجِعُکُم فَأُنَبِّئُکُم بِمَا کُنتُم تَعمَلُونَ﴾
’’ اور ایسے شخص کا راستہ اپناؤ جس نے مجھ سے لو لگا رکھی ہو۔ پھر تم سب کو میرے پاس لوٹ کر آنا ہے، اس وقت میں تمھیں بتاؤں گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو‘‘۔
پس منظر
مندرجہ بالا الفاظ قرآنی، سور ہ ٔ لقمان کی آیت نمبر پندرہ کا ایک ٹکڑا ، اور اس سلسلۂ کلام کا ایک حصہ ہے جو آیت نمبر بارہ سے شروع ہو کر آیت نمبر انیس پر ختم ہوتا ہے۔آغازمیں سیدنا لقمان علیہ السلام کی حکمت و دانائی کی تحسین کے بعد ،ان کی طرف سے اپنے بیٹے کو کی گئی مبنی بر حکمت نصیحتوں کا ذکر کیا گیا ۔ ان نصیحتوں کے درمیان میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے والدین کے حقوق بیان کیے گئے کہ تمہاری خدمت و اطاعت اور حسن سلوک کے سب سے زیادہ وہی حقدار ہیں ۔البتہ جہاں اُن کی بات ، اللہ تعالیٰ کے احکام سے متصادم ہو، وہا ں ان کی اطاعت و پیروی نہیں کرنی ،ہاں حسن سلوک ان کے ساتھ جاری رکھا جائے گا ۔ اب جب ایک قسم کی اطاعت و پیروی سے روکا گیا تو حکمتِ الہٰی کا تقاضا ہوا کہ ایک اصول کے درجے میں بتا دیا جائے کہ تمھیں اطاعت اور پیروی کس کی کرنی چاہیے تو ارشاد فرمایا گیا : ﴿وَّ اتَّبِع سَبِیلَ مَن أَنَابَ إِلَيَّ﴾’’اور پیروی کر اس کی جس نے رجوع کیا میری طرف‘‘۔
اس آیت سےمتعلق مفسرین کے اقوال
جس طرح انابت الی اللہ کے دائرے اور مدار بہت سارے ہیں ،اسی طرح خارج میں انابت کے مصداق بھی بہت سارے ہیں ۔ مفسرینِ کرام نے اپنے اپنے انداز سے انھیں بیان کیا ہے۔مفسرین کے اقوال کے تتبع سے سبیلِ انا بت کے تمام سنگ ہائے میل واضح ہو جاتے ہیں ۔ امام ابن جریر الطبری لکھتے ہیں :يقول واسلك طريق من تاب من شركه ورجع إلى الإسلام ’’اللہ فرماتا ہے کہ اس کے طریقے پر چلو جو شرک سے تائب ہو کر اسلام کی طرف لوٹ آیا ‘‘۔ یہ تشریح تاویل خاص کے اعتبار کی گئی ہےجس کا حاصل یہ ہے کہ اہل اسلام کی پیروی کرنی چاہیے اور انفرادی و اجتماعی سطح پر ، اصول و فروع سمیت کسی بھی دائرے میں ، کفار و مشرکین کی پیروی نہیں کرنی چاہیے ۔ علامہ قرطبی فرماتے ہیں :وَهَذِهِ سَبِيلُ الْأَنْبِيَاءِ وَالصَّالِحِينَ’’یہ انبیاے کرام اور صالحین کا راستہ ہے‘‘۔(تفسیرِ قرطبی)
امام الثعلبی کے الفاظ مزید وضاحت کرتے ہیں:واسلك طريق محمّدﷺ وأصحابه’’ محمد رسول اللہﷺ اور ان کے اصحابِ کرام کے راستے کی پیروی کرو‘‘۔(الکشف والبیان عن تفسیر القرآن)یہاں تک تو بات واضح ہو گئی کہ اللہ کی طرف رجوع کرنے والوں کے طریقے پر چلنا ،ایک لازمی حکم ہے۔ یہ محمد رسول اللہﷺ اور آپ کے اصحابِ کرام رضی اللہ عنہم کا راستہ ہے ۔اور یہ﴿صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ﴾اور﴿مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي﴾ہی کی تاکید مزید ہے۔
ہماری بحث اب ایک اور دائرے میں داخل ہوتی ہے ۔ یہ تو مان لیا کہ واجب الاتباع راستہ سبیل الرسول و الاصحاب ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ اس طریق تک رسائی کا طریقہ کیاہے ۔ تو وہ طریقہ امّت کے نیک لوگوں کا اتباع ہے ۔علّامہ آلوسی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:واتبع سبیل من أناب إلي بالتوحید و الإخلاص بالطاعة وحاصله اتبع سبیل المخلصین ’’جو لوگ توحید اور اخلاص کے ساتھ اطاعت پر گامزن ہیں تو ایسے مخلصین کے راستے کی پیروی کرو ‘‘ ۔( روح المعانی، ص:۷۸ ،ج:۲۱)
علّامہ طنطاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ثم أرشد سبحانه إلى وجوب اتباع أهل الحق فقال و اتبع سَبِيلَ مَنْ أَنَابَ إِلَيّ أي و اتبع أيها العاقل طريق الصالحين من عبادي الذين رجعوا إلي بالتوبة والإِنابة و الطاعة و الإِخلاص’’ پھر اہلِ حق کی پیروی کے وجوب کے متعلق ارشاد خداوندی ہے:اے عقلمند انسان ! میرے ان صالح بندوں کی پیروی کرو، جنھوں نے میری طرف توبہ، انابت،خود سپردگی اور اخلاص سے لو لگائی ہے‘‘۔ (الوسیط للطنطاوي ،المجلد الثامن ،سورة لقمان)
ہم جانتے ہیں کہ نیک انسانوں سے بھی کبھی کبھار گناہ ہو جاتے ہیں اور غلطیوں کا صدور تو کئی بار ہوتا ہے ۔ تو عقل تقاضا کرتی ہے کہ واجب الاتباع سبیل تک رسائی کسی ایسے سلسلے سے ہو جس میں غلطی کا امکان نہ ہو، بہ الفاظ دیگرسبیل الرسول و الأصحاب کا ثبوت کسی ایک طریق علمی سے ہو جو ہر قسم کے شک وشبہہ سے بری ہو تو وہ طریق معجز نما انہی الفاظ کی تشریح میں پایا جاتا ہے اور وہ امّت کا اجماعی راستہ ہے۔ جمال الدین القاسمی رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں ایک مقام پر لکھتے ہیں:قال الله تعالى وَاتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ أَنابَ إِلَيَّ والأمة منيبة إلى ربها فيجب اتباع سبيلها’’اللہ نے فرمایا کہ اتباع اس کے راستے کا کرو جس نے میری طرف انابت اختیار کی اور امّت (اجماعی حیثیت میں ) اپنے رب کی طرف انابت کرنے والی ہے لہٰذا ، واجب ہوا کہ امّت محمدی کااتباع کیا جائے ‘‘۔(تفسیر قاسمی )امّت محمدی کے اتباع سے مراد ، امّت محمدی کا اجماعی راستہ ہے ۔ جس کے لیے ضمانت موجود ہے کہ یہ امّت نہ کبھی گمراہی پر جمع ہو گی اور نہ ہی غلطی پر جمع ہو گئی ۔
استاذ الدکتور وہبۃ الزحیلی کے ہاں ہمیں مزید وضاحت ملتی ہے :وهذا الأمر باتباع السبيل دليل على صحة إجماع المسلمين وأنه حجة لأمر الله تعالى إيانا باتباعهم وهو مثل قوله تعالى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ ’’اللہ تعالیٰ کا یہ قول واتبع سبیل من أناب إليّ اجماع ِاُمّت کی صحت پر دلیل ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کا ہمیں اس طریق کے اتباع کا حکم دینا،اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد ﴿وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ﴾ کی طرح اجماعِ امّت کی پیروی اختیار کرنے پر حجت ہے ‘‘۔(التفسير المنير في العقيدة والشريعة والمنهج)
شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم آسان ترجمۂ قرآن میں اس آیت کے تحت لکھتے ہیں:’’ راستہ انھی کا اپنانا چاہیے جنھوں نے اللہ تعالیٰ سے مضبوط تعلق قائم کیا ہوا ہو، یعنی وہ اسی کی عبادت اور اطاعت کرتے ہوں، اس میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ دین پر عمل بھی صرف اپنی سمجھ اور رائے سے نہیں کرنا چاہیے بلکہ جن لوگوں کے بارے میں یہ بات واضح طور پر معلوم ہے کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ سے لولگائی ہوئی ہے ، ان کو دیکھنا چاہیے کہ انھوں نے دین پر کس طرح عمل کیا، اور پھر انھی کا راستہ اختیار کرنا چاہیے ، اسی لیے کہا جاتا ہے اور بجا طور پر کہا جاتا ہے کہ قرآن و حدیث کے صرف ذاتی مطالعے پر کوئی ایسا نتیجہ نہیں نکالنا چاہیے ، جو امت کے علماء اور بزرگوں کی تشریح کے خلاف ہو‘‘۔
حاصل ِکلام
اللہ جلّ جلالہ کی اطاعت واجب ہےکیونکہ مُطاع بالذّات وہی ہے ۔اللہ تعالیٰ نے اپنی نمائندگی اور اپنی مرضی و حکم کی وضاحت کے لیے نبی کریم ﷺ کو پسند فرمایا اور وحی جلی یعنی قرآن کریم اور وحی خفی یعنی سنت شریف سے آپ کو نوازا جو اصل میں قرآن ہی کی شرح ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے اپنے اقوال و افعال کے ذریعےاللہ کی مرضی و حکم کو واضح فرمایا اس لیے آپ ﷺ کی اطاعت و پیروی بھی ضروری ہے۔رسول اللہ ﷺ سے دین ان کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے حاصل کیا اور ان سے دین تابعین اور اتباع التابعین اور دیگر علماے سلف کے ذریعے ہم تک پہنچا ۔تو آپﷺ کی سنّت کو ایک تسلسل کے ساتھ عہد بہ عہد ہم تک پہنچانے میں جن نفوس قدسیہ اسلاف کا کردار رہا ہے ان کا دل سے احترام اور ان کے نقش قدم کی پیروی کرنابھی ضروری ہے۔خودرائی کے بجائے خود سپرد گی اور پیروی بندۂ مومن کا شیوہ ہونا چا ہیے ۔ اسلاف کے متعین کردہ اصول و ضوابط اور تعامل ِامّت اور اس کے اجماعی مواقف کی پیروی کرنا ہی سبیلِ منیب اور طریق ہدایت ہے جس کی پیروی کرنا ضروری ہے ۔امّت کی اجتماعی دانش پر اعتماد کے بجائے اپنے فہم پر بھروسہ کرنا ،تفرد اور تشتت کا راستہ اختیار کرنا گمراہی پر منتج ہوتا ہے۔