لاگ ان
منگل 29 شعبان 1444 بہ مطابق 21 مارچ 2023
لاگ ان
منگل 29 شعبان 1444 بہ مطابق 21 مارچ 2023
لاگ ان / رجسٹر
منگل 29 شعبان 1444 بہ مطابق 21 مارچ 2023
منگل 29 شعبان 1444 بہ مطابق 21 مارچ 2023

جس طرح لوگ اپنے ملک کے لیے کرکٹ، ہاکی، فٹ بال وغیرہ کھیلتے ہیں، کیا اس طرح کمپیوٹر پر آن لائن گیمز کھیل سکتے ہیں؟ میرا مطلب انٹرنیشنل آن لائن گیمز چیمپئن شپ سے ہے،  معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا یہ حلال ہے؟

الجواب باسم ملهم الصواب

کسی بھی قسم کا کھیل جائز ہونے کے لیے مندرجہ ذیل شرائط کا پایا جانا ضروری ہے، ورنہ وہ کھیل لہو ولعب میں داخل ہو نے کی وجہ سے شرعاً ناجائز ہوگا:

1۔ وہ کھیل بذاتِ خود جائز ہو، اس میں کوئی ناجائزبات نہ ہو۔

2۔ اس کھیل میں کوئی دینی یا دنىوی منفعت ہو، مثلاً جسمانی ورزش وغیرہ، محض لہوو لعب یا وقت گزاری کے لیے نہ کھیلا جائے۔

3۔ کھیل میں غیر شرعی امور کا ارتکاب نہ کیا جاتا ہو۔

4۔ کھیل میں اتنا غلو نہ کیا جائے کہ جس سے شرعی فرائض میں کوتاہی یا غفلت پیدا ہو۔

مذكورہ صورت مىں آن لائن گیم مىں کوئی دینی یا دنىوی منفعت نہىں پائى جاتى، بلكہ غیر شرعی امور پائےجاتے ہىں، مثلاً جان دار کی تصاویر، موسیقی، كھىل مىں انہماك كى وجہ سے نماز اور دىگر فرائض مىں غفلت وغیرہ، لہذا مذكورہ خرابىوں كى وجہ سے آن لائن  گیم کھیلنا جائز نہیں۔

عن علي بن حسين، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن من حسن إسلام المرء تركه ما لا يعنيه ( سنن الترمذي ت بشار ،۴/ ۱۳۶)

ولا بأس بالشطرنج وهي رواية …عن الحبر قاضي الشرق والغرب تؤثر وهذا إذ لم يقامر ولم يداوم ولم يخل بواجب وإلا فحرام بالإجماع. (و) كره (كل لهو) لقوله – عليه الصلاة والسلام – «كل لهو المسلم حرام إلا ثلاثة ملاعبته أهله وتأديبه لفرسه ومناضلته بقوسه». (الدرالمختار،٦/٣٩٤)

(قوله والشطرنج) معرب شدرنج، وإنما كره لأن من اشتغل به ذهب عناؤه الدنيوي، وجاءه العناء الأخروي فهو حرام وكبيرة عندنا، وفي إباحته إعانة الشيطان على الإسلام والمسلمين كما في الكافي قهستاني… (قوله وكره كل لهو) أي كل لعب وعبث فالثلاثة بمعنى واحد كما في شرح التأويلات والإطلاق شامل لنفس الفعل، واستماعه كالرقص والسخرية والتصفيق وضرب الأوتار من الطنبور والبربط والرباب والقانون والمزمار والصنج والبوق، فإنها كلها مكروهة لأنها زي الكفار، واستماع ضرب الدف والمزمار وغير ذلك حرام وإن سمع بغتة يكون معذورا ويجب أن يجتهد أن لا يسمع قهستاني. (رد المحتار،٦/٣٩٤)

والله أعلم بالصواب

فتویٰ نمبر4625 :

لرننگ پورٹل