لاگ ان
جمعہ 09 رمضان 1444 بہ مطابق 31 مارچ 2023
لاگ ان
جمعہ 09 رمضان 1444 بہ مطابق 31 مارچ 2023
لاگ ان / رجسٹر
جمعہ 09 رمضان 1444 بہ مطابق 31 مارچ 2023
جمعہ 09 رمضان 1444 بہ مطابق 31 مارچ 2023

کسی غیر عالم کو وعظ و نصیحت اور تبلیغ کرنے کی اجازت ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو کس حد تک اور ممانعت ہے تو کہاں تک؟ رہنمائی فرمادیں۔ 

الجواب باسم ملهم الصواب

وعظ ونصیحت اور دعوت وتبلیغ کے دو درجات ہیں۔ ایک وہ جو ہر مسلمان کرسکتا ہے عالم ہونا اس کےلیے شرط نہیں، جیسے واضح اسلامی احکامات، مثلا نماز کی ترغیب، جھوٹ اور اکل حرام کی ممانعت کا بیان وغیرہ۔ دوسری طرح کا وعظ ونصیحت اور دعوت وتبلیغ کا کام وہ ہے جو صرف علماء کے کرنے کا ہے، جیسے فقہی احکام کی تعلیم، حلال وحرام کا فتوی دینا، قرآن حکیم کی تفسیر کرنا وغیرہ۔ چوں کہ اس کےلیے علمی مہارت اور تربیت درکار ہے اس لیے غیر عالم کےلیے ان امور میں دخل دینا جائز نہیں۔ اس وضاحت کےساتھ علماء کی سرپرستی میں دوسروں كو دین کی دعوت دینا اور ان کو کسی نیکی کی ترغیب کے طور پر وعظ کرنا ایک نیکی کا کام ہے اگر کوئی شخص باقاعدہ عالم نہیں یا جس نیک کام کی ترغیب دے رہا ہے اس پر عمل پیرا نہیں تو وہ یہ سوچ کر تبلیغ نہ چھوڑے کہ میں عالم نہیں یا میں تو خود عمل نہیں کر رہا تو میرے وعظ یا تبلیغ کا کیا فائدہ بلکہ وہ اپنی اصلاح کی نیت سے  تبلیغ اور وعظ جاری رکھے کیونکہ عمل کرنا ایک نیکی ہے اور اس کی دعوت دینا دوسری نیکی ہے لہذا ایک نیکی کو چھوڑنے کی بناء پر دوسری نیکی کو چھوڑنا درست نہیں۔

لہذا اگر کوئی غیر عالم کسی نیکی کی دعوت دے یا کسی نیک کام سے متعلق وعظ کہے تو یہ جائز ہے،  لیکن وعظ میں اس بات کا خیال رکھے کہ وہ جو بات کرے کسی مستند عالم سے سیکھ کر یا مستند کتاب دیکھ کر پکی اور صحیح بات کرے۔ دین کی جس بات کے متعلق صحیح معلومات نہ ہوں، اس کو بیان کرنے سے اجتناب کرے۔

حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ سورۃ القمر کی آیت نمبر 17 {وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ} کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

’’اس آیت میں ’’يَسَّرْنَا‘‘ کے ساتھ ’’لِلذِّكْرِ‘‘ کی قید لگاکر یہ بھی بتلا دیا گیا ہے کہ قرآن کو حفظ کرنے اور اس سے نصیحت حاصل کرنے کی حد تک اس کو آسان کردیا گیا ہے جس سے ہر عالم و جاہل، چھوٹا اور بڑا یکساں فائدہ اٹھا سکتا ہے، اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ قرآن کریم سے مسائل اور احکام کا استنباط بھی ایسا ہی آسان ہو، وہ اپنی جگہ ایک مستقل اور مشکل فن ہے جس میں عمریں صَرف کرنے والے علماء راسخین کو ہی حصہ ملتا ہے، ہر ایک کا وہ میدان نہیں۔ اس سے ان لوگوں کی غلطی واضح ہوگئی جو قرآن کریم کے اس جملے کا سہارا لے کر قرآن کی مکمل تعلیم، اس کے اصول وقواعد سے حاصل کیے بغیر مجتہد بننا اور اپنی رائے سے احکام ومسائل کا استخراج کرنا چاہتے ہیں کہ وہ کھلی گمراہی کا راستہ ہے۔‘‘ (معارف القرآن، سورۃ القمر)

والله أعلم بالصواب

فتویٰ نمبر4651 :

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے


لرننگ پورٹل