سوال یہ ہے کہ بچی اسلامی کلینڈر کے حساب سے بیس یا چوبیس جنوری کو دو سال کی ہوتی ہے، جبکہ کہ شمسی کلینڈر کے لحاظ سے 14 فروری کو دو سال کی ہوتی ہے۔اس کا دودھ چھڑانے کی کوشش کی جاتی ہے، لیکن طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے اس پر زور زبردستی نہیں کی گئی، جس کی وجہ سے اس کو دوبارہ دودھ لگا دیا گیا۔ اب اس بچی کو دودھ چھڑانے کی کوشش پھر سے کی جا رہی ہے، لیکن اس میں بہت زیادہ وقت درکار ہے۔ سوال یہ ہے کہ بچہ کب تک دودھ پی سکتا ہے اور اس میں گناہ لازم ہوگا یا نہیں؟
الجواب باسم ملهم الصواب
بچہ یا بچی کو دودھ پلانے کی مدت دو سال ہے، دو سال پورے ہونے پر دودھ چھڑا دینا لازم ہے ۔ البتہ بچہ کمزور ہو یا کوئی بیماری ہو، دودھ چھڑانے سے بچہ کی صحت پر برا اثر پڑتا ہو اور ماں کے پاس اس کی متبادل صورت اختیار کرنے کی طاقت نہ ہو تو ڈھائی سال تک بھی دودھ پلایا جا سکتا ہے ۔صورت مسئولہ میں اگر بچی کمزور ہے اور دودھ چھڑانے کی صورت میں بچی کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے، تو ڈھائی سال کے اندر اندر دودھ پلایا جا سکتا ہے، ڈھائی سال پورے ہونے کے بعد دودھ پلانا جائز نہیں ۔کوشش کر کے جلد از جلدبچی کا دودھ چھڑا دیا جائے ۔
باب الرضاع (هو) لغةً بفتح وكسر: مص الثدي. وشرعاً: (مص من ثدي آدمية) ولو بكراً أو ميتةً أو آيسةً، وألحق بالمص الوجور والسعوط (في وقت مخصوص) هو (حولان ونصف عنده وحولان) فقط (عندهما، وهو الأصح) فتح، وبه يفتى كما في تصحيح القدوري عن العون، لكن في الجوهرة أنه في الحولين ونصف، ولو بعد الفطام محرم وعليه الفتوى.
(قوله: لكن إلخ) استدراك على قوله: وبه يفتى. وحاصله أنهما قولان، أفتى بكل منهما ط … (قوله: والأصح أن العبرة لقوة الدليل) قال في البحر: ولايخفى قوة دليلهما، فإن قوله تعالى: {والوالدات يرضعن} [البقرة: 233] الآية يدل على أنه لا رضاع بعد التمام. وأما قوله تعالى: {فإن أرادا فصالاً عن تراض منهما} [البقرة: 233] فإن ما هو قبل الحولين بدليل تقييده بالتراضي والتشاور، وبعدهما لايحتاج إليهما. وأما استدلال صاحب الهداية للإمام وقوله تعالى: {وحمله وفصاله ثلاثون شهراً} [الأحقاف: 15] بناء على أن المدة لكل منهما كما مر، فقد رجع إلى الحق في باب ثبوت النسب من أن الثلاثين لهما للحمل ستة أشهر والعامان للفصال. اه (الدر المختار وحاشية ابن عابدين/ رد المحتار، 3/209)
(قوله ولم يبح الإرضاع بعد مدته) اقتصر عليه الزيلعي، وهو الصحيح كما في شرح المنظومة بحر، لكن في القهستاني عن المحيط: لو استغنى في حولين حل الإرضاع بعدهما إلى نصف ولا تأثم عند العامة خلافا لخلف بن أيوب اهـ ونقل أيضا قبله عن إجارة القاعدي أنه واجب إلى الاستغناء، ومستحب إلى حولين، وجائز إلى حولين ونصف اهـ. (الدر المختار وحاشية ابن عابدين/ رد المحتار، 3/211)
والله أعلم بالصواب
4762 :