سوال:ایک خاتون نے اپنے نام سے بی سی کے پیسے جمع کرنے کے لىے ایک مشترکہ اکاؤنٹ کھلوایا،جس میں بی سی میں شامل تمام افراد پیسے جمع کروا دیتے ہیں اور یہ اکاؤنٹ صرف بی سی کے لىےاستعمال ہوتا ہے،کسی کے ذاتی استعمال میں نہیں آتا،نیز بی سی میں تمام ممبران کا اشتراک مختلف نوعیت کا ہے،جىسے کسی کی ایک بی سی ہے، کسی کی دو یا چار، اب سوال یہ ہے کہ اس مشترکہ اکاؤنٹ پر آنے والے اخراجات مثلا سالانہ ایس ایم ایس فیس ، اے ٹی ایم فیس وغىرہ کس کے ذمے ہوں گے؟اگر یہ اخراجات ممبران کے ذمے ہیں تو کیا ان کی تعداد کے اعتبار سے برابر برابر لازم ہوں گے یا ان کے بی سی کے حصوں کے اعتبار سےلازم ہوں گے؟
الجواب باسم ملهم الصواب
مذكورہ صورت مىں جس خاتون نے بى سى كے پىسےجمع كرنےكےلىےمشتركہ اكاؤنٹ كھولاہے،جس میں شامل تمام افراد پیسے جمع کروا دیتے ہیں،اور یہ اکاؤنٹ صرف بی سی کے لىےہى استعمال ہوتا ہے،تواس اکاؤنٹ مىں رقم ركھنے كى وجہ سےاکاؤنٹ پرآنے والے اخراجات ایس ایم ایس فیس ، اے ٹی ایم فیس وغىرہ تمام ممبران کے بی سی کےحصوں کے اعتبار سےلازم ہوں گے۔كىونكہ بى سى كاہر ممبراپنےحصےكےاعتبارسے شروع سےآخرتك بىنك اكاؤنٹ سےمشتركہ طور پر نفع اٹھاتا رہتا ہے۔ بہترىہ ہےكہ كسى ممبر كوبى سى مىں شامل كرنے سےپہلےاس كو اس بات كى اطلاع دےدى جائے كہ اكاؤنٹ كے سالانہ اخراجات ہر ممبر كے حصے كے بقدر لازم ہوں گے،جس مىں ہر ممبركى شراكت ضرورى ہے،تاكہ اس كى رضامندى كا علم بھى ہوجائےاوركوئى نزاع بھى نہ ہو۔
أجرة القسام إذا استأجره الشركاء للقسمة بينهم على عدد الرءوس لا على مقدار الأنصباء، وقال أبو يوسف ومحمد والشافعي رحمهم الله على مقدار الأنصباء ويستوي في ذلك قاسم القاضي وغيره وهو رواية عن أبي حنيفة رحمه الله وجه قولهم أن هذه مؤنة تلحق الشركاء بسبب الملك فيكون بينهم على وجه النفقة على قدر الملك كالنفقة وأجرة الكيال والوزان إن استأجروه ليفعل ذلك فيما هو مشترك بينهم وهذا؛ لأن المقصود هنا بالقسمة أن يتوصل كل واحد منهم إلى الانتفاع بنصيبه ومنفعة نصيب صاحب الكبير أكبر من منفعة نصيب صاحب القليل أو لأن الغرم مقابل بالغنم، ثم الغنم بين الشركاء على قدر الملك يعني الثمار والأولاد، فكذلك الغرم عليهم بقدر الملك. (المبسوط للسرخسي،15/5)
وقال أبو يوسف ومحمد رحمهما الله تعالى: على مقادير الأنصباء… وأما أجرة الكيال والوزان في القسمة فقد قال بعض مشايخنا: هي على هذا الاختلاف والأصح أن قوله فيهما كقولهما(الفتاوى الهندية 5/231)
أجرة الكيال والوزان بقدر الأنصباء إجماعا، وكذا سائر المؤن كأجرة الراعي والحمل والحفظ وغيرها شرح مجمع (الدر المختار،6/256)
واتفقوا على أن أجرة الكيل ونحوه على الأنصباء. (حاشية ابن عابدين،6/256)
والله أعلم بالصواب
4783 :