سوال: درج ذیل واقعہ کی تحقیق مطلوب ہے?
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک دفعہ اللہ تعالیٰ سے پوچھا میرے ساتھ جنت میں کون ہو گا ؟ ارشاد ہوا "فلاں قصاب تمہارے ساتھ ہوگا"? حضرت موسیٰ علیہ السلام کچھ حیران ہوئے اور اس قصاب کی تلاش میں چل پڑے، وہاں دیکھا تو ایک قصاب اپنی دوکان میں گوشت بیچنے میں مصروف تھا ، اپنا کاروبار ختم کر کے اس نے ایک گوشت کا ٹکڑا ایک کپڑے میں لپیٹا اور گھر کی طرف روانہ ہو گیا ،حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس قصاب کے بارے میں مزید جاننے کےلیے بطور مہمان گھر چلنے کی اجازت چاہیٰ گھر پہنچ کر قصاب نے گوشت پکایا پھر روٹی پکا کر اس کے ٹکڑے شوربے میں نرم کیے اور دوسرے کمرے میں چلا گیا ،جہاں ایک کمزور بڑھیا پلنگ پر لیٹی ہوئی تھی، قصاب نے بڑی مشکل سے اسے سہارا دےکر اٹھایا ، ایک ایک لقمہ اس کے منہ میں دیتا رہا ، جب اس نے کھانا تمام کیا تو اس نے بڑھیا کا منہ صاف کر دیا، کھانا کھا کر بڑھیا نے قصاب کے کان میں کچھ کہا ، جسے سن کر قصاب مسکرا دیا ، اور بڑھیا کو واپس لٹا کر باہر آ گیا? حضرت موسیٰ علیہ السلام جو یہ سب دیکھ رہے تھے ، آپ نے قصاب سے پوچھا یہ عورت کون ہے اور اس نے تیرے کان میں کیا کہا جس پر تو مسکرا دیا ؟ قصاب بولا اے اجنبی ! یہ عورت میری ماں ہے ، گھر پر آنے کے بعد میں سب سے پہلے اس کے کام کرتا ہوں تو خوش ہو کر روز مجھے یہ دعا دیتی ہے کہ اللہ تعالیٰ تجھے جنت میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ساتھ عطا فرمائے اور میں مسکرا دیتا ہوں کہ میں کہاں اور موسیٰ کلیم اللہ کہاں ؟ پھر موسی علیہ السلام نے قصاب کو بشارت دی کہ اللہ تعالی نے تیری ماں کی دعا قبول کر لی ہے اور میں ہی موسی ہوں?
الجواب باسم ملهم الصواب
یہ واقعہ ’’مفاتیح الجنان شرح شرع? الاسلام ‘‘ نامی کتاب میں منقول ہے? بظاہر یہ اسرائیلی روایات میں سے ہے اور اسرائیلی روایات کے بارے میں تفصیل یہ ہے کہ اگر اس کی تصدیق قرآن وسنت سے ہوتی ہو تو اس کی تصدیق کی جائے گی، اور اگر قرآن وسنت میں اس کے خلاف کوئی بات بیان کی گئی ہو تو اس صورت میں اس کی تکذیب کردی جائے گی اور اگر مذکورہ دونوں صورتوں میں سے کوئی صورت نہ ہو تو ایسی روایت کی نہ تکذیب کی جائے گی اور نہ تصدیق? لہذا اس واقعہ کو حدیث کہہ کر بیان کرنا تو جائز نہیں، البتہ مفاتیح الجنان یا دیگر کتب کے حوالے سے بیان کیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں?
هذه الأحادیث الإسرائیلیة تذكر للاستشهاد لا للاعتضاد فإنها على ثلاثة أقسام: أحدها ما علمنا صحته مما بأیدینا مما یشهد له بالصدق فذاك صحیح والثانی ما علمنا كذبه بما عندنا مما یخالفه والثالث ما هو مسكوت عنه لا من هذا القبیل ولا من هذا القبیل فلا نؤمن به ولا نكذبه ویجوز حكایته. (مقدمة تفسیر ابن كثیر)
والله أعلم بالصواب
فتویٰ نمبر4751 :