لاگ ان
جمعہ 09 رمضان 1444 بہ مطابق 31 مارچ 2023
لاگ ان
جمعہ 09 رمضان 1444 بہ مطابق 31 مارچ 2023
لاگ ان / رجسٹر
جمعہ 09 رمضان 1444 بہ مطابق 31 مارچ 2023
جمعہ 09 رمضان 1444 بہ مطابق 31 مارچ 2023

سوال:حاملہ عورت کو طلاق ہوتی ہےیانہیں؟ اگر شوہردوران حمل   طلاق دے  دے تو اس کی عدت کیا ہوگی؟ جواب تفصیل کے ساتھ مطلوب ہے۔نیز یہ بھی بتادیں کہ اس فتوے میں اہل حدیث اور دیوبند میں کوئی فرق ہےیا نہیں؟ جزاك اللہ خیراً۔

الجواب باسم ملهم الصواب

جی ہاں حالتِ حمل میں طلاق دینے سے بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے،لہذااگر كوئی شخص دورانِ حمل اپنی بیوی كو طلاق دےدے تو اس عورت كی عدت وضعِ حمل(بچے كی پیدائش) ہے۔بچے كی ولادت كے ساتھ عدت پوری ہوجائے گی،اور عدت كی پابندی ختم ہوجائے گی۔نیز اس مسئلہ میں كسی مسلك كاكسی قسم كا كوئی اختلاف نہیں ،یہ نصِ قرآنی ،سنت واجماعِ امت كا متفقہ مسئلہ ہے۔

وطلاق الحامل یجوز عقیب الجماع ویطلقھا للسنۃ ثلاثا یفصل بین کل تطلیقتین بشھر عند أبی حنیفۃ وأبی یوسف رحمھما اللہ تعالی کذا فی الھدایۃ(الفتاوی الھندیۃ،۱؍۳۴۹)

وأما عدة الحبل فهي مدة الحمل، وسبب وجوبها الفرقة أو الوفاة، والأصل فيه قوله تعالی {وأولات الأحمال أجلهن أن يضعن حملهن} [الطلاق: ۴] أي: انقضاء أجلهن أن يضعن حملهن، وإذا كان انقضاء أجلهن بوضع حملهن كان أجلهن؛ لأن أجلهن مدة حملهن (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع،۳/۱۹۲)

والله أعلم بالصواب

فتویٰ نمبر4698 :

لرننگ پورٹل