لاگ ان
ہفتہ 10 رمضان 1444 بہ مطابق 01 اپریل 2023
لاگ ان
ہفتہ 10 رمضان 1444 بہ مطابق 01 اپریل 2023
لاگ ان / رجسٹر
ہفتہ 10 رمضان 1444 بہ مطابق 01 اپریل 2023
ہفتہ 10 رمضان 1444 بہ مطابق 01 اپریل 2023

سوال:میری ایك دوست كو اس كے شوہر نےحمل كےدوران فون پر تین طلاقیں دیں،جبكہ حمل كی مدت سات ماہ تھی،طلاق دینے كے دوسال بعد یہ شخص كہہ رہاہے كہ اہل حدیث مسلك كے نزدیك ایك مجلس میں تین طلاقیں دینے  سے ایك طلاق واقع ہوتی ہے،كیایہ بات درست ہے،یہ بھی رہنمائی فرمائیں كہ اس كے مطابق عمل كیا جاسكتا ہے ؟جزاك اللہ خیرا ۔

الجواب باسم ملهم الصواب

واضح رہے کہ ایک مجلس میں تین طلاقیں دینا خواہ ایک جملہ سے دی جائیں یا الگ الگ جملوں سے،خلافِ سنت اور ناجائز ہے،تاہم اگر کسی نے اس طریقہ سےتین طلاقیں دیں تو یہ تین طلاقیں ہی شمار ہوں گی اور تینوں طلاقیں واقع ہوجائیں گی ، یہ موقف قرآنِ کریم اور احادیثِ صحیحہ سے ثابت ہے اور اسی پر جمہور صحابہ ، تابعین رضوان اللہ علیہم اجمعین ، اور چاروں ائمہ یعنی حضرت امام ابوحنیفہ ، حضرت امام مالک ، حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ تعالیٰ کا اتفاق ہے۔

 لہذا صورتِ مسئولہ میں جب شوہر نے  تین طلاقیں صریح دیں ہیں،تو شرعا تینوں طلاقیں واقع ہو کر نکاح ختم ہو گیا ہے،اب دوسال بعد مذكورہ شخص كا یہ كہنا كہ اہل حدیث مسلك كے نزدیك ایك مجلس میں تین طلاقیں دینے سے ایك طلاق  واقع ہوتی ہے،قرآن وسنت واجماع صحابہ  كے خلاف ہونے كی وجہ سے غیر معتبر ہے  ۔اس لیے خاتون کے لیے حلالۂ شرعیہ کے بغیر اس مرد کے ساتھ ازدواجی زندگی قائم کرنا حرام ہے۔ اس کو اختیار ہے اس مرد کے علاوہ دوسرے کسی مرد سے نکاح کرکے باعزت زندگی گزارے۔

عن عائشة أن رجلا طلق امرأته ثلاثا فتزوجت فطلق فسئل النبي صلی اللہ عليہ وسلم أتحل للأول قال لا حتی يذوق عسيلتها كما ذاق الأول.(صحيح البخاري،۲/۷۹۱)

ولو قال ظننت أنها تحل لي لا يحد لأن الظن في موضعه لأن أثر الملك قائم في حق النسب والحبس والنفقة فاعتبر ظنه في إسقاط الحد.(الهداية في شرح بداية المبتدي،۲/۳۴۵)

ومفاده أنه لو وطئها بعد الثلاث في العدة بلا نكاح عالما بحرمتها لا تجب عدة أخری لأنه زنا. وفي البزازية: طلقها ثلاثا ووطئها في العدة مع العلم بالحرمة لا تستأنف العدة بثلاث حيض، ويرجمان إذا علما بالحرمة ووجد شرائط الإحصان، ولو كان منكرا طلاقها لا تنقضي العدة، ولو ادعی الشبهة تستقبل.(رد المحتار،۳/۵۱۸)

والله أعلم بالصواب

فتویٰ نمبر: 4666

لرننگ پورٹل