سوال:ایک شخص نے چار کروڑ ڈالر کا سامان ایک دوسرے ملک میں بھیجا ہوا ہے دوسرے ملک میں سامان کی ملکیت،اس کی حفاظت اوراس کابیچناوغیرہ یہ سب وہاں کے غیر مسلم کے سپرد ہے (پہلا شخص جو مسلمان ہے یہ وہاں اپنے سامان کے مالک ہونے کا دعوی نہیں کر سکتا اور نہ ہی وہاں جا کر بیچ سکتا ہے) دوسرا شخص اس کا وکیل ہےجوسامان بیچ کر رقم اسے ادا کرتا ہےاوراپنا منافع رکھ لیتا ہے۔ کرونا وائرس کی وجہ سے سامان فروخت بھی نہیں ہو رہا ہے اور کچھ سامان خراب بھی ہو گیا ہے۔
نوٹ: سامان پہلے شخص کا ہے، لیکن وہاں کےاعتباراس شخص کی ملکیت میں نہیں،جس کی ملکیت میں ہے وہ پچھلے تین چار سال سے فروخت نہ ہونے کی وجہ سے نہ ہی رقم دےرہا ہے اور نہ ہی منافع۔ اس مسئلے کو سامنے رکھتے ہوئےجواب عنایت فرمائیں۔
سوال یہ ہےکہ کیااس مال پرزکوۃ کی ادائیگی کرنا ہو گی یا نہیں؟ جزاك اللہ خیراً۔
الجواب باسم ملهم الصواب
صورت مسئولہ میں اگرچہ سائل وہاں اپنے سامان کے مالک ہونے کا دعوی نہیں کر سکتا اور نہ ہی وہاں جا کر بیچ سکتا ہے،لیکن اس مال کا حقیقی مالک پہلا شخص ہی ہے، دوسرا شخص صرف اس کی طرف سےسامان بیچنےکاوکیل ہے۔لہذا پہلے شخص پراس سامان تجارت کی مجموعی مالیت پر زکوۃ فرض ہے،البتہ مال کی وصولی پر تاخیر ہورہی ہو تو زکوۃ کی ادائیگی کو مؤخر کیاجاسکتاہے،جتنی رقم وصول ہوتی جائے اس کا حساب لگاکر زکوۃ اداکی جائے،گذشتہ سالوں کی زکوۃ بھی لازم ہے۔
الزكاة واجبة في عروض التجارة كائنة ما كانت إذا بلغت قيمتها نصابا من الورق والذهب(الفتاوی الهندية،۱/ ۱۷۹)
(الزكاة واجبة في عروض التجارة كائنة ما كانت إذا بلغت قيمتها نصابا من الورق أو الذهب) لقوله -عليه الصلاة والسلام- فيها «يقومها فيؤدي من كل مائتي درهم خمسة دراهم» ، ولأنها معدة للاستنماء بإعداد العبد فأشبه المعد بإعداد الشرع، وتشترط نية التجارة ليثبت الإعداد (العناية شرح الهداية،۲/۲۱۸)
والله أعلم بالصواب
فتویٰ نمبر4903 :