الجواب باسم ملهم الصواب
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْتَكِفُ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ فَكُنْتُ أَضْرِبُ لَهُ خِبَاءً فَيُصَلِّي الصُّبْحَ ثُمَّ يَدْخُلُهُ فَاسْتَأْذَنَتْ حَفْصَةُ عَائِشَةَ أَنْ تَضْرِبَ خِبَاءً فَأَذِنَتْ لَهَا فَضَرَبَتْ خِبَاءً فَلَمَّا رَأَتْهُ زَيْنَبُ ابْنَةُ جَحْشٍ ضَرَبَتْ خِبَاءً آخَرَ فَلَمَّا أَصْبَحَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَی الْأَخْبِيَةَ فَقَالَ مَا هَذَا فَأُخْبِرَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَالْبِرَّ تُرَوْنَ بِهِنَّ فَتَرَكَ الِاعْتِكَافَ ذَلِكَ الشَّهْرَ ثُمَّ اعْتَكَفَ عَشْرًا مِنْ شَوَّالٍ (بخاری،کتاب الاعتکاف،باب اعتکاف النساء)ترجمہ:’’حضرت عائشہ ؓ سے روایت کرتی ہیں کہ انہوں نے بیان کیا کہ نبی ﷺ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرتے تھے، میں آپ کے لئے ایک خیمہ نصب کر دیتی تھی، آپ فجر کی نماز پڑھ کر اس میں داخل ہوتے، پھر حضرت حفصہ ؓ نے حضرت عائشہ ؓ سے خیمہ نصب کرنے کی اجازت مانگی، انہوں نے اجازت دیدی تو حفصہ نے بھی ایک خیمہ نصب کیا، جب زینت بن جحش نے دیکھا تو انہوں نے بھی ایک دوسرا خیمہ نصب کیا۔ جب صبح ہوئی تو نبی ﷺ نے چند خیمے دیکھے آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ خیمےکیسے ہیں؟ آپ ﷺ سے واقعہ بیان کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کیا تم ان میں نیکی سمجھتے ہو، چنانچہ آپ ﷺ نے اس مہینہ میں اعتکاف چھوڑ دیا، پھر شوال کے ایک عشرہ میں اعتکاف کیا۔‘‘
اسی طرح دیگر ائمہ کے نزدیک بھی عورت کا مسجد میں اعتکاف کرنا صرف جائز ہے لیکن پسندیدہ نہیں۔ امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک عورت اپنے گھر کی مسجد میں اعتکاف کرے یہی قول امام شافعیؒ کا ہے۔ اور امام مالکؒ فرماتے ہیں کہ عورت اور مرد دونوں گھر میں اعتکاف کرسکتے ہیں۔(3)
اسی طرح علامہ ابن حجر ؒنے فتح الباری شرح بخاری میں باب اعتکاف النساء کے تحت ائمہ کے اقوال ذکر فرمائے ہیں۔اس میں بیان فرمایا کہ:’’امام شافعیؒ کے نزدیک عورتوں کا مسجد میں اعتکاف کرنا مکروہ ہے اور امام احمدؒ اور ایک روایت میں امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک عورت کا اپنے شوہر کے ساتھ اعتکاف کرنا جائز ہے۔(4) تو معلوم ہوا کہ خیر القرون میں اگر کسی عورت نے مسجد میں اعتکاف کرلیا تو وہ چونکہ خیر القرون تھا۔اس لیے اس کی اجازت تھی لیکن اب اس قدر فتنے کے دور میں عورت کو مسجد میں اعتکاف کی اجازت دینا مزید فتنوں کو دعوت دینا ہے۔ جب یہ بات ثابت ہوئی تو حرم شریف میں بھی عورت صرف طواف کے لیے جاسکتی ہے نہ کہ اعتکاف کے لے اور عورت کی نماز سے متعلق حضرت ابو حمید الساعدیؓ کی روایت موجود ہے جس میں عورت کا گھر میں نماز پڑھنا مسجد نبوی میں حضور ﷺ کے پیچھے نماز پڑھنے سے افضل بتایا گیا ہے۔ لہٰذا عورت کا گھر ہی میں نماز پڑھنا اور اعتکاف کرنا زیادہ بہتر اور افضل ہے۔ عَنِْ أُمِّ حُمَيْدٍ امْرَأَةِ أَبِي حُمَيْدٍ السَّاعِدِيِّ أَنَّهَا جَاءَتْ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أُحِبُّ الصَّلَاةَ مَعَكَ قَالَ قَدْ عَلِمْتُ أَنَّكِ تُحِبِّينَ الصَّلَاةَ مَعِي وَصَلَاتُكِ فِي بَيْتِكِ خَيْرٌ لَكِ مِنْ صَلَاتِكِ فِي حُجْرَتِكِ وَصَلَاتُكِ فِي حُجْرَتِكِ خَيْرٌ مِنْ صَلَاتِكِ فِي دَارِكِ وَصَلَاتُكِ فِي دَارِكِ خَيْرٌ لَكِ مِنْ صَلَاتِكِ فِي مَسْجِدِ قَوْمِكِ وَصَلَاتُكِ فِي مَسْجِدِ قَوْمِكِ خَيْرٌ لَكِ مِنْ صَلَاتِكِ فِي مَسْجِدِي قَالَ فَأَمَرَتْ فَبُنِيَ لَهَا مَسْجِدٌ فِي أَقْصَی شَيْءٍ مِنْ بَيْتِهَا وَأَظْلَمِهِ فَكَانَتْ تُصَلِّي فِيهِ حَتَّی لَقِيَتْ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ(مسند احمد، باقي مسند الأنصار ،باقي المسند السابق،حديث أم حميد رضي الله عنها)ترجمہ:’’حضرت ام حمید زوجہ ابوحمید ساعدی مروی ہے کہ ایک مرتبہ وہ نبی (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا یا رسول اللہ! میں آپ کی معیت میں نماز پڑھنا محبوب رکھتی ہوں، نبی (علیہ السلام) نے فرمایا مجھے معلوم ہے کہ تم میرے ساتھ نماز پڑھنے کو پسند کرتی ہو لیکن تمہارا اپنے کمرے میں نماز پڑھنا حجرے میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے اور تمہارا اپنے حجرے میں نماز پڑھنا گھر میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے اور تمہارا اپنے گھر میں نماز پڑھنا اپنی قوم کی مسجد میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے اور اپنی قوم کی مسجد میں نماز پڑھنا میری مسجد میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے چنانچہ ان کے حکم پر ان کے گھر کے سب سے آخری کونے میں جہاں سب سے زیادہ اندھیرا ہوتا تھا نماز پڑھنے کے لئے جگہ بنادی گئی اور وہ آخری دم تک وہیں نماز پڑھتی رہیں۔‘‘
1۔ولقد نهی عمر النساء عن الخروج إلی المساجد فشكون إلی عائشة رضي الله عنها فقالت : لو علم النبي صلی الله عليه وسلم ما علم عمر رضي الله عنه ما أذن لكن في الخروج ، فاحتج به علماؤنا ومنعوا الشواب عن الخروج مطلقا(العنایۃ،کتاب الصلاۃ، باب الامامۃ)،
ولا يباح للشواب منهن الخروج إلی الجماعات ، بدليل ما روي عن عمر رضي الله عنه أنه نهی الشواب عن الخروج ؛ ولأن خروجهن إلی الجماعة سبب الفتنة ، والفتنة حرام ، وما أدی إلی الحرام فهو حرام(بدائع الصنائع،کتاب الصلاۃ،فصل بيان من يصلح للإمامة في الجملة)،
2۔ وكان ابن عمر رضي الله تعالی عنهما يقوم يحصب النساء يوم الجمعة(عمدۃ القاری،کتاب الاذان،باب خروج النساء إلی المساجد۔۔۔)
3۔وأجاز الحنفية للمرأة أن تعتكف في مسجد بيتها وهو المكان المعد للصلاة فيه وفيه قول الشافعي قديم وفي وجه لأصحابه وللمالكية يجوز للرجال والنساء لأن التطوع في البيوت أفضل(فتح الباری،کتاب صلاۃ التراویح،قوله أبواب الاعتكاف)،
4۔أي ما حكمه وقد أطلق الشافعي كراهته لهن في المسجد الذي تصلي فيه الجماعة واحتج بحديث الباب فإنه دال علی كراهة الاعتكاف للمرأة إلا في مسجد بيتها لأنها تتعرض لكثرة من يراها وقال بن عبد البر لولا أن بن عيينة زاد في الحديث أي حديث الباب انهن استأذن النبي صلی الله عليه و سلم في الاعتكاف لقطعت بان اعتكاف المرأة في مسجد الجماعة غير جائز انتهی وشرط الحنفية لصحة اعتكاف المرأة أن تكون في مسجد بيتها وفي رواية لهم أن لها الاعتكاف في المسجد مع زوجها وبه قال أحمد(فتح الباری،کتاب صلاۃ التراویح،قوله باب اعتکاف النساء)،
والله أعلم بالصواب
1228 :