سوال:اگر دو سال پہلے میرے پاس اتنے پیسے تھے کہ اُس سال کے نصاب کے مطابق حج کی فرضیت مجھ پر ہوتی تھی اور میرے پاس محرم بھی موجود تھا،میں نے اور میرے بھائی نے حج کےلیےApply کیا مگر ہمارا نام نہیں آیا، اس کے بعد دو سال تک میرا بھائی فارغ نہیں تھا ، میرے ساتھ حج پر جانے کے لیے کوئی محرم دستیاب نہیں تھا، اور اس سال جب میرا بھائی فارغ ہے اور ہمیں حج پر جانا تھا تو اس سال حج کے پیسے اتنے بڑھ چکے ہیں کہ میرے بس کی بات نہیں کہ میں دے سکوں ، اور ابھی میرے پاس جتنے پیسے ہیں اس حساب سے میں صاحب نصاب نہیں ہوں ، لیکن مجھ پر پہلے حج کی فرضیت عائد ہوچکی ہے تو اب اس صورت میں کیا مجھے کسی سے ادھار لے کرجانا ہو گا اور یہ حج کی فرضیت لاگو رہے گی یا مجھے کسی طرح پیسوں کا انتظام کرنا ہوگا یا جیسے ہی پیسوں کا انتظام ہو تو حج کرنا ہوگا، اس سلسلے میں کیا کرنا ہوگا؟ برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں۔
الجواب باسم ملهم الصواب
آپ پر حج اس وقت واجب ہو چکا تھا جب آپ کے پاس اپنے حج کے ساتھ ساتھ اپنے محرم کے حج کا خرچ بھی موجود تھا،(1) لیکن قرعہ اندازی میں نام نہ آنے کی وجہ سے آپ پر حج کی ادائیگی واجب نہیں ہوئی تھی۔ چنانچہ آپ پر لازم ہے کہ اپنے اور اپنے ساتھ ایک محرم کے حج کی کوشش کریں ، لیکن اس انتظام میں جتنی تاخیر ہو اس کی وجہ سے آپ پر کوئی گناہ نہیں ہوگا۔ اگر خود فریضۂ حج کی ادائیگی پر قادر نہ ہوں تو اپنی وفات سے قبل اپنی طرف سے حج بدل کی وصیت کر جائیں۔ آپ کی طرف سے یہی کافی ہے۔(2)
(1). (مع) وجوب النفقة لمحرمها (عليها) لأنه محبوس (عليها) لامرأة حرة. (الدر المختار وحاشية ابن عابدين، 2/ 464)
(2). المحبوس والخائف من السلطان کالمریض لا یجب علیهما أداء الحج بأنفسهما ولکن یجب علیهما الاحجاج أو الایصاء به عند الموت عندهما۔ (غنیة الناسک 24)
والله أعلم بالصواب
فتویٰ نمبر3456 :